امن معاشرہ اور سزاؤں کا اسلامی تصوّر

اسلامی فلاحی مملکت کا تو بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کے لیے ریاست کو امن کا گہوارہ بنائے۔

اگر مجرم کو سزا نہ دی جائے تو کوئی فلاحی ریاست معرض وجود میں نہیں آسکتی۔ فوٹو: فائل

دنیا کے متعصّب لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کی سزائیں بڑی وحشیانہ، ظالمانہ، غیر فطری اور غیر انسانی ہیں۔ جب کہ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی قانون سزاؤں سے مستثنیٰ نہیں۔

وہ ممالک جو کسی مذہب کو نہیں مانتے، وہ بھی اپنے قوانین میں سزاؤں کا ایک نظام رکھتے ہیں اور وہ معمولی جرائم پر ایسی وحشیانہ سزائیں بھی دیتے ہیں جن کا تصور بھی قرآن و سنّت میں نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے ہر ملک کے قانون میں سزاؤں کا ایک نظام موجود ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام نے حدود تعزیرات کا جو نظام دیا ہے اس سے ہی جرائم کی روک تھام ممکن ہوسکتی ہے۔

اﷲ ہی نے انسان کی تخلیق کی اور اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے۔ یہ بات معروف ہے کہ جو انجینیر جس مشین کا مُوجد ہوتا ہے وہ اس کی سب سے بہترین اصلاح بھی کرسکتا ہے۔ لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ ان نام نہاد مہذب لوگوں نے جرائم کی تعریف ہی بدل ڈالی ہے۔ ان کے ہاں زنا صرف وہ ہوتا ہے جو کسی کے ساتھ زبردستی کیا جائے، اگر باہمی رضامندی سے بدکاری کی جائے تو یہ زنا کی تعریف میں نہیں آتی اور واجبِ سزا نہیں۔ بل کہ ایسے مادر پدر آزاد معاشروں میں اگر ماں باپ اپنے بچوں کو منع کرنے کی کوشش کریں تو وہ قابل گردن زنی قرار پائیں۔

بہ ہر حال یہ بات واضح ہے کہ دنیا کا کوئی قانون سزا کے نظام سے مستثنیٰ نہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ سزا سے اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ جیسے اہم مقاصد حاصل ہوتے ہیں، اس لیے اسلام نے جو سزائیں مقرر کی ہیں، وہ ناصرف اصلاح نفس و معاشرہ کے لیے کام آتی ہیں بل کہ یہ ایسا نظام ہے جو باعث برکت و رحمت ہے۔ جو لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو کا محافظ بھی ہے اور دنیا میں باعث امن اور آخرت کے لیے فوز و فلاح کا ضامن بھی ہے۔

اسلام نے حدود کو اس لیے قانونی صورت دی کہ یہ اﷲ کی طرف سے اس کے بندوں کے لیے باعث رحمت ہے، اگر وہ ان حدود کو قائم کیے رکھیں، ان سے آگے نہ بڑھیں، انہیں لازم جانیں اور انہیں پامال نہ کریں تو اسلامی معاشرے میں عدل کی حکم رانی ہو، امن و امان کا دور دورہ ہو، اہل اسلام امن و آشتی کے ساتھ رہیں اور یہ بلاشک و شبہ دنیا میں ترقی اور کمال کا زینہ اور آخرت کے لیے فلاح و فوز کا ضامن ہوگا۔ فرق صرف یہ ہے کہ باقی ممالک کی سزائیں خود ساختہ اور ان کے اپنے اذہان کی پیداوار ہے جب کہ اسلامی سزاؤں کا نظام اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا تشکیل کردہ ہے۔

قرآن و سنّت میں جن جرائم کی سزائیں متعین کی گئی ہیں وہ یہ ہیں: زنا۔ قذف یعنی جھوٹی تہمت۔ چوری۔ خمر یعنی شراب۔ حرابہ یعنی ڈاکہ۔ اور ارتداد یعنی اسلام سے مرتد ہونا۔ قتل نفس کو اس لیے حدود اﷲ میں شامل نہیں کیا گیا کیوں کہ وہ بندے کا بندے پر حق ہے اور اس کے لیے قرآن و سنت میں قصاص و دیت کا پورا قانون موجود ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک آدمی برائی کا مرتکب کیوں ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ''قسم انسان کی اور اس کی جس نے اس کے اعضاء کو برابر کیا، پھر اس کے نفس میں نیکی اور برائی کے جذبات ڈال دیے۔''


''ہم نے انسان کو صراط مستقیم کی ہدایت دی، اب اس کی مرضی ہے کہ وہ شُکر گزار بن جائے یا ناشُکرا بن جائے۔''

ثابت ہوا انسان کو برائی پر اکسانے والے یہی دو عوامل ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ انسان برائی کرنے کے بعد شیطان کو کوستا ہے، لیکن اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ شیطان انسان کا دشمن ہی سہی لیکن ''شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے اپنا دشمن جانو۔'' لیکن انسان کا نفس شیطان سے بھی بڑا دشمن ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جب دنیا میں شیطان نہیں تھا تو پھر شیطان کو کس نے گم راہ کیا۔ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ابلیس کو اس کے نفس نے گم راہ کیا۔ اسلامی سزاؤں کا نظام مجرم کی اصلاح کرتا ہے۔

لہذا اسلام نے جو سزائیں دی ہیں، ان کا پہلا بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ اس کی اصلاح کی جائے۔ چور کا ہاتھ کاٹنا ظلم نہیں بل کہ اصلاح نفس کی ہی ایک صورت ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے بنو مخزوم کی عورت کا جب ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا تو آپ ﷺ کے پاس سفارش کی گئی تھی کہ آپؐ کوئی جرمانہ تاوان وغیرہ لگا دیں مگر ہمارے قبیلے کے عورت کے ہاتھ نہ کاٹیں۔ تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ قسم اﷲ کی کہ اگر فاطمہؓ بنت محمدؐ بھی اس جرم کی مرتکب ہوتیں تو ان کے بھی ہاتھ قطع کر دیے جاتے۔

تقاضائے بشریت کی بنیاد پر انسان سے خطائیں سرزد ہوتی ہیں، اس سلسلے میں عبداﷲ بن ابراہیم الانصاری نے بہت پُرحکمت بات کہی ہے: ''بعض نفوس انسانی میں فطرت سلیمہ سے انحراف پیدا ہو جاتا ہے اور ان کی طبائع خباثت کا شکار ہوتی ہیں، مذاق شر ان میں بڑھ جاتا ہے اور وہ جرم کی مرتکب ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک کسی کی عزت، عظمت اور شرف کا کوئی پاس اور قیمت نہیں ہوتی، نہ انہیں کسی کی فضیلت کا احترام و لحاظ ہوتا ہے، ایسی قسم کے لوگوں کو اگر رسی ڈھیلی چھوڑ دی جائے تو وہ زمین میں بے پناہ فساد برپا کرتے ہیں، اﷲ کے بندوں اور ممالک میں بدبختی طاری ہوتی ہے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی اصلاح کا طریقہ بتایا ہے اور ایسے ضابطے اور قوانین بتائے ہیں جو ان کی بے راہ روی کو ٹھیک کرتے ہیں، پس اﷲ نے ایسے گم کردہ راہ لوگوں کا علاج، جرم کو بیخ و بن سے اکھیڑنے اور ظلم و زیادتی کے جراثیم ختم کرنے کے لیے حدود نازل کیں۔''

اسلامی حدود و تعزیرات کا دوسرا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ معاشرے میں امن اور استحکام پیدا ہو۔ اسلامی فلاحی مملکت کا تو بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کے لیے ریاست کو امن کا گہوارہ بنائے، اگر مجرم کو سزا نہ دی جائے تو کوئی فلاحی مملکت معرض وجود میں نہیں آسکتی، وہ معاشرہ جنگل کا معاشرہ ہوگا، جس میں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کا قانون چلے گا، یہ چیز پھاڑ کر کھا جانے والے درندوں کی بستی ہوگی۔ فرد کی سزا اور اصلاح کا مقصد معاشرے کی اصلاح و فلاح ہے۔

اﷲ نے انسان کی تخلیق کی اور وہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی اصلاح کیسے اور کتنی سزا سے ہو سکتی ہے، لہذا اسلامی حدود و تعزیرات کا نظام انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، بل کہ اپنے اندر بہت سی سماجی اور اخلاقی پہلوؤں کی اصلاح کا بھی ضامن ہے۔
Load Next Story