جو امت سرکار دوعالمﷺ کی توہین پر کچھ نہ کرسکے اسے مرجانا چاہیے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
ملکی قوانین کی خلاف ورزی پر لوگ مقرر ہیں تو سرکار دو عالمﷺ کی حرمت کے معاملے پر کیوں نہیں؟ جسٹس قاسم خان
لاہور ہائی کورٹ نے توہین آمیز پوسٹوں کے خلاف قوانین پیش کرنے کا حکم دے دیا اور کہا ہے کہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی پر لوگ مقرر ہیں تو سرکار دو عالمﷺ کی حرمت کے معاملے پر کیوں نہیں؟
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کے خلاف گزٹڈ نوٹی فکیشن جاری ہو چکا ہے، سائبر کرائم رولز میں شکایات کے اندراج اور کارروائی کا ذکر موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی سیکولر حکومت ہے جس نے یہ رولز منظور کیے؟ آپ نے جو رولز جمع کروائے اس سے ایسا لگتا ہے کہ جو آدمی متاثر ہے صرف وہی شکایت درج کروا سکتا ہے، میں تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کے معاملے میں بڑا کلیئر ہوں، اگر ملکی قوانین کی خلاف ورزی پر لوگ مقرر کر رکھے ہیں تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معاملہ بھی تو قانون میں شامل ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ اس امت کو مر جانا چاہیے کہ اگر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ہو تو وہ کچھ کر نہ سکے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ اسی معاملے پر 9 مقدمات درج کیے ہیں، عدالت اس معاملے پر معاونت فراہم کرنے کے لیے مہلت دے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں تک کے لیے ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کے خلاف گزٹڈ نوٹی فکیشن جاری ہو چکا ہے، سائبر کرائم رولز میں شکایات کے اندراج اور کارروائی کا ذکر موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی سیکولر حکومت ہے جس نے یہ رولز منظور کیے؟ آپ نے جو رولز جمع کروائے اس سے ایسا لگتا ہے کہ جو آدمی متاثر ہے صرف وہی شکایت درج کروا سکتا ہے، میں تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کے معاملے میں بڑا کلیئر ہوں، اگر ملکی قوانین کی خلاف ورزی پر لوگ مقرر کر رکھے ہیں تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معاملہ بھی تو قانون میں شامل ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ اس امت کو مر جانا چاہیے کہ اگر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ہو تو وہ کچھ کر نہ سکے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ اسی معاملے پر 9 مقدمات درج کیے ہیں، عدالت اس معاملے پر معاونت فراہم کرنے کے لیے مہلت دے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں تک کے لیے ملتوی کر دی۔