جب زوج ٹوٹتا ہے
ڈاکٹر، انجینئر، افسر، حاکم، تاجر، لیڈرانسان نہیں رہے ہیں صرف کمائی کی مشین بن گئے۔
سب سے بڑے اور عظیم ''انتشار و ارتکاز'' کے بعد پوری کائنات میں جاری وساری مادے اورتوانائی کے زوج کے بعد اہم ترین زوج انسانی نر و مادہ کا زوج ہے بلکہ یہ سارے ازواج اسی ایک ''زوج'' زوج بنانے کے لیے وجود میں آئے ہیں اور آتے رہتے ہیں، رب جلیل نے بھی ''کلّھا'' میں درمیانی زوج کا ذکر یوں کیا ہے ''من انفسہم'' جو تمہارے خود کے اندر ہے اور اس زوج کا کام اپنے سلسلے کو آگے بڑھانا ہے ۔ اب جب کائنات کا ہر زوج منفی و مثبت کا ہوتا ہے ، تو منفی اور مثبت کا تناسب بھی اس کا وہی ہے جو کائنات کا ہے۔
مادہ اور توانائی ، جسم اور روح ، ظاہر اور باطن ۔ چنانچہ یہ زوج جو انسانی نر و مادہ پر مشتمل ہوتا ہے اس میں بھی ایک کا کام مادی یا جسمانی ہے اوردوسرے کا باطنی یا روحانی، صاف اور عام فہم زبان میں کہا جائے تو ان دونوں سے نسل انسانی کو تقویت ملتی ہے۔
اس کی تعمیر کا جسمانی اور مادی پہلو نر کے ذمے ہوتا ہے اور باطنی پہلوکی تعمیر کی مادہ ذمے دار ہوتی ہے ، دونوں کی پیدائش ماہیت اور صلاحیت اسی نہج پر ہے کہ مرد اس بچے کی جسمانی اور مادی ضروریات پوری کرے گا اور ماں اس کے اندرونی یا ذہنی و روحانی ''تعمیر'' کی ذمے دار ہوتی ہے، اس بنیاد پر موازنہ کیا جائے تو دونوں میں اہم ترین ذمے داری عورت یا ماں کی ہوتی ہے۔
جسمانی ضروریات تو کوئی بھی پورا کر سکتا ہے لیکن اندرونی تعمیر کے تقاضے صرف اپنی ماں ہی بطریق احسن پورے کر سکتی ہے یہی اس ''زوج'' کا مقصد و مرام ہے کہ دونوں مل کر اور اپنی اپنی ذمے داری نبھا کر آیندہ نسل کی تعمیر کریں لیکن ہمارے آج کے نظام میں دیکھا جائے تو یہ زوج یکسر ٹوٹا ہوا ہے۔
باپ کا کام بچوں کو ضروریات زندگی مہیا کرنا اور ماں کا کام ان کی تعلیم و تربیت ہے مگر مرد نے اپنی ذمے داری بھی عورت پر ڈالی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں عورت بیچاری اپنی ذمے داری سے قاصر ہو کر وہ کام نوکروں، دائیوں ، خادماؤں اور تجارتی درس گاہوں کے سپرد کرنے پر مجبور ہے اور اس کی وجہ ہے چالاک عیار اور خود غرض مرد کا ابلیسی دماغ، جسے سمجھنے کے لیے ہمیں انسانی تاریخ پر بہت دور تک نظر ڈالنا ہو گی۔
اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ چاہے یہ بیچاری عورت اپنے مقاصد کے لیے کچھ بھی نعرے لگائے، ترانے گائے اور فلسفے ایجاد کرے لیکن عورت بہرحال صنف نازک ہے، جسمانی اور ذہنی طور پر پس ماندہ ہے اسی لیے تو مرد نے اسے آج کل ''آزادی نسواں'' کے طلسم میں ہپناٹائز کیا ہوا ہے ۔
یہ حقیقت تو اب ہر کسی کو معلوم ہے کہ استعمال اور عدم استعمال کا اثر اشیاء اور اعضا پر پڑنا لازم ہے یہ ہم دنیا میں قدم قدم پر مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ تیز دوڑنے کی وجہ سے گھوڑے کی صرف ایک انگلی کا ناخن مضبوط ہو گیا ہے، کچھ جانوروں کے دو کھر نشو و نما پا گئے، اونٹ کا پیر ریگستان کے مطابق اور ہاتھی کا دلدل کے مطابق ہو گیا ہے ، دانہ کھانے والے پرندوں کی چونچ سیدھی ، گوشت کھانے والوں کی مڑی ہوئی اور طوطے کی سخت چیزیں کترنے کے مطابق، کام لینے کی وجہ سے انسان کے اگلے پیر بازو اور پرندے کے پروں میں بدل گئے۔
انسان کی پانچوں انگلیاں استعمال کی وجہ سے ترقی یافتہ ہو گئی ہیں ، سانپ کے پر ہی عدم استعمال کی وجہ سے معدوم ہو گئے ہیں، اسی طرح دماغ بھی ایک عضو ہے اور جسم بھی ۔ آج بھی ہم انسانوں کے درمیان جسم و دماغ کے استعمال اور عدم استعمال کے مظاہرے دیکھتے ہیں۔
ٹھیک ویسے ہی ''عورت'' کو ایک محدود ماحول میں رکھ کر ''جسم و دماغ'' کے عدم استعمال کے ایک طویل دور سے گزارا گیا چنانچہ اس کے جسم اور دماغ دونوں کم زور اور محدود ہو گئے جب کہ مرد باہر کی دنیا میں طرح طرح کے حالات آفات، دوڑ دھوپ، جنگ و جدل کا سامنا کرتا رہا اور اس کا جسم اور دماغ دونوں مضبوط ہوتے رہے یہاں تک کہ اس کا ذہن اور دماغ دونوں انتہائی ترقی پا کر ''ابلیسی'' ہو گئے اور عورت کورا کاغذ ہو گئی۔
تب اس چالاک عیار اور مکار مرد نے سوچا کہ کیوں نہ اپنا کام اپنی ڈیوٹی اور اپنی ذمے داری بھی اس پر ڈال دے، وہی ذمے داری جو اس زوج میں مرد کی تھی یعنی گھر کی، اولاد کی، جسمانی ضروریات پوری کرنا۔ سو اس نے بڑی چالاکی سے عورت کے کان میں آزادی اور برابری کے نعرے پھونک کر اسے ہپناٹائز کر دیا ، برین واش تو وہ پہلے سے تھی چنانچہ خوش نما ترغیبات میں آسانی سے آ گئی بلکہ وہ سب کچھ خود بخود کرنے لگی جومرد چاہتا تھا یا پہلے اس سے زبردستی کرواتا تھا یعنی اس کو کمائی کا ذریعہ بنا کر ''اپناکام'' اس سے کروانا، اس بیچاری کاذہن اور جسم دونوں ہی ہزاروں سال کے عدم استعمال کا شکار تھے چند خوش نما نعروں، ترغیبات اور بہلاؤں میں آ گئی۔
آزادی نسواں کے گمراہ کن نعرے ، صنف نازک کسی سے کم نہیں، عورت مرد کے کاندھے سے کاندھا ملا کر چل سکتی ہے ، عورت کسی بھی میدان میں مرد سے پیچھے نہیں، عورت سب کچھ کر سکتی ہے ، لڑ سکتی ہے،جہاز اڑا سکتی ہے، کرکٹ کھیل سکتی ہے وغیرہ وغیرہ، بیچاری جان ہی نہیں پائی کہ اسے اپنے مخصوص اور انتہائی اہم ترین اور بہت بڑے کام سے ہٹایا جا رہا ہے چنانچہ کمائی کے دھن میں اور مرد کی عیارانہ شاباشی نے آزادی نسواں اور مرد کے گلوبند کا اسیرکرایا اور اس کا اپنا اصل کام اولاد کی ''اندرونی تعمیر''،تعلیم و تربیت... بوتل، دائیوں ، نوکروں اور تجارتی درسگاہوں پر چھوڑ دیا، جہاں صرف ڈاکٹر، انجینئر، افسر اور ماہرین بنائے جاتے ہیں انسان نہیں۔
اس پر ہم چیخ چلا رہے ہیں کہ ڈاکٹر، انجینئر، افسر، حاکم، تاجر، لیڈرانسان نہیں رہے ہیں صرف کمائی کی مشین بن گئے اور جنھوں نے سارے نظام کو ایک جنگل بنا کر رکھ دیا۔
ایسا تو یقیناً ہو گا کہ آپ نے ''انسانی تعمیر'' کرنے والی ''ماں'' کو دوسرے کاموں پر لگا دیا جو اس کے نہیں دوسرے زوج کے کام ہیں۔ خلاصہ اس ساری بات کا یہ ہے کہ نر و مادہ ، مرد وعورت اور والدین کا زوج ٹوٹ گیا ہے اور جب زوج ٹوٹتا ہے تو تباہی تو ہو گی اور ضروری نہیں کہ ''ایٹم'' کے زوج کی طرح ہر زوج کے ٹوٹنے کی آواز یا دھماکا بھی ہو۔