عبدالقادر حسن بھی چلے گئے
میں نے اپنا گاؤں نہیں دیکھا۔ دل بہت تڑپتا تھا، بھائی کی شاعری میں گاؤں کی باتیں پڑھ کرخوش ہوجاتا تھا،
سینئر صحافی،کالم نگار عبدالقادر حسن بھی چلے گئے۔ یہ وہ کالم نویس تھے جن سے میں بہت پیارکرتا تھا اور انھی جیسا لکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ سامنے کی بات کروں تو اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ ان کا دیہاتی ہونا اور دوسری وجہ ان کا سہل طرز نگارش۔ عبدالقادر حسن اپنے کالموں میں اپنے گاؤں کا بہت ذکرکیا کرتے تھے، چونکہ ہمارے خاندان کا تعلق بھی گاؤں دیہات سے ہے، میرے بڑوں نے تو اپنے گاؤں کو خوب دیکھا۔ خصوصاً بھائی حبیب جالب کی تقریباً آدھی شاعری گاؤں کی یادیں لیے ہوئے ہے، انھوں نے گاؤں کی یادوں کے استعاروں سے اپنی سوچ کو شاعری کا محور بنایا۔ میں بھی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اپنے گاؤں ''میانی افغاناں'' میں پیدا ہوا لیکن بٹوارے کی وجہ سے صرف آٹھ ماہ کا تھا کہ جب اپنی اماں کی گود میں کراچی، پاکستان پہنچ گیا تھا۔
میں نے اپنا گاؤں نہیں دیکھا۔ دل بہت تڑپتا تھا، بھائی کی شاعری میں گاؤں کی باتیں پڑھ کرخوش ہوجاتا تھا، یا جب عبدالقادر حسن ''وادی سون''کا ذکرکرتے تھے تو اسے پڑھ کر اپنے ''ان دیکھے'' گاؤں کو یاد کر لیتا تھا۔ کھیت،کھلیان، پہاڑوں میں گھرا وادی سون کا علاقہ۔ ایسا کہ ہمارا گاؤں ''میانی افغاناں'' تھا۔ عبدالقادر حسن اپنے گاؤں کا ذکر چھیڑتے تو میں ''اُدھر'' رہ جانے والے گاؤں کی یادوں میں کھو جاتا۔ بھائی جالب کی ایک مشہور غزل گاؤں کی یاد میں ہے۔ اس غزل کے دو تین شعر لکھوں گا:
پہاڑوں کی وہ مست و شاداب وادی
جہاں ہم دلِ نغمہ خواں چھوڑ آئے
وہ سبزہ' وہ دریا' وہ پیڑوں کے سائے
وہ گیتوں بھری بستیاں چھوڑ آئے
حسیں پنگھٹوں کا وہ چاندی سا پانی
وہ برکھا کی رُت، وہ سماں چھوڑ آئے
بہت مہرباں تھیں وہ گل پوش راہیں
مگر ہم انھیں مہرباں چھوڑ آئے
یہ اعجاز ہے، حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے، داستاں چھوڑ آئے
ہم تو اپنے گاؤں کا ''زہے سیاست دوراں، زہے سیاست زیست'' اُدھر چھوڑ آئے، مگر عبدالقادر حسن صاحب کا گاؤں ''اِدھر'' ہی تھا، وہ اپنے گاؤں آتے جاتے رہتے تھے اور اپنی تحریروں میں گاؤں کے سماج کا ذکرکرتے رہتے تھے۔ رستے،گلیوں، پہاڑوں میں گھومتے پھرتے تھے اور آنکھوں دیکھا بیان کرتے رہتے تھے، جسے پڑھ پڑھ کر مجھے ان پر بہت پیار آتا تھا۔
میری عبدالقادر حسن سے لاہور میں ملاقاتیں بھی رہیں۔ شریف جنجوعہ بھی شریک محفل ہوتے تھے، لاہور جم خانہ کے ممبر ہیں اللہ انھیں حیاتی دے، جالب بھائی کے جگری یار ہیں۔ عبدالقادر حسن ایک ہوٹل میں شام گزارتے تھے، دونوں جگہوں پر ان سے ملاقاتیں رہیں۔
اب ایک خاص واقعہ بیان کررہا ہوں۔ 12مارچ 1993کو جالب صاحب کا انتقال ہوا تھا۔ نواز شریف صاحب کی حکومت تھی۔ تمام حکومتی ادارے جالب صاحب کے پسماندگان کے لیے مالی امداد کے اعلانات کر رہے تھے۔ اکیڈمی ادبیات نے ماہانہ وظیفہ مقررکردیا۔
وزیر اعظم نواز شریف تعزیت کے لیے گھر آئے۔ بھابی صاحبہ کی خدمت میں پچیس لاکھ کا چیک پیش کیا۔ جسے جالب صاحب کی خود دار بیوی نے لینے سے انکارکردیا۔ اس موقع پر عبدالقادر حسن نے کالم ''جالب کے بچوں کو زندگی کی دوڑ میں دوڑنے دو' انھیں اپاہج نہ بناؤ'' لکھا۔ اس وقت ایسے کالم بھی لکھے جا رہے تھے جن میں حبیب جالب کے بچوں کی مالی امداد کرنے کے لیے کہا جا رہا تھا، میں لاہور میں تھا۔ عبدالقادر حسن کی بات میرے دل کو لگی۔ میں نے اپنی بھابی سے بھی پوچھا وہ بھی میری بات سے متفق تھیں۔
میں نے عبدالقادر حسن صاحب کو خط لکھا، اس وقت تک میری ان کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ میں نے اپنے خط میں ان کی بات سے اتفاق کیا تھا کہ ''جالب کے بچوں کو اپاہج نہ بناؤ'' انھوں نے میرا مکمل خط اپنے کالم میں شایع کردیا۔ کالم کا عنوان تھا ''جالب کا بھائی رقم طراز ہے'' انھوں نے تمہیداً یہ الفاظ لکھے ''میں خطوط کو اپنے کالموں میں شایع نہیں کرتا، مگر اس اہم خط کو من و عن شایع کررہا ہوں''۔ یہی میری کالم نگاری کی شروعات تھی۔ ہمارے خاندان سے کس کی قربت نہیں ہے مگر بعض قربتیں ایسی ہیں کہ جو ہمیں اچھی لگتی ہیں۔ عبدالقادر حسن بھی ایسے ہی تھے۔ جب میں ان کے بارے میں لکھنے بیٹھا ہوں تو ان کی یادیں، ان کی باتیں ہی دہراؤں گا۔ سو میں دہرا رہا ہوں۔ میں نے انھیں اپنے والد صاحب کی تحریروں پر مشتمل کتاب ''ارمغان صوفی''بھیجی۔ میں ملتان شریف سے لاہور بذریعہ ریل گاڑی جا رہا تھا کہ فون آیا ، بیگم عبدالقادر حسن بول رہی تھیں، انھوں نے بتایا ''میں نے ابا جی کی 624 صفحوں کی کتاب پڑھ لی ہے، اس کتاب کو پڑھ کر میں نے حبیب جالب کو دوسرے نمبر پرکردیا ہے اور پہلا نمبر ابا جی کا ہے۔'' یہ بات ہمارے ابا اور بھائی دونوں کے لیے باعث اعزاز و محبت تھی۔
میرے سامنے 29 نومبر 2020 کا ایکسپریس اخبار ہے۔ ان کا آخری کالم ہے بعنوان ''بے وفائی کی سزا''۔ نبیؐ آخر الزماں کی عقیدت و محبت میں گندھی ہوئی تحریر۔ انھیں فارسی پر دسترس حاصل تھی، وہ اکثر اپنی تحریروں میں فارسی کے اشعار شامل کرتے رہتے تھے۔ اس آخری تحریر میں بھی انھوں نے غالب کا ایک فارسی شعر لکھا ہے۔
غالب ثنائے خواجہ' بہ یزداں گزاشتم
آں ذات پاک مرتبہ دان محمدؐ است
ترجمہ بھی لکھا ہے ''غالب ہم نے خواجہ کی مدح و ثنا اللہ کے سپرد کردی ہے، کہ وہ ذات پاک ہے جو محمدؐ کا مرتبہ جانتی ہے۔''
یادیں بہت ہیں، باتیں بہت ہیں۔ ہماری ان کے ساتھ قربتیں بہت ہیں۔ عبدالقادر حسن وادی سون کی مٹی میں اتر گئے ہیں۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ (آمین)
میں نے اپنا گاؤں نہیں دیکھا۔ دل بہت تڑپتا تھا، بھائی کی شاعری میں گاؤں کی باتیں پڑھ کرخوش ہوجاتا تھا، یا جب عبدالقادر حسن ''وادی سون''کا ذکرکرتے تھے تو اسے پڑھ کر اپنے ''ان دیکھے'' گاؤں کو یاد کر لیتا تھا۔ کھیت،کھلیان، پہاڑوں میں گھرا وادی سون کا علاقہ۔ ایسا کہ ہمارا گاؤں ''میانی افغاناں'' تھا۔ عبدالقادر حسن اپنے گاؤں کا ذکر چھیڑتے تو میں ''اُدھر'' رہ جانے والے گاؤں کی یادوں میں کھو جاتا۔ بھائی جالب کی ایک مشہور غزل گاؤں کی یاد میں ہے۔ اس غزل کے دو تین شعر لکھوں گا:
پہاڑوں کی وہ مست و شاداب وادی
جہاں ہم دلِ نغمہ خواں چھوڑ آئے
وہ سبزہ' وہ دریا' وہ پیڑوں کے سائے
وہ گیتوں بھری بستیاں چھوڑ آئے
حسیں پنگھٹوں کا وہ چاندی سا پانی
وہ برکھا کی رُت، وہ سماں چھوڑ آئے
بہت مہرباں تھیں وہ گل پوش راہیں
مگر ہم انھیں مہرباں چھوڑ آئے
یہ اعجاز ہے، حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے، داستاں چھوڑ آئے
ہم تو اپنے گاؤں کا ''زہے سیاست دوراں، زہے سیاست زیست'' اُدھر چھوڑ آئے، مگر عبدالقادر حسن صاحب کا گاؤں ''اِدھر'' ہی تھا، وہ اپنے گاؤں آتے جاتے رہتے تھے اور اپنی تحریروں میں گاؤں کے سماج کا ذکرکرتے رہتے تھے۔ رستے،گلیوں، پہاڑوں میں گھومتے پھرتے تھے اور آنکھوں دیکھا بیان کرتے رہتے تھے، جسے پڑھ پڑھ کر مجھے ان پر بہت پیار آتا تھا۔
میری عبدالقادر حسن سے لاہور میں ملاقاتیں بھی رہیں۔ شریف جنجوعہ بھی شریک محفل ہوتے تھے، لاہور جم خانہ کے ممبر ہیں اللہ انھیں حیاتی دے، جالب بھائی کے جگری یار ہیں۔ عبدالقادر حسن ایک ہوٹل میں شام گزارتے تھے، دونوں جگہوں پر ان سے ملاقاتیں رہیں۔
اب ایک خاص واقعہ بیان کررہا ہوں۔ 12مارچ 1993کو جالب صاحب کا انتقال ہوا تھا۔ نواز شریف صاحب کی حکومت تھی۔ تمام حکومتی ادارے جالب صاحب کے پسماندگان کے لیے مالی امداد کے اعلانات کر رہے تھے۔ اکیڈمی ادبیات نے ماہانہ وظیفہ مقررکردیا۔
وزیر اعظم نواز شریف تعزیت کے لیے گھر آئے۔ بھابی صاحبہ کی خدمت میں پچیس لاکھ کا چیک پیش کیا۔ جسے جالب صاحب کی خود دار بیوی نے لینے سے انکارکردیا۔ اس موقع پر عبدالقادر حسن نے کالم ''جالب کے بچوں کو زندگی کی دوڑ میں دوڑنے دو' انھیں اپاہج نہ بناؤ'' لکھا۔ اس وقت ایسے کالم بھی لکھے جا رہے تھے جن میں حبیب جالب کے بچوں کی مالی امداد کرنے کے لیے کہا جا رہا تھا، میں لاہور میں تھا۔ عبدالقادر حسن کی بات میرے دل کو لگی۔ میں نے اپنی بھابی سے بھی پوچھا وہ بھی میری بات سے متفق تھیں۔
میں نے عبدالقادر حسن صاحب کو خط لکھا، اس وقت تک میری ان کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ میں نے اپنے خط میں ان کی بات سے اتفاق کیا تھا کہ ''جالب کے بچوں کو اپاہج نہ بناؤ'' انھوں نے میرا مکمل خط اپنے کالم میں شایع کردیا۔ کالم کا عنوان تھا ''جالب کا بھائی رقم طراز ہے'' انھوں نے تمہیداً یہ الفاظ لکھے ''میں خطوط کو اپنے کالموں میں شایع نہیں کرتا، مگر اس اہم خط کو من و عن شایع کررہا ہوں''۔ یہی میری کالم نگاری کی شروعات تھی۔ ہمارے خاندان سے کس کی قربت نہیں ہے مگر بعض قربتیں ایسی ہیں کہ جو ہمیں اچھی لگتی ہیں۔ عبدالقادر حسن بھی ایسے ہی تھے۔ جب میں ان کے بارے میں لکھنے بیٹھا ہوں تو ان کی یادیں، ان کی باتیں ہی دہراؤں گا۔ سو میں دہرا رہا ہوں۔ میں نے انھیں اپنے والد صاحب کی تحریروں پر مشتمل کتاب ''ارمغان صوفی''بھیجی۔ میں ملتان شریف سے لاہور بذریعہ ریل گاڑی جا رہا تھا کہ فون آیا ، بیگم عبدالقادر حسن بول رہی تھیں، انھوں نے بتایا ''میں نے ابا جی کی 624 صفحوں کی کتاب پڑھ لی ہے، اس کتاب کو پڑھ کر میں نے حبیب جالب کو دوسرے نمبر پرکردیا ہے اور پہلا نمبر ابا جی کا ہے۔'' یہ بات ہمارے ابا اور بھائی دونوں کے لیے باعث اعزاز و محبت تھی۔
میرے سامنے 29 نومبر 2020 کا ایکسپریس اخبار ہے۔ ان کا آخری کالم ہے بعنوان ''بے وفائی کی سزا''۔ نبیؐ آخر الزماں کی عقیدت و محبت میں گندھی ہوئی تحریر۔ انھیں فارسی پر دسترس حاصل تھی، وہ اکثر اپنی تحریروں میں فارسی کے اشعار شامل کرتے رہتے تھے۔ اس آخری تحریر میں بھی انھوں نے غالب کا ایک فارسی شعر لکھا ہے۔
غالب ثنائے خواجہ' بہ یزداں گزاشتم
آں ذات پاک مرتبہ دان محمدؐ است
ترجمہ بھی لکھا ہے ''غالب ہم نے خواجہ کی مدح و ثنا اللہ کے سپرد کردی ہے، کہ وہ ذات پاک ہے جو محمدؐ کا مرتبہ جانتی ہے۔''
یادیں بہت ہیں، باتیں بہت ہیں۔ ہماری ان کے ساتھ قربتیں بہت ہیں۔ عبدالقادر حسن وادی سون کی مٹی میں اتر گئے ہیں۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ (آمین)