اُردو کے حروف تہجی اور دوچشمی ’ھ‘ کا مسئلہ

انگریزی میں بے شمار الفاظ میں شامل حرف H ہمارے حرف ’ہ‘ یا ’ح‘ کی طرح آواز نہیں دیتا۔

انگریزی میں بے شمار الفاظ میں شامل حرف H ہمارے حرف ’ہ‘ یا ’ح‘ کی طرح آواز نہیں دیتا۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی نمبر 75

اردو کے جن موضوعات میں بزرگانِ زبان وادب کے حکم قطعی صادر فرمانے کے باوجود اختلاف، کسی نہ کسی سطح پر، کسی نہ کسی سبب برقرار ہے، ان میں سرفہرست یہ ہے کہ ہماری پیاری زبان کے حروف تہجی کی تعداد کیا ہے۔

مقتدرہ قومی زبان (جدیدنام: ادارہ برائے فروغ قومی زبان) یا National Language Promotion Department اور اردو لغت بورڈ کے ماہرین نے اپنے خصوصی اجلاسوں اور مراسلت میں یہ طے کیا کہ اردو کے حروف تہجی کی تعداد چوّن[54] ہے۔

یہ سلسلہ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی تحریک کے نتیجے میں ڈاکٹر شان الحق حقی، ڈاکٹرفرمان فتح پوری، ڈاکٹرمعین الدین عقیل اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ سمیت متعدد مشاہیر کی تحریروتقریر سے ہوتا ہوا، اردولغت بورڈ کے مدیر ڈاکٹر شاہد ضمیر صاحب کی تازہ ترین کتاب بعنوان ''کتاب الہجا (اردو حروف تہجی کی ترتیب اور تفصیل )'' کی تالیف تک جاپہنچا ہے جو عن قریب زیور طبع سے آراستہ ہورہی ہے۔

(فاضل مؤلف کی عنایت سے خاکسار کو اِس کا مسودہ دیکھنے کا موقع ملا ہے)۔ اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ابتدا میں ایک طویل مدت تک یہی پڑھا اور پڑھایا جاتا رہا کہ اردو میں کُل سینتیس(37)حروف تہجی ہیں تا آنکہ ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے لسانیات کی شاخ صوتیات (Phonology)کی تحقیق کی روشنی میں قرار دیا کہ اردو حروف تہجی میں محض مفرد حروف ہی شامل نہیں، بلکہ مرکب حروف بھی برابر کے شریک ہیں جنھیں 'اَصوات' (آوازوں) کی حیثیت حاصل رہی ہے۔

یوں یہ بحث چلی تو شدہ شدہ یہ طے کرلیا گیا کہ اردو کے حروف تہجی کی تعداد کُل ملا کر چوّن ہے جن میں آخری شمولیت، تکنیکی وجہ سے، نون غُنّہ (ں) کی ہوئی۔ اب ملاحظہ فرمائیے یہ حروف: ا۔ آ۔ ب۔ بھ۔ پ۔ پھ۔ ت۔ تھ۔ ٹ۔ ٹھ۔ ث۔ ج۔ جھ۔ چ۔ چھ۔ ح۔ خ۔ د۔ دھ۔ ڈ۔ ڈھ۔ ذ۔ ر۔ رھ۔ ڑ۔ ڑھ۔ ز۔ ژ۔ س۔ ش۔ ص۔ ض۔ ط۔ ظ۔ ع۔ غ۔ ف۔ق۔ ک۔ کھ۔ گ۔ گھ۔ ل۔ لھ۔ م۔ مھ۔ ن۔ نھ۔ ں-و۔ ہ۔ ء۔ ی۔ ے {آگے بڑھنے سے پہلے عرض کروں کہ اردو لغت بورڈ ۱۴ جون ۱۹۵۸ء کو تشکیل دیا گیا۔

ازراہ تفنن: کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بورڈ کا ترجمہ کیوں نہیں کیا گیا تو اس کا جواب ہمارے فاضل دوست ڈاکٹرشاہد ضمیر نے یہ دیا کہ بورڈ کا ترجمہ، ( لغوی لحاظ سے کیا جائے تو) تختہ نہیں ہوسکتا۔ اس بورڈ کا کارنامہ بائیس جلدوں پر مشتمل، عظیم لغت،''اردولغت (تاریخی اصول پر)'' منصہ شہود پر آچکا ہے جس کے متعلق ایک تحقیقی کتاب ''اردولغت (تاریخی اصول پر): تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ'' ازقلم ڈاکٹر بی بی امینہ بھی شایع ہوچکی ہے۔ یہ لغت بھی بابائے اردو اور ڈاکٹر شان الحق حقی کے طے کردہ اصول کے تحت حروف تہجی کی ترتیب سے مرتب کی گئی ہے}۔

یہاں ایک عجیب انکشاف بھی ملاحظہ فرمائیں۔ مشہور ویب سائٹ وِکی پیڈیا کے اردو رُوپ، وِکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف میں یہ عبارت چونکانے والی ہے:''حرف 'ۃ' کو عموماً اُردو ابجد کا حصّہ نہیں مانا جاتا، تاہم کئی الفاظ و اِصطلاحات میں اِس کا اِستعمال ضرور ہے۔ جس کی ایک مثال مرکب لفظ دائرۃالمعارف ہے۔ اور شاید اِسی اِستعمال کی وجہ سے مقتدرہ قومی زبان نے اُردو حروفِ تہجی میں اِس کو شامل کیا ہے۔

اِس کے ساتھ ساتھ کئی مزید حروف کو بھی شاملِ ابجد کیا گیا ہے جس سے اُردو حروفِ تہجی کی تعداد اٹھاون (58 ) ہوجاتی ہے۔'' قارئین کرام کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس ویب سائٹ پر منقول، اضافی حروف یہ ہیں: وھ، یھ.....معلوم نہیں کہ فاضل مرتبین نے چھپن حروف تہجی کہاں دیکھے کہ اُن میں اِن کا اضافہ کرکے تعداد، اٹھاون تک پہنچادی۔ اب یہ نکتہ ایسا ہے کہ ہمارے معاصرماہرین بشمول ڈاکٹر شاہد ضمیر صاحب اس کی بابت بھی غور فرمائیں اور اس کے رَدّ وقبول کا فیصلہ بھی متفق علیہ ہونا چاہیے۔

جب ہم اس بحث میں پڑ تے ہیں کہ تعداد کیا ہونی چاہیے اور کیا نہیں تو یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ اس ضمن میں دلائل کیا دیے گئے ہیں اور کیا ان کا رَدّ بھی ممکن ہے یا محض اس لیے قبول کرنا واجب ہے کہ ہمارے بڑوں نے یہ فیصلہ کیا ہے، جس طرح بعض پرانی کتب میں پہلے مفرد حروف تہجی لکھے جاتے تھے، پھر مرکب، اسی طرح ماضی قریب میں منظرعام پر آنے والی، پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتاب ''اردوقواعدوانشاپردازی'' (برائے جماعت اوّل تا پنجم) از محترمہ شگفتہ صغیر ترمذی میں بھی کیا گیا ہے، البتہ انھوں نے بوجوہ حروف کی تعداد کم (یعنی باون) لکھی ہے۔

(یہ عمدہ کتاب آن لائن دستیاب ہے اور ہماری فاضل معاصر، شاعری اور تدریس میں ہماری بزرگ، ڈاکٹر رخسانہ صبا صاحبہ نے دیگر مواد کے ساتھ ساتھ، اس کا ربط[Link] بھی فراہم کیا)۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب نے اردو کی ہائیہ آوازیں ظاہر کرنے والے حروف یعنی بھ، پھ، تھ وغیرہ کو (جنھیں ہم اصوات کہتے آئے ہیں) انگریزی کی Aspirated sounds سے ملادیا ہے۔ گستاخی معاف! ہماری انگریزی اتنی شاندار تو نہیں کہ ہم اپنے بزرگ معاصر کی انگریزی دانی کو چیلنج کرسکیں، مگر ترجمہ کیے بغیر اس اصطلاح کا تعارف نقل کردیتے ہیں۔ آپ خود ہی انصاف کرلیں کہ بات کہاں تک درست ہے:

  1. Aspirate, the sound h as in English "hat." Consonant sounds such as the English voiceless stops p, t, and k at the beginning of words (e.g., "pat," "top," "keel") are also aspirated because they are pronounced with an accompanying forceful expulsion of air. Such sounds are not aspirated at the end of words or in combination with certain consonants (e.g., in "spot," "stop").


[https://www.britannica.com/topic/aspirate]

  1. Also see this: https://essentialsoflinguistics.pressbooks.com


/chapter/3-5-aspirated-stops-in-english/


and https://pronuncian.com/podcasts/episode114

سرسری مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اردو اصوات جو ہندی سے مستعار ہیں یا ہم نے ضرورت کے تحت وضع کی ہیں، انگریزی کی اس بحث سے مختلف ہیں۔ حالانکہ مندرجہ بالااقتباس میں یہ حصہ بھی شامل ہے ، مگر بعیدازحقیقت ہے:

The voiced stops b and d in Sanskrit and Hindi also have aspirated forms that are usually transliterated as bh and dh.

دور کیوں جائیں ، فقط یہی دیکھ لیں کہ انگریزی میں بے شمار الفاظ میں شامل حرف H ہمارے حرف 'ہ' یا 'ح' کی طرح آواز نہیں دیتا۔ انگریزی سے قبل لاطینی الاصل زبانوں بشمول فرینچ میں یہی مسئلہ موجود ہے۔ خاکسار کا نام کوئی فرینچ صحیح نہیں لے سکتا، وہ ''سو۔ایل'' کہے گا۔ جامعہ کراچی، لال شہباز قلندریونی ورسٹی ، نیو پورٹ انسٹی ٹیوٹ اور کیسبٹ سمیت متعدد پاکستانی نیز جاپانی اور امریکی درس گاہوں سے منسلک رہنے والی علمی وادبی شخصیت، پروفیسر محمد رئیس علوی صاحب کا کہنا ہے کہ ''یہ ہندی میں حروف ہیں، بھ، تھ، ٹھ، کھ وغیرہ۔ وہیں سے یہ اردو میں داخل ہوئے ہیں۔ فارسی رسم الخط میں یہ حروف موجود نہیں ہیں۔''

علوی صاحب مادری زبان اردو کے علاوہ جاپانی، انگریزی اور ہندی سے بخوبی آشنا ہیں اور اُن کے دیگر علمی کارناموں کے علاوہ، جاپانی۔ اردو لغت اور کثیرلسانی لغت کی ترتیب بھی قابل ذکر ہے۔

بات آگے بڑھانے سے پہلے خاکسار یہ سوال کرنا چاہتا ہے کہ جب انگریزی میں موجود چوالیس(44)اصوات کو حروف تہجی میں شامل کرکے اُن کی تعداد چھبیس سے بڑھا کر ستّر نہیں کی گئی تو پھر ہم ایسا کیوں کرنا چاہتے ہیں؟۔ خاکسار کے واٹس ایپ حلقے 'بزم زباں فہمی' میں جب اس موضوع پر بحث چھِڑی تو محترمہ رخسانہ صبا نے دلائل دیتے ہوئے سرکاری مؤقف کی تائید کی، جبکہ ہماری ایک اور فاضل، بزرگ معاصر محترمہ آمنہ عالم صاحبہ (خازن، بز م سائنسی ادب) نے اختلاف کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا:''حرف 'ھ' اردو حروف میں (پہلے ہی) شامل ہے اور بھ، پھ،کھ وغیرہ میں آنے والے تمام حروف بھی موجود ہیں تو پھر دو مرتبہ ان کی شمولیت سے حروف کی غیرضروری تعداد کیوں بڑھائی جائے؟ ہر زبان اور تہذیب کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔

ایک تہذیب میں پتھر، لکڑی سے بنی محض مورتی ہوتی ہے اور دوسری تہذیب میں دیوی، بھگوان اور خدا کا مقام رکھتی ہے۔ ہندی رسم الخط بیشک بھ، پھ کی مرکب آوازوں کو حروف شمار کرے مگر اردو پر کیوں اس کی تقلید میں غیرضروری بوجھ ڈالا جائے؟ انگریزی (بلکہ ہر زبان میں) میں بہت سی مرکب آوازیں ہیں، مثلاً ch th, وغیرہ ۔ مگر کیا انہوں نے ان مرکب آوازوں کو الگ حروف شمار کیا ہے؟ پھر ہم کیوں؟ اردو میں بھی اسی طرح 'ھ' ایک حرف ہے اور اس کے ساتھ ملا ئے گئے حروف (ماقبل) الگ سے موجود ہیں۔

ان کی ترکیب سے یہ آواز بنتی ہے۔'' ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب نے فرمایا تھا:''مغرب میں جب جدید لسانیات کی بنیادیں سائنس پر استوار ہوئیں تو لسانیاتی اور صوتیاتی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ یہ ہائیہ آوازیں (بھ، پھ، تھ وغیرہ) دراصل باقاعدہ، الگ اور منفرد آوازیں ہیں۔

گویا لسانیات کی زبان میں یہ الگ فونیم (Phoneme) ہیں۔ لسانیاتی تجربہ گاہوں میں مشینوں کے ذریعے کی گئی جانچ نے بھی اس نظریے کو آج تک درست ثابت کیا ہے کہ وہ آوازیں جو ہوا کے ایک جھٹکے کے ساتھ مل کر ہمارے منھ سے نکلتی ہیں (بھ، پھ، تھ وغیرہ) وہ الگ آوازیں یا منفرد صوتئے (فونیم) ہیں اور ان آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف ِ تہجی بھی الگ حروف سمجھے جانے چاہییں۔'' ڈاکٹر رخسانہ صبا صاحبہ نے اس کی تائید کی ہے، مگر محترمہ آمنہ عالم کا کہنا ہے کہ ''یہ فونیم صرف اردو پر کیوں تھوپے جا رہے ہیں۔ کیا دیگر زبانوں نے ان فونیم کے لیئے اپنے حروف تہجی بڑھائے؟

عربی میں (حرف)'ء' کی آواز ایک جھٹکے سے نکلتی ہے۔ لیکن کیا 'ء' کو اردو میں کہیں اس جھٹکے سے بولا جاتا ہے؟ اب جب کہ کمپیوٹر اور برقی کلیدی تختے مستعمل ہیں تو بھی ہمیں یہ مرکب آوازیں دو حروف کو ملا کر لکھنی پڑتی ہیں۔ جب عملی، اور عقلی طور پر یہ دو حروف کی مرکب آوازیں ہیں تو انہیں اسی طرح برتا جانا چاہیے۔

پاکستان کے اندر بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں، (مثلاً) سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، وغیرہ ان سب زبانوں کے الفاظ رفتہ رفتہ، دیگر زبانوں کی طرح، اردو میں شامل ہوں گے۔ ان سب میں بھی فونیم کی اردو سے مختلف آوازیں ہیں کیا ہم ان کے لیئے نئے حروف کو اردو میں شامل کریں گے؟ اردو بس دنیا بھر کی آوازوں کے لیئے حروف تہجی ہی بڑھاتی رہے گی؟ کیا دیگر اقوام نے اپنی اپنی زبانوں میں ایسا کیا ہے؟ اردو میں جو مرکب ہے وہ مرکب ہی رہے گا اردو قاعدے کے مطابق انہیں حروف میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔'' یہاں میں محترمہ آمنہ عالم صاحبہ کی تائید کرتا ہوں۔

ہماری علاقائی زبانوں میں سندھی اور سرائیکی میں بعض ایسے حروف شامل ہیں جنھیں اردو میں لکھ کر سمجھانا ہی محال ہے، مثلاً ڑونڑ کی آواز (جیسے جونیجو کو جونڑینجو کہا جاتا ہے)۔ اسی طرح گلگت، بلتستان اور چترال کی علاقائی زبانوں میں بھی یہ عنصر موجود ہے۔ فضلائے لسان اور ماہرین لسانیات میرے اس نکتے کا جواب دیں۔ کالم کے آخر میں آپ کی خدمت میں واٹس ایپ پر منقولہ، ایک تحریر پیش کررہا ہوں:''اُردُو کے طلبہ و طالبات کے لیے:''ھ'' اور ''ہ'' میں کیا فرق ہے؟......''ھاں'' اور ''ہاں'' کیا دونوں ٹھیک ہیں؟ اسی طرح ''ہم'' اور ''ھم'' اگر فرق ہے تو کیا ہے؟......اردو میں دو چشمی ''ھ'' کا استعمال کمپاؤنڈ (یعنی مرکب) حروف تہجی بنانے کے لئے ہوتا ہے۔ مثلاً: بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، گھ، اور لھ وغیرہ۔ بعض جگہوں پر خوبصورتی یا کسی اور وجہ سے لوگ ابتدا میں'' ھ'' کا استعمال کرتے ہیں مثلاً ''ھم''، ''ھماری'' اور ''ھاں'' وغیرہ۔ لیکن میری معلومات کے مطابق یہ استعمال درست نہیں ہے۔

اول تو یہ کہ اردو میں ''ھ'' ابتداء لفظ میں کبھی آ ہی نہیں سکتا۔ کیوں کہ دوچشمی''ھ''کی اکیلی مستقل آواز نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے حرف کے ساتھ ملا کر لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ دو چشمی '' ھ'' اردو میں ہندی زبان سے اخذ کی گئی ہے اور یہ صرف چند حروف کے ساتھ ہی آسکتی ہے، اردو کے تمام حروف تہجی کے ساتھ نہیں آسکتی مثلاً:بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، کھ، گھ، اور لھ وغیرہ۔اس کے علاوہ باقی حروف کے ساتھ دوچشمی ''ھ'' نہیں آتی، جبکہ'' ہ ''کی الگ مستقل آواز ہوتی ہے۔ ذیل میں دوچشمی''ھ'' اور ''ہ کے چند جملے لکھے جارہے ہیں، انہیں پڑھ کر آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ ان دونوں کے پڑھنے میں کیا فرق ہے اور اُردو زبان میں یہ دو مختلف ھ/ہ الگ الگ کیوں رائج ہیں:''ھ'' ''اور ب(ملاکر) بھ'': ننھے منے بچے سب کے من کو'' بھاتے'' ہیں۔

''ہ'' ب(ملاکر)'' بہ'': لاپروا (بے پروا درست ہے: سہیل)۔ لوگ پانی زیادہ'' بہاتے ہیں۔''ھ'' اور پ (ملاکر)'' پھ: بچے نے کاپی کا صفحہ ''پھاڑ'' دیا۔''ہ''اور پ (ملاکر) ''پہ'': ''پہاڑ'' پر چڑھنا ایک دشوار کام ہے۔''ھ'' ''اور ت (ملاکر) تھ'': میرا ایک دوست ''تھائی لینڈ'' میں رہتا ہے۔''ہ '' اور ت (ملاکر) ''تہ'': ابھی تک صرف ایک ''تِہائی'' کام ہوا ہے۔ ''ھ''اور ٹ (ملاکر)'' ٹھ'': ان دونوں کی آپس میں ''ٹھنی'' ہوئی ہے۔''ہ''اور ٹ (ملاکر)'' ٹہ'': درخت کی ''ٹہنی'' پر چڑیا ''چہچہا'' رہی ہے۔''ھ'' اور ج (ملاکر) ''جھ'': آج فضا'' بوجھل'' سی ہے۔''ہ اور ج (ملاکر) ''جہ'': ''ابوجہل'' اسلام کا سخت دشمن تھا۔''ھ'' اور چ (ملاکر)'' چھ'': ڈاکٹر نے مریض کے جسم سے گولی کا ''چَھرّا'' نکال دیا، یا قربانی کے جانور کے گلے پر ''چُھرا'' پھیر دو۔''ہ''اور چ (ملاکر) ''چہ: اس کا'' چہرہ'' خوشی سے کِھلا پڑ رہا تھا۔

''ھ''اور د (ملاکر)' دھ'': یار میرا ''دھندہ'' خراب مت کرو۔''ہ''اور د (ملاکر)'' دہ'': وہ اس کا نجات ''دہندہ'' بن کر آیا۔'' نوٹ'':-'' ڈ'' کے ساتھ''ہ'' اور'' ر'' کے ساتھ ''ھ'' کا جملہ نہیں آتا۔ (یعنی یہاں انھوں نے سرکاری مؤقف کی نفی کی ہے۔ سہیل)۔ ''ھ''اور ڑ (ملاکر)'' ڑھ'': میرے گھر کے آگے ڈم ڈم کی ''باڑھ'' لگی ہوئی ہے۔''ہ''اور ڑ (ملاکر) ''ڑہ'': میرے گھر کے پاس بھینسوں کا ''باڑہ'' ہے۔''ھ''اور ک (ملاکر) ''کھ'': میرا قلم ''کھو'' گیا ہے۔''ہ''اور ک (ملاکر)'' کہ'': ہاں اب ''کہو''! کیا ''کہنا'' چاہ رہے تھے۔''ھ اور گ (ملاکر) ' ''گھ'': جنگلات میں'' گھنے'' درخت ہوتے ہیں۔''ہ'' اور گ (ملاکر) ''گہ'': اس نے اپنی شادی پر ''گہنے'' اور دیگر زیورات پہنے ہوئے تھے۔ یہ جملے صرف دوچشمی ''ھ'' اور ''ہ'' کے آپس میں فرق واضح کرنے کے لیے بطور مثال لکھے ہیں، اُمّید ہے اس سے آپ مستفید ہوں گے۔''
Load Next Story