خیبر ٹیچنگ اسپتال میں اموات حکومتی کردار کہاں ہے
جب کئی گھنٹوں تک حکومتی موقف سامنے نہ آئے، وزرا موبائل نہ اٹھائیں تو پھر حکومت کی ہی نااہلی سامنے آتی ہے
خیبرپختونخوا میں 2013 میں جب تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو اس وقت حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات کا عزم کیا۔ بڑے بڑے دعوے کیے گئے کہ صوبائی حکومت صحت کا نظام دوسرے صوبوں کی نسبت بہتر کررہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی بتایا کہ سرکاری اسپتالوں کو شوکت خانم طرز پر ڈھالا جارہا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں جب پی ٹی آئی دوبارہ برسر اقتدار آئی تو حکومت نے سرکاری اسپتالوں کو مثالی قرار دیا۔ دعوے کیے گئے کہ اسپتالوں میں عوام کو صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ صوبے کے تمام اسپتالوں میں مریضوں کو کوئی مسئلہ نہیں۔ صحت انصاف کارڈ کا میگا منصوبہ شروع کیا گیا۔ لیکن گزشتہ روز پشاور کے بڑے اسپتال خیبر ٹیچنگ میں آکسیجن نہ ہونے سے 8 افراد کے جاں بحق ہونے والے افسوسناک واقعے نے حکومتی کارکردگی کو صفر کردیا ہے۔
اتوار کی صبح اطلاع موصول ہوئی کہ پشاور کے بڑے طبی مرکز خیبر ٹیچنگ اسپتال میں آکسیجن ختم ہونے سے متعدد مریض جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اس خبر کی تصدیق کےلیے اسپتال انتظامیہ کے علاوہ حکومتی نمائندوں صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا اور حکومتی ترجمان اطلاعات کامران بنگش سے رابطہ کرتے رہے لیکن کسی نے بھی فون اٹھانا گوراا نہیں کیا۔ اسپتال کے ایک ذمے دار نے آکسیجن ختم ہونے سے چھ افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی۔ جب معاملہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر آیا تو حکومتی وزرا جاگے اور ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے وضاحتیں دینا شروع کردیں۔
ہفتے کو رات گئے یہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔ صبح 9 بجے تک معاملہ میڈیا پر آچکا تھا اور حکومتی وزرا نے دوپہر ڈھائی بجے اسلام آباد سے سرکاری ٹی وی کے ذریعے اپنی وضاحت جاری کی۔ دو گھنٹے کی مسافت پر وزیر صحت نے پشاور آنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی اور معاملات اسلام آباد سے چلاتے رہے۔ اپوزیشن کا اس معاملے پر حکومت کو نشانہ بنانا فطری عمل تھا، لیکن سوشل میڈیا پر عوام نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ رات گئے ہونے والے واقعے کے بعد اتوار کے روز کسی حکومتی نمائندے نے اسپتال کا دورہ نہیں کیا۔ اتنی زحمت نہیں کی گئی کہ اسپتال جاکر معلوم کیا جاسکے اتنے بڑے اسپتال میں آکسیجن ختم کیسے ہوگئی؟
اسپتال میں روزانہ آئی سی یو، سی سی یو ایمرجنسی میں مریض زیر علاج رہتے ہیں اور ویسے بھی کورونا وبا کی وجہ سے آکسجن کی ضرورت رہتی ہے۔ ہفتے سے اتوار کے درمیان بھی کورونا کے کئی مریض زیر علاج تھے، جن میں سے کچھ وینٹی لینٹرز پر بھی تھے۔ اسپتال ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آکسیجن ختم ہونے سے قبل ڈاکٹروں کی جانب سے انتظامیہ کو آگاہ کردیا گیا تھا کہ آکسیجن ختم ہونے والی ہے، اس کا بندوبست کیا جائے۔ لیکن بروقت اطلاع کے باوجود آکسیجن بروقت مہیا نہیں کی اور استپال انتظامیہ کے مطابق تین گھنٹے تاخیر سے آکسیجن کی سپلائی فراہم کی گئی۔
1976 میں خیبر اسپتال کو ٹیچنگ اسپتال کا درجہ دیا گیا۔ اس اسپتال کا نام سابق وزیراعلیٰ حیات خان شیرپاؤ کے نام سے منسوب کیا گیا تھا اور یہ اسپتال شیرپاؤ کے نام پر ہی جانا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت کے بعد شیرپاؤ اسپتال کا نام تبدیل کرکے خیبر ٹیچنگ اسپتال رکھ دیا گیا۔ اس اسپتال کے نام پر بھی ماضی میں سیاست ہوتی رہی۔ 12 سو سے زائد بستروں کے اسپتال میں نصف صدی گزرنے کے باوجود اس کا اپنا آکسیجن نظام نہیں بنایا جاسکا اور باہر سے آکسیجن خریدی جاتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو بھی اس افسوسناک واقعے کی اطلاع بروقت نہیں دی گئی، جس پر انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا۔ انکوائری بھی اسپتال انتظامیہ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی نے تیار کرکے وزیراعلیٰ کو بھجوا دی گئی۔ رپورٹ میں مجرمانہ انتظامی غفلت کا انکشاف کیا گیا ہے۔
انکوائری کمیٹی رپورٹ کے مطابق اسپتال میں ایک ہزار کیوبک آکسیجن کا پلانٹ ہے لیکن کوئی بیک اپ نہیں۔ اسپتال میں آکسیجن کے متبادل کے طور پر پرائمری اور سیکنڈری بندوبست ضروری ہے۔ آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم ہوچکا ہے۔ نئے معاہدے سے متعلق کوئی دستاویزات نہیں۔ رپورٹ میں اسپتال ڈائریکٹر طاہر ندیم سمیت 7 افراد ذمے دار قرار دیے گئے، جنہیں فوری طور پر معطل کردیا گیا ہے۔ واقعے کے وقت اسپتال میں 90 مریض آئیسولیشن وارڈ میں زیر علاج تھے۔
حکومتی رپورٹ میں بھی غفلت قرار دی گئی ہے اور اگر اسے مجرمانہ غفلت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد حکومتی حلقوں سے یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ صحت کا قلمدان بھی نئے وزیر کو دیے جانے کا امکان ہے۔ واقعے کی اطلاع ملنے پر اگر حکومت کی جانب سے فوری طور پر وزرا کو استپال بھیجا جاتا، متاثرہ خاندانوں کی دادرسی کی جاتی اور انکوائری رپورٹ تک وزیر صحت اپنا قلمدان چھوڑ دیتے تو یہ حکومت کی نیک نامی ہوتی۔
اس معاملے میں حکومت نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب کئی گھنٹوں تک حکومتی موقف سامنے نہ آئے، وزرا موبائل نہ اٹھائیں تو پھر حکومت کی ہی نااہلی سامنے آتی ہے۔ لیکن شاید ایسا لگ رہا ہے حکومت نے اس معاملے کو چھوٹا واقعہ سمجھ لیا ہے۔ جب اسپتالوں میں ہی مریضوں کو آکسیجن نہیں ملے گی تو انہیں علاج کےلیے کہاں جانا چاہیے؟ نظریں وزیراعلیٰ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ اپنی حکومت پر لگنے والے داغ کو کیسے دھوتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اتوار کی صبح اطلاع موصول ہوئی کہ پشاور کے بڑے طبی مرکز خیبر ٹیچنگ اسپتال میں آکسیجن ختم ہونے سے متعدد مریض جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اس خبر کی تصدیق کےلیے اسپتال انتظامیہ کے علاوہ حکومتی نمائندوں صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا اور حکومتی ترجمان اطلاعات کامران بنگش سے رابطہ کرتے رہے لیکن کسی نے بھی فون اٹھانا گوراا نہیں کیا۔ اسپتال کے ایک ذمے دار نے آکسیجن ختم ہونے سے چھ افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی۔ جب معاملہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر آیا تو حکومتی وزرا جاگے اور ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے وضاحتیں دینا شروع کردیں۔
ہفتے کو رات گئے یہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔ صبح 9 بجے تک معاملہ میڈیا پر آچکا تھا اور حکومتی وزرا نے دوپہر ڈھائی بجے اسلام آباد سے سرکاری ٹی وی کے ذریعے اپنی وضاحت جاری کی۔ دو گھنٹے کی مسافت پر وزیر صحت نے پشاور آنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی اور معاملات اسلام آباد سے چلاتے رہے۔ اپوزیشن کا اس معاملے پر حکومت کو نشانہ بنانا فطری عمل تھا، لیکن سوشل میڈیا پر عوام نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ رات گئے ہونے والے واقعے کے بعد اتوار کے روز کسی حکومتی نمائندے نے اسپتال کا دورہ نہیں کیا۔ اتنی زحمت نہیں کی گئی کہ اسپتال جاکر معلوم کیا جاسکے اتنے بڑے اسپتال میں آکسیجن ختم کیسے ہوگئی؟
اسپتال میں روزانہ آئی سی یو، سی سی یو ایمرجنسی میں مریض زیر علاج رہتے ہیں اور ویسے بھی کورونا وبا کی وجہ سے آکسجن کی ضرورت رہتی ہے۔ ہفتے سے اتوار کے درمیان بھی کورونا کے کئی مریض زیر علاج تھے، جن میں سے کچھ وینٹی لینٹرز پر بھی تھے۔ اسپتال ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آکسیجن ختم ہونے سے قبل ڈاکٹروں کی جانب سے انتظامیہ کو آگاہ کردیا گیا تھا کہ آکسیجن ختم ہونے والی ہے، اس کا بندوبست کیا جائے۔ لیکن بروقت اطلاع کے باوجود آکسیجن بروقت مہیا نہیں کی اور استپال انتظامیہ کے مطابق تین گھنٹے تاخیر سے آکسیجن کی سپلائی فراہم کی گئی۔
1976 میں خیبر اسپتال کو ٹیچنگ اسپتال کا درجہ دیا گیا۔ اس اسپتال کا نام سابق وزیراعلیٰ حیات خان شیرپاؤ کے نام سے منسوب کیا گیا تھا اور یہ اسپتال شیرپاؤ کے نام پر ہی جانا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت کے بعد شیرپاؤ اسپتال کا نام تبدیل کرکے خیبر ٹیچنگ اسپتال رکھ دیا گیا۔ اس اسپتال کے نام پر بھی ماضی میں سیاست ہوتی رہی۔ 12 سو سے زائد بستروں کے اسپتال میں نصف صدی گزرنے کے باوجود اس کا اپنا آکسیجن نظام نہیں بنایا جاسکا اور باہر سے آکسیجن خریدی جاتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو بھی اس افسوسناک واقعے کی اطلاع بروقت نہیں دی گئی، جس پر انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا۔ انکوائری بھی اسپتال انتظامیہ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی نے تیار کرکے وزیراعلیٰ کو بھجوا دی گئی۔ رپورٹ میں مجرمانہ انتظامی غفلت کا انکشاف کیا گیا ہے۔
انکوائری کمیٹی رپورٹ کے مطابق اسپتال میں ایک ہزار کیوبک آکسیجن کا پلانٹ ہے لیکن کوئی بیک اپ نہیں۔ اسپتال میں آکسیجن کے متبادل کے طور پر پرائمری اور سیکنڈری بندوبست ضروری ہے۔ آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم ہوچکا ہے۔ نئے معاہدے سے متعلق کوئی دستاویزات نہیں۔ رپورٹ میں اسپتال ڈائریکٹر طاہر ندیم سمیت 7 افراد ذمے دار قرار دیے گئے، جنہیں فوری طور پر معطل کردیا گیا ہے۔ واقعے کے وقت اسپتال میں 90 مریض آئیسولیشن وارڈ میں زیر علاج تھے۔
حکومتی رپورٹ میں بھی غفلت قرار دی گئی ہے اور اگر اسے مجرمانہ غفلت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد حکومتی حلقوں سے یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ صحت کا قلمدان بھی نئے وزیر کو دیے جانے کا امکان ہے۔ واقعے کی اطلاع ملنے پر اگر حکومت کی جانب سے فوری طور پر وزرا کو استپال بھیجا جاتا، متاثرہ خاندانوں کی دادرسی کی جاتی اور انکوائری رپورٹ تک وزیر صحت اپنا قلمدان چھوڑ دیتے تو یہ حکومت کی نیک نامی ہوتی۔
اس معاملے میں حکومت نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب کئی گھنٹوں تک حکومتی موقف سامنے نہ آئے، وزرا موبائل نہ اٹھائیں تو پھر حکومت کی ہی نااہلی سامنے آتی ہے۔ لیکن شاید ایسا لگ رہا ہے حکومت نے اس معاملے کو چھوٹا واقعہ سمجھ لیا ہے۔ جب اسپتالوں میں ہی مریضوں کو آکسیجن نہیں ملے گی تو انہیں علاج کےلیے کہاں جانا چاہیے؟ نظریں وزیراعلیٰ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ اپنی حکومت پر لگنے والے داغ کو کیسے دھوتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔