ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات
الیکشن کمیشن نے ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات پہلی بار اپنی ویب سائٹ پر جاری کر دی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب ...
لاہور:
الیکشن کمیشن نے ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات پہلی بار اپنی ویب سائٹ پر جاری کر دی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کس کے پاس کتنی دولت ہے اور حکومت میں آنے کے بعد اس کی دولت میں کتنا اضافہ ہوا۔ اس کا ایک مقصد ارکان اسمبلی کی دوران حکومت کرپشن کا انسداد بھی ہے کیونکہ اگر کوئی حکومتی رکن کرپشن کرے گا تو اس کا بھی پتہ چل جائے گا کہ اتنی دولت اس کے پاس کہاں سے آئی۔
ان اثاثوں میں انتخابی امیدوار کی زمینیں'گھر' کاروبار' دکانیں' فیکٹری' ملکی اور غیر کرنسی کے بینک اکاؤنٹس، زیورات اور فرنیچر وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ ماضی میں ہونے والے انتخابات کے موقع پر امیدوار جو اثاثے ظاہر کرتے تھے وہ میڈیا کے ذریعے مشتہر تو ہو جاتے تھے مگر ایسا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات ویب سائٹ پر جاری کر دی ہیں۔ اس سے ان اثاثوں کی معلومات تک رسائی عام شہری کے لیے بھی ممکن ہو گئی ہے۔ اب کوئی بھی شہری اپنے حلقہ انتخاب کے منتخب رکن کے اثاثوں کو دیکھ سکے گا اور غلط بیانی پر عدالت سے رجوع کر سکے گا کیونکہ شہریوں کو اپنے حلقے کے منتخب رکن کے لائف اسٹائل اور کچھ نہ کچھ اثاثوں کا علم ہوتا ہے۔
ارکان پارلیمنٹ کے اثاثے ویب سائٹ پر جاری کرنے کی روایت بہت اچھی ہے اس کو مستقل جاری رہنا چاہیے بلکہ منتخب ارکان کو پابند کیا جائے کہ وہ ہر سال اپنے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرائیں۔ ان کے بیرون ملک دوروں کی تفصیلات بھی منظرعام پر لائی جائیں۔ ہر سال اثاثوں کے گوشوارے منظرعام پر آنے سے منتخب ارکان کرپشن کرنے سے قبل سو بار سوچیں گے کیونکہ اس طرح سال بہ سال ان کے اثاثوں میں ہونے والے اضافے سے آگاہی ہو سکے گی۔ ویب سائٹ پر جاری کیے گئے اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق وزیراعظم میاں نواز شریف 1.88 ارب روپے' تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 6 کروڑ جب کہ جے یو آئی کے سربراہ فضل الرحمن 73 لاکھ روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق 17 کروڑ روپے' جاوید ہاشمی9کروڑ سے زائد اور شاہ محمود قریشی8 کروڑ روپے کے اثاثے رکھتے ہیں۔ان ظاہر کیے گئے اثاثوں کے مطابق کوئی اربوں پتی ہے تو کروڑوں کا مالک اور کوئی صرف چند لاکھ روپے رکھتا ہے۔ منتخب ارکان نے اپنے اثاثے تو ظاہر کر دیے ہیں مگر یہ کیسے معلوم ہو گا کہ ان کی جانب سے اثاثوں کی دی گئی تفصیلات درست ہیں یا وہ درپردہ اس سے بھی زائد اثاثوں کے مالک ہیں۔ کیا انھوں نے اپنے تمام اثاثوں کی تفصیلات ایمانداری سے بیان کی ہیں یا کچھ چھپایا بھی ہے۔ الیکشن کمیشن کو ارکان اسمبلی کے ظاہر کی گئی تفصیلات پر کامل یقین کرنے کے بجائے ان کے تمام اثاثوں کے بارے میں حقیقی اعدادوشمار معلوم کرنے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی بنانی چاہیے تاکہ اصل صورت حال سامنے آ سکے، جو سیاستدان اپنے اثاثے چھپائے اور ٹیکس چوری میں ملوث ہو اس پر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے تاحیات پابندی عائد کر دی جائے اور ٹیکس چوری کے جرم میں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ارکان اسمبلی قانونی ماہرین کے ذریعے قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر اپنی جائیدادیں چھپاتے اور ایسے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ ان پر ٹیکس بہت کم عائد ہوتا ہے۔وہ اپنی جائیدادیں اپنے بیوی بچوں کے نام لگوا دیتے ہیں اور اپنے ذاتی اثاثے بہت کم ظاہر کرتے ہیں۔
بعض ایسے انکشافات بھی سامنے آچکے ہیں کہ سیاستدانوں نے جعلی ناموں سے غیر ملکی بینک اکاؤنٹ کھول رکھے ہیں اور وہ اپنی کرپشن کی دولت ان جعلی ناموں والے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتے ہیں۔ عوامی حلقوں میں یہ خبریں بھی عام ہیں کہ متعدد ارکان اسمبلی کے بیرون ملک بڑے بڑے کاروبار اور جائیدادیں ہیں مگر وہ انھیں ظاہر نہیں کرتے' وہ اندرون ملک جو اثاثے ظاہر کرتے ہیں وہ ان کے بیرون ملک اثاثوں کے مقابلے میں رتی بھر بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ کروڑوں پتی ارکان پارلیمنٹ اپنے آمدورفت کے اخراجات' رہائش کا کرایہ اور میڈیکل بل بھی سرکاری خزانے سے وصول کرتے ہیں اور اس طرح سرکاری خزانے سے مراعات کا قانونی راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ کچھ امرا نے اپنے اثاثوں پر پردہ ڈالنے اور ٹیکس بچانے کے لیے ٹرسٹ بنا رکھے ہیں' وہ اپنی دولت ٹرسٹ کے نام پر ظاہر کرتے اور اس طرح اپنے اصل اثاثے سامنے نہیں آنے دیتے ہیں۔
اسی طرح بہت سے علما حضرات نے مدرسوں کے نام پر اپنے اثاثے چھپا رکھے ہیں، وہ اپنی رہائش گاہ اور دکانوں کی آمدن بھی مدرسے کے نام پر شامل کرکے خود کو غریب ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے گدی نشین حضرات چاہے وہ رکن پارلیمنٹ ہیں یا نہیں اپنے اثاثے ظاہر نہیں کرتے اور اپنی جائیداد کو مریدین کی جانب سے دیے گئے تحفہ یا ہدیہ میں ظاہر کر دیتے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ اور امرا قانونی موشگافیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اثاثے چھپا لیتے اور ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ سیاستدان کروڑوں روپے انتخابات پر خرچ کرتے ہیں مگر وہ جو اثاثے ظاہر کرتے ہیں ان سے تو عام آدمی کے اثاثے کہیں زیادہ ہوں گے۔ بعض ارکان پارلیمنٹ نے جو اثاثے ظاہر کیے ہیں وہ ان کے لائف اسٹائل سے قطعی میل نہیں کھاتے۔ ان کے پاس انتہائی قیمتی گاڑیاں ہیں' بڑے بڑے عالیشان گھر اور فارم ہاؤس ہیں' ان کا رہن سہن نوابوں کی مانند ہے مگرانھوں نے جو اثاثے ظاہر کیے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل عام آدمی کی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں۔ کسی بھی قانونی موشگافی یا سقم کا سہارا لے کر اپنے اثاثوں کو چھپانا بھی کرپشن ہی کہلاتا ہے۔ بہر حال الیکشن کمیشن کی جانب سے ارکان اسمبلی کے اثاثوں کو ظاہر کرنا ایک اچھی روایت ہے' اسے مستقل قائم رہنا چاہیے۔
الیکشن کمیشن نے ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات پہلی بار اپنی ویب سائٹ پر جاری کر دی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کس کے پاس کتنی دولت ہے اور حکومت میں آنے کے بعد اس کی دولت میں کتنا اضافہ ہوا۔ اس کا ایک مقصد ارکان اسمبلی کی دوران حکومت کرپشن کا انسداد بھی ہے کیونکہ اگر کوئی حکومتی رکن کرپشن کرے گا تو اس کا بھی پتہ چل جائے گا کہ اتنی دولت اس کے پاس کہاں سے آئی۔
ان اثاثوں میں انتخابی امیدوار کی زمینیں'گھر' کاروبار' دکانیں' فیکٹری' ملکی اور غیر کرنسی کے بینک اکاؤنٹس، زیورات اور فرنیچر وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ ماضی میں ہونے والے انتخابات کے موقع پر امیدوار جو اثاثے ظاہر کرتے تھے وہ میڈیا کے ذریعے مشتہر تو ہو جاتے تھے مگر ایسا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات ویب سائٹ پر جاری کر دی ہیں۔ اس سے ان اثاثوں کی معلومات تک رسائی عام شہری کے لیے بھی ممکن ہو گئی ہے۔ اب کوئی بھی شہری اپنے حلقہ انتخاب کے منتخب رکن کے اثاثوں کو دیکھ سکے گا اور غلط بیانی پر عدالت سے رجوع کر سکے گا کیونکہ شہریوں کو اپنے حلقے کے منتخب رکن کے لائف اسٹائل اور کچھ نہ کچھ اثاثوں کا علم ہوتا ہے۔
ارکان پارلیمنٹ کے اثاثے ویب سائٹ پر جاری کرنے کی روایت بہت اچھی ہے اس کو مستقل جاری رہنا چاہیے بلکہ منتخب ارکان کو پابند کیا جائے کہ وہ ہر سال اپنے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرائیں۔ ان کے بیرون ملک دوروں کی تفصیلات بھی منظرعام پر لائی جائیں۔ ہر سال اثاثوں کے گوشوارے منظرعام پر آنے سے منتخب ارکان کرپشن کرنے سے قبل سو بار سوچیں گے کیونکہ اس طرح سال بہ سال ان کے اثاثوں میں ہونے والے اضافے سے آگاہی ہو سکے گی۔ ویب سائٹ پر جاری کیے گئے اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق وزیراعظم میاں نواز شریف 1.88 ارب روپے' تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 6 کروڑ جب کہ جے یو آئی کے سربراہ فضل الرحمن 73 لاکھ روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق 17 کروڑ روپے' جاوید ہاشمی9کروڑ سے زائد اور شاہ محمود قریشی8 کروڑ روپے کے اثاثے رکھتے ہیں۔ان ظاہر کیے گئے اثاثوں کے مطابق کوئی اربوں پتی ہے تو کروڑوں کا مالک اور کوئی صرف چند لاکھ روپے رکھتا ہے۔ منتخب ارکان نے اپنے اثاثے تو ظاہر کر دیے ہیں مگر یہ کیسے معلوم ہو گا کہ ان کی جانب سے اثاثوں کی دی گئی تفصیلات درست ہیں یا وہ درپردہ اس سے بھی زائد اثاثوں کے مالک ہیں۔ کیا انھوں نے اپنے تمام اثاثوں کی تفصیلات ایمانداری سے بیان کی ہیں یا کچھ چھپایا بھی ہے۔ الیکشن کمیشن کو ارکان اسمبلی کے ظاہر کی گئی تفصیلات پر کامل یقین کرنے کے بجائے ان کے تمام اثاثوں کے بارے میں حقیقی اعدادوشمار معلوم کرنے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی بنانی چاہیے تاکہ اصل صورت حال سامنے آ سکے، جو سیاستدان اپنے اثاثے چھپائے اور ٹیکس چوری میں ملوث ہو اس پر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے تاحیات پابندی عائد کر دی جائے اور ٹیکس چوری کے جرم میں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ارکان اسمبلی قانونی ماہرین کے ذریعے قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر اپنی جائیدادیں چھپاتے اور ایسے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ ان پر ٹیکس بہت کم عائد ہوتا ہے۔وہ اپنی جائیدادیں اپنے بیوی بچوں کے نام لگوا دیتے ہیں اور اپنے ذاتی اثاثے بہت کم ظاہر کرتے ہیں۔
بعض ایسے انکشافات بھی سامنے آچکے ہیں کہ سیاستدانوں نے جعلی ناموں سے غیر ملکی بینک اکاؤنٹ کھول رکھے ہیں اور وہ اپنی کرپشن کی دولت ان جعلی ناموں والے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتے ہیں۔ عوامی حلقوں میں یہ خبریں بھی عام ہیں کہ متعدد ارکان اسمبلی کے بیرون ملک بڑے بڑے کاروبار اور جائیدادیں ہیں مگر وہ انھیں ظاہر نہیں کرتے' وہ اندرون ملک جو اثاثے ظاہر کرتے ہیں وہ ان کے بیرون ملک اثاثوں کے مقابلے میں رتی بھر بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ کروڑوں پتی ارکان پارلیمنٹ اپنے آمدورفت کے اخراجات' رہائش کا کرایہ اور میڈیکل بل بھی سرکاری خزانے سے وصول کرتے ہیں اور اس طرح سرکاری خزانے سے مراعات کا قانونی راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ کچھ امرا نے اپنے اثاثوں پر پردہ ڈالنے اور ٹیکس بچانے کے لیے ٹرسٹ بنا رکھے ہیں' وہ اپنی دولت ٹرسٹ کے نام پر ظاہر کرتے اور اس طرح اپنے اصل اثاثے سامنے نہیں آنے دیتے ہیں۔
اسی طرح بہت سے علما حضرات نے مدرسوں کے نام پر اپنے اثاثے چھپا رکھے ہیں، وہ اپنی رہائش گاہ اور دکانوں کی آمدن بھی مدرسے کے نام پر شامل کرکے خود کو غریب ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے گدی نشین حضرات چاہے وہ رکن پارلیمنٹ ہیں یا نہیں اپنے اثاثے ظاہر نہیں کرتے اور اپنی جائیداد کو مریدین کی جانب سے دیے گئے تحفہ یا ہدیہ میں ظاہر کر دیتے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ اور امرا قانونی موشگافیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اثاثے چھپا لیتے اور ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ سیاستدان کروڑوں روپے انتخابات پر خرچ کرتے ہیں مگر وہ جو اثاثے ظاہر کرتے ہیں ان سے تو عام آدمی کے اثاثے کہیں زیادہ ہوں گے۔ بعض ارکان پارلیمنٹ نے جو اثاثے ظاہر کیے ہیں وہ ان کے لائف اسٹائل سے قطعی میل نہیں کھاتے۔ ان کے پاس انتہائی قیمتی گاڑیاں ہیں' بڑے بڑے عالیشان گھر اور فارم ہاؤس ہیں' ان کا رہن سہن نوابوں کی مانند ہے مگرانھوں نے جو اثاثے ظاہر کیے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل عام آدمی کی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں۔ کسی بھی قانونی موشگافی یا سقم کا سہارا لے کر اپنے اثاثوں کو چھپانا بھی کرپشن ہی کہلاتا ہے۔ بہر حال الیکشن کمیشن کی جانب سے ارکان اسمبلی کے اثاثوں کو ظاہر کرنا ایک اچھی روایت ہے' اسے مستقل قائم رہنا چاہیے۔