خواتین کا مقام و تحفظ

شیطان جب بھی کسی سماج و معاشرے کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس معاشرے کی عورتوں کا کردار تباہ کرتا ہے۔

عورت معاشرے کا ستون، خاندان کا مرکزِ محبّت اور قوم کادھڑکتا دل ہے۔ اچھی مائیں ہی ایک اچھی قوم کو پروان چڑھاتی ہیں۔ فوٹو: فائل

اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام انسانوں کو قابل تکریم ٹھہرایا۔

اﷲ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ہم نے اولاد آدم کو عزت دی۔ مرد و عورت کے مجموعے کا نام انسان ہے۔ عورت اور مرد، نوعِ انسانی کے دو اہم جُز ہیں۔ عورت کے بغیر انسانیت کی تکمیل نہیں ہوتی۔ عورت اﷲ تعالیٰ کے لطف و جمال کا مظہر ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے اس کے اندر دل کشی، دل رُبائی، شیرینی اور حلاوت کا جمال رکھا ہے۔ پھر خالق و مالک نے اپنی صفتِ تخلیق عورت کو ہی عطا فرمائی۔ عورت معاشرے کا ستون، خاندان کا مرکز محبت اور قوم کا دھڑکتا دل ہے۔ اچھی مائیں ہی ایک اچھی قوم کو پروان چڑھاتی ہیں۔ اسلام نے عورت کو اس قدر عزت و اہمیت دی کہ قرآن کی ایک عظیم سورۃ کا نام سورۃ النساء ہے۔ پھر ایک سورۃ کا نام سورۂ مریم ہے۔

قرآن پاک میں عورت کا متحرک کردار بھی ہر جگہ نظر آتا ہے۔ اسلام نے انسانیت پر جو بے حد احسانات کیے ہیں، ان میں سے ایک بڑا احسان یہ بھی ہے کہ عورت کو اس کا صحیح مقام عطا فرمایا۔ جب کہ طلوع اسلام سے قبل عورت کی کوئی عزت نہ تھی۔

شریعتِ اسلامیہ نے عورتوں کو وہ حقوق دیے جو انہیں کسی تہذیب اور مذہب نے نہیں عطا کیے۔ قرآن مجید میں جو احکامات مردوں کو دیے گئے وہی عورتوں کو بھی دیے گئے۔ ذیل میں چند قرآنی تراجم پیش کیے جا رہے ہیں جن سے اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔

سورۃ نحل میں ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''جو بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، وہ مومن ہو تو ہم اس کو پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم ان کے عمل کا ان کو بہترین بدلہ دیں گے۔''

سورۃ نور میں ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''کہہ دو مومنین سے کہ اپنی نظریں جھکائے رکھیں، یہ ان کے لیے پاکی کا ذریعہ ہے۔ بے شک اﷲ تعالیٰ ان کے اعمال سے باخبر ہے اور کہہ دو مومن عورتوں سے کہ اپنی نظریں جھکائے رکھیں۔''

فرمانِ الٰہی کا مفہوم: ''سو منظور کرلیا ان کے رب نے ان کی درخواست کو اس وجہ سے کہ میں تم میں سے کسی شخص کے کام کو جو تم میں کرنے والا ہے، اکارت نہیں کرتا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم آپس میں ایک دوسرے کے جزو ہو، تو جو لوگ میرے لیے وطن چھوڑ گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے میں ان کے گناہ دور کردوں گا اور انھیں بہشت میں داخل کر دوں گا۔''

اسلام نے عورتوں کی چاروں حیثیتوں ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کو اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز کیا۔

1۔ عورت بہ حیثیت ماں: والدین کے ساتھ حسن سلوک ان کے ادب و احترام اور فرماں برداری کے جو تاکیدی احکامات قرآن و سنت نے دیے ہیں، کسی اور مذہب نے نہیں دیے۔ ماں وہ عظیم ہستی ہے جس نے نبیّوں اور ولیوں جیسی اعلیٰ ہستیوں کو جنم دیا۔ ماں کی گود اولین درس گاہ قرار پائی۔ ہر مرد جو انسانی ترقی کے عروج پر پہنچتا ہے اس کام یابی و کام رانی پر اپنی ماں ہی کا مرہون منّت ہوتا ہے۔ مشہور و معروف حدیث کا مفہوم ہے: ''ماں کے قدموں تلے جنّت ہے۔''

ایک صحابیؓ نے حضورؐ سے پوچھا کہ یارسول اﷲ ﷺ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟'' آپؐ نے فرمایا: ''تیری ماں'' صحابیؓ نے تین مرتبہ یہی سوال کیا اور آپؐ نے ایک ہی جواب دیا: ''تیری ماں'' چوتھی مرتبہ فرمایا: ''تمہارا باپ۔'' یعنی ماں کو تین درجے مقدم رکھا۔

حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، مفہوم: ''بلاشبہ اﷲ نے تم پر اپنی ماؤں کی نافرمانی اور حق تلفی حرام کردی۔'' (بخاری و مسلم)

2۔ عورت بہ حیثیت بیٹی اور بہن: قبل از اسلام بیٹی کی پیدائش کو منحوس خیال کیا جاتا اور باعث شرم سمجھا جاتا تھا یہاں تک کہ پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا، مگر اسلام نے بیٹی کی پیدائش کو باعث رحمت قرار دے کر معاشرے میں انقلاب برپا کردیا۔

ایک اور موقع پر حضور اکرمؐ نے فرمایا: ''جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغ کو پہنچ گئیں تو قیامت کے روز میں اور وہ اس طرح آئیں گے۔ آپؐ نے اپنی انگشت شہادت کو ساتھ والی انگلی سے ملا کر دکھایا۔


کہاں وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو باعث ندامت سمجھا جاتا تھا۔ اب آنحضورؐ کی قربت اور نارِ جہنم سے دوری کی نوید و بشارت دی جا رہی ہے۔ حضرت فاطمۃ الزہرۃؓ سے حضورؐ کو اتنی محبت تھی کہ انھیں اپنے جگر کا ٹکڑا فرماتے، جب حضرت فاطمہؓ آپؐ سے ملنے آتیں تو آپؐ ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے، کبھی ان کے لیے اپنی چادر بچھاتے۔

اسلام نے پہلی مرتبہ عورت کو مستقل قانونی تشخص عطا کیا۔ وراثت میں باقاعدہ حصہ مقرر کیا۔ وہ اپنی ذاتی ملکیت رکھ سکتی ہے اور اس پر تصرف کا اختیار بھی۔ اسلام سے پہلے کسی مذہب نے عورتوں کو جائیداد میں اس طرح حصہ نہیں دیا۔

3۔ عورت بہ حیثیت بیوی: اسلام سے قبل عورت کو بہ حیثیت بیوی بھی وہ عزت نہیں دی جاتی تھی جس کی وہ حق دار تھی لیکن اسلام نے بیوی کو ایک اعلیٰ مقام اور شناخت دی، یہاں تک کہ ایک موقع پر حضورؐ نے فرمایا: ''جس شخص کو نیک بیوی مل گئی اس شخص کا آدھا دین مکمل ہوگیا۔''

حضورؐ نے آخری خطبے کے موقع پر بھی عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی تلقین فرمائی۔

حضورؐ کی ازواج مطہرات کو ''امہات المومنینؓ'' یعنی امت کی مائیں کہہ کر فضیلت بخشی۔ مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت میں ازواج مطہراتؓ کا نمایاں کردار رہا۔

ایک موقع پر حضورؐ نے فرمایا: ''دنیا پوری کی پوری متاع ہے اور اس کی بہترین متاع نیک عورت (بیوی) ہے۔''

غرض یہ کہ شریعتِ اسلامیہ نے عورتوں کو جس اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز کیا کہ ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ اسلام کا وجود میں آنا خصوصاً عورتوں کے حق میں انقلابی تھا۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ شیطان جب بھی کسی سماج و معاشرے کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس معاشرے کی عورتوں کا کردار تباہ کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا نصف حصہ عورتوں پر مشتمل ہے، یوں معاشرے کو سنوارنے یا بگاڑنے میں عورت کا بہت ہاتھ ہوتا ہے۔

آئیے! اب ہم عورتوں کے چاروں روپ میں اپنا جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام نے جس اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز کیا ہم نے اپنے ہی پاؤں تلے روند تو نہیں ڈالا؟ ہم نے اسلام کی حدود کو پامال تو نہیں کیا؟ کیا ہم اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں کی تربیت اسلام کے مطابق کر رہے ہیں؟ کیا ہم بچوں کو نماز کا عادی بنانے میں کام یاب ہو رہے ہیں؟ کیا ہماری بچیوں کا لباس شریعت اسلامیہ سے مطابقت رکھتا ہے؟ کیا ہمارے پہناوے مردوں کی مشابہت تو نہیں اختیار کر رہے؟

حضورؐ نے مخالف جنس کی مشابہت سے منع فرمایا ہے۔ ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں رسول اﷲ ﷺ نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔'' (صحیح بخاری)

کیا ہمارا طرزِ معاشرت، طرزِ بود و باش اسلامی اقدار کے مطابق ہے؟

کیا ہم مغربی تہذیب سے متاثر و مرعوب ہو کر اس کی تقلید کرکے اپنے آپ کو برتر تو نہیں سمجھ رہے؟

مغربی تہذیب کی تقلید کے بارے میں علامہ اقبال کا یہ شعر بالکل درست ہے:

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

اﷲ تعالیٰ ہم سب خواتین کو اسلام کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین
Load Next Story