لاہور سمیت پنجاب میں اسموگ کی شدت گزشتہ سال کی نسبت کم

فضائی آلودگی میں کمی کے باوجود کے باوجود اسپتالوں کی ایمرجنسی میں آنیوالے 40 فیصد مریض سانس اور دمے کا شکار ہوتے ہیں

گزشتہ دنوں ہونے والی بارشوں سے فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی آئی ہے فوٹو: فائل

پنجاب بھر میں رواں برس اسموگ کی شدت میں نسبتاً کمی دیکھی جارہی ہے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تبدیلی عارضی ہے اور کورونا کے بعد جیسے ہی حالات زندگی معمول پر آئیں گے آلودگی میں پھرسے اضافہ ہوسکتا ہے۔

حالیہ بارشوں اور حکومتی اقدامات کے نتیجے میں لاہور سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں اسموگ کی شدت گزشتہ سال کی نسبت کم ہے لیکن اس کے باوجود ان دنوں اسپتالوں کی ایمرجنسی میں آنیوالے 40 فیصد مریض سانس اور دمہ سمیت ایسی بیماریوں کا شکارہوتے ہیں جو فضائی آلودگی سے پیدا ہوتی ہیں۔

رواں سال کورونا لاک ڈاؤن کے فضائی آلودگی میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تبدیلی عارضی ہے اور کورونا کے بعد جیسے ہی حالات زندگی معمول پر آئیں گے آلودگی میں پھر سے اضافہ ہوسکتا ہے۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے سردیوں میں اسموگ کا سبب بننے والے صنعتی یونٹس، اینٹوں کے بھٹوں کی بندش اور گاڑیوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں کی روک تھام کے لئے مستقل بنیادوں پر کام ہورہا ہے۔

لاہور کے میو اسپتال کے ڈاکٹر سلمان کاظمی کہتے ہیں فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کے یقیناً انسانی صحت پرمثبت اثرات ہوں گے ،گزشتہ دنوں ہونے والی بارشوں سے فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی آئی ہے۔ تاہم اس کے باوجود اسپتالوں کی ایمرجنسی وارڈز میں روزانہ چالیس فیصد مریض ایسے آتے ہیں جو سانس اور دمہ سمیت ایسی بیماریوں کا شکار ہیں جو فضائی آلودگی سے پیدا ہوتی ہیں۔ سلمان کاظمی کہتے ہیں اس کی بڑی وجہ کورونا بھی ہے جو سردیوں میں شدت سے پھیل رہا ہے اور اسموگ سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔


ماہرین ماحولیات کے مطابق انسانی زندگی کے لئے مضر گیسوں کا اخراج ان ملکوں میں کم ہوا ہے جہاں صحت عامہ کے پیش نظر وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لوگوں کو گھروں میں رہنے کا کہا گیا ہے، مکمل یا اسمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے غیر ضروری نقل و حرکت روکی گئی تھی۔ کیونکہ فضائی اور سٹرکوں پر سفر کے دوران خارج ہونے والی گیسوں کا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بالترتیب 11 فیصد اور 72 فیصد حصہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت فضائی آلودگی میں کمی صنعتی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ صنعتی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی کا موازنہ ٹرانسپورٹ یا ذرائع نقل و حمل سے کیا جا سکتا ہے۔ صنعتی سرگرمیوں، پیداوار اور تعمیرات کا انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی مجموعی عالمی آلودگی میں حصہ 18.4 فیصد بنتا ہے۔

عالمی موسمیاتی ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن ( ڈبلیو ایم او) کے مطابق کورونا وبا کے دوران لاک ڈاؤن، سرحدوں کی بندش، پروازوں کی منسوخی اور دیگر پابندیوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ سمیت دوسری ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کچھ کمی ہوئی لیکن اس کا بہت زیادہ اثر نہیں ہوا ہے۔ اس سال وبا کے عروج کے مہینوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے روزانہ اخراج میں اوسطاً 17 فیصد کمی دیکھی گئی۔ادارے کا کہنا ہے کہ وبا کے باوجود صنعتی سرگرمیوں میں خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ ڈبلیوایم او نے ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں اس عارضی کمی کو "سمندر میں قطرہ" قرار دیا ہے۔ ادارے کے مطابق کورونا وبا کے باعث توقع ہے کہ اس سال آلودگی پھیلانے والی گیسوں کے اخراج میں 4.2 سے 7.5 فیصد تک کی کمی آئے گی لیکن اس کا ماحول میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نقصان دہ سطح پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔

صوبائی وزیرمحکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب باؤ رضوان نے ٹربیون کوبتایا کہ پاکستان دنیا کے ان 16 ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جہاں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گرمی اورسردی کے دورانیہ سمیت کئی تبدیلیاں رونماہورہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا لاک ڈاؤن اور اب اسموگ سیزن کے دوران حکومت نے فضائی آلودگی کی روک تھام کے لئے جواقدامات اٹھائے ہیں ان کی وجہ سے گزشتہ سالوں کی نسبت سموگ اورفضائی آلودگی کی شرح میں خاطرخواہ کمی آئی ہے۔ حالیہ بارشوں کے بعد سے پنجاب خاص طوپرلاہورمیں پی ایم 2.5 کی شرح 200 سے کم ہو150 تک پہنچ چکی ہے۔ محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب اور پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے اینٹوں کے روایتی بھٹوں کی زگ زیگ پرمنتقلی، گاڑیوں کے یوروفائیوفیول کا استعمال ،فرنس ملوں اورکارخانوں میں ٹائراورمضرصحت دھواں پیداکرنیوالے ایندھن کے استعمال پرپابندی جیسے اقدامات شامل ہیں۔
Load Next Story