شہید بے نظیر بھٹو

27 دسمبر پاکستان کی تاریخ کا وہ المناک دن ہے کہ جب اسلامی دنیا کی پہلی منتخب وزیراعظم کو سامراجی قوتوں نے ...


اقبال یوسف December 26, 2013

MULTAN: 27 دسمبر پاکستان کی تاریخ کا وہ المناک دن ہے کہ جب اسلامی دنیا کی پہلی منتخب وزیراعظم کو سامراجی قوتوں نے راولپنڈی میں شہید کردیا، بے نظیر بھٹو کی شہادت نہ صرف پاکستان بلکہ سارے عالم کے لیے ایک عظیم نقصان تھا جس پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔ یہ کیا عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں شہید کیا گیا، دوسرے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا راولپنڈی میں عدالتی قتل کیا گیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی راولپنڈی میں ہی شہید کیا گیا۔ یہ المیہ ہے کہ آج بے نظیر بھٹو کی شہادت کو چھ سال ہوگئے، پانچ سال پاکستان پیپلز پارٹی برسر اقتدار رہی اور ہم اپنی قائد کے قاتلوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچا سکے۔

میری بے نظیر سے پہلی ملاقات اگست 1977 میں اس دن ہوئی جب ذوالفقار علی بھٹو کو عیدالاضحیٰ کے تیسرے دن لاڑکانہ میں گرفتار کیا گیا۔ دوپہر دو بجے ریڈیو سے خبر سن کر میں اور اختر چائولہ مرحوم 70 کلفٹن کراچی دوڑے، بیگم نصرت بھٹو اور بیگم فخری کارکنوں کے درمیان تھیں کہ بے نظیر بھٹو بھی وہاں تشریف لے آئیں اور شدت جذبات سے انھوں نے پارٹی قائدین کے بارے میں دریافت کیا، میں نے ان کو بتایا کہ آج صوبہ سرحد کے شہید رہنما حق نواز گنڈا پور کا یوم شہادت ہے اور پی پی مرکزی آفس میں ایک جلسہ ہونا ہے۔

بے نظیر بھٹو نے فیصلہ کیا کہ وہ اس اجتماع میں جائیں گی، بیگم نصرت بھٹو نے ان کو ہدایت کی کہ وہ بیگم فخری کو ساتھ لے کر جائیں، محترمہ بے نظیر بھٹو نے کسی تاخیر کے بغیر گاڑی کی چابی لی اور مجھ سے کہا تم مجھے پارٹی آفس لے کر چلو، بے نظیر بھٹو، بیگم فخری اور میں، بھٹو صاحب کی مرسڈیز گاڑی میں پارٹی آفس روانہ ہوئے۔ بی بی نے راستے میں کراچی پی پی کے بارے میں مجھ سے مختلف سوالات کیے، ہم پارٹی آفس پہنچے تو پارٹی کارکن بھٹو کی بیٹی کو اپنے درمیان دیکھ کر پرجوش ہوگئے، ولی محمد لاسی نے زبردست نعرے لگوائے۔ بے نظیر بھٹو نے وہاں کارکنوں سے زبردست خطاب کیا جس سے کارکنوں میں جوش پیدا ہوا اور واپس 70 کلفٹن تشریف لے آئیں۔

میں 1969 پندرہ فروری کو پارٹی میں شامل ہوا تھا، سات سال بھٹو شہید کے لیے ایک کارکن کی حیثیت سے سرگرم رہا اور پھر 23 سال محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں سرگرم رہا، 1999 میں محترمہ کی دبئی روانگی کے بعد میں غیر فعال ہوگیا تھا، زندگی کے 30 سال تمام تر توانائی کے ساتھ پارٹی میں گزار دیے، محترمہ بے نظیر کی پاکستان کی غریب عوام سے محبت، پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ان کی تڑپ اور عالمی سیاست میں ان کی دانشمندی کو میں نے قریب سے دیکھا۔ بے نظیر، ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وارث صرف اس لیے نہیں تھیں کہ وہ بھٹو کی بیٹی تھیں بلکہ انھوں نے اپنی سیاسی جدوجہد قابلیت، جرأت مندی اور قربانیوں سے اپنے آپ کو دنیا کا لیڈر تسلیم کرایا۔

انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، کراچی سینٹرل جیل ہو یا سہالہ ریسٹ ہاؤس، جون جولائی کی سخت گرمیوں میں سکھر سینٹرل جیل کی اذیت ناک قید، بے نظیر بھٹو نے ان تکالیف کا بہادری سے مقابلہ کیا، ان کی ہمت اور شجاعت سے فوجی آمریت خوفزدہ تھی۔ 4 اپریل 1979 بھٹو کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو نے غمزدہ کارکنوں کو اک نیا حوصلہ دیا اور جدوجہد کا نیا راستہ دکھایا، وہ آمریت سے لڑتی رہیں اور جمہوریت کی بحالی کے لیے بہادری سے جنگ لڑی اور پورے ملک میں آمریت کے خلاف انتہائی بہادری سے کارکنوں کی قیادت کی، بحالی جمہوریت کے لیے MRD تشکیل دی گئی اور تمام بھٹو مخالف قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے انھوں نے اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا۔

محترمہ نے جنرل ضیا کی آمریت کے خلاف بے مثال جدوجہد کی۔ ایک ایسے وقت میں جب جنرل ضیا پوری طاقت کے ساتھ حکمران تھا، ان کی جدوجہد کو دیکھ کر بیرونی قوتوں نے بھی بے نظیر بھٹو کو مستقبل کا اہم رہنما تسلیم کرلیا تھا، امریکیوں نے سینیٹر اسٹیفن سولاز کے ذریعے بھٹو خاندان کو پیغام بھیجا کہ جنرل ضیا کو ہٹا کر کسی دوسرے کو بھی اقتدار میں لاسکتے ہیں اگر بھٹو فیملی امریکا سے سمجھوتہ کرلے لیکن بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ پیشکش ٹھکرادی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب شاہنواز بھٹو کی میت لے کر واپس پاکستان آئیں تو اس وقت ان کی ہمت، صبر اور حوصلہ کو دیکھ کر کارکنوں میں عزم تازہ پیدا ہوا، MRD کی تحریک میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی جدوجہد کو ان کے بدترین مخالفوں کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ ''بے نظیر بے نظیر ہے'' اور میری آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ بھٹو کی مخالفت میں آخری حدوں کو چھونے والے سیاست دان بھی دوزانو ہوگئے تھے۔ دسمبر 1987 کو محترمہ بے نظیر بھٹو میرے غریب خانے پر تشریف لائیں، نشست گاہ میں ایک بڑی تصویر آویزاں تھی جس میں محترمہ کی موجودگی میں ایک جلسہ عام میں تقریر کر رہا ہوں، انھوں نے وہ بڑی تصویر اتروائی اور ایک مارکر منگوایا اور چار جملے لکھ کر دستخط کردیے۔ کس کو معلوم تھا کہ 28 دسمبر ان کی تدفین کا دن ہوگا، یہ تصویر آج بھی میری زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ ہے جو مجھے رلاتا ہے۔

17 اگست 1988 کو جنرل ضیا کا طیارہ بستی لال کمال میں گر کر تباہ ہوگیا اور آمریت جل کر راکھ ہوگئی اور اس آمریت کی راکھ سے جمہوریت کا گلاب کھل اٹھا۔ 1988 کے عام انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی کامیابی نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا، پیپلز پارٹی کی حکومت کے انقلابی فیصلوں سے اسٹیبلشمنٹ پریشان تھی اور صرف بیس ماہ بعد جمہوری حکومت ختم کردی گئی لیکن بے نظیر کی جرأت اور بہادری نے پیپلز پارٹی کو نومبر 1993 میں دوبارہ اقتدار دلایا، بے نظیر کی جرأت مندانہ سیاست، فہم و فراست نے دنیا کو حیران کردیا۔

آج پاکستان اپنی تاریخ کے ایسے موڑ پر ہے جہاں قیادت کا شدید بحران ہمیں کسی بھی سانحے کا شکار کرسکتا ہے اور لوگ یاد کر رہے ہیں کہ ''عظیم المیے'' کے بعد شہید بھٹو نے پاکستان بچا لیا تھا اور 27 دسمبر 2007 کو ایک اور عظیم المیہ شہادت بے نظیر کے بعد بھی پاکستان کو بچالیا گیا اور آج بھٹو کا لہو ایک بار پھر پاکستان کو بچانے کے لیے قیادت کی تربیت حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو وفاق کی علامت ہے باقی رہی تو پاکستان بھی باقی رہے گا، اس لیے آج بے نظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ضرورت ہے کہ پیپلز پارٹی کو مضبوط کرو تاکہ پاکستان مضبوط ہو، پاکستان مضبوط ہوگا تو بھٹو کا خواب عظیم متحدہ پاکستان شرمندہ تعبیر ہوگا۔ شہید بے نظیر بھٹو کی شہادت کا ثمر پاکستان کی عظمت کا سبب بنے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں