صحت کی ناکافی سہولتیں

سانحہ کا المناک پہلوخیبرپختونخوا میں ہیلتھ سسٹم میں بدنظمی،غفلت، مریضوں کی تشویشناک حالت سے عملے کاسنگدلانہ تساہل تھا۔


Editorial December 08, 2020
سانحہ کا المناک پہلوخیبرپختونخوا میں ہیلتھ سسٹم میں بدنظمی،غفلت، مریضوں کی تشویشناک حالت سے عملے کاسنگدلانہ تساہل تھا۔ فوٹو : فائل

ملک کے اسپتالوں اور صحت مراکز میں آئے دن مریضوں کے علاج اور نگہداشت میں غفلت کے کتنے ہی دردناک واقعات رونما ہوتے ہیں کہ آدمی صرف ان کے تصور ہی سے خون کے آنسو روتا ہے لیکن گزشتہ روز پشاورکے خیبرٹیچنگ اسپتال میں انتظامیہ کی غفلت اور ناقابل یقین بد انتظامی کے باعث آکسیجن وقت پر نہ ملنے کی وجہ سے6 مریض جان کی بازی ہارگئے۔

اسپتال ذرایع کے مطابق سینٹرل آکسیجن یونٹ کو رات2 بجے کے بعد گیس کی سپلائی کی کمی تھی، جوگاڑی گیس کمپنی کی جانب سے آنی تھی وہ بھی تین گھنٹے تاخیر سے پہنچی جس کی وجہ سے کورونا وارڈ، آئی سی یو، میڈیکل آئی سی یو وارڈ کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل مریضوں کو آکسیجن کی کمی کا سامنا تھا،آکسیجن بروقت نہ ملنے کی وجہ سے5 مریض کورونا وارڈ میں جب کہ ایک مریض میڈیکل آئی سی یو وارڈ میں جاں بحق ہوا۔

سانحہ کا المناک پہلو خیبرپختونخوا میں ہیلتھ سسٹم میں بدنظمی، غفلت، مریضوں کی تشویشناک حالت سے عملے کا سنگدلانہ تساہل تھا، جاںبحق ہونے والے مریضوں کے لواحقین صدمہ سے بے حال تھے،اسپتال کے ڈاکٹروں، پیرامیڈیکل عملے،نرسنگ مینجمنٹ کے ہوتے ہوئے آکسیجن کی بروقت فراہمی کے کسی شفاف،بروقت میکنزم کی عدم موجودگی اور ایڈہاک ازم پر انحصار ایک ایسے کولیٹرل نقصان کا سبب بنا جس کی تلافی ہی ممکن نہیں، سانحے کی نوعیت کورونا کے عفریت کے تناظر میں غیرمعمولی بن گئی ہے۔

ہلاکتوں کا مجموعی المیہ ایک پروفیشنل ٹیچنگ اسپتال کے معتبر انتظامی ڈھانچہ کے فقیدالمثال انتظامات اور معالجاتی انفرااسٹرکچر اور فالٹ فری طبی پروسیس کا تھا، معتبرتفتیش اس بات پر ہونی چاہیے کہ آکسیجن سیلنڈرکی سپلائی یا اسٹورکیے جانے کا فول پرول سسٹم ایک سرکاری اسپتال کے شایان شان تھا بھی یا نہیں، ذمے داروں کا یہ عذر بدتر ازگناہ کے مصداق ہوگا کہ آکسیجن سیلنڈر لانے میں کچھ تاخیر ہوئی توکچھ باعث تاخیر بھی تھا جب کہ اسے تو دکھی انسانیت کے بچاؤکی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے میں افسوسناک ناکامی کانام دینا چاہیے۔

دوسری طرف مریضوں کی دلگداز موت خیبر پختونخوا حکومت کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے، پی ٹی آئی کی حکومت صوبے میں چھ سات سال سے برسراقتدار ہے، اسے اقتدارکے تقاضوں، انتظامی مشینری، نوکرشاہی ، وزارت صحت کی ذمے داریوں کا اتنے عرصہ میں کماحقہ انتظامی تجربہ بھی ہے۔

بلاشبہ کورونا وائرس سے نمٹنے کی کوششیں بھی پورے ملکی نظام صحت کو الرٹ کرچکی ہیں، ہر طرف ایس اوپیزکی پابندی کے پند ونصائح کا سلسلہ جاری ہے، ماسک پہننے کی پابندی اب ہماری نفسیاتی ضرورت بن چکی ہے۔ ایسی ہنگامی صورتحال میں پشاورکے تدریسی اسپتال کے زیر اہتمام ایک اسپتال میں بدانتظامی کی اتنی بڑی ''واردات'' کا ہوجانا ایک افسوسناک غفلت کا شاخسانہ ہی ہے۔

اس بات کی تو اسپتال کے مسیحاؤں اور انتظامیہ کو خبر ہونی چاہیے تھی کہ کون سے وارڈکے مریضوں کو ایمرجنسی میں آکسیجن کی ضرورت پڑے گی، اگر اسپتال انتظامیہ صوبہ کی ہیلتھ صورتحال، زمینی حقائق اور علاج کی سہولتیں مہیا کرنے کے بنیادی فریضے اور اپنے فرائض سے آگاہ ہوتی تو مریض اس طرح بے بسی میںتڑپ تڑپ کر جان نہ دیتے، لہٰذا مریضوں کی ہلاکت دل دہلادینے والا واقعہ ہے۔

ہیلتھ سسٹم کو ناقابل فہم سیٹ بیک ہوا ہے، دیکھا جائے تو بیش بہا سیاسی اور انتظامی تجربات کے بعد خیبر پختونخوا میں صحت نظام کو دیگر صوبوں میں پیش روی کرنا چاہیے تھی، ایک قابل تقلید ہیلتھ سسٹم کو نصابی بریک تھرو دے کر ایسے سانحات کی ہر ممکن طریقے سے روک تھام کرنی چاہیے تھی، مگر ایسا نہ ہوسکا۔

اب اس المناک واقعہ کو محض ایک سرکاری تحقیقاتی رپورٹ کے منظرعام پر اپنے درد انگیز اثرات ومضمرات تک محدود نہیں رہنا چاہیے، عوام اس سانحے کے آئینہ میں ملک بھرکے صحت سسٹم کا جائزہ لیںگے، انھیں ملک کے تمام بڑے شہری اسپتالوں میں عوام کو علاج معالجہ کے لیے اذیتوں کے درد بھرے قصے یاد آئیں گے، لوگ یاد رکھتے ہیں کہ کراچی کے ایک ٹراما سینٹرکی افتتاحی تقریب کے باعث کسی غریب کا معصوم بچہ کیسے علاج سے محروم رکھا گیا اورکن حالات میں اس نے جان دے دی۔

دوسری جانب دو روز قبل کراچی میں ایک سرکاری ملازم نے کس دیدہ دلیری کے ساتھ کورونا مریض کا ڈرامہ رچاتے ہوئے دوسرے سرکاری ملازمین سے جاکر زبردستی معانقے کیے اور انھیں ڈرایا کہ وہ کورونا کا مریض ہے، اگر اس کی تنخواہ نہ ملی تو سب کورونا میں مبتلا ہونگے۔

ادھر پولیو کے خاتمے کی مہم میں لیڈی ہیلتھ وزیٹرزکئی بارقاتلانہ حملے میں جانیں دے چکی ہیں، پولیو مخالف مہم کے خلاف کتنی مہلک ڈس انفارمیشن پھیلائی گئی،اسی طرح وبائی امراض کے خاتمے کے لیے سپرے اور فینائل یا سفید چونے کا چھڑکاؤ بھی نظر نہیں آتا، اسپتالوں میں صحت صفائی کا انتظام ناقص ہے،کچرے اور غلاظتوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں، نجی لیبس میں غریب ٹیسٹ کرانے جائیں تو ان کی فیسیں ہوشربا ہیں حالانکہ کورونا کی موجودگی میں یہ فیس چار پانچ سو روپے تک ہونی چاہیے، ماسک اور سینی ٹائزر پورے ملک کے عوام کو بلامعاوضہ دستیاب ہوں، عوام کے لیے صحت کی سہولتیں ناگزیر ہیں۔

لوگ سوال کرتے ہیں کہ وینٹی لیٹرز اور آکسیجن سیلنڈرز کے نہ ملنے سے ہلاکتیں اکیسویں صدی میں صحت سسٹم پر ایک واشگاف سقراطی طنز ہے، پشاورسانحہ چشم کشا ہے، آنکھیں کھول لینی چاہئیں، وزارت صحت کے ملازمین کی تنخواہیں،ان کے الاؤنسز، مراعات، ٹیلی فون اور گاڑیاں سوچنے پر مجبورکرتی ہیں کہ اسپتالوں کے انتظامات شفاف ہوتے، مسیحاؤں اور انتظامی افسران کی نگاہیں ملازمین کی کارکردگی پر ہوتیں تو اسپتالوں کی یہ حالات زارنہ ہوتی کہ لوگ آکسیجن سیلنڈر کی عدم دستیابی سے موت کے منہ میں چلے جاتے۔

یہ سنگ دلی،بدانتظامی اور بد عنوانی کا سنگین واقعہ ہے ، جو زندگی سے رخصت ہوگئے ان کے لواحقین ان کی موت پر ایک کمزورطبی سسٹم پر صرف آنسو بہا سکنے کے اورکیا کرسکتے ہیں، مگر ایسی تبدیلی اب ناگزیر ہے، حکومت تبدیلی کے نعرہ اور ایک مثالی انتظامی پیش قدمی کے وعدہ پر برسراقتدار آئی ہے ، صحت کا ایک مستحکم، شفاف اور غریب پرور نظام دینا اس کی ذمے داری ہے۔

اسپتال انتظامیہ کے مطابق جاں بحق ہونیوالوں میں تین خواتین اور تین مرد شامل ہیں۔ علاوہ ازیں آکسیجن نہ ملنے سے جاں بحق ہونیوالوں میںدو سالہ بچہ محمد صارم بھی شامل ہے جو پیڈ وارڈ میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل تھا، اسے کینسرکا مرض لاحق تھا تاہم اسپتال انتظامیہ کی طرف سے جاری فہرست میں اس کا نام شامل نہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے خیبر ٹیچنگ اسپتال میں آکسیجن کی کمی سے چھ مریضوں کی اموات کے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے 48گھنٹوں میں تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنیکی ہدایت کی ہے۔

وزیراعلیٰ نے واقعے کو انتہائی افسوسناک اور متعلقہ حکام کی طرف سے بہت بڑی غفلت کا مظاہرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کروا کر ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، انھوں نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کیا۔ اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم طاہر نے بتایا کہ اسپتال میں320کے قریب آکسیجن سلنڈر موجود ہوتے ہیں لیکن کورونا مریض بڑھنے کی وجہ سے آکسیجن کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔

طبی ٹیم نے جو معروضات پیش کی ہیں ان پر سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے، اسپتال پر مریضوں کا دباؤ ایک بنیادی مسئلہ ہے، لیکن اس مسئلہ کا یہ حل نہیں کہ آکسیجن سیلنڈر یا وینٹی لیٹرزکے لیے اموات کا انتظارکیا جائے۔حقیقت میں اسپتال کی انتظامی مشینری بے عملی کا شکار رہی، وہ ابھی تک اس بنیادی تبدیلی سے متحرک نہیں ہوئی جس کا اس سے تقاضہ کیا جارہا تھا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اسپتالوں میں ایمرجنسی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات بروئے کار لائے جائیں، مذکورہ واقعہ کے جو بھی ذمے دار ہوں انھیں قرارواقعی سزا ملنی چاہیے، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل عملہ ،نرسنگ اسٹاف اور ٹیکنیکل افرادی طاقت کسی بھی اسپتال کی توقیر، ساکھ اور انسان دوستی کے امین ہوتے ہیں، بہرحال ان پر دکھی انسانیت کی مدد کرنے کی بھاری انسانی، پیشہ ورانہ اور اخلاقی ذمے داری عائد ہوتی ہے، اسپتال ، قبرستان یا مذبح خانہ میں فرق ہونا چاہیے، حکومت صحت سسٹم کے معیار میں گراوٹ کا سختی سے نوٹس لے۔

شہری ،دیہی اور دورافتادہ مقامات پر قائم سرکاری اسپتال، ڈسپنسریز اور صحت مراکز تک تمام جدید طبی سہولتیں پہنچائی جائیں، بدعنوانی ، تساہل،بدانتظامی اور غفلت کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی جائے تب ہی ملک میں کسی غریب کو علاج اسپتالوں کی دہلیز پر مل سکے گا اور اسے علاج کے نام پر صحت انفرااسٹرکچر کے تحت تمام جدید سہولتیں با آسانی میسر ہونگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں