سب سے بڑا مسئلہ
کراچی کے شہری اس قتلِ عام سے اس قدر خوف زدہ ہورہے ہیں کہ خود کو گھر کے اندر محفوظ سمجھتے ہیں نہ گھر کے باہر
انٹر پری میڈیکل کے سالانہ امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی ایک طالبہ نے میڈیا کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں جب ''دہشت گردی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے'' کہا تو میں حیرت سے بار بار اس کمسن طالبہ کے بیان کو پڑھنے لگا۔
جو طلبا کسی امتحان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرتے ہیں، میڈیا ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے انٹرویو کرتا ہے، لیکن عموماً یہ طلبا اپنے مستقبل کے حوالے سے یا تعلیمی نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ کسی طالبہ نے ملک کے سب سے بڑے مسئلے کے طور پر دہشت گردی کی نشان دہی کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طالبہ کے ذہن میں یہ بات کیوں آئی؟ ویسے تو پورا پاکستان ہی اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے لیکن کراچی جیسے بیدار شہر میں ہر روز ٹارگٹ کلنگ کے جو مناظر دیکھے جارہے ہیں۔
کراچی کے شہری اس قتلِ عام سے اس قدر خوف زدہ ہورہے ہیں کہ خود کو گھر کے اندر محفوظ سمجھتے ہیں نہ گھر کے باہر۔ چونکہ طلبا کی بھی یہ مجبوری ہے کہ انھیں ہر روز اپنے تعلیمی اداروں میں جانا آنا پڑتا ہے، لہٰذا دہشت گردی کا خوف ان کے ذہنوں پر مسلط ہونا ایک فطری بات ہے۔ انٹر میں پہلی پوزیشن لانے والی طالبہ کے بیان سے یہی خوف باہر آتا نظر آرہا ہے۔ اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی ہمارے معاشرے میں کس طرح سرائیت کرگئی ہے۔
آج جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا تو اخبارات میں دو ہولناک خبریں میری توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ ایک خبر کے مطابق پشاور کے متنی بازار میں ہونے والے دھماکے میں 12 بے گناہ افراد جاں بحق اور 18 زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری خبر کے مطابق دہشت گردوں نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں 12 دھڑ سے کٹے سر دِکھائے گئے ہیں۔ خبر کے مطابق یہ سر ان 15 فوجیوں میں سے بارہ کے ہیں جنھیں دہشت گردوں نے اغوا کرلیا تھا، اسی اخبار میں کوئٹہ میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے سیشن جج ذوالفقار نقوی کی کراچی میں تدفین کی خبر بھی موجود ہے۔
کراچی میں ہر روز ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والے درجنوں بے گناہوں کی خبریں اور ان کے لواحقین کی گریہ و زاری روز کا معمول ہے۔ کراچی کی ایک کم عمر طالبہ جب ''دہشت گردی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ'' کہہ رہی ہے تو اس کی سنگینی کا اندازہ ہونا چاہیے۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً ساری ہی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو یہ شکایت ہے کہ اس کے کارکن ہر روز دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک کراچی کی ٹارگٹ کلنگ کو لسانی اور فقہی جماعتوں کی آپس کی دشمنی کہا جاتا تھا لیکن اب یہ تخصیص ختم ہوگئی ہے اور اب یہ سب کا مسئلہ بن گئی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں اور صوبائی حکومت کو بھی یہ احساس شدّت سے ہورہا ہے کہ دہشت گردی ایک ایسا سنگین مسئلہ بن گئی ہے جس کا نوٹس لیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم سوال جس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے، یہ ہے کہ کیا یہ انتہائی منظم اور انتہائی منصوبہ بند دہشت گردی محض تفریحاً ہورہی ہے، چند سرپھرے گروہوں کا کارنامہ ہے یا پھر یہ دہشت گردی کسی خاص مقصد کے حصول کا حصّہ ہے؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنا اس لیے مشکل نہیں کہ دہشت گردی کی ہر گھنائونی واردات کے بعد دہشت گردوں کی طرف سے میڈیا کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ''یہ کارنامہ ہم نے انجام دیا ہے۔'' اور ساتھ ہی ساتھ اس مقصد کی بھی وضاحت کردی جاتی ہے جس کے حصول کے لیے بے گناہ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ دہشت گرد طاقتیں اپنے اس تاریخی جہاد کے جو مقاصد بتارہے ہیں، ہمارے ملک کی تمام مذہبی جماعتیں بھی اسی مقصد کے حصول کے لیے 65 برسوں سے جدوجہد کررہی ہیں لیکن ان کی جدوجہد جمہوری حدود میں جاری ہے، جس کا انھیں حق بھی ہے اور معاشرہ اس حق کو تسلیم بھی کرتا ہے۔
لیکن اس مقدس حق کے حصول کا جو راستہ مذہبی اندھوں نے ڈھونڈ نکالا ہے، کیا جمہوریت کے ذریعے اپنے اِس حق کے حصول کے لیے 65 سال سے جدوجہد کرنے والی مذہبی جماعتیں اس غیر جمہوری اور غیر انسانی حق سے اتفاق کرتی ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اس ملک کے سب سے بڑے مسئلے کو حل کرنے کے لیے جس کی نشان دہی آج ایک 14-15 سالہ طالبہ کررہی ہے، کیا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے اور اس حوالے سے کیسا وسیع تر اتحاد بننا چاہیے؟
اس سے قبل کہ ہم بات کو آگے بڑھائیں ان بدنما حقائق کی نشان دہی ضروری سمجھتے ہیں جو دہشت گردی کے حوالے سے ساری دنیا کی تشویش کا باعث بن گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جدید دہشت گردی کی ابتدا عراق اور افغانستان سے ہوئی اور چونکہ ایک بڑی عالمی طاقت کے خلاف کمزور طاقتوں کی جنگِ آزادی تھی، سو اس خطے کے باسیوں نے بارودی گاڑیوں اور خودکش حملوں کی اس جنگ کو جنگِ آزادی کی مجبوری سمجھ کر خاموشی اختیار کرلی۔
لیکن جب یہ جنگِ آزادی ساری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی جنگ میں بدل گئی اور جارح طاقتوں کے بجائے مظلوم عوام اس کا نشانہ بننے لگے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جانے لگا کہ افغانستان اور پاکستان اس پرواز کے لانچنگ پیڈ ہوں گے تو پھر جنگِ آزادی کی حمایت کرنے والوں نے جھرجھری لی۔ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ ساری دنیا اس اچھوتی جنگ کے خلاف متحد ہوگئی بلکہ اس اتحاد نے جارح ملکوں (نیٹو) کی جارحیت کو بھی ڈھانپ لیا۔
ڈرون حملے بلاشبہ ہماری آزادی، خودمختاری میں کھلی مداخلت ہیں لیکن جب ان ڈرون حملوں میں دہشت گردوں کے کمانڈروں کے مارے جانے کی خبریں آتی ہیں تو نہ صرف ہمارے تمام شکوے ہوا میں اڑ جاتے ہیں بلکہ ساری دنیا ڈرون حملوں کے پیچھے کھڑی نظر آتی ہے۔ یہ وہ افسوس ناک اور تشویش ناک منظرنامہ ہے جو ہماری اجتماعی دانش کا امتحان بن گیا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات خوش آیند ہے کہ بعض مذہبی جماعتیں اس دہشت گردی کے کلچر کے خلاف سڑکوں پر آرہی ہیں۔
لیکن اس کلچر کو محض مظاہروں اور تشویشی بیانات سے نہیں روکا جاسکتا۔ جو طاقتیں اپنے 17 بھائیوں کو گانا سننے کے جرم میں ذبح کرتی ہے، فقہی اختلافات کی وجہ سے سیکڑوں مسلمانوں کو بسوں سے اتار کر لائنوں میں کھڑا کرکے بھون دیتی ہے، جو بارودی گاڑیوں اور خودکش حملوں کے ذریعے ہزاروں مسلمانوں کے جسموں کو چیتھڑوں میں بدل دیتی ہے، جو بچّوں کے اسکولوں، مسجدوں، مقبروں کو بموں سے اڑا دیتی ہے، اسے روکنے کے لیے تمام جمہوری، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا ایک وسیع تر اتحاد ناگزیر ہے۔ اور جو طاقتیں اس سمت میں عملی کوششیں کررہی ہیں، ان کی حمایت اور ایک وسیع تر اتحاد میں شمولیت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
جو طلبا کسی امتحان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرتے ہیں، میڈیا ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے انٹرویو کرتا ہے، لیکن عموماً یہ طلبا اپنے مستقبل کے حوالے سے یا تعلیمی نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ کسی طالبہ نے ملک کے سب سے بڑے مسئلے کے طور پر دہشت گردی کی نشان دہی کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طالبہ کے ذہن میں یہ بات کیوں آئی؟ ویسے تو پورا پاکستان ہی اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے لیکن کراچی جیسے بیدار شہر میں ہر روز ٹارگٹ کلنگ کے جو مناظر دیکھے جارہے ہیں۔
کراچی کے شہری اس قتلِ عام سے اس قدر خوف زدہ ہورہے ہیں کہ خود کو گھر کے اندر محفوظ سمجھتے ہیں نہ گھر کے باہر۔ چونکہ طلبا کی بھی یہ مجبوری ہے کہ انھیں ہر روز اپنے تعلیمی اداروں میں جانا آنا پڑتا ہے، لہٰذا دہشت گردی کا خوف ان کے ذہنوں پر مسلط ہونا ایک فطری بات ہے۔ انٹر میں پہلی پوزیشن لانے والی طالبہ کے بیان سے یہی خوف باہر آتا نظر آرہا ہے۔ اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی ہمارے معاشرے میں کس طرح سرائیت کرگئی ہے۔
آج جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا تو اخبارات میں دو ہولناک خبریں میری توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ ایک خبر کے مطابق پشاور کے متنی بازار میں ہونے والے دھماکے میں 12 بے گناہ افراد جاں بحق اور 18 زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری خبر کے مطابق دہشت گردوں نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں 12 دھڑ سے کٹے سر دِکھائے گئے ہیں۔ خبر کے مطابق یہ سر ان 15 فوجیوں میں سے بارہ کے ہیں جنھیں دہشت گردوں نے اغوا کرلیا تھا، اسی اخبار میں کوئٹہ میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے سیشن جج ذوالفقار نقوی کی کراچی میں تدفین کی خبر بھی موجود ہے۔
کراچی میں ہر روز ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والے درجنوں بے گناہوں کی خبریں اور ان کے لواحقین کی گریہ و زاری روز کا معمول ہے۔ کراچی کی ایک کم عمر طالبہ جب ''دہشت گردی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ'' کہہ رہی ہے تو اس کی سنگینی کا اندازہ ہونا چاہیے۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً ساری ہی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو یہ شکایت ہے کہ اس کے کارکن ہر روز دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک کراچی کی ٹارگٹ کلنگ کو لسانی اور فقہی جماعتوں کی آپس کی دشمنی کہا جاتا تھا لیکن اب یہ تخصیص ختم ہوگئی ہے اور اب یہ سب کا مسئلہ بن گئی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں اور صوبائی حکومت کو بھی یہ احساس شدّت سے ہورہا ہے کہ دہشت گردی ایک ایسا سنگین مسئلہ بن گئی ہے جس کا نوٹس لیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم سوال جس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے، یہ ہے کہ کیا یہ انتہائی منظم اور انتہائی منصوبہ بند دہشت گردی محض تفریحاً ہورہی ہے، چند سرپھرے گروہوں کا کارنامہ ہے یا پھر یہ دہشت گردی کسی خاص مقصد کے حصول کا حصّہ ہے؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنا اس لیے مشکل نہیں کہ دہشت گردی کی ہر گھنائونی واردات کے بعد دہشت گردوں کی طرف سے میڈیا کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ''یہ کارنامہ ہم نے انجام دیا ہے۔'' اور ساتھ ہی ساتھ اس مقصد کی بھی وضاحت کردی جاتی ہے جس کے حصول کے لیے بے گناہ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ دہشت گرد طاقتیں اپنے اس تاریخی جہاد کے جو مقاصد بتارہے ہیں، ہمارے ملک کی تمام مذہبی جماعتیں بھی اسی مقصد کے حصول کے لیے 65 برسوں سے جدوجہد کررہی ہیں لیکن ان کی جدوجہد جمہوری حدود میں جاری ہے، جس کا انھیں حق بھی ہے اور معاشرہ اس حق کو تسلیم بھی کرتا ہے۔
لیکن اس مقدس حق کے حصول کا جو راستہ مذہبی اندھوں نے ڈھونڈ نکالا ہے، کیا جمہوریت کے ذریعے اپنے اِس حق کے حصول کے لیے 65 سال سے جدوجہد کرنے والی مذہبی جماعتیں اس غیر جمہوری اور غیر انسانی حق سے اتفاق کرتی ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اس ملک کے سب سے بڑے مسئلے کو حل کرنے کے لیے جس کی نشان دہی آج ایک 14-15 سالہ طالبہ کررہی ہے، کیا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے اور اس حوالے سے کیسا وسیع تر اتحاد بننا چاہیے؟
اس سے قبل کہ ہم بات کو آگے بڑھائیں ان بدنما حقائق کی نشان دہی ضروری سمجھتے ہیں جو دہشت گردی کے حوالے سے ساری دنیا کی تشویش کا باعث بن گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جدید دہشت گردی کی ابتدا عراق اور افغانستان سے ہوئی اور چونکہ ایک بڑی عالمی طاقت کے خلاف کمزور طاقتوں کی جنگِ آزادی تھی، سو اس خطے کے باسیوں نے بارودی گاڑیوں اور خودکش حملوں کی اس جنگ کو جنگِ آزادی کی مجبوری سمجھ کر خاموشی اختیار کرلی۔
لیکن جب یہ جنگِ آزادی ساری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی جنگ میں بدل گئی اور جارح طاقتوں کے بجائے مظلوم عوام اس کا نشانہ بننے لگے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جانے لگا کہ افغانستان اور پاکستان اس پرواز کے لانچنگ پیڈ ہوں گے تو پھر جنگِ آزادی کی حمایت کرنے والوں نے جھرجھری لی۔ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ ساری دنیا اس اچھوتی جنگ کے خلاف متحد ہوگئی بلکہ اس اتحاد نے جارح ملکوں (نیٹو) کی جارحیت کو بھی ڈھانپ لیا۔
ڈرون حملے بلاشبہ ہماری آزادی، خودمختاری میں کھلی مداخلت ہیں لیکن جب ان ڈرون حملوں میں دہشت گردوں کے کمانڈروں کے مارے جانے کی خبریں آتی ہیں تو نہ صرف ہمارے تمام شکوے ہوا میں اڑ جاتے ہیں بلکہ ساری دنیا ڈرون حملوں کے پیچھے کھڑی نظر آتی ہے۔ یہ وہ افسوس ناک اور تشویش ناک منظرنامہ ہے جو ہماری اجتماعی دانش کا امتحان بن گیا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات خوش آیند ہے کہ بعض مذہبی جماعتیں اس دہشت گردی کے کلچر کے خلاف سڑکوں پر آرہی ہیں۔
لیکن اس کلچر کو محض مظاہروں اور تشویشی بیانات سے نہیں روکا جاسکتا۔ جو طاقتیں اپنے 17 بھائیوں کو گانا سننے کے جرم میں ذبح کرتی ہے، فقہی اختلافات کی وجہ سے سیکڑوں مسلمانوں کو بسوں سے اتار کر لائنوں میں کھڑا کرکے بھون دیتی ہے، جو بارودی گاڑیوں اور خودکش حملوں کے ذریعے ہزاروں مسلمانوں کے جسموں کو چیتھڑوں میں بدل دیتی ہے، جو بچّوں کے اسکولوں، مسجدوں، مقبروں کو بموں سے اڑا دیتی ہے، اسے روکنے کے لیے تمام جمہوری، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا ایک وسیع تر اتحاد ناگزیر ہے۔ اور جو طاقتیں اس سمت میں عملی کوششیں کررہی ہیں، ان کی حمایت اور ایک وسیع تر اتحاد میں شمولیت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔