کاریں ہوا اور موٹر سائیکلیں درختوں سے چلیں گی
کراچی کے ایک نوجوان مکینیکل انجینئر محمد فیصل نے مقامی سطح پر پانی سے چلنے والے راکٹ بنانے کا دعویٰ کیا ہے
لاہور:
احمد رشدی کا ایک مشہور گانا تھا:
سنا ہے چاند پر انسان رہیں گے
وہیں ہم تم اے جانِ جاں رہیں گے
یہ شاعر کا خواب یا تخیل تھا جس پر لوگ سر تو دھنتے تھے مگر یہ دعویٰ ان کے سر میں نہیں سماتا تھا، لیکن اس گانے کے 30 یا 35 سال بعد جب چاند پر جھنڈے لہرانے کے بعد وہاں کی زمینوں کی فروخت کے اشتہارات شایع ہوئے تو لوگوں کو اس شاعر کے تخیل و خواب کے حقیقت ہونے کا اندازہ ہوا۔
گزشتہ ماہ خیرپور سندھ کے آغا وقار کے میڈیاپر پانی سے کار چلانے کے مظاہرے نے ملک کے طول و عرض میں ہلچل مچا کر رکھ دی۔ کچھ ششدر ہو کر رہ گئے، کچھ سہانے دنوں کے سپنوں میں کھو گئے، کچھ نے مخالفت کرتے ہوئے مسترد کردیا۔ آغا وقار کی یہ نئی ایجاد پارلیمنٹ سے منظرِعام پر آئی، جہاں اس کا مشاہدہ کئی اراکین نے بذاتِ خود اس کار کو دوڑا کر کیا، اس کا معائنہ بھی کیا۔ وفاقی وزیر خورشید شاہ نے اس نئی ایجاد کو کابینہ میں پیش کیا جس نے اس سلسلے میں مزید پیش رفت کے لیے ایک کمیٹی بھی بنا دی اور وزراء، سینیٹرز سے لے کر وزیر خزانہ اور وزیراعظم تک نے اس کی حمایت و تائید کی ہے۔
خود وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے سکھر جا کر آغا وقار سے ملاقات بھی کی۔ آغا وقار کی ایجاد کے اس انکشاف کے بعد کراچی میں این ای ڈی کے گریجویٹ انجینئر محمد قمر خان کی کاوشیں بھی سامنے آئیں جن کے مطابق وہ گزشتہ ڈیڑھ برس سے اس منصوبے پر کام کررہے تھے، اب تک کئی کاروں، ہائی روف اور 16 وہیلر کے ٹرکوں میں واٹر کٹ لگاچکے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ گاڑیاں کامیابی سے چل رہی ہیں، ماحول دوست ہیں، ان سے دھویں کے بجائے واٹر وائپر خارج ہوتے ہیں۔ پانی سے گاڑیاں چلانے کے حوالے سے وہ متعدد اشتہارات بھی شایع کراچکے ہیں مگر حکام نے کبھی ان سے رابطہ نہیں کیا۔
ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ میں اپنی اس ایجاد کو پیٹنٹ کرالوں لیکن میں اس کا حامی نہیں، اس ایجاد کو لوگوں کی فلاح کے لیے استعمال ہونا چاہیے، چاہے جو بھی کرے۔ آغا وقار اور انجینئر قمر کی ایجادات میں یہ فرق ہے کہ اول الذکر کی گاڑی صرف پانی سے چلتی ہے جب کہ ثانی الذکر کی گاڑی میں 60 فیصد انرجی فیول استعمال ہوتا ہے۔ ان حضرات کے علاوہ لاہور کے انجینئر چوہدری ڈاکٹر غلام سرور اور ایک نوجوان محمد عاصم کی بھی اس قسم کی ایجادات سامنے آئی ہیں۔
ان سنسنی خیز ایجادات کے دعوئوں کے ساتھ ہی ہوا سے کاریں اور درختوں سے موٹر سائیکلیں چلائے جانے کا ایک اور سنسنی خیز انکشاف سندھ کے سابق سیکریٹری اور سابق صدر پاکستان ایسوسی ایشن آف سائنسز اینڈ سائنٹیفک پروفیشن کی جانب سے کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جیٹ روفا (Jatrofa) درخت میں بیر کی شکل کا پھل ہوتا ہے جس سے ڈیزل جیسا مایع نکلتا ہے، اس کے ذریعے مستقبل قریب میں موٹر سائیکلیں چلائی جائیں گی اور کاریں ملاوٹ شدہ ڈسٹل واٹر کے بغیر صرف ہوا سے چلا کریں گی۔ اس سلسلے میں فرانس کی ایک کمپنی نے مثبت تحقیق کی ہے۔ اس کمپنی سے بھارت کے ایک بڑے صنعتی ادارے ٹاٹا نے معاہدہ بھی کرلیا ہے۔
سابق سیکریٹری شجاعت علی قرنی نے پاکستانی انجینئر پر زور دیا ہے کہ پاکستان میں بھی ہوا سے چلنے والی کاریں، موٹر سائیکلیں اور رکشا تیار کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2015 تک ایسی کاروں کی تیاری کمرشل بنیاد پر شروع ہوجائے گی جب کہ موٹر سائیکلیں تو بننا شروع ہوچکی ہیں۔ اِدھر کراچی کے ایک نوجوان مکینیکل انجینئر محمد فیصل نے مقامی سطح پر پانی سے چلنے والے راکٹ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس راکٹ میزائل کو پلاسٹک بوتل کاٹ کر ایئر کمپریسر نصب کرکے تیار کیا جاسکتا ہے۔ راکٹ پر یورینیم میٹر لگا کر ہوا کا دبائو دینے سے یہ کسی بھی ٹارگٹ پر ٹکرایا جاسکتا ہے، یہ 180 ڈگری پر موو کرسکتا ہے۔ یہ راکٹ میزائل بغیر کسی لانچنگ پیڈ کے ریموٹ کنٹرول سے چلایا جاسکتا ہے۔ ان تمام حالیہ ایجادات کے دعوئوں میں سب سے زیادہ زیر بحث آغا وقار کی جانب سے بنائی گئی پانی سے چلنے والی کار ہے، جس میں پاکستان کے چوٹی کے سائنس دان، انجینئر، اراکینِ اسمبلی، وزرا اور وزیراعظم تک شریک ہیں۔
ان بحثوں کے دوران شرکاء میں تلخیاں، الزامات اور ناشائستگی کے مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے جو افسوس ناک ہیں۔ اس خالصتاً سائنسی بحث میں غیر سائنسی اور حمایت یا مخالفت کا عنصر بھی نظر آرہا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے آغا وقار کی اس ایجاد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ممکن ہے، لوگ ان کے جوہری منصوبے کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، لیکن انھوں نے اس کو عملی جامہ پہنا کے دکھایا، آغا وقار اپنی ایجاد کو پیٹنٹ کروائیں۔ PCSIR کے چیئرمین ڈاکٹر پرویز شوکت نے بھی اس ایجاد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے کار اپنی آنکھوں سے چلتے ہوئے دیکھی ہے۔
PCSIR کے سابق چیئرمین ڈاکٹر شوکت حمید اور سائنس دان ثمر مبارک مند نے بھی اس کو ناممکن قرار دیا ہے جب کہ ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہا ہے کہ اس کا موجد باقاعدہ تعلیم یافتہ نہیں ہے، نہ کوئی ریسرچ پیپر یا کتاب لکھی ہے، یہ دعویٰ سائنسی بنیادوں کے خلاف ہے۔ آغا مسلسل متحرک مشین کی بات کررہے ہیں ایسی مشین تصوراتی ہوسکتی ہیں جسے کئی قسم کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، یہ دعویٰ سو فیصد غلط اور سبز باغ دِکھانے کے مترادف ہے اور دنیا میں پاکستان کی بے عزتی کا سبب بن رہا ہے۔ غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈاکٹر پرویز ہود نے اس ایجاد کو غیر سائنسی، غیر عقلی اور نری بکواس قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے شخص کو تو جیل میں ڈال دینا چاہیے اور اس کی حمایت کرنے والے PCSIR کے چیئرمین کو عہدے سے فوری برطرف کردینا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ کار سے نکلنے والے مواد کو چیک کرلیا جائے اگر اس میں پانی کے بخارات نہیں پائے جاتے تو ضرور کچھ چھپایا گیا ہے۔ آپ غلام اسحاق انسٹی ٹیوٹ آئیں ہم جب تک نہیں دیکھیں گے تب تک نتیجہ نہ نکال لیں۔ معنی خیز اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس قسم کی حالیہ ایجادات کے دعوے داروں میں سے کسی نے اپنی ایجاد کو پیٹنٹ نہیں کرایا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ A patent is a privilage granted by the crown to the first inventor شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پیٹنٹ کرانے کے لیے جن امتیازی خصوصیات، انوکھا پن، انفرادیت، معیار و موزونیت، معقولیت اور کارکردگی و فارمولے کی ضرورت ہوتی ہیں کہ ایجادات ان پر پوری نہ اترتی ہوں۔ یا پھر موجد اپنی علمی کم مائیگی کی بِنا پر ان کا اظہار کرنے سے قاصر ہو، اگر ایسا ہے تو حکومت اور سائنس دانوں کا فرض بنتا ہے کہ اس سلسلے میں موجد کی رہنمائی و رہبری کریں۔
احمد رشدی کا ایک مشہور گانا تھا:
سنا ہے چاند پر انسان رہیں گے
وہیں ہم تم اے جانِ جاں رہیں گے
یہ شاعر کا خواب یا تخیل تھا جس پر لوگ سر تو دھنتے تھے مگر یہ دعویٰ ان کے سر میں نہیں سماتا تھا، لیکن اس گانے کے 30 یا 35 سال بعد جب چاند پر جھنڈے لہرانے کے بعد وہاں کی زمینوں کی فروخت کے اشتہارات شایع ہوئے تو لوگوں کو اس شاعر کے تخیل و خواب کے حقیقت ہونے کا اندازہ ہوا۔
گزشتہ ماہ خیرپور سندھ کے آغا وقار کے میڈیاپر پانی سے کار چلانے کے مظاہرے نے ملک کے طول و عرض میں ہلچل مچا کر رکھ دی۔ کچھ ششدر ہو کر رہ گئے، کچھ سہانے دنوں کے سپنوں میں کھو گئے، کچھ نے مخالفت کرتے ہوئے مسترد کردیا۔ آغا وقار کی یہ نئی ایجاد پارلیمنٹ سے منظرِعام پر آئی، جہاں اس کا مشاہدہ کئی اراکین نے بذاتِ خود اس کار کو دوڑا کر کیا، اس کا معائنہ بھی کیا۔ وفاقی وزیر خورشید شاہ نے اس نئی ایجاد کو کابینہ میں پیش کیا جس نے اس سلسلے میں مزید پیش رفت کے لیے ایک کمیٹی بھی بنا دی اور وزراء، سینیٹرز سے لے کر وزیر خزانہ اور وزیراعظم تک نے اس کی حمایت و تائید کی ہے۔
خود وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے سکھر جا کر آغا وقار سے ملاقات بھی کی۔ آغا وقار کی ایجاد کے اس انکشاف کے بعد کراچی میں این ای ڈی کے گریجویٹ انجینئر محمد قمر خان کی کاوشیں بھی سامنے آئیں جن کے مطابق وہ گزشتہ ڈیڑھ برس سے اس منصوبے پر کام کررہے تھے، اب تک کئی کاروں، ہائی روف اور 16 وہیلر کے ٹرکوں میں واٹر کٹ لگاچکے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ گاڑیاں کامیابی سے چل رہی ہیں، ماحول دوست ہیں، ان سے دھویں کے بجائے واٹر وائپر خارج ہوتے ہیں۔ پانی سے گاڑیاں چلانے کے حوالے سے وہ متعدد اشتہارات بھی شایع کراچکے ہیں مگر حکام نے کبھی ان سے رابطہ نہیں کیا۔
ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ میں اپنی اس ایجاد کو پیٹنٹ کرالوں لیکن میں اس کا حامی نہیں، اس ایجاد کو لوگوں کی فلاح کے لیے استعمال ہونا چاہیے، چاہے جو بھی کرے۔ آغا وقار اور انجینئر قمر کی ایجادات میں یہ فرق ہے کہ اول الذکر کی گاڑی صرف پانی سے چلتی ہے جب کہ ثانی الذکر کی گاڑی میں 60 فیصد انرجی فیول استعمال ہوتا ہے۔ ان حضرات کے علاوہ لاہور کے انجینئر چوہدری ڈاکٹر غلام سرور اور ایک نوجوان محمد عاصم کی بھی اس قسم کی ایجادات سامنے آئی ہیں۔
ان سنسنی خیز ایجادات کے دعوئوں کے ساتھ ہی ہوا سے کاریں اور درختوں سے موٹر سائیکلیں چلائے جانے کا ایک اور سنسنی خیز انکشاف سندھ کے سابق سیکریٹری اور سابق صدر پاکستان ایسوسی ایشن آف سائنسز اینڈ سائنٹیفک پروفیشن کی جانب سے کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جیٹ روفا (Jatrofa) درخت میں بیر کی شکل کا پھل ہوتا ہے جس سے ڈیزل جیسا مایع نکلتا ہے، اس کے ذریعے مستقبل قریب میں موٹر سائیکلیں چلائی جائیں گی اور کاریں ملاوٹ شدہ ڈسٹل واٹر کے بغیر صرف ہوا سے چلا کریں گی۔ اس سلسلے میں فرانس کی ایک کمپنی نے مثبت تحقیق کی ہے۔ اس کمپنی سے بھارت کے ایک بڑے صنعتی ادارے ٹاٹا نے معاہدہ بھی کرلیا ہے۔
سابق سیکریٹری شجاعت علی قرنی نے پاکستانی انجینئر پر زور دیا ہے کہ پاکستان میں بھی ہوا سے چلنے والی کاریں، موٹر سائیکلیں اور رکشا تیار کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2015 تک ایسی کاروں کی تیاری کمرشل بنیاد پر شروع ہوجائے گی جب کہ موٹر سائیکلیں تو بننا شروع ہوچکی ہیں۔ اِدھر کراچی کے ایک نوجوان مکینیکل انجینئر محمد فیصل نے مقامی سطح پر پانی سے چلنے والے راکٹ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس راکٹ میزائل کو پلاسٹک بوتل کاٹ کر ایئر کمپریسر نصب کرکے تیار کیا جاسکتا ہے۔ راکٹ پر یورینیم میٹر لگا کر ہوا کا دبائو دینے سے یہ کسی بھی ٹارگٹ پر ٹکرایا جاسکتا ہے، یہ 180 ڈگری پر موو کرسکتا ہے۔ یہ راکٹ میزائل بغیر کسی لانچنگ پیڈ کے ریموٹ کنٹرول سے چلایا جاسکتا ہے۔ ان تمام حالیہ ایجادات کے دعوئوں میں سب سے زیادہ زیر بحث آغا وقار کی جانب سے بنائی گئی پانی سے چلنے والی کار ہے، جس میں پاکستان کے چوٹی کے سائنس دان، انجینئر، اراکینِ اسمبلی، وزرا اور وزیراعظم تک شریک ہیں۔
ان بحثوں کے دوران شرکاء میں تلخیاں، الزامات اور ناشائستگی کے مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے جو افسوس ناک ہیں۔ اس خالصتاً سائنسی بحث میں غیر سائنسی اور حمایت یا مخالفت کا عنصر بھی نظر آرہا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے آغا وقار کی اس ایجاد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ممکن ہے، لوگ ان کے جوہری منصوبے کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، لیکن انھوں نے اس کو عملی جامہ پہنا کے دکھایا، آغا وقار اپنی ایجاد کو پیٹنٹ کروائیں۔ PCSIR کے چیئرمین ڈاکٹر پرویز شوکت نے بھی اس ایجاد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے کار اپنی آنکھوں سے چلتے ہوئے دیکھی ہے۔
PCSIR کے سابق چیئرمین ڈاکٹر شوکت حمید اور سائنس دان ثمر مبارک مند نے بھی اس کو ناممکن قرار دیا ہے جب کہ ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہا ہے کہ اس کا موجد باقاعدہ تعلیم یافتہ نہیں ہے، نہ کوئی ریسرچ پیپر یا کتاب لکھی ہے، یہ دعویٰ سائنسی بنیادوں کے خلاف ہے۔ آغا مسلسل متحرک مشین کی بات کررہے ہیں ایسی مشین تصوراتی ہوسکتی ہیں جسے کئی قسم کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، یہ دعویٰ سو فیصد غلط اور سبز باغ دِکھانے کے مترادف ہے اور دنیا میں پاکستان کی بے عزتی کا سبب بن رہا ہے۔ غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈاکٹر پرویز ہود نے اس ایجاد کو غیر سائنسی، غیر عقلی اور نری بکواس قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے شخص کو تو جیل میں ڈال دینا چاہیے اور اس کی حمایت کرنے والے PCSIR کے چیئرمین کو عہدے سے فوری برطرف کردینا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ کار سے نکلنے والے مواد کو چیک کرلیا جائے اگر اس میں پانی کے بخارات نہیں پائے جاتے تو ضرور کچھ چھپایا گیا ہے۔ آپ غلام اسحاق انسٹی ٹیوٹ آئیں ہم جب تک نہیں دیکھیں گے تب تک نتیجہ نہ نکال لیں۔ معنی خیز اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس قسم کی حالیہ ایجادات کے دعوے داروں میں سے کسی نے اپنی ایجاد کو پیٹنٹ نہیں کرایا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ A patent is a privilage granted by the crown to the first inventor شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پیٹنٹ کرانے کے لیے جن امتیازی خصوصیات، انوکھا پن، انفرادیت، معیار و موزونیت، معقولیت اور کارکردگی و فارمولے کی ضرورت ہوتی ہیں کہ ایجادات ان پر پوری نہ اترتی ہوں۔ یا پھر موجد اپنی علمی کم مائیگی کی بِنا پر ان کا اظہار کرنے سے قاصر ہو، اگر ایسا ہے تو حکومت اور سائنس دانوں کا فرض بنتا ہے کہ اس سلسلے میں موجد کی رہنمائی و رہبری کریں۔