انڈیا کسانوں کے نرغے میں
لاکھوں کسان جو مختلف صوبوں کے کسان ہیں جو مودی کے اعلان کے بعد اپنا طبل جنگ بجائیں گے۔
بہت دنوں سے نریندر مودی دو تہائی اکثریت کی بنیاد پر اسمبلی میں کھیلتے کھیلتے کسانوں کی زمینوں کو بھی اپنی ملکیت سمجھ کر اور اپنے من مانے کھلاڑیوں کی فیلڈ جان کر یہاں بھی انھیں کھیلنے کی سوجھی۔ انھیں معلوم نہ تھا کہ سردیوں کے موسم میں کوئی نیا ڈکٹیشن ملک اور قوم کو نہیں دیا جانا چاہیے۔
کیونکہ یہی وہ موسم تھا جس نے روس کو سوویت یونین بنا دیا تھا۔ کسانوں کی ٹولیاں نکلی تھیں اور ارد گرد کی ریاستوں نے ان کو جوائن کر کے دنیا کی سب سے بڑی ریاست بنا دیا تھا۔ لیکن نریندر مودی کو بھلا کیا معلوم تھا ان کو تو بھارتی زر پرستوں نے بھارت کا پرائم منسٹر بنا دیا۔ وہ بھی دوسرے انتخاب میں دو تہائی ووٹوں کا مالک بنا کر۔ پہلے تو انھوں نے جموں اور کشمیر کو ہڑپ کیا اس بل کے مخالف بڑا احتجاج ہوا۔ کرفیو لگے، جو شاید تاریخ عالم میں اپنی نوعیت کے یہ طویل ترین کرفیو تھے۔ کشمیری لیڈروں کو یکے بعد دیگرے پھر اچانک اپنی ہی اتحادی پارٹی کے لیڈروں کو جو کشمیر سے متعلق تھے۔
ان کو پس زنداں کر دیا۔ جن میں فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی صاحبہ اور ان کی پوری کابینہ شامل تھی۔ پورے ہند میں بیشتر صوبوں میں بعض حکمرانوں اور شہریوں نے سری نگر شہر کو تو فوجیوں کی رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا ۔ تقریباً ہر گلی میں پانچ سے سات فوجی ڈیوٹی پر نافذ کر دیے گئے۔ پھر وہی سربراہ پوچھتے ہیں کہ سری نگر میں مظاہرے کیوں نہیں ہو رہے۔ اس کے بعد انھوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک بل پاس کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ پینتیس فیصد مسلمان وہ بھی بھارت میں۔ تو ان کو ایک بل کے ذریعے ملک میں آ کر بنگلہ دیش سے اور برما سے آئے ہوئے مسلمانوں کو غیر قانونی قرار دے کر نکالنا مقصد تھا۔
بقول مودی حکومت کے ایک وزیر کے تیس فیصد مسلمان ہونا ملک کے لیے خطرناک ہو گا۔ اس لیے جب اس بل کی مخالفت کے لیے تحریک چلی تو ہندو طلبا بھی مسلمانوں کی حمایت میں سڑکوں پر آگئے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی جنرل سیکریٹری نے بھی مسلمانوں کے خلاف اس بل کی مخالفت کی۔ لہٰذا ان کو فرقہ پرستوں نے حملہ کر کے زخمی کر دیا۔
اس طرح بھارت میں ہندو مسلم نوجوانوں کا اتحاد اس قدر بڑھ گیا کہ شاہین باغ میں پنجاب یونیورسٹی سے طعام و قیام کا انتظام ہونے لگا جو یقینا بی جے پی کے خلاف ایک بڑی قوت بن گئی تھی۔ اس قدر مضبوط قوت کہ شاہین باغ کی مسلم خواتین کو بے دخل کرنے کی مسٹر مودی کو جرأت نہ ہوئی مگر کورونا وبا پھیلتی گئی اور تحریک ٹوٹتی گئی۔ تحریک کے اس ٹوٹ پھوٹ اور سائنسی بندش کی وجہ سے مسلمانوں کی یہ تحریک تو چل نہیں سکی۔ لہٰذا انھوں نے عوام دشمن سرمایہ دارانہ حمایت کا بل اسمبلی میں پیش کر دیا۔
ظاہر ہے کہ یہ سرمایہ داروں کی اسمبلی تھی لہٰذا بل پاس بھی ہو گیا۔ لیکن وہ یہ بھول گئے ایک ارب پینتیس کروڑ آبادی والے ملک میں سرمایہ دار تو محدود تعداد میں ہیں جب کہ عوام اور مزدور طبقات لامحدود تعداد میں۔ پھر یہ موسم انقلاب کی نوید کا موسم ہے۔ آدھی رات کو دہلی میں ناقوس، جھانجھ، ڈھول اور بگل کی آوازیں آنے لگیں۔ شہر جاگ گیا۔ پھر بگل کی آواز سے یہ سمجھ گئے کہ یہ انقلاب کی آواز ہے۔ پھر انھیں یہ یاد آیا کہ انھوں نے اخبارات میں صبح کو یہ پڑھا تھا کہ سیکڑوں کسان اور مزدور انجمنیں پنجاب، یوپی اور دکن سے دلی میں 30 نومبر کو داخل ہوں گی۔ اور تمام راستے بند کر دیں گے۔
وقت گزرتا گیا لیکن آواز تیز نہ ہوئی۔ اس سے اندازہ ہو گیا کہ میرؔ و غالبؔ کے اس شہر میں آنے والے لوگوں کو روک دیا گیا ہے۔ جب صبح ہوئی تو صورتحال واضح ہوئی کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ کسی جلسے جلوس کو دلی شہر میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ سیکڑوں راہ میں گھائل ہوئے۔ جاں سے گزر بھی گئے۔
پھر لاٹھی چارج بند ہو گیا۔ کیونکہ ایسا لگتا تھا کہ کہیں 1949کے پیکنگ کا حال نہ ہو جس کو ماؤزے تنگ نے گھیر کر اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ لہٰذا اس سنسنی خیز اور خطرناک صورتحال کو سرمایہ دار سمجھ گئے وہ تصادم سے بچ کر امن کی چھاؤں میں گفتگو پر تیار ہو گئے۔ مگر اب صورتحال بات چیت سے آگے نکلتی جا رہی تھی۔ کیونکہ دوسرے شہروں سے آندولن کے حامی دلی کی سرحدوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کسانوں کی تقریباً دو سو پارٹیاں اس آندولن میں شرکت کر رہی ہیں۔ اور ہر پارٹی دو تین ہزار افراد کو لے کر چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ دو دو سو افراد کے یونٹ بھی چل رہے ہیں۔
اس بغاوت نما جلوس میں یہ ٹولیاں رات گئے تک پولیس اور پیرا ملٹری فورس سے تصادم کرتی رہیں۔ دلی چلو تحریک میں شامل ہونے کے لیے پنجاب سے تو کسان چلے ہی تھے۔ اس کے علاوہ یوپی، سی پی سے بھی کسان چل پڑے۔ ہر آدمی اپنے کھانے کا سامان بھی ساتھ لے کر چلا ہے۔ اور ان کا عزم ہے کہ جب تک مطالبات پورے نہیں ہو جاتے وہ واپس نہیں جائیں گے۔ ایسی صورت میں بھارتی وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کی ہوشیاریاں بھی دھری کی دھری رہ گئیں۔
اس جلوس کی خاص بات یہ ہے کہ تامل ناڈو اور مہاراشٹرا سے چلنے والے تین سو کسان اپنے ساتھ ان کسانوں کی کھوپڑیاں بھی لائے تھے جنھوں نے خودکشی کر لی تھی۔ کیونکہ وہ بینک کے قرضہ جات ادا نہیں کر سکے تھے اور بینک نے ان کو حد درجہ اذیت دی تھی یہ اذیت خانے نریندر مودی کے ایجاد کردہ چالبازیوں میں سے ایک ہیں کہ انسان کو کیسے دکھ دیا جائے کہ پہلے تو وہ شرمندہ ہو اور شرمندگی کے بعد موت کی آغوش میں پناہ لے لے۔
مردہ کسانوں کی تین سو کھوپڑیاں تاریخ کا بدترین المیہ ہیں اور ایک ٹولی ان کسانوں کی بھی تھی جو کامریڈوں کی طرح جان دینے پر تیار نہ تھے بلکہ سابقین کے طریقے سے موت کو گلے لگانے آئے تھے۔ تا کہ انتظامیہ پر اس کا بوجھ پڑے اور حکومت جن علاقوں میں بارش نہیں ہوئی یا پانی کی قلت رہی ہے ان کسانوں کے قرضے معاف کر دے۔
ایک کسان چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ میں نے پانچ سال پہلے بینک سے چالیس ہزار قرض لیا تھا جو اب بڑھ کر چار لاکھ ہو گئے ہیں۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ الیکشن سے پہلے وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں گے۔ لیکن بعد میں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
کسانوں میں یہ بے چینی ایک دو دن کی بات نہیں بلکہ برسوں سے کسان مسائل کا شکار ہیں۔ یوپی کے کسان جو پنجاب کے کسانوں کی طرح اعداد و شمار میں ہوشیار ہیں۔ ان کی ٹولیاں جونپور، نیشاپور، لکھنو کے اطراف سے ہوتی ہوئی یکم دسمبر کو دہلی کے بارڈر غازی آباد میں روڈ تک پہنچ چکی تھیں۔ ان کی پولیس سے بڑی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کی ہوشیاریاں یہی تھیں کہ وہ یہ سمجھے تھے کہ جس طرح کورونا کی آمد سے مسلمان گھروں کو چلے گئے تو کسان مارچ کیا کریں گے۔ یہ غفلت ان کو رات دن ہیجانی کیفیت اور مینٹل ٹینشن میں ڈال چکی ہے۔ اب صورتحال یہی رہ گئی ہے کہ آخرکار کسانوں کو جلسہ کر کے اپنی ڈیمانڈ پیش کرنے دی جائے۔ اگر ان کسانوں میں کوئی لیڈر زبردست ہوا تو وہ دلی کا گھیراؤ کر دے گا۔ چین کی کمیونسٹ حکومت شہروں کا گھیراؤ کر کے معرض وجود میں آئی اور آج وہ امریکا کے مقابل کھڑی ہے۔
جہاں تک ہماری اطلاع ہے بھارت کی چین نواز کمیونسٹ پارٹی جس کو عرف عام میں ماؤ نواز کہتے ہیں وہ بھی اس سنگھٹن میں اپنا کردار بتانے کو ہے صورتحال جس طرف جا رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کے مزدور طبقات اب زیادہ دنوں تک خودکشی کر کے سرمایہ داری کو فروغ نہیں دیں گے۔
بی جے پی کا منصوبہ یہ تھا کہ تمام کسانوں کو مجبور کر دیں گے کہ وہ گورنمنٹ کو کم سے کم ریٹ پر مال بیچیں اور پھر اس کی پیمنٹ توڑ توڑ کر قسطیں بنا کر دی جائیں۔ ایک تو عوام کو کسان مجبور ہو کر اپنی اصل قیمت سے کم قیمت پر اجناس کو فروخت کرنے پر مجبور کیے جائیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ غلے کو جمع کرنا اس کو منافع کسی خاطر چھپا دینا۔ بھارت کی حکومت نے اس کو جرم کے حصے سے نکال دیا ہے۔ حکومت نے ذخیرہ اندوزی کو قابل جرم قرار دینے کے بجائے اس کو جائز قرار دینے کے لیے بھی بل پاس کیا ہے تاکہ چھوٹے کسانوں کی کوئی آواز نہ رہے۔ صرف وہ چند بڑے کسانوں سے ڈیل کر کے اپنا سودا عوام کو فروخت کریں اور دنیا میں نایاب بڑے بڑے تاجر بھارت کی سسکتی جنتا میں پیدا کریں۔
اب تک تو بمبئی کی سڑکوں پر رات گئے بے گھر لوگوں کے سونے کی جگہیں سڑکیں ہیں اب لاکھوں نئے لوگ بھی سرمایہ دارانہ چال سے اپنی نیند اور کئی شہروں کی سڑکوں پر خراب کریں گے۔ مگر ہر وقت یہ چھوٹی چھوٹی جھڑپیں حکومت کو چین نصیب نہیں کرنے دیں گی۔ 3 دسمبر کے بعد جو اب تک پنجاب اور ہریانہ سے تین لاکھ کسان آئے تھے اور بقیہ جگہوں سے لاکھوں کسان جو مختلف صوبوں کے کسان ہیں جو مودی کے اعلان کے بعد اپنا طبل جنگ بجائیں گے۔ تب مسٹر مودی کو اندازہ ہو گا کہ کسان مزدور قوت کیا ہے۔ اب جا کر گارجین اور دنیا بھر کے اخباروں کے ایڈیٹروں کی آنکھیں کھلی ہیں کہ بھارت میں حکومت کی مجرمانہ سرگرمیاں کیا ہیں۔ جو خود اپنی نفی کی طرف آگے بڑھ رہی ہیں۔
کیونکہ یہی وہ موسم تھا جس نے روس کو سوویت یونین بنا دیا تھا۔ کسانوں کی ٹولیاں نکلی تھیں اور ارد گرد کی ریاستوں نے ان کو جوائن کر کے دنیا کی سب سے بڑی ریاست بنا دیا تھا۔ لیکن نریندر مودی کو بھلا کیا معلوم تھا ان کو تو بھارتی زر پرستوں نے بھارت کا پرائم منسٹر بنا دیا۔ وہ بھی دوسرے انتخاب میں دو تہائی ووٹوں کا مالک بنا کر۔ پہلے تو انھوں نے جموں اور کشمیر کو ہڑپ کیا اس بل کے مخالف بڑا احتجاج ہوا۔ کرفیو لگے، جو شاید تاریخ عالم میں اپنی نوعیت کے یہ طویل ترین کرفیو تھے۔ کشمیری لیڈروں کو یکے بعد دیگرے پھر اچانک اپنی ہی اتحادی پارٹی کے لیڈروں کو جو کشمیر سے متعلق تھے۔
ان کو پس زنداں کر دیا۔ جن میں فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی صاحبہ اور ان کی پوری کابینہ شامل تھی۔ پورے ہند میں بیشتر صوبوں میں بعض حکمرانوں اور شہریوں نے سری نگر شہر کو تو فوجیوں کی رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا ۔ تقریباً ہر گلی میں پانچ سے سات فوجی ڈیوٹی پر نافذ کر دیے گئے۔ پھر وہی سربراہ پوچھتے ہیں کہ سری نگر میں مظاہرے کیوں نہیں ہو رہے۔ اس کے بعد انھوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک بل پاس کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ پینتیس فیصد مسلمان وہ بھی بھارت میں۔ تو ان کو ایک بل کے ذریعے ملک میں آ کر بنگلہ دیش سے اور برما سے آئے ہوئے مسلمانوں کو غیر قانونی قرار دے کر نکالنا مقصد تھا۔
بقول مودی حکومت کے ایک وزیر کے تیس فیصد مسلمان ہونا ملک کے لیے خطرناک ہو گا۔ اس لیے جب اس بل کی مخالفت کے لیے تحریک چلی تو ہندو طلبا بھی مسلمانوں کی حمایت میں سڑکوں پر آگئے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی جنرل سیکریٹری نے بھی مسلمانوں کے خلاف اس بل کی مخالفت کی۔ لہٰذا ان کو فرقہ پرستوں نے حملہ کر کے زخمی کر دیا۔
اس طرح بھارت میں ہندو مسلم نوجوانوں کا اتحاد اس قدر بڑھ گیا کہ شاہین باغ میں پنجاب یونیورسٹی سے طعام و قیام کا انتظام ہونے لگا جو یقینا بی جے پی کے خلاف ایک بڑی قوت بن گئی تھی۔ اس قدر مضبوط قوت کہ شاہین باغ کی مسلم خواتین کو بے دخل کرنے کی مسٹر مودی کو جرأت نہ ہوئی مگر کورونا وبا پھیلتی گئی اور تحریک ٹوٹتی گئی۔ تحریک کے اس ٹوٹ پھوٹ اور سائنسی بندش کی وجہ سے مسلمانوں کی یہ تحریک تو چل نہیں سکی۔ لہٰذا انھوں نے عوام دشمن سرمایہ دارانہ حمایت کا بل اسمبلی میں پیش کر دیا۔
ظاہر ہے کہ یہ سرمایہ داروں کی اسمبلی تھی لہٰذا بل پاس بھی ہو گیا۔ لیکن وہ یہ بھول گئے ایک ارب پینتیس کروڑ آبادی والے ملک میں سرمایہ دار تو محدود تعداد میں ہیں جب کہ عوام اور مزدور طبقات لامحدود تعداد میں۔ پھر یہ موسم انقلاب کی نوید کا موسم ہے۔ آدھی رات کو دہلی میں ناقوس، جھانجھ، ڈھول اور بگل کی آوازیں آنے لگیں۔ شہر جاگ گیا۔ پھر بگل کی آواز سے یہ سمجھ گئے کہ یہ انقلاب کی آواز ہے۔ پھر انھیں یہ یاد آیا کہ انھوں نے اخبارات میں صبح کو یہ پڑھا تھا کہ سیکڑوں کسان اور مزدور انجمنیں پنجاب، یوپی اور دکن سے دلی میں 30 نومبر کو داخل ہوں گی۔ اور تمام راستے بند کر دیں گے۔
وقت گزرتا گیا لیکن آواز تیز نہ ہوئی۔ اس سے اندازہ ہو گیا کہ میرؔ و غالبؔ کے اس شہر میں آنے والے لوگوں کو روک دیا گیا ہے۔ جب صبح ہوئی تو صورتحال واضح ہوئی کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ کسی جلسے جلوس کو دلی شہر میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ سیکڑوں راہ میں گھائل ہوئے۔ جاں سے گزر بھی گئے۔
پھر لاٹھی چارج بند ہو گیا۔ کیونکہ ایسا لگتا تھا کہ کہیں 1949کے پیکنگ کا حال نہ ہو جس کو ماؤزے تنگ نے گھیر کر اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ لہٰذا اس سنسنی خیز اور خطرناک صورتحال کو سرمایہ دار سمجھ گئے وہ تصادم سے بچ کر امن کی چھاؤں میں گفتگو پر تیار ہو گئے۔ مگر اب صورتحال بات چیت سے آگے نکلتی جا رہی تھی۔ کیونکہ دوسرے شہروں سے آندولن کے حامی دلی کی سرحدوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کسانوں کی تقریباً دو سو پارٹیاں اس آندولن میں شرکت کر رہی ہیں۔ اور ہر پارٹی دو تین ہزار افراد کو لے کر چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ دو دو سو افراد کے یونٹ بھی چل رہے ہیں۔
اس بغاوت نما جلوس میں یہ ٹولیاں رات گئے تک پولیس اور پیرا ملٹری فورس سے تصادم کرتی رہیں۔ دلی چلو تحریک میں شامل ہونے کے لیے پنجاب سے تو کسان چلے ہی تھے۔ اس کے علاوہ یوپی، سی پی سے بھی کسان چل پڑے۔ ہر آدمی اپنے کھانے کا سامان بھی ساتھ لے کر چلا ہے۔ اور ان کا عزم ہے کہ جب تک مطالبات پورے نہیں ہو جاتے وہ واپس نہیں جائیں گے۔ ایسی صورت میں بھارتی وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کی ہوشیاریاں بھی دھری کی دھری رہ گئیں۔
اس جلوس کی خاص بات یہ ہے کہ تامل ناڈو اور مہاراشٹرا سے چلنے والے تین سو کسان اپنے ساتھ ان کسانوں کی کھوپڑیاں بھی لائے تھے جنھوں نے خودکشی کر لی تھی۔ کیونکہ وہ بینک کے قرضہ جات ادا نہیں کر سکے تھے اور بینک نے ان کو حد درجہ اذیت دی تھی یہ اذیت خانے نریندر مودی کے ایجاد کردہ چالبازیوں میں سے ایک ہیں کہ انسان کو کیسے دکھ دیا جائے کہ پہلے تو وہ شرمندہ ہو اور شرمندگی کے بعد موت کی آغوش میں پناہ لے لے۔
مردہ کسانوں کی تین سو کھوپڑیاں تاریخ کا بدترین المیہ ہیں اور ایک ٹولی ان کسانوں کی بھی تھی جو کامریڈوں کی طرح جان دینے پر تیار نہ تھے بلکہ سابقین کے طریقے سے موت کو گلے لگانے آئے تھے۔ تا کہ انتظامیہ پر اس کا بوجھ پڑے اور حکومت جن علاقوں میں بارش نہیں ہوئی یا پانی کی قلت رہی ہے ان کسانوں کے قرضے معاف کر دے۔
ایک کسان چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ میں نے پانچ سال پہلے بینک سے چالیس ہزار قرض لیا تھا جو اب بڑھ کر چار لاکھ ہو گئے ہیں۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ الیکشن سے پہلے وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں گے۔ لیکن بعد میں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
کسانوں میں یہ بے چینی ایک دو دن کی بات نہیں بلکہ برسوں سے کسان مسائل کا شکار ہیں۔ یوپی کے کسان جو پنجاب کے کسانوں کی طرح اعداد و شمار میں ہوشیار ہیں۔ ان کی ٹولیاں جونپور، نیشاپور، لکھنو کے اطراف سے ہوتی ہوئی یکم دسمبر کو دہلی کے بارڈر غازی آباد میں روڈ تک پہنچ چکی تھیں۔ ان کی پولیس سے بڑی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کی ہوشیاریاں یہی تھیں کہ وہ یہ سمجھے تھے کہ جس طرح کورونا کی آمد سے مسلمان گھروں کو چلے گئے تو کسان مارچ کیا کریں گے۔ یہ غفلت ان کو رات دن ہیجانی کیفیت اور مینٹل ٹینشن میں ڈال چکی ہے۔ اب صورتحال یہی رہ گئی ہے کہ آخرکار کسانوں کو جلسہ کر کے اپنی ڈیمانڈ پیش کرنے دی جائے۔ اگر ان کسانوں میں کوئی لیڈر زبردست ہوا تو وہ دلی کا گھیراؤ کر دے گا۔ چین کی کمیونسٹ حکومت شہروں کا گھیراؤ کر کے معرض وجود میں آئی اور آج وہ امریکا کے مقابل کھڑی ہے۔
جہاں تک ہماری اطلاع ہے بھارت کی چین نواز کمیونسٹ پارٹی جس کو عرف عام میں ماؤ نواز کہتے ہیں وہ بھی اس سنگھٹن میں اپنا کردار بتانے کو ہے صورتحال جس طرف جا رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کے مزدور طبقات اب زیادہ دنوں تک خودکشی کر کے سرمایہ داری کو فروغ نہیں دیں گے۔
بی جے پی کا منصوبہ یہ تھا کہ تمام کسانوں کو مجبور کر دیں گے کہ وہ گورنمنٹ کو کم سے کم ریٹ پر مال بیچیں اور پھر اس کی پیمنٹ توڑ توڑ کر قسطیں بنا کر دی جائیں۔ ایک تو عوام کو کسان مجبور ہو کر اپنی اصل قیمت سے کم قیمت پر اجناس کو فروخت کرنے پر مجبور کیے جائیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ غلے کو جمع کرنا اس کو منافع کسی خاطر چھپا دینا۔ بھارت کی حکومت نے اس کو جرم کے حصے سے نکال دیا ہے۔ حکومت نے ذخیرہ اندوزی کو قابل جرم قرار دینے کے بجائے اس کو جائز قرار دینے کے لیے بھی بل پاس کیا ہے تاکہ چھوٹے کسانوں کی کوئی آواز نہ رہے۔ صرف وہ چند بڑے کسانوں سے ڈیل کر کے اپنا سودا عوام کو فروخت کریں اور دنیا میں نایاب بڑے بڑے تاجر بھارت کی سسکتی جنتا میں پیدا کریں۔
اب تک تو بمبئی کی سڑکوں پر رات گئے بے گھر لوگوں کے سونے کی جگہیں سڑکیں ہیں اب لاکھوں نئے لوگ بھی سرمایہ دارانہ چال سے اپنی نیند اور کئی شہروں کی سڑکوں پر خراب کریں گے۔ مگر ہر وقت یہ چھوٹی چھوٹی جھڑپیں حکومت کو چین نصیب نہیں کرنے دیں گی۔ 3 دسمبر کے بعد جو اب تک پنجاب اور ہریانہ سے تین لاکھ کسان آئے تھے اور بقیہ جگہوں سے لاکھوں کسان جو مختلف صوبوں کے کسان ہیں جو مودی کے اعلان کے بعد اپنا طبل جنگ بجائیں گے۔ تب مسٹر مودی کو اندازہ ہو گا کہ کسان مزدور قوت کیا ہے۔ اب جا کر گارجین اور دنیا بھر کے اخباروں کے ایڈیٹروں کی آنکھیں کھلی ہیں کہ بھارت میں حکومت کی مجرمانہ سرگرمیاں کیا ہیں۔ جو خود اپنی نفی کی طرف آگے بڑھ رہی ہیں۔