پاکستان عالمی سازش کی زد پر
ایران کی اسرائیل کے خلاف زبانی جنگ سے یہ تاثر نکلتا ہے کہ وہ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے
گزشتہ کالم میں مداخلت کا راستہ کے عنوان سے جو کالم تحریر کیا گیا وہ اس بات کی غمازی کررہا تھا کہ پاکستان میں افغان جنگ کے علاوہ دیگر مناقشے خصوصاً شیعہ سنّی فسادات کی راہ ہموار کرنا، سب کچھ یوں ہی نہیں بلکہ یہ ایک عالمی اور اسرائیلی سازش کا ایک حصّہ ہے۔
ویسے تو پورے ملک میں تسلسل سے یہ واقعات رونما ہورہے ہیں مگر خصوصیت کے ساتھ گلگت، بلتستان اور بلوچستان کی ہزارہ چنگیزی کمیونٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے، تاکہ پاکستان کا استحکام خطرے میں ڈالا جاسکے اور ہر کمیونٹی اقوام متحدہ کو ہیومن رائٹس کی بنیاد پر مداخلت کی دعوت دے، مثل مشہور ہے ''مرتا کیا نہ کرتا'' مگر اس مناقشے کے تانے بانے اسرائیل سے اس طرح ملتے ہیں کہ گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیراعظم نے امریکیوں پر زور دیا کہ جلد از جلد ایران پر حملہ کیا جائے، کیونکہ گزرنے والا ہر روز خطرناک تر ہے۔
بقول اسرائیلی وزیراعظم، ایران تیزی سے ایٹمی اسلحے کے حصول کی طرف جارہا ہے، جب کہ ایران کا موقف یہ ہے کہ اس کی نیو کلیئر توانائی پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اگر سنّی شیعہ مناقشہ عالمی پیمانے پر ابھرتا ہے تو ایران پر حملے کی صورت میں مسلم دنیا تقسیم ہوجائے گی جب کہ مغربی دنیا تو ازخود اس کے خلاف ہے۔ پرانی کہاوت ہے ''ایک تیر سے دو شکار کرنا''۔ پاکستان کی معیشت مختلف اسباب کی بِنا پر اور توانائی کے بحران کے سبب تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ایسے میں طالع آزمائی کرنے والے ملک میں خانہ جنگی کے بیج بورہے ہیں۔
گلگت بلتستان کو جو پاکستان کے پانچویں صوبے کی شکل لینے کو ہے ایسے موقع پر اس کو غیر مستحکم کرنا کیا معنی رکھتا ہے جب کہ بعض طاقتیں ابھی بھی اس کو ایک متنازع علاقہ سمجھتی ہیں، ان تمام خطرات کے پیشِ نظر ایران نے اپنے بچائو کے لیے اور عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے لیے غیر وابستہ ممالک کی کانفرنس تہران میں بلائی ہے تاکہ وہ یہ ثابت کرسکے کہ اس کے کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں مگر ایران کی اسرائیل کے خلاف زبانی جنگ سے یہ تاثر نکلتا ہے کہ وہ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے۔
ایسی صورت میں رہ رہ کے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر اسرائیلی حملہ متوقع ہے۔ انسانی حقوق اور انسانی آزادی کے نام پر لیبیا کے صدر معمر قذافی کے ساتھ جو سلوک ہوا اس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔ اور اب جو وہاں نام نہاد جمہوری حکومت قائم ہے، اس سے مغربی حکومتوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ بعض جگہ اقلیت پر اکثریت کی حکومت اور بعض جگہ اکثریت پر اقلیت کی حکومت کے نام پر بغاوتیں ہورہی ہیں۔ اس کے پس پشت کون ہے۔ امت اسلامیہ غالباً اس سے بے خبر ہے۔ مسالک کے مابین تصادم سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا بلکہ آنے والے وقت میں چھوٹے چھوٹے ممالک معرضِ وجود میں آسکتے ہیں۔ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع زبردست اہمیت کا حامل ہے۔
ایک طرف خلیج کی ریاستیں، دوسری طرف وسطِ ایشیا کی ریاستوں کی واحد گزرگاہ ہے، اسی لیے دوستوں اور دشمنوں کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں اور تمام ممالک اپنا اثر و رسوخ اس خطے میں قائم کرنے میں کوشاں ہیں، اسی لیے کابل پر سوویت یونین کی حامی حکومت کا قبضہ نہ رہ سکا اور ڈاکٹر نجیب اﷲ کو اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے پھانسی دے دی گئی پھر طالبان کی حکومت بھی قائم نہ رہ سکی، وہاں شمالی اتحاد اور جنوبی پشتون برسر پیکار رہے اور آج بھی یہ جنگ جاری ہے اور یہ جنگ درحقیقت پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں تک جاپہنچی ہے۔
تہذیب و نظریات کا یہ تصادم اب باقاعدہ فرقہ واریت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایک خدا، ایک قرآن، ایک رسول اور ایک کلمے کے ماننے والے آخر آپس میں برسرپیکار کیوں ہیں۔ رواداری، بھائی چارہ اور اخوت کا وہ پرچار جو علما نے کیا تھا کیونکر جاتا رہا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم جس درخت کی شاخ پر بیٹھے ہیں، اسی کو جڑ سے کاٹنا چاہتے ہیں۔ اس کو جڑ سے کاٹنے کے لیے سامان کس نے مہیا کیے؟ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنی آزادی کو کھونے کے لیے خود ہی کوئی قفس تیار کررہے ہیں۔
جہاں ایک طرف اس لاقانونیت کو لگام نہ دینے کی ذمے داری صاحبانِ علم پر ہوتی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ ذمے داری صاحبانِ اقتدار پر عاید ہوتی ہے، جنھوں نے جمہوریت کا لیبل تو لگالیا مگر جمہوریت شناسی اور جمہوریت کی اصل روح سے ناواقف ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک نئے انتظامی ڈھانچوں اور نئے صوبوں کی بات کرنے کو ملک کے خلاف سازش سمجھا جاتا رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صوبائی دارالسلطنتوں پر آبادی کا بوجھ بڑھتا گیا۔ زراعت سے وابستہ کارکن اپنے آبائی گائوں شہروں کو چھوڑ کر دیگر صوبائی دارالحکومتوں میں منتقل ہوگئے۔ یہاں تہذیب کے تصادم اور نظریات کے تصادم نے جنم لینا شروع کردیا اور زبان اور نسل کی بنیاد پر لوگ متحد ہونے لگے۔ وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی نے لوگوں کو ایک دوسرے کا مخالف بنادیا۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض بیرونی ممالک نے مخصوص طبقوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے دولت کے دروازے کھول دیے۔ اس طرح بیرونی جنگیں پاکستان میں لڑی جانے لگیں۔ اب صورت حال ایسی ہے، عام آدمی تو کجا پولیس، رینجرز اور فوج بھی غیر محفوظ ہوگئی ہے۔ اور آئے دن حکومت کی طرف سے کبھی ڈبل سواری پر پابندی لگ جاتی ہے تو کبھی موبائل فون بند کردیے جاتے ہیں، مگر پھر بھی امن قائم نہیں ہوتا، کیونکہ حکومت کو اب تک یہی علم نہ ہوسکا کہ کون سی قوتیں اس کی دوست ہیں اور کون سی دشمن، اس لیے ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کنفیوژن کا شکار ہے۔
ابھی حال میں خبر آئی ہے کہ پاکستان روس سے تعلقات استوار کررہا ہے اور طاقت کے توازن کو رفتہ رفتہ تبدیل کررہا ہے۔ مگر چونکہ پوری ریاست کا ڈھانچہ مغربی تانے بانے سے گندھا ہوا ہے اور روس کے خلاف ماضی میں زبردست پروپیگنڈا کیا گیا ہے اور معاہدۂ تاشقند کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ اس لیے روسی عوام بھارت کو اپنا دوست تصور کرتے ہیں اور پاکستان کو جارح۔ اس لیے روس اور پاکستان کے عوام اور حکومت میں خاصا فاصلہ ہے، جو رفتہ رفتہ ہی دور ہوگا۔
موجودہ صورت حال میں پاکستان کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ بھارت سے تعلقات کو نارمل بنایا جائے، تاکہ دنیا کی نظروں میں پاکستان ایک دہشت گرد ملک کی شکل میں نہ ابھرے۔ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال نے پاکستان کا امیج تباہ کردیا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو، جہاں اجتماعی یا انفرادی وارداتوں کی خبریں نشر نہ ہوتی ہوں۔ پاکستان کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ فرقہ واریت کو مزید سر نہ اٹھانے دیا جائے اور حکومت قانون کو نافذ کرنے کے لیے محض بیانات نہیں بلکہ عملی طور سے مظاہرہ کرے۔
ایم کیو ایم کے قائد نے نہایت جرأت مندی سے کام لیتے ہوئے پاکستان کی امن قائم کرنے کی ذمے دار ایجنسیوں اور علما پر زور دیا ہے کہ اس قسم کی منافرت کو سختی سے کچل دیا جائے، کیونکہ جہاں جہاں امتِ اسلامیہ موجود ہے، وہاں وہاں یہ دونوں فرقے موجود ہیں، کہیں کم کہیں زیادہ، یہاں تک کہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت جہاں شیعہ برادری برائے نام ہے، وہاں بھی ''حسینی دالان'' سے ماتمی جلوس نکالا جاتا ہے۔ رواداری کا یہ سلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔ یہاں تک کہ سنّی شیعہ شادیاں عرب ممالک اور برصغیر پاک و ہند میں صدیوں سے جاری ہیں۔ تاریخ کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ جب بھی ایسے مناقشوں نے سر اٹھایا تو بیرونی حملہ آوروں نے مسلمان حکومتوں کو تہس نہس کردیا اور انسانی سروں کے مینار بنائے۔
بغداد کی تاریخ اور چنگیز خان کی بغداد میں آمد اس بات کا بیّن ثبوت ہے۔ بعد ازاں ہلاکو خان نے اپنا یہی مشن جاری رکھا اور بالآخر ہلاکو خان ایک شیعہ عالم کے ہاتھوں مشرفِ بہ اسلام ہوا۔ کوئٹہ میں آباد ان چنگیزیوں کو عرفِ عام میں ہزارہ قبائل کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ان فتنوں کو دوبارہ اٹھانے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں۔ ہمارے سامنے ملک شام کے واقعات موجود ہیں، جہاں مغربی ممالک نے بشارالاسد کی حکومت کو ہٹانے کے لیے تاریخ کے اس مناقشے سے کام لیا اور وہاں ایک طرف دنیا بھر کے چیچن، ازبک اور دیگر جہادی شام کی حکومت سے برسرِ پیکار ہیں۔
دوسری طرف حزب اﷲ کے حامی اور عراق کے شیعہ مجاہدین بشر الاسد کی حکومت بچانے کے لیے برسرِ پیکار ہیں۔ کیا خدانخواستہ پاکستان میں بھی ایسی قوتیں ایسے حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی جب کہ پاکستان کا محل وقوع شام جیسی کشش رکھتا ہے۔
ویسے تو پورے ملک میں تسلسل سے یہ واقعات رونما ہورہے ہیں مگر خصوصیت کے ساتھ گلگت، بلتستان اور بلوچستان کی ہزارہ چنگیزی کمیونٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے، تاکہ پاکستان کا استحکام خطرے میں ڈالا جاسکے اور ہر کمیونٹی اقوام متحدہ کو ہیومن رائٹس کی بنیاد پر مداخلت کی دعوت دے، مثل مشہور ہے ''مرتا کیا نہ کرتا'' مگر اس مناقشے کے تانے بانے اسرائیل سے اس طرح ملتے ہیں کہ گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیراعظم نے امریکیوں پر زور دیا کہ جلد از جلد ایران پر حملہ کیا جائے، کیونکہ گزرنے والا ہر روز خطرناک تر ہے۔
بقول اسرائیلی وزیراعظم، ایران تیزی سے ایٹمی اسلحے کے حصول کی طرف جارہا ہے، جب کہ ایران کا موقف یہ ہے کہ اس کی نیو کلیئر توانائی پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اگر سنّی شیعہ مناقشہ عالمی پیمانے پر ابھرتا ہے تو ایران پر حملے کی صورت میں مسلم دنیا تقسیم ہوجائے گی جب کہ مغربی دنیا تو ازخود اس کے خلاف ہے۔ پرانی کہاوت ہے ''ایک تیر سے دو شکار کرنا''۔ پاکستان کی معیشت مختلف اسباب کی بِنا پر اور توانائی کے بحران کے سبب تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ایسے میں طالع آزمائی کرنے والے ملک میں خانہ جنگی کے بیج بورہے ہیں۔
گلگت بلتستان کو جو پاکستان کے پانچویں صوبے کی شکل لینے کو ہے ایسے موقع پر اس کو غیر مستحکم کرنا کیا معنی رکھتا ہے جب کہ بعض طاقتیں ابھی بھی اس کو ایک متنازع علاقہ سمجھتی ہیں، ان تمام خطرات کے پیشِ نظر ایران نے اپنے بچائو کے لیے اور عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے لیے غیر وابستہ ممالک کی کانفرنس تہران میں بلائی ہے تاکہ وہ یہ ثابت کرسکے کہ اس کے کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں مگر ایران کی اسرائیل کے خلاف زبانی جنگ سے یہ تاثر نکلتا ہے کہ وہ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے۔
ایسی صورت میں رہ رہ کے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر اسرائیلی حملہ متوقع ہے۔ انسانی حقوق اور انسانی آزادی کے نام پر لیبیا کے صدر معمر قذافی کے ساتھ جو سلوک ہوا اس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔ اور اب جو وہاں نام نہاد جمہوری حکومت قائم ہے، اس سے مغربی حکومتوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ بعض جگہ اقلیت پر اکثریت کی حکومت اور بعض جگہ اکثریت پر اقلیت کی حکومت کے نام پر بغاوتیں ہورہی ہیں۔ اس کے پس پشت کون ہے۔ امت اسلامیہ غالباً اس سے بے خبر ہے۔ مسالک کے مابین تصادم سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا بلکہ آنے والے وقت میں چھوٹے چھوٹے ممالک معرضِ وجود میں آسکتے ہیں۔ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع زبردست اہمیت کا حامل ہے۔
ایک طرف خلیج کی ریاستیں، دوسری طرف وسطِ ایشیا کی ریاستوں کی واحد گزرگاہ ہے، اسی لیے دوستوں اور دشمنوں کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں اور تمام ممالک اپنا اثر و رسوخ اس خطے میں قائم کرنے میں کوشاں ہیں، اسی لیے کابل پر سوویت یونین کی حامی حکومت کا قبضہ نہ رہ سکا اور ڈاکٹر نجیب اﷲ کو اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے پھانسی دے دی گئی پھر طالبان کی حکومت بھی قائم نہ رہ سکی، وہاں شمالی اتحاد اور جنوبی پشتون برسر پیکار رہے اور آج بھی یہ جنگ جاری ہے اور یہ جنگ درحقیقت پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں تک جاپہنچی ہے۔
تہذیب و نظریات کا یہ تصادم اب باقاعدہ فرقہ واریت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایک خدا، ایک قرآن، ایک رسول اور ایک کلمے کے ماننے والے آخر آپس میں برسرپیکار کیوں ہیں۔ رواداری، بھائی چارہ اور اخوت کا وہ پرچار جو علما نے کیا تھا کیونکر جاتا رہا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم جس درخت کی شاخ پر بیٹھے ہیں، اسی کو جڑ سے کاٹنا چاہتے ہیں۔ اس کو جڑ سے کاٹنے کے لیے سامان کس نے مہیا کیے؟ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنی آزادی کو کھونے کے لیے خود ہی کوئی قفس تیار کررہے ہیں۔
جہاں ایک طرف اس لاقانونیت کو لگام نہ دینے کی ذمے داری صاحبانِ علم پر ہوتی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ ذمے داری صاحبانِ اقتدار پر عاید ہوتی ہے، جنھوں نے جمہوریت کا لیبل تو لگالیا مگر جمہوریت شناسی اور جمہوریت کی اصل روح سے ناواقف ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک نئے انتظامی ڈھانچوں اور نئے صوبوں کی بات کرنے کو ملک کے خلاف سازش سمجھا جاتا رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صوبائی دارالسلطنتوں پر آبادی کا بوجھ بڑھتا گیا۔ زراعت سے وابستہ کارکن اپنے آبائی گائوں شہروں کو چھوڑ کر دیگر صوبائی دارالحکومتوں میں منتقل ہوگئے۔ یہاں تہذیب کے تصادم اور نظریات کے تصادم نے جنم لینا شروع کردیا اور زبان اور نسل کی بنیاد پر لوگ متحد ہونے لگے۔ وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی نے لوگوں کو ایک دوسرے کا مخالف بنادیا۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض بیرونی ممالک نے مخصوص طبقوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے دولت کے دروازے کھول دیے۔ اس طرح بیرونی جنگیں پاکستان میں لڑی جانے لگیں۔ اب صورت حال ایسی ہے، عام آدمی تو کجا پولیس، رینجرز اور فوج بھی غیر محفوظ ہوگئی ہے۔ اور آئے دن حکومت کی طرف سے کبھی ڈبل سواری پر پابندی لگ جاتی ہے تو کبھی موبائل فون بند کردیے جاتے ہیں، مگر پھر بھی امن قائم نہیں ہوتا، کیونکہ حکومت کو اب تک یہی علم نہ ہوسکا کہ کون سی قوتیں اس کی دوست ہیں اور کون سی دشمن، اس لیے ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کنفیوژن کا شکار ہے۔
ابھی حال میں خبر آئی ہے کہ پاکستان روس سے تعلقات استوار کررہا ہے اور طاقت کے توازن کو رفتہ رفتہ تبدیل کررہا ہے۔ مگر چونکہ پوری ریاست کا ڈھانچہ مغربی تانے بانے سے گندھا ہوا ہے اور روس کے خلاف ماضی میں زبردست پروپیگنڈا کیا گیا ہے اور معاہدۂ تاشقند کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ اس لیے روسی عوام بھارت کو اپنا دوست تصور کرتے ہیں اور پاکستان کو جارح۔ اس لیے روس اور پاکستان کے عوام اور حکومت میں خاصا فاصلہ ہے، جو رفتہ رفتہ ہی دور ہوگا۔
موجودہ صورت حال میں پاکستان کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ بھارت سے تعلقات کو نارمل بنایا جائے، تاکہ دنیا کی نظروں میں پاکستان ایک دہشت گرد ملک کی شکل میں نہ ابھرے۔ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال نے پاکستان کا امیج تباہ کردیا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو، جہاں اجتماعی یا انفرادی وارداتوں کی خبریں نشر نہ ہوتی ہوں۔ پاکستان کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ فرقہ واریت کو مزید سر نہ اٹھانے دیا جائے اور حکومت قانون کو نافذ کرنے کے لیے محض بیانات نہیں بلکہ عملی طور سے مظاہرہ کرے۔
ایم کیو ایم کے قائد نے نہایت جرأت مندی سے کام لیتے ہوئے پاکستان کی امن قائم کرنے کی ذمے دار ایجنسیوں اور علما پر زور دیا ہے کہ اس قسم کی منافرت کو سختی سے کچل دیا جائے، کیونکہ جہاں جہاں امتِ اسلامیہ موجود ہے، وہاں وہاں یہ دونوں فرقے موجود ہیں، کہیں کم کہیں زیادہ، یہاں تک کہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت جہاں شیعہ برادری برائے نام ہے، وہاں بھی ''حسینی دالان'' سے ماتمی جلوس نکالا جاتا ہے۔ رواداری کا یہ سلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔ یہاں تک کہ سنّی شیعہ شادیاں عرب ممالک اور برصغیر پاک و ہند میں صدیوں سے جاری ہیں۔ تاریخ کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ جب بھی ایسے مناقشوں نے سر اٹھایا تو بیرونی حملہ آوروں نے مسلمان حکومتوں کو تہس نہس کردیا اور انسانی سروں کے مینار بنائے۔
بغداد کی تاریخ اور چنگیز خان کی بغداد میں آمد اس بات کا بیّن ثبوت ہے۔ بعد ازاں ہلاکو خان نے اپنا یہی مشن جاری رکھا اور بالآخر ہلاکو خان ایک شیعہ عالم کے ہاتھوں مشرفِ بہ اسلام ہوا۔ کوئٹہ میں آباد ان چنگیزیوں کو عرفِ عام میں ہزارہ قبائل کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ان فتنوں کو دوبارہ اٹھانے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں۔ ہمارے سامنے ملک شام کے واقعات موجود ہیں، جہاں مغربی ممالک نے بشارالاسد کی حکومت کو ہٹانے کے لیے تاریخ کے اس مناقشے سے کام لیا اور وہاں ایک طرف دنیا بھر کے چیچن، ازبک اور دیگر جہادی شام کی حکومت سے برسرِ پیکار ہیں۔
دوسری طرف حزب اﷲ کے حامی اور عراق کے شیعہ مجاہدین بشر الاسد کی حکومت بچانے کے لیے برسرِ پیکار ہیں۔ کیا خدانخواستہ پاکستان میں بھی ایسی قوتیں ایسے حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی جب کہ پاکستان کا محل وقوع شام جیسی کشش رکھتا ہے۔