’’پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور تعاون کیا‘‘

بھارت میں سیاست اب مذہب اور ذات پات کے گرد گھوم رہی ہے


December 06, 2020
میں نے اپنی مایوسی کا علاج مطالعے میں دریافت کیا، سابق امریکی صدر براک اوباما کی کتاب ’’A Promised Land‘‘ سے کچھ اہم اقتباسات

امریکا کے 44 ویں صدر کے عہدے سے سبک دوش ہونے والے براک اوباما کی حال ہی میں شایع ہونے والی کتابA Promised Land نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے۔

اوباما کی یادداشتوں پر مشتمل اس تصنیف میں سابق امریکی صدر نے سپر پاور ملک کے صدر کے طور پر اپنی مشکلات، فیصلوں اور عالمی معاملات پر مفصل نظر ڈالی ہے۔ اوباما نے اس کتاب میں امریکا کو درپیش چیلنجز کو تفصیل سے قلم بند کیا ہے۔ یہ کتاب 902 صفحات پر مشتمل ہے، جس کے سات ابواب کے 27 حصے ہیں جن کے چار عنوانات پاکستان سے متعلق ہیں، ان موضوعات میں پاکستان کے افغانستان سے تعلقات، پاکستان بھارت کی کشیدگی, پاکستان میں القاعدہ اور ڈرون حملوں کے بابت بات کی گئی ہے۔

سابق امریکی صدر نے پاکستان کی تین شخصیات پر بھی بات کی جس میں پاکستان کے سابق صدر آصف زرداری, سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی پر بھی گفتگو کی ہے۔

نو سو دو صفحات پر مشتمل کتاب میں لفظ پاکستان 83 اسلام 43، مسلمان 55، براعظم ایشیا 44، بھارت 78، سعودی عرب 21 ، افغانستان 148 ، ایران 160، عراق 185، اسامہ بن لادن 91 ، القاعدہ 60 جب کہ پاکستان کے قبائلی و پہاڑی علاقے فاٹا جو اب صوبہ خیبر پختونخواہ کا حصہ ہے، کو 4 بار ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔

کتاب کے ابتدائیے میں ہی براک اوباما نے لکھا ہے کہ بطور امریکی صدر میں نے اپنی ریاست کی بلاامتیاز رنگ و نسل خدمت کی۔ اپنے ملک کی دنیا بھر میں مقبولیت کو دیکھ کر مجھے اپنے امریکی ہونے پر فخر ہے۔ میں اس فخر کو قائم رکھنا چاہتا ہوں۔ میرے صدارتی عہد میں دنیا دہشت گردی سے نبردآزما تھی11 /9 کے الم ناک واقعے نے امریکی دفاع کو عالمی سطح پر انتہائی کم زور ظاہر کیا تھا۔ بطور امریکی شہری مجھے اس بات کا ذاتی طور پر قلق تھا۔ صدر ہونے کے ناتے مجھے ایسی طاقت ور حکمت عملی مرتب اور نافذالعمل کروانی تھی جس سے سپرپاور کا وقار بحال ہوسکے۔

اس دوران امریکا میں بھی دہشت گردی کے واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ ہم فیصل شہزاد نامی پاکستانی طالبان کو گرفتار کرنے میں کام یاب ہوئے۔ پاکستان نے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم سے بھرپور تعاون کیا، کیوںکہ پاکستان خود بھی شورش کا شکار تھا۔ پاکستان میں افغان اور مقامی طالبان مل کر اپنی دہشت پھیلا رہے تھے۔ یہ عناصر پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے خطرہ بن چکے تھے۔ پاکستان کے پہاڑی اور سرحدی علاقوں میں طالبان پنجے گاڑ چکے تھے۔ میں نے پاکستان کے حالات دیکھ کر اندازہ لگایا کہ ان میں طالبان سے مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں، لہٰذا ہم نے ماہانہ دس بلین ڈالر کے اسراف پر 30 ہزار نیٹو افواج کو یہ ٹاسک دیا کہ وہ طالبان کا قلع قمع کریں۔ پاکستان ہمارا بہترین اتحادی رہا۔ اس نے افغانستان پہنچنے میں ہماری مکمل زمینی مدد کی جب کہ روس نے ہمارے ساتھ فضائی تعاون کیا۔

اسامہ بن لادن کے خلاف ہونے والے آپریشن کے بارے میں اوباما لکھتے ہیں کہ ہمارے ٹروپس نے ہمیں آگاہ کیا کہ عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن پاکستان کے پہاڑی سلسلے میں موجود ہے۔ میرے ماتحتوں نے مجھے بارہا اپنے ارادے پر نظرثانی کے لیے کہا۔ نائب صدر جو بائیڈن اور وزیردفاع رابرٹ گیٹس نے مجھے متعدد بار کارروائی کرنے سے روکا مگر میں نے طے کرلیا تھا کہ اگر میں القاعدہ کی کمر توڑنے میں ناکام رہا تو فوری استعفٰی دے دوں گا مگر کارروائی کرکے دم لوں گا۔ مصدقہ اطلاع پر ہم نے پاکستان میں کام یاب کارروائی کی اور عالمی سطح پر مطلوب دہشت گرد یکم مئی 2011 کی رات ہلاک کردیا گیا۔

امریکا کے سابق صدر براک اوباما نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں نیوی سیلز کے آپریشن میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد میرا خیال تھا کہ پاکستانی صدر آصف زرداری کو کال کرکے اس خبر سے آگاہ کرنا میرے لیے مشکل امر ثابت ہوگا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ اس واقعے کے بعد پاکستان کے صدر آصف زرداری پر پورے ملک سے ریاست کی سالمیت کی تضحیک کرنے کے حوالے سے دباؤ ہوگا۔ میں توقع کر رہا تھا کہ یہ کافی مشکل کال ہوگی، لیکن جب میں نے ان سے رابطہ کیا تو ایسا بالکل نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بھی رد عمل ہو، یہ بہت خوشی کی خبر ہے انھوں نے اپنی اہلیہ بینظیر بھٹو کا بھی ذکر کیا جنھیں 'القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے ہلاک کیا تھا۔'

سابق امریکی صدر براک اوباما اپنی کتاب اے پرومسڈ لینڈ میں پاکستان کے حوالے سے بھارت کی نفرت انگیزی پر لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں قومی اتحاد کا تیزترین راستہ "پاکستان کے ساتھ دشمنی کا اظہار کرنا ہے۔" بہت سے ہندوستانی (اس بات پر) بڑا فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ملک نے پاکستان سے مقابلہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام تیار کیا ہے۔ انہیں اس بات کی قطعی فکر نہیں کہ اس سے خطے کے حالات جنگی کشیدگی کی جانب جائیں گے۔

اس کتاب میں اوباما نے سیکولر بھارت کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھا کہ ہندوستان کی سیاست اب بھی مذہب، قبیلے اور ذات پات کے گرد گھوم رہی ہے۔ انہوں نے 2015ء میں بھارت کے دورے کے موقع پر سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سِنگھ سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ میری ذاتی رائے کے مطابق ہندوستان میں مسلم مخالف جذبات نے ہندو قوم پرست بی جے پی کے اثر کو مضبوط کیا ہے۔ واضح رہے کہ 2015 میں بھارتی جنتا پارٹی حزب اختلاف میں تھی۔

اوباما نے بھارت کی صورت حال پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ انتہاپسندی، جنون، بھوک، بدعنوانی، قومیت، نسلیت اور مذہبی عدم رواداری کے مسائل بھارت میں اس حد تک مضبوط ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی جمہوری نظام ان پر مستقل قابو نہیں پاسکتا۔ یہ مسائل اگر وقتی طور پر قابو میں آ بھی جاتے ہیں تو معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ، آبادی میں تبدیلی یا کسی طاقت ور سیاسی راہ نما کے ہوا دینے پر لوگ دوبارہ انتہا پسندی اور سرکشی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ براک اوباما نے اپنی کتاب میں یہ بھی تحریر کیا ہے کہ بھارت میں سِکھ اقلیت کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

کتاب کے درمیانی صفحات میں انہوں نے ترقی پذیر ممالک میں بڑھتے مذہبی رحجان اور شدت پسندی کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ان ممالک کے نوجوانوں میں مذہبی انتہاپسندی نکتہ عروج پر ہے۔ یہ لوگ کم عمر میں ہی مذہبی شدت پسندی کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے لوگوں کی جانب سے ملنے والے تحائف اور محبت کو بھی رقم کیا ہے۔

کتاب کے ابتدائی صفحات میں انہوں نے اپنے بچپن اور عہدجوانی کا تذکرہ کیا ہے۔ اوباما لکھتے ہیں کہ میں 2 فروری 1961 میں امریکی ریاست ہوائی میں پیدا ہوا۔

ان کے والد کینیا جب کہ والدہ کینساس سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی پرورش انڈونیشیا میں ہوئی۔ انہوں نے کیلیفورنیا اور نیویارک سے تعلیم حاصل کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ 2004 میں سینیٹ کے انتخابات کے وقت امریکی صدر کے انتخابات کے لیے کمپیننگ کرنے لیے اپنے آپ کو اہل نہیں سمجھتا تھا یا یوں کہہ لیں اس وقت میں اتنا بہادر نہیں تھا۔

آج بھی میں اور میرے دوست باسکٹ بال اور لڑکیوں سے دل چسپی لینے والے بے پرواہ بیری (اوباما کا بچپن کا نام) کو سنجیدہ اوباما دیکھ کر حیران ہوکر اپنے آپ سے پوچھتے ہیں ، "یہ کیسے ہوا؟" اوباما اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کوئی بھی چیز ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی۔ تبدیلی ممکنات میں سے ہے۔ امریکا کا کام یاب صدر لکھتا ہے کہ میں نے اپنی مایوسی کا علاج صحت مند مطالعے میں دریافت کیا۔ مجھے آج بھی آدھی قیمت پر خریدی جانی والی کتب کا زمانہ یاد ہے۔

اپنی صدارتی دور کی یادداشتوں کا ذکر کرتے ہوئے سابق صدر براک اوباما نے اپنے بعد منتخب ہونے والے صدر ٹرمپ کے بارے میں کہا کہ مجھے ریپبلکن کے الیکٹ ہونے پر کوئی حیرت نہیں ہے۔ البتہ بعض ذرائع ابلاغ کے اداروں کی جانب سے ٹرمپ کو ملنے والی پذیرائی پر حیرت اور ناراضگی ضرور ہے، کیوںکہ ٹرمپ کی الیکشن کیمپننگ اسلام مخالف تھی جسے مکمل کوریج ملی۔ انہیں لگتا ہے کہ اس بات نے امریکا کا امیج متاثر کیا ہے۔

انہوں نے وائٹ ہاؤس سے جڑی اپنی گھریلو زندگی کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ان کی بیٹیاں اس صدارتی باغیچے میں کھیل کر جوان ہوئی ہیں جس میں امریکا کے 43 صدور کے بچے کھیلے کودے ہیں۔ پرومسڈ لینڈ میں انہوں نے بارہا اپنی زوجہ کا بھی ذکر کیا ہے، جن سے انہیں ہمیشہ مشاورتی معاونت اور ٹھوس رائے ملی۔

یہ کتاب سابق امریکی صدر اوباما کے بچپن سے لے کر دور صدارت اور مئی 2011 میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعات تک محدود ہے۔ وہ اپنی آپ بیتی کا دوسرا والیم لکھ رہے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی اشاعت کب ہو گی۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر اوباما کی یہ کتاب نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کے انتخاب سے قبل منظرعام پر آجاتی تو ان کے لیے مشکل کا باعث بنتی کیوںکہ اس کتاب کے مطابق وہ یکم مئی 2011 کی کارروائی کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھے جب کہ دنیا کے سامنے اس کی کام یابی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔سابق امریکی صدر براک اوباما اس سے قبل بھی دو کتب لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی کتاب دی پرومسڈ لینڈ کے حوالے سے نوجوانوں کو خصوصی تاکید کی ہے کہ وہ اس کا مطالعہ ضرور کریں۔

سابق امریکی صدر براک اوباما کی کتاب دی پرومسڈ لینڈ رواں سال کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہوگئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اوباما رواں سال کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مصنف بھی بننے والے ہیں۔ 2018 میں ان کی اہلیہ مشل اوباما اپنی تصنیف بی کمنگ کے حوالے سے سب زیادہ پڑھی جانے والی مصنفہ کی لسٹ میں شامل ہوچکی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں