پاکستانی نوجوان نے ڈرون سے فصلوں پراسپرے کا منصوبہ پیش کردیا
ڈرون ٹیکنالوجی کی خدمات فراہم کرنیوالی کمپنیوں کے حامل20ملکوں میں پاکستان کا نام100شامل نہیں تھا،سید عظمت
کراچی کے کمپیوٹر انجینئر اور ڈرون ٹیکنالوجی کے ماہر نوجوان سید عظمت نے بھی ملک کے دیگر لاکھوں نوجوانوں کی طرح مستقبل بہتر بنانے کے لیے پاکستان سے باہر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔
انھوں نے بیرون ملک ملازمت تلاش کرنا شروع کردی اور جلد ہی ان کی قابلیت اور تجربہ کی بنیاد پر سعودی عرب کی ایک بڑی فرم کی جانب سے خطیر معاوضہ پر ملازمت کی پیش کش کردی گئی، سید عظمت نے روانگی کی تیاریاں شروع کردیں اسی دوران ان کی نظر دنیا میں سول مقاصد کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کرنیو الے ملکوں کی فہرست پر پڑی ان ملکوں میں نجی کمپنیاں ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے عوام کے بہت سے مسائل حل کرنے کے ساتھ ان ملکوں کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کررہی تھی۔
سید عظمت کے مطابق ڈرون ٹیکنالوجی کی خدمات فراہم کرنے والی مستحکم کمپنیوں کے حامل 20 سرفہرست ملکوں میں بھارت7 ویں نمبر تھا اور پاکستان کا 100ملکوں میں بھی کہیں نام نہیں تھا، اس فہرست نے سید عظمت کے پیر جکڑ لیے اور انھوں نے بیرون ملک منتقل ہونے کا فیصلہ موخر کرتے ہوئے پاکستان کا نام ان ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کا بیڑہ اٹھالیا، 27 سالہ سید عظمت سرسید یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے 4سال قبل گریجویشن کی اور 23سال کی عمر میں پہلا ڈرون تیار کیا جو 40کلو گرام وزن لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا، مختلف اداروں کے لیے ان کے بنائے گئے ڈرون اور ڈرون آپریشنز سے متعلق ایپلی کیشنز ڈرون کے ذریعے فصلوں پر اسپرے ، نگرانی، سروے اور میپنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
ایک سال کے دوران 15ڈرونز کا فلیٹ بنانے کا ہدف
سید عظمت کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبہ میں ڈرون ٹیکنالوجی کے انتہائی دو ر رس نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں اگر ایک ہزار ڈرون بھی استعمال کیے جائیں تو کم ہیں، سید عظمت رواں ماہ دو ڈرونز کے ذریعے سندھ اور پنجاب میں فصلوں پر کیڑے مار ادویات کے اسپرے کی خدمات کی فراہمی کا آغاز کررہے ہیں۔
انھوں نے اپنے فلیٹ کی تعداد ایک سال کے دوران 15ڈرونز تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ابتدائی طور پر پنجاب کے علاقے دیپالپور میں آلو کی فصل اور سندھ میں کراچی کے نواحی علاقے درسانوچھنو میں ڈرون کے ذریعے کیڑے مار ادویات اسپرے کی جائیں گی، سولہ لیٹر گنجائش کا حامل ایک ڈرون تیار ہے جو آئندہ ہفتہ کراچی کے نواحی علاقے میں اسپرے کرے گا یہ سندھ میں ڈرون کے ذریعے کیڑے مار ادویات کے اسپرے کا پہلا موقع ہوگا۔ پندرہ روز میں دوسرا ڈرون بھی تیار کرلیا جائے گا جو پنجاب کے علاقوں میں استعمال ہوگا۔
فصلوں پر ڈرون سے اسپرے کراناکئی پہلوؤں سے مفیدہے
سید عظمت کے مطابق ڈرون کے ذریعے فصلوں پر کیڑے مار زہر کا اسپرے پاکستان میں زرعی شعبے کے لیے انقلاب کا آغاز ہے یہ بہت سے پہلوؤں سے مفید ہے اول تو اس میں وقت کم لگتا ہے اور افرادی قوت کی ضرورت نہیں ہوتی دوسری اس کی درستگی ہے فصلوں پر ایک ہی مقدار دوا اسپرے ہوتی ہے فصل کے لحاظ سے دوا اسپرے ہونے کی رفتاراور مقدار کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، مینوئل طریقے سے اگر ادویات اسپرے کی جائیں تو 8 گھنٹوں میں فصلوں کے لحاظ سے بمشکل 2 سے 5 ایکڑ رقبہ پر اسپرے کیا جاسکتا ہے۔
مینوئل طریقے سے زیادہ تر اسپرے ٹریکٹر کے ذریعے کیے جاتے ہیں فصلوں کے درمیان ٹریکٹر چلنے سے فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے جو بعض اوقات لاکھوں روپے تک بڑھ جاتا ہے، ڈرون کے ذریعے کم اونچائی اور زیادہ انچائی والی فصلوں اور گھنے باغات میں بھی اسپرے کیا جاسکتا ہے، آلو کی فصل میں متواتر اسپرے کی ضرورت ہوتی ہے عموما آلو کی فصل بڑے رقبے پر کاشت کی جاتی ہے جس پر 5 ماہ تک متواتر 6 روز اسپرے کرنا پڑتا ہے جس کے لیے زیادہ افرادی قوت کی ضرورت پڑتی ہے۔
زرعی مصنوعات میں ایک حد سے زیادہ کیڑے مار ادویات کا استعمال انسانی صحت کے لیے مضر ہوتا ہے اور ایک خاص تناسب سے زیادہ کیڑے مار ادویات کا استعمال کرنی والی فصلیں یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں قبول نہیں کی جاتیں اسی طرح اسپرے کرنے والے کسانوں اور مزدوروں کی صحت بھی کیڑے مار ادویات سے بری طرح متاثر ہوتی ہے حد سے زیادہ کیڑے مار ادویات زمین میں شامل ہوکر زمین کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کرنے کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھی بنتی ہے اس لحاظ سے فصلوں پر کیڑے مارادویات کے اسپرے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال پاکستان میں فصلوں کی لاگت کم بنانے، معیار کی بہتری اور پیداوار بڑھانے کے ساتھ ماحول کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
ڈرون رجسٹریشن اورپائلٹس لائسنسنگ نظام موجودنہیں
سید عظمت کے مطابق پاکستان میں ڈرون کی رجسٹریشن اور ڈرون پائلٹس کی لائسنس کے نظام کی اشد ضرورت ہے پڑوسی ملک بھارت میں یہ نظام وضع کیا جاچکا ہے اس نظام سے ملک میں سول مقاصد کے لیے ڈرون کا استعمال آسان ہوگا اور پاکستان کے لیے سیکیورٹی خدشات کو کم کرنے میں مدد ملے گی، پاکستان کی فضائی حدود میں اڑنے والے ہر ڈرون کو شناخت ملے گی اس سے پاکستان کی فضائی حدود بھی محفوظ ہوجائیں گی اور حساس علاقوں اور تنصیبات کی سیکیورٹی کو موثر بنانے میں مدد ملے گی۔
سید عظمت کے مطابق جیوفینسنگ کے ذریعے ڈرون کی پروازوں کی نگرانی کی جاسکتی ہے اور سید عظمت اس نظام کی تشکیل کے لیے حکومت کی معاونت کے لیے تیار ہیں، سید عظمت کے مطابق پاکستان میں ڈرون کی رجسٹریشن اور ڈرون پائلٹس کے لیے لائسنس کی شرط کو لازمی قراد یا جائے تو ڈرون ٹیکنالوجی سے بھرپور فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
دنیا میں اس مقصد کے لیے FAA Part107 لائسنس استعمال کیے جاتے ہیں، ہر اڑنے والے ڈرون کے راستے اور پرواز کا دورانیہ مقرر کیا جاتا ہے، سید عظمت پاکستان میں ڈرون ٹیکنالوجی سے معاشی فوائد حاصل کرنے اور سماجی شعبہ کو مضبوط بنانے بالخصوص ہیلتھ کیئر کی سہولتوں کو عام کرنے کے لیے بھی ڈرون کے استعمال کے لیے پرعزم ہیں اور اپنا تجربہ اور مہارت عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے بروئے کار لانے کے بھی خواہش مند ہیں۔
پاکستان کواسمارٹ ایگریکلچر سلوشنزوالے ملکوں میں شامل کرناہے
سید عظمت کہتے ہیں کہ میرا خواب پاکستان کو اسمارٹ ایگری کلچر سلوشنز استعمال کرنے والے سرفہرست ملکوں میں شامل کرنا ہے۔ جدید ٹیکنالوجیز کی مدد سے پاکستان زرعی پیداوار میں خودکفالت کی منزل حاصل کرسکتا ہے جس سے بڑھتی ہوئی آبادی اور خوراک کی ضرورت پوری کرنے میں آسانی ہوگی۔اس سلسلے میں حکومت کی سپورٹ ناگزیر ہے۔ اب تک تمام سرمایہ کاری اپنے وسائل سے کی ہے۔ حکومت اس شعبہ میں سرمایہ کاری پر مراعات کا اعلان کرے اور کاشتکاروں کو جدید ٹیکنالوجیز پر مشتمل سلوشنز کی جانب راغب کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کوششیں کی جائیں تو بہت جلد پاکستان کے زرعی شعبہ میں انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔
فصلوں پراسپرے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کااستعمال
پاکستان میں فصلوں پر کیڑے مار دواکے اسپرے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال ایک نیا رجحان ہے پاکستان کے کاشتکاروں کے بارے میں یہ رائے غلط ہے کہ وہ نئی ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں جب انھوں نے پنجاب اور سندھ کے کاشتکاروں کے سامنے ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے کیڑے مار زہر کے اسپرے کا آئیڈیا پیش کیا تو اکثریت نے اس آئیڈیے کو سراہا اور اسے زرعی شعبہ کے لیے ایک انقلابی سہولت قرار دیتے ہوئے اس سہولت سے استفاد ہ کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔
کاشتکاروں کی دلچسپی دیکھتے ہوئے سید عظمت نے ابتدائی طور پر دو ڈرون تیار کیے ہیں جو رواں سال کے اختتام تک آپریشنز شروع کردیں گے یہ ڈرون 16لیٹر تک زرعی ادویات اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور 8گھنٹوں میں 60سے 70ایکڑ رقبے پر کیڑے مار دوا کا اسپرے کرنیکی صلاحیت رکھتے ہیں۔
فصلوں پر کیڑے مار ادویا ت کے اسپرے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال زرعی ادویات کے کفایت بخش استعمال کا بھی سبب بنتا ہے عام طریقے سے کیڑے مار دوا کی زیادہ مقدار چھڑکی جاتی ہے جو انسانی صحت کے لیے خطرہ ہونے کے ساتھ لاگت میں اضافہ کا بھی سبب بنتی ہے۔
ڈرون ٹیکنالوجی سے اسپرے کرنے کی صورت میں کیڑے مار دوا کی 40فیصد تک مقدار بچائی جاسکے گی، اسپرے کرنے کی فی ایکڑ لاگت اتنی ہی ہے جتنی مینوئل طریقے سے ٹریکٹرز یا اسپرے مشینوں کے ذریعے کی جاتی ہے لیکن ڈرون کے ذریعے 70گنا زیادہ رفتار سے فصلوں پر اسپرے کیا جاسکتا ہے یہ اسپرے رات کے وقت میں بھی کیا جاسکتا ہے ڈرون اور ٹینکس میں نصب سینسر دوا کی مقدار ختم ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں اور ڈرون ٹینک کو دوبارہ بھرنے کے بعد اسی مقام سے اسپرے شروع کرتا ہے جہاں اسپرے کرنے کا سلسلہ کیڑے مار زہر ختم ہونے کی وجہ سے منقطع ہوا تھا۔
پاکستانی زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے،عظمت
سید عظمت نے پاکستان میں ڈرون ٹیکنالوجی سے زراعت کی ترقی کے مشکل مشن کا آغاز کیا، انھوں نے پاکستان میں precision agriculture کی مدد سے زراعت کے شعبہ میں لاگت کو کم کرنے، استعداد کار اور پیداوار کو بڑھانے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کے سلوشن تیار کیے، ان سلوشنز میں سرفہرست فصلوں پر ڈرون کے ذریعے اسپرے کی سہولت شامل ہے۔
سید عظمت کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبہ میں جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے اس کے برعکس پاکستان کے ہم پلہ ملکوں کے علاوہ دنیا کے بڑے زرعی ممالک جدید ٹیکنالوجی کی مددسے لاگت کو کم کرتے ہوئے معیار کو بہتر اور اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ کررہے ہیں، سید عظمت نے پاکستان میں فصلوں پر کیڑے مار ادویات کے اسپرے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کی تکنیک کو عام کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے VTOL ڈائنامکس کے نام سے اپنی کمپنی قائم کی جس میں وہ چیف ٹیکنالوجی آفیسر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
زرعی استعمال کیلیے ایک ڈرون کیتیاری پر 28لاکھ روپے لاگت آئیگی
سید عظمت کے مطابق زرعی استعمال کے لیے ایک ڈرون کی تیاری پر 25 سے 28لاکھ روپے کی لاگت آتی ہے پاکستان میں ڈرون کی درآمد پر پابندی کی وجہ سے ڈرون کے کمپونینٹ امپورٹ کرکے ڈرون تیار کیا جاتا ہے ڈرون کے آپریشنز کے لیے ایپلی کیشنز مقامی سطح پر تیار کی گئی ہیں، سید عظمت کے مطابق ان کی کمپنی اگلے مرحلے میں ڈرون کے ذریعے بیجوں کی کاشت seed spreadingکی سہولت بھی مہیا کریں گے اور اسپرے کی طرح کم لاگت میں تیز رفتاری اور ایکیوریسی کے ساتھ بیج بھی ڈرون سے کھیتوں میں پھیلائے جاسکیں گے۔
انھوں نے بیرون ملک ملازمت تلاش کرنا شروع کردی اور جلد ہی ان کی قابلیت اور تجربہ کی بنیاد پر سعودی عرب کی ایک بڑی فرم کی جانب سے خطیر معاوضہ پر ملازمت کی پیش کش کردی گئی، سید عظمت نے روانگی کی تیاریاں شروع کردیں اسی دوران ان کی نظر دنیا میں سول مقاصد کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کرنیو الے ملکوں کی فہرست پر پڑی ان ملکوں میں نجی کمپنیاں ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے عوام کے بہت سے مسائل حل کرنے کے ساتھ ان ملکوں کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کررہی تھی۔
سید عظمت کے مطابق ڈرون ٹیکنالوجی کی خدمات فراہم کرنے والی مستحکم کمپنیوں کے حامل 20 سرفہرست ملکوں میں بھارت7 ویں نمبر تھا اور پاکستان کا 100ملکوں میں بھی کہیں نام نہیں تھا، اس فہرست نے سید عظمت کے پیر جکڑ لیے اور انھوں نے بیرون ملک منتقل ہونے کا فیصلہ موخر کرتے ہوئے پاکستان کا نام ان ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کا بیڑہ اٹھالیا، 27 سالہ سید عظمت سرسید یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے 4سال قبل گریجویشن کی اور 23سال کی عمر میں پہلا ڈرون تیار کیا جو 40کلو گرام وزن لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا، مختلف اداروں کے لیے ان کے بنائے گئے ڈرون اور ڈرون آپریشنز سے متعلق ایپلی کیشنز ڈرون کے ذریعے فصلوں پر اسپرے ، نگرانی، سروے اور میپنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
ایک سال کے دوران 15ڈرونز کا فلیٹ بنانے کا ہدف
سید عظمت کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبہ میں ڈرون ٹیکنالوجی کے انتہائی دو ر رس نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں اگر ایک ہزار ڈرون بھی استعمال کیے جائیں تو کم ہیں، سید عظمت رواں ماہ دو ڈرونز کے ذریعے سندھ اور پنجاب میں فصلوں پر کیڑے مار ادویات کے اسپرے کی خدمات کی فراہمی کا آغاز کررہے ہیں۔
انھوں نے اپنے فلیٹ کی تعداد ایک سال کے دوران 15ڈرونز تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ابتدائی طور پر پنجاب کے علاقے دیپالپور میں آلو کی فصل اور سندھ میں کراچی کے نواحی علاقے درسانوچھنو میں ڈرون کے ذریعے کیڑے مار ادویات اسپرے کی جائیں گی، سولہ لیٹر گنجائش کا حامل ایک ڈرون تیار ہے جو آئندہ ہفتہ کراچی کے نواحی علاقے میں اسپرے کرے گا یہ سندھ میں ڈرون کے ذریعے کیڑے مار ادویات کے اسپرے کا پہلا موقع ہوگا۔ پندرہ روز میں دوسرا ڈرون بھی تیار کرلیا جائے گا جو پنجاب کے علاقوں میں استعمال ہوگا۔
فصلوں پر ڈرون سے اسپرے کراناکئی پہلوؤں سے مفیدہے
سید عظمت کے مطابق ڈرون کے ذریعے فصلوں پر کیڑے مار زہر کا اسپرے پاکستان میں زرعی شعبے کے لیے انقلاب کا آغاز ہے یہ بہت سے پہلوؤں سے مفید ہے اول تو اس میں وقت کم لگتا ہے اور افرادی قوت کی ضرورت نہیں ہوتی دوسری اس کی درستگی ہے فصلوں پر ایک ہی مقدار دوا اسپرے ہوتی ہے فصل کے لحاظ سے دوا اسپرے ہونے کی رفتاراور مقدار کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، مینوئل طریقے سے اگر ادویات اسپرے کی جائیں تو 8 گھنٹوں میں فصلوں کے لحاظ سے بمشکل 2 سے 5 ایکڑ رقبہ پر اسپرے کیا جاسکتا ہے۔
مینوئل طریقے سے زیادہ تر اسپرے ٹریکٹر کے ذریعے کیے جاتے ہیں فصلوں کے درمیان ٹریکٹر چلنے سے فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے جو بعض اوقات لاکھوں روپے تک بڑھ جاتا ہے، ڈرون کے ذریعے کم اونچائی اور زیادہ انچائی والی فصلوں اور گھنے باغات میں بھی اسپرے کیا جاسکتا ہے، آلو کی فصل میں متواتر اسپرے کی ضرورت ہوتی ہے عموما آلو کی فصل بڑے رقبے پر کاشت کی جاتی ہے جس پر 5 ماہ تک متواتر 6 روز اسپرے کرنا پڑتا ہے جس کے لیے زیادہ افرادی قوت کی ضرورت پڑتی ہے۔
زرعی مصنوعات میں ایک حد سے زیادہ کیڑے مار ادویات کا استعمال انسانی صحت کے لیے مضر ہوتا ہے اور ایک خاص تناسب سے زیادہ کیڑے مار ادویات کا استعمال کرنی والی فصلیں یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں قبول نہیں کی جاتیں اسی طرح اسپرے کرنے والے کسانوں اور مزدوروں کی صحت بھی کیڑے مار ادویات سے بری طرح متاثر ہوتی ہے حد سے زیادہ کیڑے مار ادویات زمین میں شامل ہوکر زمین کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کرنے کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھی بنتی ہے اس لحاظ سے فصلوں پر کیڑے مارادویات کے اسپرے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال پاکستان میں فصلوں کی لاگت کم بنانے، معیار کی بہتری اور پیداوار بڑھانے کے ساتھ ماحول کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
ڈرون رجسٹریشن اورپائلٹس لائسنسنگ نظام موجودنہیں
سید عظمت کے مطابق پاکستان میں ڈرون کی رجسٹریشن اور ڈرون پائلٹس کی لائسنس کے نظام کی اشد ضرورت ہے پڑوسی ملک بھارت میں یہ نظام وضع کیا جاچکا ہے اس نظام سے ملک میں سول مقاصد کے لیے ڈرون کا استعمال آسان ہوگا اور پاکستان کے لیے سیکیورٹی خدشات کو کم کرنے میں مدد ملے گی، پاکستان کی فضائی حدود میں اڑنے والے ہر ڈرون کو شناخت ملے گی اس سے پاکستان کی فضائی حدود بھی محفوظ ہوجائیں گی اور حساس علاقوں اور تنصیبات کی سیکیورٹی کو موثر بنانے میں مدد ملے گی۔
سید عظمت کے مطابق جیوفینسنگ کے ذریعے ڈرون کی پروازوں کی نگرانی کی جاسکتی ہے اور سید عظمت اس نظام کی تشکیل کے لیے حکومت کی معاونت کے لیے تیار ہیں، سید عظمت کے مطابق پاکستان میں ڈرون کی رجسٹریشن اور ڈرون پائلٹس کے لیے لائسنس کی شرط کو لازمی قراد یا جائے تو ڈرون ٹیکنالوجی سے بھرپور فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
دنیا میں اس مقصد کے لیے FAA Part107 لائسنس استعمال کیے جاتے ہیں، ہر اڑنے والے ڈرون کے راستے اور پرواز کا دورانیہ مقرر کیا جاتا ہے، سید عظمت پاکستان میں ڈرون ٹیکنالوجی سے معاشی فوائد حاصل کرنے اور سماجی شعبہ کو مضبوط بنانے بالخصوص ہیلتھ کیئر کی سہولتوں کو عام کرنے کے لیے بھی ڈرون کے استعمال کے لیے پرعزم ہیں اور اپنا تجربہ اور مہارت عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے بروئے کار لانے کے بھی خواہش مند ہیں۔
پاکستان کواسمارٹ ایگریکلچر سلوشنزوالے ملکوں میں شامل کرناہے
سید عظمت کہتے ہیں کہ میرا خواب پاکستان کو اسمارٹ ایگری کلچر سلوشنز استعمال کرنے والے سرفہرست ملکوں میں شامل کرنا ہے۔ جدید ٹیکنالوجیز کی مدد سے پاکستان زرعی پیداوار میں خودکفالت کی منزل حاصل کرسکتا ہے جس سے بڑھتی ہوئی آبادی اور خوراک کی ضرورت پوری کرنے میں آسانی ہوگی۔اس سلسلے میں حکومت کی سپورٹ ناگزیر ہے۔ اب تک تمام سرمایہ کاری اپنے وسائل سے کی ہے۔ حکومت اس شعبہ میں سرمایہ کاری پر مراعات کا اعلان کرے اور کاشتکاروں کو جدید ٹیکنالوجیز پر مشتمل سلوشنز کی جانب راغب کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کوششیں کی جائیں تو بہت جلد پاکستان کے زرعی شعبہ میں انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔
فصلوں پراسپرے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کااستعمال
پاکستان میں فصلوں پر کیڑے مار دواکے اسپرے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال ایک نیا رجحان ہے پاکستان کے کاشتکاروں کے بارے میں یہ رائے غلط ہے کہ وہ نئی ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں جب انھوں نے پنجاب اور سندھ کے کاشتکاروں کے سامنے ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے کیڑے مار زہر کے اسپرے کا آئیڈیا پیش کیا تو اکثریت نے اس آئیڈیے کو سراہا اور اسے زرعی شعبہ کے لیے ایک انقلابی سہولت قرار دیتے ہوئے اس سہولت سے استفاد ہ کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔
کاشتکاروں کی دلچسپی دیکھتے ہوئے سید عظمت نے ابتدائی طور پر دو ڈرون تیار کیے ہیں جو رواں سال کے اختتام تک آپریشنز شروع کردیں گے یہ ڈرون 16لیٹر تک زرعی ادویات اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور 8گھنٹوں میں 60سے 70ایکڑ رقبے پر کیڑے مار دوا کا اسپرے کرنیکی صلاحیت رکھتے ہیں۔
فصلوں پر کیڑے مار ادویا ت کے اسپرے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال زرعی ادویات کے کفایت بخش استعمال کا بھی سبب بنتا ہے عام طریقے سے کیڑے مار دوا کی زیادہ مقدار چھڑکی جاتی ہے جو انسانی صحت کے لیے خطرہ ہونے کے ساتھ لاگت میں اضافہ کا بھی سبب بنتی ہے۔
ڈرون ٹیکنالوجی سے اسپرے کرنے کی صورت میں کیڑے مار دوا کی 40فیصد تک مقدار بچائی جاسکے گی، اسپرے کرنے کی فی ایکڑ لاگت اتنی ہی ہے جتنی مینوئل طریقے سے ٹریکٹرز یا اسپرے مشینوں کے ذریعے کی جاتی ہے لیکن ڈرون کے ذریعے 70گنا زیادہ رفتار سے فصلوں پر اسپرے کیا جاسکتا ہے یہ اسپرے رات کے وقت میں بھی کیا جاسکتا ہے ڈرون اور ٹینکس میں نصب سینسر دوا کی مقدار ختم ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں اور ڈرون ٹینک کو دوبارہ بھرنے کے بعد اسی مقام سے اسپرے شروع کرتا ہے جہاں اسپرے کرنے کا سلسلہ کیڑے مار زہر ختم ہونے کی وجہ سے منقطع ہوا تھا۔
پاکستانی زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے،عظمت
سید عظمت نے پاکستان میں ڈرون ٹیکنالوجی سے زراعت کی ترقی کے مشکل مشن کا آغاز کیا، انھوں نے پاکستان میں precision agriculture کی مدد سے زراعت کے شعبہ میں لاگت کو کم کرنے، استعداد کار اور پیداوار کو بڑھانے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کے سلوشن تیار کیے، ان سلوشنز میں سرفہرست فصلوں پر ڈرون کے ذریعے اسپرے کی سہولت شامل ہے۔
سید عظمت کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبہ میں جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے اس کے برعکس پاکستان کے ہم پلہ ملکوں کے علاوہ دنیا کے بڑے زرعی ممالک جدید ٹیکنالوجی کی مددسے لاگت کو کم کرتے ہوئے معیار کو بہتر اور اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ کررہے ہیں، سید عظمت نے پاکستان میں فصلوں پر کیڑے مار ادویات کے اسپرے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کی تکنیک کو عام کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے VTOL ڈائنامکس کے نام سے اپنی کمپنی قائم کی جس میں وہ چیف ٹیکنالوجی آفیسر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
زرعی استعمال کیلیے ایک ڈرون کیتیاری پر 28لاکھ روپے لاگت آئیگی
سید عظمت کے مطابق زرعی استعمال کے لیے ایک ڈرون کی تیاری پر 25 سے 28لاکھ روپے کی لاگت آتی ہے پاکستان میں ڈرون کی درآمد پر پابندی کی وجہ سے ڈرون کے کمپونینٹ امپورٹ کرکے ڈرون تیار کیا جاتا ہے ڈرون کے آپریشنز کے لیے ایپلی کیشنز مقامی سطح پر تیار کی گئی ہیں، سید عظمت کے مطابق ان کی کمپنی اگلے مرحلے میں ڈرون کے ذریعے بیجوں کی کاشت seed spreadingکی سہولت بھی مہیا کریں گے اور اسپرے کی طرح کم لاگت میں تیز رفتاری اور ایکیوریسی کے ساتھ بیج بھی ڈرون سے کھیتوں میں پھیلائے جاسکیں گے۔