سندھ کا قدیم فن دستکاری عدم توجہی و فراموشی کا شکار

فن کے احیا کیلیے اس کی قدر اجاگر کرنی ہوگی،عبدالحمید


عبدالرزاق ابڑو December 06, 2020
مشینی نمونوں کاارزاں ہوناان کی بڑھتی مقبولیت کی ایک وجہ ہے،غلام حیدر۔ فوٹو: فائل

KARACHI: وادی سندھ کی قدیم تہذیب میں نسل درنسل منتقل ہونے والا فن دستکاری فراموشی کا شکار ہوگیا ہے جس کے تحفظ اور بحالی کی اشد ضرورت ہے۔

سندھ انڈیجنس اینڈ ٹریڈیشنل کرافٹس کمپنی ( سٹکو) کے ایگزیکٹیو سیکریٹری عبدالحمید اخوند کے مطابق وادیٔ سندھ کے قدیم فن دستکاری کے احیا اور فروغ کیلیے ہنرمندوں اور عام لوگوں کے دلوں میں اس فن کی قدر اور اہمیت اجاگر کرنی ہوگی۔ سٹکو ایک پبلک سیکٹر آرگنائزیشن ہے جو سندھ کے روایتی اور علاقائی فنون کے تحفظ کے لیے کام کررہی ہے۔

عبدالحمید اخوند کا کہنا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہمارے آرٹ کی ظاہری ہیئت بدل گئی ہے۔ ہم اب ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اجرکیں بنالیتے ہیں مگر مشینری کے استعمال نے اس فن سے روح اور دستکاری کی اصلیت کھینچ لی ہے اور اس میں مصنوعی پن آگیا ہے۔

علاقائی فنون کے ماہر غلام حیدر دائوپوتا کے مطابق جدید مشینوں پر بڑھتا ہوا انحصار دستکاریوں کے ان روایتی طریقوں کی جگہ لے رہا ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اس طرح یہ مشینوں سے تیارکردہ دستکاریاں اصلی آرٹ نہیں بلکہ اس کی نقل ہے۔

ایوارڈ یافتہ ماہر غلام حیدر دائودپوتا کاشی کاری کے صدیوں پرانے فن کی بحالی اور فروغ کے لیے کام کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہاتھ سے تیارکردہ دستکاری کے نمونے مستند اور معتبر ہونے کے ساتتھ ساتھ مہنگے بھی ہوتے ہیں۔

دوسری جانب مشینوں سے بڑے پیمانے پر تیارکردہ نمونے صارفین کے لیے کم قیمت ہوتے ہیں جو ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی ایک اور وجہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں