اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار پطرس بخاری کو دنیا سے گزرے 62 برس بیت گئے
پطرس بخاری کی وفات کے 44 برس بعد14اگست 2003 کو انہیں ہلال امتیاز کا اعزازعطا کیا گيا
اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار ادیب سید احمد شاہ المعروف پطرس بخاری کی آج 62 ویں برسی منائی جارہی ہے۔
یکم اکتوبر 1898 کو پشاور میں پیدا ہونے والے اردو کے نامور مزاح نگار، افسانہ نگار پطرس بخاری مترجم، شاعر، نقاد، معلم، برطانوی ہندوستان کے ماہر نشریات اور پاکستان کے سفارت کار تھے۔
پطرس بخاری کے والد سید اسد اللہ شاہ بخاری پشاور کے ایک معروف وکیل خواجہ کمال الدین کے منشی تھے۔ اس زمانے کے رواج اور خاندانی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے پطرس بخاری کو گھر پر ناظرہ قرآن پاک پڑھایا گیا۔ فارسی کی تعلیم ضروری خیال کی جاتی تھی اسی لیے ''صفوۃ المصادر'' کے ذریعے فارسی زبان کے قواعد کی باقاعدہ تعلیم دی گئی۔ پطرس بخاری 26-1925ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے۔
انہوں نے انگریزی ادب میں اعلیٰ ترین سند کے لیے کیمبرج یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ وہ جنوبی ایشیا کے دوسرے طالبِ علم تھے جس نے انگریزی ادب میں اول درجے میں سند حاصل کی۔ پطرس بخاری1937 ميں آل انڈيا ريڈيو کے قيام کے بعد سات برس تک بطورڈائريکٹرمنسلک رہے، قیام پاکستان کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل بنے۔
پطرس کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مختصر مجموعہ پطرس کے مضامین پاکستان اور ہندوستان میں اسکولوں سے لے کر جامعات تک اردو نصاب کا حصہ ہے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان میں نشریات کے بانیوں میں ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ پطرس بخاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ 1952 میں انہیں سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی اورایک ماہ صدارت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ 1954 میں اقوام متحدہ میں شعبہ اطلاعات ميں ڈپٹی سيکرٹری جنرل اورپھر انڈر سيکرٹری بنے۔
پطرس بخاری نے 5 دسمبر 1958ء کو نیویارک میں وفات پائی اوروہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی وفات کے 44 برس بعد14اگست 2003 کو انہیں ہلال امتیاز کا اعزازعطا کیا گيا۔
یکم اکتوبر 1898 کو پشاور میں پیدا ہونے والے اردو کے نامور مزاح نگار، افسانہ نگار پطرس بخاری مترجم، شاعر، نقاد، معلم، برطانوی ہندوستان کے ماہر نشریات اور پاکستان کے سفارت کار تھے۔
پطرس بخاری کے والد سید اسد اللہ شاہ بخاری پشاور کے ایک معروف وکیل خواجہ کمال الدین کے منشی تھے۔ اس زمانے کے رواج اور خاندانی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے پطرس بخاری کو گھر پر ناظرہ قرآن پاک پڑھایا گیا۔ فارسی کی تعلیم ضروری خیال کی جاتی تھی اسی لیے ''صفوۃ المصادر'' کے ذریعے فارسی زبان کے قواعد کی باقاعدہ تعلیم دی گئی۔ پطرس بخاری 26-1925ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے۔
انہوں نے انگریزی ادب میں اعلیٰ ترین سند کے لیے کیمبرج یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ وہ جنوبی ایشیا کے دوسرے طالبِ علم تھے جس نے انگریزی ادب میں اول درجے میں سند حاصل کی۔ پطرس بخاری1937 ميں آل انڈيا ريڈيو کے قيام کے بعد سات برس تک بطورڈائريکٹرمنسلک رہے، قیام پاکستان کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل بنے۔
پطرس کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مختصر مجموعہ پطرس کے مضامین پاکستان اور ہندوستان میں اسکولوں سے لے کر جامعات تک اردو نصاب کا حصہ ہے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان میں نشریات کے بانیوں میں ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ پطرس بخاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ 1952 میں انہیں سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی اورایک ماہ صدارت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ 1954 میں اقوام متحدہ میں شعبہ اطلاعات ميں ڈپٹی سيکرٹری جنرل اورپھر انڈر سيکرٹری بنے۔
پطرس بخاری نے 5 دسمبر 1958ء کو نیویارک میں وفات پائی اوروہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی وفات کے 44 برس بعد14اگست 2003 کو انہیں ہلال امتیاز کا اعزازعطا کیا گيا۔