سو سالہ ولادت کے جشن اور مقاماتِ افسوس

ماہنامہ ’تہذیب الاخلاق‘ کا تازہ شمارہ یعنی دسمبر 2013ء کا شمارہ ہمارے سامنے ہے۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ...

rmvsyndlcate@gmail.com

ماہنامہ 'تہذیب الاخلاق' کا تازہ شمارہ یعنی دسمبر 2013ء کا شمارہ ہمارے سامنے ہے۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ رسالہ سرسید احمد خاں سے یاد گار ہے۔ مطلب یہ کہ یہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے محض آج کا ترجمان نہیں ہے بلکہ علی گڑھ جس علمی تعلیمی تحریک کا گہوارہ رہا ہے اس کے ایک روشن باب کی یادیں اس سے وابستہ ہیں۔ یہ پرچہ اب سے پہلے پروفیسر ابو الکلام قاسمی کی ادارت میں نکل رہا تھا۔ اب ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی، جو اس یونیورسٹی کے شعبہ عربی سے وابستہ ہیں، اس کے مدیر ہیں۔ نائب مدیر مجتبیٰ احمد قریشی ہیں۔

ویسے تو اس ماہنامے کا ہر شمارہ ہی اردو کے علمی ادبی رسالوں سے الگ اپنا ایک امتیاز رکھتا ہے۔ زیر نظر شمارے میں دو تحریریں ایسی ہیں جو تقاضا کرتی ہیں کہ اپنے پاکستانی دوستوں کی خاطر ان کا تھوڑا ذکر کیا جائے۔ ان میں ایک تو خود مدیر موصوف کی ایک لمبی تحریر ہے جسے پڑھ کر ہمیں کسی قدر پتہ چلتا ہے کہ اب اس یونیورسٹی کے کیا رنگ ڈھنگ ہیں اور کیا سرگرمیاں اور دلچسپیاں ہیں۔ رنگ ڈھنگ کا اندازہ اس خطبہ سے ہو گا جو اس برس کے سرسید سیمینار میں سید محمد اشرف نے دیا۔ سید محمد اشرف کو بطور افسانہ نگار ہم سب ہی جانتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ جن منتخب افسانہ نگاروں کے دم قدم سے ہندوستان میں اردو افسانے کا بھرم قائم ہے۔ ان میں پیش پیش سید اشرف ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل کا یہ موقعہ ہے نہ اس کی اس کالم میں گنجائش ہے۔ خطبہ کی تفصیل تو اس جائزے میں درج نہیں ہے۔ بس اتنا بتایا گیا ہے کہ خطبہ کا عنوان تھا 'جنگ آزادی 1857ء پر چار ناموران کے فوری اثرات' یہ ناموران کون ہیں... کارل مارکس' غالب' سرسید' ڈپٹی نذیر احمد۔ زیر بحث موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے انھوں نے علی گڑھ کی روایات کے زوال پر تھوڑا گریہ کیا۔ طلبا کے رنگ ڈھنگ پر بہت کڑھ رہے تھے۔ ان کے لباس' ان کے انداز گفتگو۔ سب سے بڑھ کر ان کی بے ہنگم چپلوں پر افسوس کیا اور کہا کہ ''ان چپلوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ علی گڑھ کے بازار میں اب تسمہ والے جوتے نایاب ہیں۔

اگر ایسا ہے تو ہم بھی سید اشرف کے ساتھ شریک گریہ ہیں۔ واقعی بھلے وقتوں میں علی گڑھ کے طلبا کی اپنی الگ ہی سج دھج تھی۔ علی گڑھ کٹ پائجامہ' بر میں سیاہ شیروانی۔ جوتا جو بھی ہو نہ ہو، بو والا گرقابی پمپ۔ بہر حال چپل نہیں ہوتے تھے۔ یہ سج دھج کہاں گئی۔ ہم نے جب اس نگری پھیرا لگایا تھا تو نمائش میں بھی جا کر دیکھ لیا جس کے متعلق وہاں کے کسی بانکے شاعر سے یہ شعر سر زد ہوا تھا؎

سجاوٹ میں، بناوٹ میں، دکھاوٹ میں
علی گڑھ کی نمائش ہند بھر میں سب سے بہتر ہے

اس نمائش کی زیبائش تو سیاہ شیروانیوں اور سیاہ برقعوں ہی سے تھی۔ وہ تو دور دور تک نظر نہ آئے۔ اب اس نمائش میں خالی کباب پراٹھے رہ گئے ہیں اور سید اشرف کہہ رہے تھے ''یہاں کی ذہانت و فطانت رخصت ہو چکی ہے اور ظرافت و لطافت تہہ خاک ہو چکی ہے''۔


دوسری تحریر جس کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے ڈاکٹر مسعود حیدر کا مضمون ہے۔ جس میں گریہ کیا گیا ہے کہ مجازؔ ایسے شاعر کو زمانے نے کس طرح فراموش کیا ہے۔ پہلے تو انھوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ زندگی میں مجازؔ کتنی بدحالی کا شکار رہے ''آخری دنوں میں مفلسی اور بدحالی کی یہ حالت ہو گئی کہ شراب بھی دوستوں اور جاننے والوں کے دیے ہوئے پیسوں ہی سے پی سکتے تھے... سردار جعفری نے مجازؔ کو پینے سے باز رکھنے کی کوشش کی تو مجازؔ نے کہا' سردار تمہاری فیملی ہے' گھرہے' شاعری کر رہے ہو۔ میرے پاس کیا ہے۔ اب تم مجھے شراب پینے سے بھی روک رہے ہو۔ مجازؔ کو دو نروس بریک ڈاؤن پہلے ہو چکے تھے۔ 1952ء ہی میں جوشؔ صاحب کی کوششوں سے انھیں رانچی کے ذہنی امراض کے اسپتال میں داخلہ مل گیا۔ یہاں بنگالی کے مشہور شاعر نذر الاسلام بھی داخل تھے''۔

آگے لکھتے ہیں کہ ''مجازؔ کی کم نصیبی کی انتہا یہ ہے کہ انھیں موت کے بعد بھی وہ رتبہ اور عزت نہیں ملی جس کے وہ پوری طرح حق دار تھے۔ اردو دنیا نے انھیں تقریباً بھلا دیا۔ جہاں فیض احمد فیضؔ کا جشن ولادت نہایت شاندار انداز میں منایا گیا۔ اور منٹو کی یاد میں بھی مختلف تقاریب جاری ہیں۔ مجازؔ کی صد سالہ پیدائش کا سال آیا اور گزر گیا۔ چند چھوٹے موٹے پروگراموں کے علاوہ نہ ان کی یاد میں کسی بڑے پیمانے پر جلسے ہوئے نہ دنیا کی علی گڑھ المنائی تنظیموں نے کچھ کیا' یہاں تک کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی جہاں ان کی نظم ''نذرِ علی گڑھ'' ترانے کے طور پر گائی جاتی ہے، اس موقع پر کوئی قابل ذکر انتظام نہیں کیا گیا۔ واشنگٹن ڈی سی اور نیو جرسی اور سلووینا کی علی گڑھ المنائی انجمنان نے دیر سے ہی سہی ایک سال بعد ان کی یاد میں تقاریب کرنے کا پروگرام رکھا ہے''۔

مسعود حیدر نے ترقی پسند تحریک سے وابستہ کچھ جانے مانے مرحوم ادیبوں کے سن پیدائش کی فہرست پیش کی ہے۔ مثلاً فیضؔ' مجازؔ' آل احمد سرورؔ 1911ء کرشن چندر' وامقؔ جونپوری' اختر حسین رائے پوری' معین احسن جذبیؔ' منٹو' میرا جی1912ء' علی سردار جعفری1913ء' جانثار اخترؔ 1914ء' اخترؔ الایمان اور عصمت چغتائی 1915ء''۔

مسعود حیدر نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ فیضؔ صاحب کا صد سالہ جشن ولادت شایان شان انداز میں منایا گیا اور منٹو کا بھی جو بقول ان کے پہلے ترقی پسند تھے ''بعد میں جن کا تعلق ترقی پسند تحریک سے ختم ہو گیا تھا''۔ انھوں نے صرف مجازؔ کے سلسلہ میں افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ان کا جشن ولادت نہیں منایا گیا۔ مگر ہم نے جب اس فہرست پر نظر ڈالی تو ہمیں حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ اس نام کے نظر انداز کیے جانے پر نہ مسعود حیدر نے کسی افسوس کا اظہار کیا نہ اردو دنیا کے کسی اور بھلے مانس کو خیال آیا کہ کرشن چندر کو اردو دنیا نے کس طرح فراموش کیا ہے کہ ان کے صد سالہ جشن ولادت کا اہتمام کرنے کا کسی کو خیال ہی نہیں آیا۔ سب سے پہلے تو ہندوستان کے ترقی پسند حلقوں کو یہ خیال آنا چاہیے تھا۔ تیسری چوتھی دہائی میں جب مختصر افسانے نے ایک نئے رنگ کے ساتھ عروج پایا تو سب سے بڑھ کر کرشن چندر کو شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ وہ تو سب سے بڑھ کر اس قسم کے جشن کے مستحق تھے۔ حیرت ہے کہ ہندوستان میں سجاد ظہیر کے اس طرز کے جشن کا تو اہتمام کیا گیا لیکن کرشن چندر کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ اور ہاں راجندر سنگھ بیدی مگر ان کے نام کو تو خود مسعود حیدر نے نامور مرحوم ترقی پسندوں کو شمار کرتے ہوئے نظر انداز کر دیا۔ حالانکہ وہ شہرت و مقبولیت میں کسی صورت سے عصمت سے اور منٹو سے پیچھے نہیں تھے۔ کم از کم وامقؔ جونپوری سے تو زیادہ ہی اردو دنیا میں جانے پہچانے جاتے تھے۔

ہاں عصمت چغتائی کے صد سالہ سن ولادت کو تو ابھی آنا ہے۔ بیچ میں ایک ہی تو سال ہے۔ دیکھا چاہیے کہ انھیں اس موقعہ پر کتنی پذیرائی ملتی ہے۔
لیجیے ہمیں تو تہذیب الاخلاق میں شایع شدہ ایک دو مضمونوں کا اور بھی ذکر کرنا تھا۔ وہ ذکر ہونے سے رہ ہی گیا۔ پھر کسی اگلے کالم میں سہی۔
Load Next Story