عوامی تحریکیں نہ چلنے کی وجوہات

جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ویسے ویسے عوامی تحریکیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔ کبھی ایسا وقت تھا کہ براہ راست ان...

anisbaqar@hotmail.com

جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ویسے ویسے عوامی تحریکیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔ کبھی ایسا وقت تھا کہ براہ راست ان اقوام یا وہاں کے لوگوں اور لیڈروں سے ہمارا تعلق نہ تھا مگر ہم بیتاب ہو جاتے تھے، بھارت کے مسلم کش فسادات کی مخالفت میں 1960ء کی دہائی کی طلبا تحریک، لوممبا کی حمایت میں تحریک، ویتنام کی جنگ آزادی کی حمایت میں تحریک، ایوب خان کے ڈیکوراما کی مزاحمتی تحریک، ان تمام تحریکوں کا قلب کراچی ہی تھا اور رفتہ رفتہ یہ تحریکیں پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی تھیں۔ ہر تحریک کے پس پشت ترقی پسند دانشور اور ان کے پیچھے بائیں بازو کے دانشوروں کا متحرک دماغ تھا۔

عجیب بات ہے کہ تحریکوں کے کئی مراکز اس شہر میں ہوتے تھے پہلا مرکز لیاری، دوسرا مرکز برنس روڈ، تیسرا مرکز ناظم آباد، لیاقت آباد، شمالی ناظم آباد اور فیڈرل بی ایریا اور پانچواں متحرک مرکز ملیر ہالٹ کا علاقہ، ان تمام جگہوں پر شعرا، ادبا، دانشوروں کے علاوہ ان گنت فکری نشست کے اسٹڈی سرکل (Study Circle) جو دنیا بھر کی تحریکوں، نظریات اور انقلابات کا درس دینے والوں سے لیس تھے۔ اس کے علاوہ ادبی نشستوں کا ایک جال ملک بھر میں بچھا ہوتا تھا جس کو سوشلسٹ نظریات کے لوگ چلاتے تھے، کالجوں میں طلبہ انجمنیں ہوتی تھیں، اس کے علاوہ انٹر کالجیٹ باڈی (Inter Collegiate Body)، ان ادبی سنگتوں کا رابطہ ہاری، مزدور اور طلبا تنظیموں سے بھی رہتا تھا، ان سنگتوں میں سندھی اردو سنگت بھی ایک فعال تنظیم رہی ہے جو اردو اور سندھی قلم کاروں کو قریب تر کرتی تھی مگر یہ تمام تنظیمیں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد رفتہ رفتہ ختم ہوتی گئیں، یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کی صنعتوں کو قومیانے کی تحریک کی ناکامی کے بعد آنے والے وقتوں میں مزدوروں کو لہولہان کرنا شروع کر دیا گیا۔

پیپلز پارٹی نے کئی مرتبہ اقتدار سنبھالا، نعرہ پرانا رہا مگر عمل میں کھوٹ رہی، طلبا یونین بحال نہ ہوئیں۔ پیپلز پارٹی خود نہیں چاہتی کہ تحریک کا وہ لباس جو تار تار ہو چکا ہے پھر زیب تن ہو کیونکہ اس سے جاگیرداری اور سرمایہ داری سماج پر ضرب کاری لگتی ہے۔ تحریکوں کا نہ اٹھنا ایک طرف تو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ تحریکوں کے وہ دست و بازو ٹوٹ چکے ہیں، فیسیں بڑھتی رہیں، نقل ہوتی رہے، ڈگری ملتی رہے، یہ کس قدر سہل ہے کہ طلبا کو کرپشن کا حصہ بنایا جائے جو جس قدر رقم خرچ کر کے پڑھ رہا ہے اس کو اتنی ہی اچھی نوکری ملے گی بلکہ نوکری برائے فروخت ہے۔ ایسے ماحول میں اجتماعی جدوجہد کا جذبہ کیونکر پیدا ہو گا۔


رفتہ رفتہ اساتذہ میں بھی اچھے پاکستانی بنانے کے بجائے زر پرستی ان کو بھی ہنکا کر کہیں اور لے جا رہی ہے۔ گو پورا ملک اس زر پرستی کی لپیٹ میں ابھی نہیں آیا مگر سفر اسی جانب ہے۔ پاکستان نے کرپشن میں جو مقام حاصل کر لیا ہے اس سے جان چھڑانا مشکل ہے۔ اسی لیے وہ عوام کو کنفیوژ کرنے میں مصروف ہیں لہٰذا عوامی تحریک چلنے کے امکانات کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں، نسل پرستی کا رجحان چل پڑا ہے اور سندھ ایک نئی منزل پر جہاں بلدیاتی نظام میں دہرے معیار کا کھلم کھلا اعلان، گویا عوام نسل زبان اور پارٹی کی بنیاد پر چھوٹے مقاصد کو اپنی منزل سمجھ بیٹھیں جو آگے چل کر ملت کے لیے نقصان دہ ہیں۔

عوام پہلے اتنے تقسیم نہ تھے وہ الگ الگ زبانیں بولتے تھے مگر وہ اپنے مفادات کو سمجھتے تھے کہ طبقاتی اعتبار سے مزدور مزدور بھائی ہے خواہ وہ کوئی سی زبان بولتا ہو، وہ کسی بھی علاقے میں رہتا ہو مگر اب مزدور اور طلبا بھی تقسیم ہو چکے ہیں۔ ایسے وقت میں عمران خان نے مہنگائی کے خلاف تحریک کا آغاز کیا مگر وہ تحریک کو متحرک نہ کر سکی یہ بھی بڑی غور طلب اور سوچنے کا مقام ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ عمران خان نے اپنی جماعت کو افغان جنگ کے اثرات اس جنگ کے عمل اور ردعمل کی بنیاد پر تیار کیا ڈرون حملے کے خلاف عوام کو اکسا تو لیا مگر اس کو کسی منزل سے ہمکنار نہ کر سکے۔ ابھی اس تحریک پر پوری طرح عوام کو فوکس بھی نہ کرپائے تھے کہ اچانک مہنگائی کے خلاف لوگوں کو اٹھانے کی تحریک کا نعرہ، نہ ملک بھر میں جلسے کیے گئے، نہ پارٹی نے کیے، پمفلٹ، پلے کارڈ، نہ مزدور انجمنوں اور ہاری لیڈروں کسانوں سے رابطہ، نہ بھٹہ مزدوروں، نہ گارمنٹس کی فیلڈ سے وابستہ خواتین ورکرز، نہ ریلوے یونین، نہ کیٹل فارمنگ فیلڈ سے کوئی رابطہ۔ ایسا لگا کہ عمران خان نے خود مہنگائی کے خلاف جن کو بوتل میں رہنے دیا ورنہ یہ جن خود خیبر پختونخوا کے لیے خطرناک ثابت ہوتا لیکن اغلب امکان یہی ہے کہ وہ فیبرک ہی موجود نہیں ہے کہ جس کو پہن کر اس معاشرے میں کوئی تحریک چلائی جائے، البتہ تقسیم در تقسیم کی تحریکیں ہماری سوسائٹی میں گھر کر چکی ہیں۔

ایک سال کے اندر معاشی تدبیر کا ہر پہلو نمایاں ہونا شروع ہو جائے گا، پاک ایران گیس پائپ لائن، مشرف کیس، اس کے نتائج روپے کی قدر میں ایک بار پھر کمی کسی نئے طالع آزما کو تحریک کا موقع فراہم کر سکتی ہے، البتہ کراچی جو کبھی تحریکوں کا مخزن ہوتا تھا، یہ تحریک یہاں سے شروع نہ ہو گی کیونکہ تحریک کے لیے یک جہتی، سکون اور سوسائٹی کا منظم ہونا ضروری ہے۔ عمران خان کو لوگوں نے مدبر سمجھا تھا مگر چند سیاسی میچوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ بھی اسی سیاسی سسٹم کا ایک حصہ ہیں۔ کوئی تبدیلی ممکن نہیں، پرانے فیلڈرز کو نئی پوزیشن پر کھڑا کر کے سیاسی میچ وہ یوں ہی کھیلتے رہیں گے۔ البتہ اگر کوئی سیاسی تبدیلی ممکن ہوئی تو وہ ایک سازش کی شکل میں ہو گی مگر عوام اس کو جمہوری تبدیلی سمجھیں گے جیسا کہ این آر او (NRO) کی تبدیلی تھی جس میں غیر ممالک بھی موجود تھے عوامی جمہوری تبدیلی کے راستے گم ہوچکے ہیں ملک کی کمزور اقتصادی حالات اور غیر ممالک پر انحصار نے ملک کو داخلی انتشار اور غیرملکی انحصار کے سپرد کر دیا ہے۔
Load Next Story