پاکستان میں سالانہ 3 ارب ڈالر کی روزمرہ استعمال کی اشیا اسمگل ہونے کا انکشاف
اسگل شدہ اشیا میں 20 فیصد سگریٹ شامل ہے جس کے باعث ملکی خزانے کو 70 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، رپورٹ
وزارت تجارت کے سینیئر نمائندگان اور ہارورڈ کے ماہر معاشیات نےاسمگل شدہ اشیاء کوپاکستانی معیشت اور کاروبار کے لئے ایک سنگین خطرہ قراردیا ہے۔
اس حوالے سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق وزارت تجارت کے سینئر نمائندوں اور ہارورڈ کے ماہر معاشیات کی جانب سے حال ہی میں تیار کردہ تاز ہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک میں سالانہ 3 اعشاریہ 3 ارب ڈالر کی روزمرہ استعمال ہونی والی اشیاء اسمگل کی جارہی ہیں۔ان اشیاء کے اسمگل ہونے کی بنیادی وجہ سرحدوں پر غیر مناسب جانچ پڑتال کا نظام ہے جس کے باعث پڑوسی ممالک افغانستان اور ایران سے ان اشیاء کو با آسانی اسمگل کیا جاتا ہے۔
ان میں سے صرف 5 فیصد اشیاء قانون نافذکرنے والے ادارے اور ریگولیٹری اداروں کی جانب سے ضبط کی گئی ہے۔ ان اسمگل شدہ اشیاء میں ٹیکسٹائل، موبائل فونز اورباتھ روم کا سامان، ٹائرز اور دیگر شامل ہیں۔
اسمگل شدہ سگریٹ کا مارکیٹ شئیر 20 فیصد
رپورٹ کے مطابق ان تمام اشیاء میں اسمگل شدہ سگریٹ کا مارکیٹ شئیر 20 فیصد ہے۔ دیگر اسمگل شدہ اشیاء کے مقابلے میں ملک میں غیر قانونی ذرائع سے داخل ہونے والی تمباکو مصنوعات کی باآسانی نشاندہی کا جاسکتی ہیں کیوں کہ ان مصنوعات پر وزارت صحت، سروسز، ریگولیشنز اور کورڈینیشن کے مقرر کردہ گرافکس اور ٹیکسٹ وارننگ پیکنگ پرشائع نہیں ہوتی ہے۔
اعلامیہ کے مطابق سگریٹ (پرنٹنگ انتباہ) 1979 کے قانون کے مطابق، قانونی حیثیت رکھنے والے سگریٹ پیکٹس کے 60 فیصد (فرنٹ اور بیک)حصے پر صحت انتباہ کے حوالے سے گرافکس اور ٹیکسٹ کا شائع ہونا لازمی ہے۔ ان پرنٹ شدہ صحت انتباہ کو واضح طور دیکھا جاسکتا ہے۔
مزید برآں، امپورٹ پالیسی آرڈر 2020 کے مطابق ایسے تمام سگریٹ کے ڈبے جن پر وزارت صحت کے مقرر کردہ انتباہ شائع نہیں کئے جاتے ان کی خرید و فروخت اور بندرگاہوں سے داخلے پر پابندی ہیں۔
وزارت صحت کے 10 کلو میٹر کے اطراف میں اسمگل شدہ سگریٹ کی فروخت
اعلامیہ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ان تمام صورتحال کے باوجود، اسلام آباد میں وزارت صحت کے دفتر کے 10 کلو میٹر کے اطراف میں سپر اسٹورز، پان کھوکے اور دکانوں پر اسمگل شدہ سگریٹ کھلے عام فروخت کی جارہی ہیں جوکہ وزارت صحت کے جاری کردہ قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ نہ صرف اسلام آباد کے علاوہ ملک بھر میں اسمگل شدہ سگریٹ کی فروخت کے حوالے سے صورتحال مختلف نہیں ہے۔
وزارت صحت موجودہ قوانین کے موثر نفاذ کو یقینی بنانے کے بجائے صحت انتباہ کی تشہیر کے حوالے سے زیادہ فکر مند دکھائی دیتی ہے جبکہ دوسری جانب غیر قانونی اسمگل شدہ سگریٹ ڈبے پر60 فیصد گرافکس ہیلتھ وارننگ (صحت انتباہ) شائع نہ ہونے کے باوجود کھلے عام فروخت ہورہی ہیں۔
اعلامیے کے مطابق دنیا کی معروف ریسرچ اور مشاورتی کمپنی پرائس واٹر ہاؤس کوپر (پی ڈبلیو سی) کے مطابق، پاکستان میں قانونی حیثیت رکھنے والی تمباکو کی صنعت قومی خزانے میں جمع ہونے والے تمام ٹیکس میں سے تقریبا ایک تہائی حصہ ادا کرتی ہے۔
قومی خزانے کو 70 ارب روپے کا نقصان
پاکستان کی 40 فیصد تمباکو کی صنعت پر غیر قانونی سگریٹ کا غلبہ ہے جن میں سے اسمگل شدہ سگریٹ کا حصہ سب سے بڑا ہے اور جس کے نتیجے میں حکام کو ٹیکس وصولی میں 70 ارب روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو سنجیدگی سے حرکت میں آنا لازمی ہے جوکہ ملک میں قانونی حیثیت رکھنے والے کاروباروں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
اعلامیے کے مطابق رپورٹ می مزید کہا گیا ہے کہ قانون سازوں اور متعلقہ محکموں کو نئے قوانین بنانے پر توجہ دینے کے بجائے موجودہ قوانین کے موثر نفاذ کو یقینی بنانا ہوگا۔ نئے قوانین موجودہ قانون کی کتابوں میں مزید کاغذ شامل کرنے کے علاوہ کسی مقصد کو پورا نہیں کریں گے۔
اس حوالے سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق وزارت تجارت کے سینئر نمائندوں اور ہارورڈ کے ماہر معاشیات کی جانب سے حال ہی میں تیار کردہ تاز ہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک میں سالانہ 3 اعشاریہ 3 ارب ڈالر کی روزمرہ استعمال ہونی والی اشیاء اسمگل کی جارہی ہیں۔ان اشیاء کے اسمگل ہونے کی بنیادی وجہ سرحدوں پر غیر مناسب جانچ پڑتال کا نظام ہے جس کے باعث پڑوسی ممالک افغانستان اور ایران سے ان اشیاء کو با آسانی اسمگل کیا جاتا ہے۔
ان میں سے صرف 5 فیصد اشیاء قانون نافذکرنے والے ادارے اور ریگولیٹری اداروں کی جانب سے ضبط کی گئی ہے۔ ان اسمگل شدہ اشیاء میں ٹیکسٹائل، موبائل فونز اورباتھ روم کا سامان، ٹائرز اور دیگر شامل ہیں۔
اسمگل شدہ سگریٹ کا مارکیٹ شئیر 20 فیصد
رپورٹ کے مطابق ان تمام اشیاء میں اسمگل شدہ سگریٹ کا مارکیٹ شئیر 20 فیصد ہے۔ دیگر اسمگل شدہ اشیاء کے مقابلے میں ملک میں غیر قانونی ذرائع سے داخل ہونے والی تمباکو مصنوعات کی باآسانی نشاندہی کا جاسکتی ہیں کیوں کہ ان مصنوعات پر وزارت صحت، سروسز، ریگولیشنز اور کورڈینیشن کے مقرر کردہ گرافکس اور ٹیکسٹ وارننگ پیکنگ پرشائع نہیں ہوتی ہے۔
اعلامیہ کے مطابق سگریٹ (پرنٹنگ انتباہ) 1979 کے قانون کے مطابق، قانونی حیثیت رکھنے والے سگریٹ پیکٹس کے 60 فیصد (فرنٹ اور بیک)حصے پر صحت انتباہ کے حوالے سے گرافکس اور ٹیکسٹ کا شائع ہونا لازمی ہے۔ ان پرنٹ شدہ صحت انتباہ کو واضح طور دیکھا جاسکتا ہے۔
مزید برآں، امپورٹ پالیسی آرڈر 2020 کے مطابق ایسے تمام سگریٹ کے ڈبے جن پر وزارت صحت کے مقرر کردہ انتباہ شائع نہیں کئے جاتے ان کی خرید و فروخت اور بندرگاہوں سے داخلے پر پابندی ہیں۔
وزارت صحت کے 10 کلو میٹر کے اطراف میں اسمگل شدہ سگریٹ کی فروخت
اعلامیہ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ان تمام صورتحال کے باوجود، اسلام آباد میں وزارت صحت کے دفتر کے 10 کلو میٹر کے اطراف میں سپر اسٹورز، پان کھوکے اور دکانوں پر اسمگل شدہ سگریٹ کھلے عام فروخت کی جارہی ہیں جوکہ وزارت صحت کے جاری کردہ قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ نہ صرف اسلام آباد کے علاوہ ملک بھر میں اسمگل شدہ سگریٹ کی فروخت کے حوالے سے صورتحال مختلف نہیں ہے۔
وزارت صحت موجودہ قوانین کے موثر نفاذ کو یقینی بنانے کے بجائے صحت انتباہ کی تشہیر کے حوالے سے زیادہ فکر مند دکھائی دیتی ہے جبکہ دوسری جانب غیر قانونی اسمگل شدہ سگریٹ ڈبے پر60 فیصد گرافکس ہیلتھ وارننگ (صحت انتباہ) شائع نہ ہونے کے باوجود کھلے عام فروخت ہورہی ہیں۔
اعلامیے کے مطابق دنیا کی معروف ریسرچ اور مشاورتی کمپنی پرائس واٹر ہاؤس کوپر (پی ڈبلیو سی) کے مطابق، پاکستان میں قانونی حیثیت رکھنے والی تمباکو کی صنعت قومی خزانے میں جمع ہونے والے تمام ٹیکس میں سے تقریبا ایک تہائی حصہ ادا کرتی ہے۔
قومی خزانے کو 70 ارب روپے کا نقصان
پاکستان کی 40 فیصد تمباکو کی صنعت پر غیر قانونی سگریٹ کا غلبہ ہے جن میں سے اسمگل شدہ سگریٹ کا حصہ سب سے بڑا ہے اور جس کے نتیجے میں حکام کو ٹیکس وصولی میں 70 ارب روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو سنجیدگی سے حرکت میں آنا لازمی ہے جوکہ ملک میں قانونی حیثیت رکھنے والے کاروباروں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
اعلامیے کے مطابق رپورٹ می مزید کہا گیا ہے کہ قانون سازوں اور متعلقہ محکموں کو نئے قوانین بنانے پر توجہ دینے کے بجائے موجودہ قوانین کے موثر نفاذ کو یقینی بنانا ہوگا۔ نئے قوانین موجودہ قانون کی کتابوں میں مزید کاغذ شامل کرنے کے علاوہ کسی مقصد کو پورا نہیں کریں گے۔