خصوصی افراد کو کیسے پُراعتماد اور مفید شہری بنایا جائے
خصوصی افراد کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے حکومتی اور عوامی سطح پر شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے
صحت اللہ کی بڑی نعمتوں میں ایک ہے۔اس نعمت کا شعور، ادراک اور احساس ہمیں اُس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔
یقیناً ہم چاہتے ہیں کہ ہم پہلے کی طرح صحت مند ہوجائیں بلکہ ہماری تمنا ہوتی ہے کہ کبھی ہم پر وہ بیماری دوبارہ نہ آئے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ انسان کے پاس مال و دولت میسر نہ ہو تو اللہ نے اس کے جسم میں جو توانائیاں اور صلاحیتیں رکھی ہیں ان کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کے کئی ایک محاذوں پہ وہ نبرد آزما ہوتا ہے لیکن تندرستی ہاتھ سے جائے تو یہ وقتی یا مستقل محتاجی سے مشروط ہوتی ہے۔
صحت مند زندگی کا درس ہمیں پیارے نبی محمدﷺ کی اس حدیث میں ملتا ہے جس میں فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ ان میں ایک صحت بھی ہے جسے بیماری سے پہلے غنیمت جاننے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اسی طرح کئی ایک مسنون دعاؤں میں بیماری اور محتاجی سے پناہ کی دعا مانگی گئی کیونکہ انفرادی زندگی میں بھی محتاجی ایک آزمائش ہے اور معاشرتی حوالے سے بھی معذور اور محتاج افراد ایک اہم ذمہ داری ہوتے ہیں۔ آج کی دنیا میں جہاں مادیت پرستی کو حد درجہ فروغ ملا ہے، اُس کا مظہر ہے کہ ایسے افراد جو جسمانی اور مالی طور پہ معذور ہیں، معاشرے پہ بوجھ سمجھے جانے لگے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں کئی ایک لوگ ہیں جو کسی بیماری یا پیدائشی طور پہ محتاجی کا شکار ہیں۔ نیز اس حوالے سے آگہی کا فقدان، صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی ہمارے معاشرے کے معذور اور محتاج طبقے کی مشکلات کو دوچند کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محتاج اور معذور افراد نہ صرف ذاتی حیثیت میں اپنی زندگیوں کو بے مصرف سمجھتے ہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا بھی اس طبقے کے بارے یہ تاثر عام ہورہا ہے کہ ایسے افراد کسی کام کے نہیں اور معاشرے کے لئے بوجھ ہیں۔
سن 2011 ء میں ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ذہنی اور جسمانی طور پر معذور افراد کی شرح 12 فیصد ہے۔ معذور اور محتاج افراد کی فلاح و بہبود کے لئے اور عوام الناس میں آگہی کو فروغ دینے کے لئے تقریبا ً دو سو این جی اوز خدمات سرانجام دے رہی ہیں، اور 531 اسکولز ایسے خصوصی افراد کو تعلیم و تربیت دے رہے ہیں، یقیناً یہ تعداد بہت کم ہے۔
جہاں حکومتی سطح پہ ان اقدامات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو ان افراد کی فلاح و بہبود میں مؤثر ثابت ہوں وہاں عوام میں بھی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسے افراد کی زندگی کو بہتر بنانے میں ہم خود کتنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے کچھ عملی اقدامات جو بحیثیت ذمہ دار فرد ہم انجام دے سکتے ہیں، جس سے یہ افراد معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں، ان پہ بات کرنے سے پہلے ایک اہم نکتہ عوام الناس کی آگہی کے لئے واضح کرتی چلوں کہ بیماری اور معذوری یقیناً اللہ کی طرف سے تقدیر کا حصہ ہے لیکن ضروری ہے کہ موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے طب کے شعبے میں جو خدمات ہماری آسانی کے لئے انجام دی ہیں، کے ذریعے بھی تدابیر کی جائیں تاکہ معذوری کے محرکات کو کم سے کم کیا جا سکے جیسے خاندانوں میں کثرت سے ہونے والی انٹر میریجز، جن کی وجہ سے پیدائشی معذوری کے کیسز بڑھتے جارہے ہیں۔
اس حوالے سے عوام کی رہنمائی ، شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی دونوں کا طبی معائنہ لازمی کروانا تاکہ موروثی بیماریوں سے حتی الامکان بچا سکے۔ خواتین دورانِ حمل ویکسینیشن اور ضروری ٹیسٹ ضرور کروائیں، اسی طرح بچوں میں ویکسینیشن۔یہ وہ تمام اقدامات ہیں جنہیں فروغ دینے کی مزید ضرورت ہے۔
عملی اقدامات میں ایسے افراد اور ان سے وابستہ گھرانوں میں یہ آگہی اور شعور اجاگر کیا جانا چاہیے کہ زندگی کو بامقصد بنانا ضروری ہے۔کسی بھی معذوری کے ساتھ اللہ تعالیٰ یقیناً دوسری بے پناہ صلاحیتوں سے نوازتے ہیں، ان کی طرف توجہ اور محنت سے زندگی کو یقیناً با مقصد بنایا جا سکتا ہے جس سے دنیا بھی سنور سکتی ہے اور اللہ کی مطلوبہ زندگی بھی۔ ایسے بچے جو اس محرومی کا شکار ہیں، انہیں والدین شروع سے ہی ہوم اسکولنگ کے طریقوں کے ذریعے ذہنی استعداد بڑھا سکتے ہیں۔ نیز مطالعے کا شوق اسی عمر سے پروان چڑھایا جائے تو آئندہ عمر میں بہت مثبت اثرات مرتب کرے گا۔
کسی خاص صلاحیت پہ فوکس کر کے محنت کی جائے تو یقیناً کامیابی حاصل ہو گی،مثلاً کوئی بچہ نابینا ہے لیکن آواز خوبصورت ہے تو اسے بہترین نعت خواں بنانے کی تعلیم دیں۔کوئی بچہ گونگا بہرا ہے لیکن خوشخطی بہت اچھی ہے تو اس کی خوشخطی یا مصوری کو سراہا جائے اور حوصلہ افزائی کی جائے۔ ایسے تمام افراد جو کسی نا کسی طرح کی جسمانی معذوری یا پھر جو ڈاون سنڈروم کا شکار ہیں انہیں کسی نا کسی درجے کا ہنر سکھایا جائے تاکہ آئندہ زندگی میں کسی حد تک خود کفیل ہو سکیں۔
گھرانے، محلے، خاندان، برادریاں، این جی اوز اور سب سے بڑھ کر حکومتی سطح پر ایسے پروگرام اور مقابلوں کا انعقاد کیا جائے تاکہ ایسے تمام افراد کی صلاحیتوں کو تقویت ملے اور پورے معاشرہ کا ایک صحت افزاء تاثر یہ بنے کہ یہ بھی عوام الناس کی طرح ''خاص''ہیں اور آخری بات یہ کہ گھر والے، آس پاس رہنے والے اور پورا معاشرہ ایسے افراد کے لئے جسمانی اور ذہنی فلاح و بہبود کا ہر طرح سے خیال رکھیں۔ ان کی خدمت صدقہ جاریہ کا درجہ رکھتی ہے، اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی سوچ پروان چڑھائی جانے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کی کسی طبقے پر بھی محرومی کا سایہ نہ ہواور ایسا مجموعی ماحول پروان چڑھے جس میں ہر شخص ایسے افراد کے لئے درد دل رکھنے والا ہو، جسے ہمارے دین میں بنیان مرصوص سے تشبیہ دی گئی ہے۔
( ڈاکٹر سارہ شاہ معروف فیملی فزیشن ہیں۔گزشتہ پانچ برس سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ ٹیلی ہیلتھ اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں)
یقیناً ہم چاہتے ہیں کہ ہم پہلے کی طرح صحت مند ہوجائیں بلکہ ہماری تمنا ہوتی ہے کہ کبھی ہم پر وہ بیماری دوبارہ نہ آئے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ انسان کے پاس مال و دولت میسر نہ ہو تو اللہ نے اس کے جسم میں جو توانائیاں اور صلاحیتیں رکھی ہیں ان کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کے کئی ایک محاذوں پہ وہ نبرد آزما ہوتا ہے لیکن تندرستی ہاتھ سے جائے تو یہ وقتی یا مستقل محتاجی سے مشروط ہوتی ہے۔
صحت مند زندگی کا درس ہمیں پیارے نبی محمدﷺ کی اس حدیث میں ملتا ہے جس میں فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ ان میں ایک صحت بھی ہے جسے بیماری سے پہلے غنیمت جاننے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اسی طرح کئی ایک مسنون دعاؤں میں بیماری اور محتاجی سے پناہ کی دعا مانگی گئی کیونکہ انفرادی زندگی میں بھی محتاجی ایک آزمائش ہے اور معاشرتی حوالے سے بھی معذور اور محتاج افراد ایک اہم ذمہ داری ہوتے ہیں۔ آج کی دنیا میں جہاں مادیت پرستی کو حد درجہ فروغ ملا ہے، اُس کا مظہر ہے کہ ایسے افراد جو جسمانی اور مالی طور پہ معذور ہیں، معاشرے پہ بوجھ سمجھے جانے لگے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں کئی ایک لوگ ہیں جو کسی بیماری یا پیدائشی طور پہ محتاجی کا شکار ہیں۔ نیز اس حوالے سے آگہی کا فقدان، صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی ہمارے معاشرے کے معذور اور محتاج طبقے کی مشکلات کو دوچند کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محتاج اور معذور افراد نہ صرف ذاتی حیثیت میں اپنی زندگیوں کو بے مصرف سمجھتے ہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا بھی اس طبقے کے بارے یہ تاثر عام ہورہا ہے کہ ایسے افراد کسی کام کے نہیں اور معاشرے کے لئے بوجھ ہیں۔
سن 2011 ء میں ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ذہنی اور جسمانی طور پر معذور افراد کی شرح 12 فیصد ہے۔ معذور اور محتاج افراد کی فلاح و بہبود کے لئے اور عوام الناس میں آگہی کو فروغ دینے کے لئے تقریبا ً دو سو این جی اوز خدمات سرانجام دے رہی ہیں، اور 531 اسکولز ایسے خصوصی افراد کو تعلیم و تربیت دے رہے ہیں، یقیناً یہ تعداد بہت کم ہے۔
جہاں حکومتی سطح پہ ان اقدامات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو ان افراد کی فلاح و بہبود میں مؤثر ثابت ہوں وہاں عوام میں بھی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسے افراد کی زندگی کو بہتر بنانے میں ہم خود کتنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے کچھ عملی اقدامات جو بحیثیت ذمہ دار فرد ہم انجام دے سکتے ہیں، جس سے یہ افراد معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں، ان پہ بات کرنے سے پہلے ایک اہم نکتہ عوام الناس کی آگہی کے لئے واضح کرتی چلوں کہ بیماری اور معذوری یقیناً اللہ کی طرف سے تقدیر کا حصہ ہے لیکن ضروری ہے کہ موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے طب کے شعبے میں جو خدمات ہماری آسانی کے لئے انجام دی ہیں، کے ذریعے بھی تدابیر کی جائیں تاکہ معذوری کے محرکات کو کم سے کم کیا جا سکے جیسے خاندانوں میں کثرت سے ہونے والی انٹر میریجز، جن کی وجہ سے پیدائشی معذوری کے کیسز بڑھتے جارہے ہیں۔
اس حوالے سے عوام کی رہنمائی ، شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی دونوں کا طبی معائنہ لازمی کروانا تاکہ موروثی بیماریوں سے حتی الامکان بچا سکے۔ خواتین دورانِ حمل ویکسینیشن اور ضروری ٹیسٹ ضرور کروائیں، اسی طرح بچوں میں ویکسینیشن۔یہ وہ تمام اقدامات ہیں جنہیں فروغ دینے کی مزید ضرورت ہے۔
عملی اقدامات میں ایسے افراد اور ان سے وابستہ گھرانوں میں یہ آگہی اور شعور اجاگر کیا جانا چاہیے کہ زندگی کو بامقصد بنانا ضروری ہے۔کسی بھی معذوری کے ساتھ اللہ تعالیٰ یقیناً دوسری بے پناہ صلاحیتوں سے نوازتے ہیں، ان کی طرف توجہ اور محنت سے زندگی کو یقیناً با مقصد بنایا جا سکتا ہے جس سے دنیا بھی سنور سکتی ہے اور اللہ کی مطلوبہ زندگی بھی۔ ایسے بچے جو اس محرومی کا شکار ہیں، انہیں والدین شروع سے ہی ہوم اسکولنگ کے طریقوں کے ذریعے ذہنی استعداد بڑھا سکتے ہیں۔ نیز مطالعے کا شوق اسی عمر سے پروان چڑھایا جائے تو آئندہ عمر میں بہت مثبت اثرات مرتب کرے گا۔
کسی خاص صلاحیت پہ فوکس کر کے محنت کی جائے تو یقیناً کامیابی حاصل ہو گی،مثلاً کوئی بچہ نابینا ہے لیکن آواز خوبصورت ہے تو اسے بہترین نعت خواں بنانے کی تعلیم دیں۔کوئی بچہ گونگا بہرا ہے لیکن خوشخطی بہت اچھی ہے تو اس کی خوشخطی یا مصوری کو سراہا جائے اور حوصلہ افزائی کی جائے۔ ایسے تمام افراد جو کسی نا کسی طرح کی جسمانی معذوری یا پھر جو ڈاون سنڈروم کا شکار ہیں انہیں کسی نا کسی درجے کا ہنر سکھایا جائے تاکہ آئندہ زندگی میں کسی حد تک خود کفیل ہو سکیں۔
گھرانے، محلے، خاندان، برادریاں، این جی اوز اور سب سے بڑھ کر حکومتی سطح پر ایسے پروگرام اور مقابلوں کا انعقاد کیا جائے تاکہ ایسے تمام افراد کی صلاحیتوں کو تقویت ملے اور پورے معاشرہ کا ایک صحت افزاء تاثر یہ بنے کہ یہ بھی عوام الناس کی طرح ''خاص''ہیں اور آخری بات یہ کہ گھر والے، آس پاس رہنے والے اور پورا معاشرہ ایسے افراد کے لئے جسمانی اور ذہنی فلاح و بہبود کا ہر طرح سے خیال رکھیں۔ ان کی خدمت صدقہ جاریہ کا درجہ رکھتی ہے، اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی سوچ پروان چڑھائی جانے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کی کسی طبقے پر بھی محرومی کا سایہ نہ ہواور ایسا مجموعی ماحول پروان چڑھے جس میں ہر شخص ایسے افراد کے لئے درد دل رکھنے والا ہو، جسے ہمارے دین میں بنیان مرصوص سے تشبیہ دی گئی ہے۔
( ڈاکٹر سارہ شاہ معروف فیملی فزیشن ہیں۔گزشتہ پانچ برس سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ ٹیلی ہیلتھ اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں)