کوچۂ سخن

سرمئی شام کی وحشتوں کو لیے کوئی گھر سے چلا، صبحِ ضوریز کی چشمِ نم ناک سے اٹھ رہا تھا دھواں

فوٹو : فائل

QUETTA:

غزل



سب کھلونوں کی طلب سے ماورا ہوجائے گا
کب تلک بچہ رہے گا دل بڑا ہوجائے گا
اس طرح اصرار سے تم پوچھتے ہو خواہشیں
جوں طلسمی شہر ہے یہ جو کہا ہو جائے گا
طاق تھا رسّی پہ چلنے کے میاں میں کام میں
اُس نے سوچا تھا کہ اِس سے کون سا ہو جائے گا
دل کے گُلک میں ہنسی کی ریزگاری ڈال کر
تب نکالوں گا میں جب اک قہقہہ ہو جائے گا
بیٹھ جانے کا کہاں کہتے اگر تم جانتے
مسئلہ جو بیٹھ جانے سے کھڑا ہو جائے گا
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)


۔۔۔
غزل



اس پھول کی خوشبو تو دل آویز بہت ہے
لیکن ترے جنگل کی ہوا تیز بہت ہے
کیوں لوگ چلے جاتے ہیں پردیس میں یارو
مٹی مرے گاؤں کی بھی زرخیز بہت ہے
کچھ صبح سویرے ہی چہکتے ہیں پرندے
کچھ میری طبیعت بھی سحر خیز بہت ہے
سونے نہیں دیتا مجھے دھڑکن کا کوئی شور
اور دل اسی رفتار پہ مہمیز بہت ہے
کچھ دیر ٹھہر جاؤ تو احسان ملے گا
پیمانۂ کوثر ابھی لبریز بہت ہے
(احسان گھمن۔ جلالپور جٹاں)


۔۔۔
غزل



ہمارا ذکر کسی کی زباں تک آ گیا تھا
وہ نفع چھوڑ کے آخر زیاں تک آ گیا تھا
دعا کے ساتھ میں اشکوں کے ہار بھیجتا تھا
کہ صبر ٹوٹ کے آہ و فغاں تک آ گیا تھا
ہمارے دل سے پری زاد پیٹتے نکلے
کہ وہ جو اصل مکیں تھا مکاں تک آ گیا تھا
ہمارے پاس سہولت تھی شعر کہنے کی
سو زخم سوکھ کے جلدی نشاں تک آ گیا تھا
اب اس سے بڑھ کر اسے اور کیا خسارہ ہو
یقین ٹوٹ کے واپس گماں تک آ گیا تھا
(حسیب الحسن ۔خوشاب)


۔۔۔
غزل



ہاتھ کی ساری لکیریں ہیں تہی، کیسے ہو
عشق ہو؟ یار بتاؤ تو سہی کیسے ہو
میں اسے کہتا رہا بات کرو بات کرو
اور وہ کہتی رہی ایک یہی، کیسے ہو؟
دلِ سادہ تیری خواہش ہی غلط ہے ورنہ
ہو بہو اس سا تو مل جائے، وہی کیسے ہو
ایک تعظیم کا رشتہ ہے مرا اس کے ساتھ
وہ کوئی بات کہے مجھ سے نہی، کیسے ہو
اتنا کم گو ہوں کہ ملتا ہی نہیں لوگوں سے
پھر وہی اچھا، وہی ٹھیک، وہی کیسے ہو
(نذر حسین ناز۔ چکوال)


۔۔۔
''ایمان''



مجھے اقرار ہے دل سے
کہ میں ایمان لاتا ہوں
تمھاری لا شریک آنکھوں کی وحدت پر
تمھارے مہرباں ہونٹوں کی رحمت پر
تمھارے حسن کی سب آیتوں پر بھی
تمھاری گفتگو کے معجزوں پر بھی
شہادت دے رہا ہوں میں
تمھارے وصل کی شاداب جنت کی
مجھے اپنی اماں میں رکھ
جدائی کے عذابوں سے
مجھے توفیق دے اپنی محبت کی
(ایمان سجاد سلیم۔ چکوال)


۔۔۔
غزل



مصیبتیں سر برہنہ ہوں گی عقیدتیں بے لباس ہوں گی
تھکے ہوؤں کو کہاں پتہ تھا کہ صُبحیں یوں بد حواس ہوں گی
تُو دیکھ لینا ہمارے بچوں کے بال جلدی سفید ہوں گے
ہماری چھوڑی ہوئی اُداسی سے سات نسلیں اُداس ہوں گی
کہیں ملیں تم کو بھوری رنگت کی گہری آنکھیں، مجھے بتانا
میں جانتا ہوں کہ ایسی آنکھیں بہت اذیت شناس ہوں گی
میں سردیوں کی ٹھٹھرتی شاموں کے سرد لمحوں میں سوچتا ہوں
وہ سرخ ہاتھوں کی گرم پوریں نجانے اب کس کو راس ہوں گی
یہ جس کی بیٹی کے سر کی چادر کئی جگہ سے پھٹی ہوئی ہے
تم اُس کے گاؤں میں جا کے دیکھو تو آدھی فصلیں کپاس ہوں گی
(دانش نقوی ۔خانیوال)


۔۔۔


غزل



کہیں پہ ہجر کہیں وصل کی اداؤں کی
تمہیں کہانی سناتی ہوں بے وفاؤں کی
ہوا ہے ایک دیہاتن کو عشق شہری سے
سو اس کو سخت ضرورت ہے اب دعاؤں کی
ہر ایک شخص قبیلوں کے دکھ ہی لکھتا رہا
کوئی تو لکھے کہانی کبھی رداؤں کی
ہم ایسے لوگ ہی تو دوسروں کے کام آئے
کہیں پہ دھوپ میں برسے کہیں پہ چھاؤں کی
یہ خامشی کسی طوفاں کا پیش خیمہ نہیں
کوئی تو کان دھرے بات پہ ہواؤں کی
یہ میری آنکھ بھلے شہر کی لگے لیکن
یہ میرا دل تو امانت ہے میرے گاؤں کی
(افشاں کنول۔ اسلام آباد)


۔۔۔
غزل



ہم فکر اٹھا لائے، فطرت کے خزانے سے
تھی عار مگر اُس کو، کاغذ پہ سمانے سے
وادی میں اتر آئے، پربت کے ٹھکانے سے
عاشق تھے سمندر کے، ہم ایک زمانے سے
بادل کے اُڑانے میں، کردار ہے ان کا بھی
روکو نہ درختوں کو بارش میں نہانے سے
نوکر ہے زمیں میری، چاکر ہے مِرا سورج
خادم ہیں مرے دریا، پتھر کے زمانے سے
دنیا میں اندھیرے کا ہمزاد اجالا ہے
ہے نورِ سحر بنتا، دونوں کو ملانے سے
تاثیرؔ کے سینے میں، یوں ہی نہیں دل روشن
کرنوں کو محبت ہے، اس آئینہ خانے سے
(تاثیر خان۔ سوات)


۔۔۔


''بے بسی''



سرمئی شام کی وحشتوں کو لیے
کوئی گھر سے چلا
صبحِ ضوریز کی چشمِ نم ناک سے اٹھ رہا تھا دھواں
ایک قصہ سناتا ہوا
رنج اٹھاتا ہوا قافلہ
تیری منزل الگ میرا رستہ الگ
گرد اوڑھے ہوئے
کوئی چلتا رہا
صبح اور شام کا کیسے ہوتا ملن
پیڑ چھاؤں سے خود ہی الجھنے لگے
اور پنچھی سبھی گھونسلے چھوڑ کر
دائمی ہجرتوں کے حوالے ہوئے
ہجر آنکھوں میں جب ہو سمایا ہوا
نیند کو راستہ کب میسر ہوا؟
خواب بھی در بدر اب بھٹکنے لگے
آہ بھرنے لگے
رات ڈھلنے لگی چاند جلنے لگا
چپ فلک پر کوئی دیکھتا رہ گیا
کوئی کاندھا تلک نہ میسر ہوا
بے بسی سے مری سانس رکنے لگی
کوئی بچھڑا ہوا یاد آنے لگا !
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)


۔۔۔
غزل



بتا زمین یا پھر آسماں سے نکلے گا
یا منزلوں کا پتہ درمیاں سے نکلے گا
مرے وجود میں اچھی طرح سے گوندھا گیا
خمیر عشق کا سو اب کہاں سے نکلے گا
تُو میرے بعد لٹانا وہ سب مکاں مالک
جو خواہشات کا ملبہ مکاں سے نکلے گا
جو میرے قتل کے مشکوک لوگ پکڑو گے
تو پہلا شخص مرے خانداں سے نکلے گا
تمہارا صبر ہے کتنا پتہ چلے گا تب
خدا کے جب تو کسی امتحاں سے نکلے گا
(شہباز ماہی۔ رینالہ خورد، اوکاڑہ)


۔۔۔
غزل



کچھ تو نا تا ہے تیرے در سے ہمیں
جو لے آتا ہے ہر نگر سے ہمیں
ہم مسافر جو ٹھہرے راتوں کے
کیا خوشی آمدِ سحر سے ہمیں
وہ خوشی بھی بہت ہے اپنے لیے
جو ملے سپنوں کے نگر سے ہمیں
زیست اپنی کتاب ہے سچ کی
چاہے پڑھ لو جدھر جدھر سے ہمیں
کتنا ہے تم سے پیار دیکھو تو
گر ہماری ہی تم نظر سے ہمیں
جب نصیبوں میں ہی معین وہ نہیں
پھر گلہ کیا کسی بشر سے ہمیں
(معین فخر معین۔ کراچی)


Load Next Story