ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
انسانی تاریخ ان گنت اندوہناک واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن ان میں سے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے...
انسانی تاریخ ان گنت اندوہناک واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن ان میں سے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے تاریخ کا ایک پورا عہد غم و اندوہ میں ڈوبا رہتا ہے۔ 27 دسمبر 2007 کا سانحہ تاریخ کے ایسے ہی المناک واقعات میں سے ایک ہے، جب پاکستان کے کروڑوں عوام کی ہر دلعزیز رہنما اور دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کی ایک کارروائی میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کردیا گیا۔ اس سانحے کو 6 سال گزر گئے ہیں مگر آج بھی فضائیں سوگوار ہیں۔ صرف ہماری نسل ہی نہیں بلکہ آنے والی کئی نسلیں بھی اس سانحے کے اثرات سے نہیں نکل سکیں گی۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سو سال کے دوران دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں سیکڑوں پاپولر سیاسی رہنماؤں کا قتل کیا گیا ہے، تاہم ان میں سے کچھ رہنما ایسے ہیں، جن کی موت پر لوگوں کے آنسو خشک نہیں ہوتے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو بھی ان رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس بات کا پوری طرح احساس تھا کہ عوام دشمن اور آمرانہ قوتیں انھیں اپنے راستے سے ہٹانا چاہتی ہیں۔ 18 اکتوبر 2007 کو وہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر وطن واپس آئیں اور انھوں نے یہاں آکر بار بار ایک ہی بات کہی کہ ''اس وقت ملک خطرے میں ہے، اس لیے میں اپنی زندگی داؤ پر لگا کر میدان میں اتری ہوں۔'' پورے پاکستان سے لوگ ان کے استقبال کے لیے ایک سمندری طوفان کی طرح کراچی کی سڑکوں پر امڈ آئے تھے۔ 18 اکتوبر کا دن ایک انقلاب کا آغاز تھا۔ عوام دشمن قوتوں کو نظر آرہا تھا کہ اب یہ طوفان رکے گا نہیں۔ انھوں نے اپنی بربریت کا مظاہرہ کیا اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی جان لینے کے لیے ان کے ٹرک کے نزدیک بم دھماکے کرائے، جن کے نتیجے میں 200 سو سے زائد افراد شہید ہوگئے اور 500 سے زائد زخمی ہوگئے۔ 18 اکتوبر کے واقعے کے بعد ساری دنیا کو یقین ہوگیا تھا کہ آمرانہ قوتیں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہر حال میں جسمانی طور پر ختم کرنا چاہتی ہیں۔ اس کے باوجود شہید بی بی نے اپنی عوامی رابطہ مہم ختم نہیں کی اور انتہائی بہادری کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھا۔ امریکی صدر جان ایف کینڈی کے پوتے سینیٹر ایڈورڈ ایم کینڈی کا کہنا یہ ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو غیر معمولی طور پر بہادر خاتون تھیں۔ اگر صدر کینڈی زندہ ہوتے تو انھیں ''جرأت کی تصویر'' ( Profile of Courage) قرار دیتے۔ شہید بی بی نے پاکستان میں قیام جمہوریت کی جرأت کرنے کی انتہائی قیمت ادا کی ہے۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا مشن یہ تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو اس خوف جنگ سے بچایا جائے، جس کی طرف مغرب کے سامراجی حلقے اور اسلامی دنیا کے انتہا پسند دنیا کو دھکیل رہے ہیں۔ شہید بی بی کے نزدیک مغرب اور اسلامی دنیا کے مابین جس نام نہاد تصادم کو ہوا دی جا رہی ہے، اگر اسے نہ روکا گیا تو یہ 21 ویں صدی کی انتہائی تباہ کن جنگ ہو سکتی ہے۔ اس جنگ سے بچنے کے لیے شہید بی بی نے مفاہمت کا فلسفہ دیا۔ بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ مفاہمت صرف پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کو ختم کرنے کا نام ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ مفاہمت کا فلسفہ وسیع تر عالمی تناظر میں پیش کیا گیا، جس کا مقصد یہ ہے کہ اسلام اور مغرب کے مابین مصنوعی تصادم کو ختم کیا جائے، اسلامی دنیا میں مسلمانوں کے داخلی تضادات کو حل کیا جائے اور انھیں آپس کی خونریزی اور انتشار سے بچایا جائے اور مختلف گروہوں و طبقات کو روایتی لڑائیوں سے دور رکھا جائے۔
یہ فلسفہ امن، خوش حالی اور مساوات پر مبنی عالمی معاشرے کے قیام کے لیے ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ شہید بی بی کا خیال یہ تھا کہ مسلم اقوام کو عہد جدید میں زندہ رہنے اور خوش حالی حاصل کرنے کے لیے جدید سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا ہوگا اور جدیدیت کے خلاف اڑیل انداز میں مزاحمت کو خیر باد کہنا ہوگا۔ شہید بی بی چاہتی تھیں کہ مسلم معاشروں کو مذہب کی 16 ویں صدی والی تشریحات کے ذریعے ماضی میں منجمد نہیں رکھا جائے بلکہ اصلاح پسندانہ سوچ کو اپنایا جائے۔ شہید بی بی کی خواہش تھی کہ مسلم دنیا کے اصلاح پسند مفکرین کی سوچ اور افکار پر عمل کیا جائے۔ شہید بی بی کی یہ خواہش تھی کہ مسلم معاشروں میں کثرتیت کو قبول کیا جائے اور دیگر مذاہب کے ساتھ ہم آہنگی کے جذبات کو فروغ حاصل ہو۔ شہید بی بی نے اپنے فلسفہ مفاہمت میں صرف یہ نہیں بتایا کہ مسلمانوں کو کیا کرنا ہے بلکہ انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ مغرب کو کیا کرنا ہے۔ شہید بی بی کا خیال تھا کہ مسلم ممالک میں دینی مدارس کے قیام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ زیادہ مذہبی ہوگئے ہیں بلکہ غریب والدین نے مجبوری میں اپنے بچوں کو مدارس میں پرورش کے لیے بھیج دیا ہے۔
اس لیے شہید بی بی مغرب پر یہ زور دیتی رہیں کہ وہ مسلمان ملکوں میں غربت کے خاتمے کے لیے کام کریں اور اپنے فنڈز جنگوں میں ضائع کرنے کے بجائے لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں، جس سے انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ شہید بی بی نے مغرب کو اس بات پر بھی قائل کرنے کی کوشش کی کہ اسلامی ممالک جمہوریت کو مضبوط کریں۔ ان کا خیال تھا کہ انتہا پسندی ، عسکریت پسندی ، دہشت گردی اور آمریت ایک دوسرے کا پیٹ بھرتے ہیں اور یہ سب غربت، مایوسی اور عدم مساوات کے ماحول میں پھلتے پھولتے ہیں، جمہوریت اور خوشحالی میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی پنپ نہیں سکتی ہے۔ شہید بی بی یہ بھی چاہتی تھیں کہ مسلم معاشروں میں مسلمانوں کے داخلی تصادم کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ کمزور طبقات کو بھی معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا جائے اور انھیں آگے لایا جائے، اس لیے شہید بی بی خواتین، مزدوروں، کسانوں، اقلیتوں اور دیگر کمزور و مظلوم طبقات و گروہوں کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اس مرتبہ خصوصی پروگرام لے کر آئی تھیں۔ شہید بی بی کے فلسفہ مفاہمت اور پروگرام پر پاکستان پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری کی قیادت میں بھرپور عمل درآمد کیا اور آج ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی عظیم قربانی کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کا عمل جاری و ساری ہے۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا فلسفہ مفاہمت ہی اب ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے۔ اس سے انحراف پاکستان، اسلامی دنیا اور عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ شہید بی بی جیسے رہنما صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس بات کا پوری طرح احساس تھا کہ عوام دشمن اور آمرانہ قوتیں انھیں اپنے راستے سے ہٹانا چاہتی ہیں۔ 18 اکتوبر 2007 کو وہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر وطن واپس آئیں اور انھوں نے یہاں آکر بار بار ایک ہی بات کہی کہ ''اس وقت ملک خطرے میں ہے، اس لیے میں اپنی زندگی داؤ پر لگا کر میدان میں اتری ہوں۔'' پورے پاکستان سے لوگ ان کے استقبال کے لیے ایک سمندری طوفان کی طرح کراچی کی سڑکوں پر امڈ آئے تھے۔ 18 اکتوبر کا دن ایک انقلاب کا آغاز تھا۔ عوام دشمن قوتوں کو نظر آرہا تھا کہ اب یہ طوفان رکے گا نہیں۔ انھوں نے اپنی بربریت کا مظاہرہ کیا اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی جان لینے کے لیے ان کے ٹرک کے نزدیک بم دھماکے کرائے، جن کے نتیجے میں 200 سو سے زائد افراد شہید ہوگئے اور 500 سے زائد زخمی ہوگئے۔ 18 اکتوبر کے واقعے کے بعد ساری دنیا کو یقین ہوگیا تھا کہ آمرانہ قوتیں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہر حال میں جسمانی طور پر ختم کرنا چاہتی ہیں۔ اس کے باوجود شہید بی بی نے اپنی عوامی رابطہ مہم ختم نہیں کی اور انتہائی بہادری کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھا۔ امریکی صدر جان ایف کینڈی کے پوتے سینیٹر ایڈورڈ ایم کینڈی کا کہنا یہ ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو غیر معمولی طور پر بہادر خاتون تھیں۔ اگر صدر کینڈی زندہ ہوتے تو انھیں ''جرأت کی تصویر'' ( Profile of Courage) قرار دیتے۔ شہید بی بی نے پاکستان میں قیام جمہوریت کی جرأت کرنے کی انتہائی قیمت ادا کی ہے۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا مشن یہ تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو اس خوف جنگ سے بچایا جائے، جس کی طرف مغرب کے سامراجی حلقے اور اسلامی دنیا کے انتہا پسند دنیا کو دھکیل رہے ہیں۔ شہید بی بی کے نزدیک مغرب اور اسلامی دنیا کے مابین جس نام نہاد تصادم کو ہوا دی جا رہی ہے، اگر اسے نہ روکا گیا تو یہ 21 ویں صدی کی انتہائی تباہ کن جنگ ہو سکتی ہے۔ اس جنگ سے بچنے کے لیے شہید بی بی نے مفاہمت کا فلسفہ دیا۔ بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ مفاہمت صرف پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کو ختم کرنے کا نام ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ مفاہمت کا فلسفہ وسیع تر عالمی تناظر میں پیش کیا گیا، جس کا مقصد یہ ہے کہ اسلام اور مغرب کے مابین مصنوعی تصادم کو ختم کیا جائے، اسلامی دنیا میں مسلمانوں کے داخلی تضادات کو حل کیا جائے اور انھیں آپس کی خونریزی اور انتشار سے بچایا جائے اور مختلف گروہوں و طبقات کو روایتی لڑائیوں سے دور رکھا جائے۔
یہ فلسفہ امن، خوش حالی اور مساوات پر مبنی عالمی معاشرے کے قیام کے لیے ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ شہید بی بی کا خیال یہ تھا کہ مسلم اقوام کو عہد جدید میں زندہ رہنے اور خوش حالی حاصل کرنے کے لیے جدید سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا ہوگا اور جدیدیت کے خلاف اڑیل انداز میں مزاحمت کو خیر باد کہنا ہوگا۔ شہید بی بی چاہتی تھیں کہ مسلم معاشروں کو مذہب کی 16 ویں صدی والی تشریحات کے ذریعے ماضی میں منجمد نہیں رکھا جائے بلکہ اصلاح پسندانہ سوچ کو اپنایا جائے۔ شہید بی بی کی خواہش تھی کہ مسلم دنیا کے اصلاح پسند مفکرین کی سوچ اور افکار پر عمل کیا جائے۔ شہید بی بی کی یہ خواہش تھی کہ مسلم معاشروں میں کثرتیت کو قبول کیا جائے اور دیگر مذاہب کے ساتھ ہم آہنگی کے جذبات کو فروغ حاصل ہو۔ شہید بی بی نے اپنے فلسفہ مفاہمت میں صرف یہ نہیں بتایا کہ مسلمانوں کو کیا کرنا ہے بلکہ انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ مغرب کو کیا کرنا ہے۔ شہید بی بی کا خیال تھا کہ مسلم ممالک میں دینی مدارس کے قیام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ زیادہ مذہبی ہوگئے ہیں بلکہ غریب والدین نے مجبوری میں اپنے بچوں کو مدارس میں پرورش کے لیے بھیج دیا ہے۔
اس لیے شہید بی بی مغرب پر یہ زور دیتی رہیں کہ وہ مسلمان ملکوں میں غربت کے خاتمے کے لیے کام کریں اور اپنے فنڈز جنگوں میں ضائع کرنے کے بجائے لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں، جس سے انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ شہید بی بی نے مغرب کو اس بات پر بھی قائل کرنے کی کوشش کی کہ اسلامی ممالک جمہوریت کو مضبوط کریں۔ ان کا خیال تھا کہ انتہا پسندی ، عسکریت پسندی ، دہشت گردی اور آمریت ایک دوسرے کا پیٹ بھرتے ہیں اور یہ سب غربت، مایوسی اور عدم مساوات کے ماحول میں پھلتے پھولتے ہیں، جمہوریت اور خوشحالی میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی پنپ نہیں سکتی ہے۔ شہید بی بی یہ بھی چاہتی تھیں کہ مسلم معاشروں میں مسلمانوں کے داخلی تصادم کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ کمزور طبقات کو بھی معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا جائے اور انھیں آگے لایا جائے، اس لیے شہید بی بی خواتین، مزدوروں، کسانوں، اقلیتوں اور دیگر کمزور و مظلوم طبقات و گروہوں کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اس مرتبہ خصوصی پروگرام لے کر آئی تھیں۔ شہید بی بی کے فلسفہ مفاہمت اور پروگرام پر پاکستان پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری کی قیادت میں بھرپور عمل درآمد کیا اور آج ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی عظیم قربانی کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کا عمل جاری و ساری ہے۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا فلسفہ مفاہمت ہی اب ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے۔ اس سے انحراف پاکستان، اسلامی دنیا اور عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ شہید بی بی جیسے رہنما صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم