پنجاب کا مطالبہ وفاق کی عدم دلچسپی سنگین بحران پیدا ہو سکتا ہے
پنجاب کی سیاست میں ’’گندم آٹا ‘‘ کا نہایت اہم کردار ہے۔
ISLAMABAD:
روم کے بادشاہ نیرو کا ملک جل کر خاک ہو گیا لیکن وہ بڑے اطمینان سے بانسری بجاتا رہا،آج کے نئے پاکستان میں بھی بہت سے ''نیرو'' موجود ہیں جن کی نگاہوں کے سامنے ملک وقوم مختلف مصائب و آلام کی آگ میں جل رہے ہیں لیکن یہ اپنی بانسری بجانے میں مگن ہیں کیونکہ انہیں گھبرانا بالکل نہیں آتا۔
نیا پاکستان کا طرز حکمرانی منفرد اور دلچسپ ہے،2018 ء کے الیکشن تک ''فرد واحد'' کی حکمرانی کے خلاف ''جدوجہد'' کرنے والی تحریک انصاف نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ نئے پاکستان میں ہر فیصلہ میرٹ پر اور بامعنی مشاورت کے ساتھ کیا جائے گا لیکن گزشتہ سوا دو برس کے دوران جس انداز میں فیصلے ہو رہے ہیں اور ان فیصلوں کے جو نتائج برآمد ہو رہے ہیں اسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ فیصلہ ساز اور فیصلہ سازی دونوں ناپید ہو گئے ہیں۔
ویسے تو موجودہ حکومت ہر معاشی میدان میں ڈگمگا رہی ہے لیکن جو کچھ گندم آٹا چینی کے معاملے میں اس حکومت کے ساتھ ہوا ہے وہ تو ماضی کی کسی حکومت کے ساتھ نہیں ہوا لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود تبدیلی سرکار کی منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی میں مثبت ''تبدیلی'' نہیں آ رہی ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری حکومت کو اپنے گلے میں غذائی بحران کا ڈھول ڈال کر اسے مجنونانہ مستی میں بجانے کا شوق ہے بصورت دیگر اتنی خطاوں سے تو بندہ کچھ سبق تو سیکھ ہی لیتا ہے۔
کبھی گندم خریداری میں غلطی،کبھی گندم کی فروخت میں کوتاہی اور کبھی امپورٹ میں تاخیر اور کبھی چینی کی امپورٹ میں غلطیاں در غلطیاں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ زراعت اور خوراک کے معاملات میں کی جانے والی غلط فیصلہ سازی کے ذمہ دار وفاقی کابینہ میں شامل وہ مشیر اور وزیر ہیں جن کا آجکل وزیر اعظم پر''غلبہ'' ہے، زراعت وخوراک سے نابلد یہ لوگ وزیر اعظم کو گمراہ کر نے کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کے مطالبات کی منظوری میں بھی رکاوٹ ڈالے ہوئے ہیں۔
اس وقت پنجاب حکومت کے ساتھ ساتھ پنجاب کے کروڑوں کسان اور ملک بھر کی فلورملنگ انڈسٹری وفاق کی جانب دیکھ رہی ہے کہ کب وہ گندم کی امدادی قیمت خرید کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرتا ہے۔ وفاقی حکومت چند ہفتے قبل 1650 روپے قیمت کا اعلان کر چکی ہے لیکن پنجاب نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پنجاب حکومت دو مرتبہ وفاق کو تحریری طور پر مطالبہ کر چکی ہے کہ قیمت 1800 روپے فی من مقرر کی جائے، سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی دو ہزار روپے قیمت کا مطالبہ کر چکے ہیں جبکہ پنجاب اسمبلی کی زراعت کمیٹی بھی قیمت بڑھانے کا مطالبہ کر چکی ہے، وفاقی وزیر خوراک سید فخر امام سمیت متعدد اہم وزراء وفاقی کابینہ کے اجلاس میں قیمت بڑھانے کا مطالبہ کر چکے ہیں لیکن ابھی تک وفاقی حکومت کی معاشی ٹیم کا پھونکا ہوا''طلسم'' ٹوٹ نہیں سکا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ، مشیر برائے تجارت رزاق داود، وفاقی وزیر صنعت حماد اظہر اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر گندم کی امدادی قیمت کو مزید بڑھانے کے سخت مخالف ہیں اور ان کا موقف ہے کہ امدادی قیمت خرید کو مزید بڑھانے سے افراط زر میں اضافہ کے ساتھ ساتھ آٹا کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ معاشی ٹیم کی ''مہارت'' اور ''فیصلہ سازی'' کو ماضی کی کسوٹی پر پرکھنا ہے تو پھر آئی ایم ایف کے پاس تاخیر سے جانا، تجارتی پالیسیوں پر عدم اطمینان، چینی کی حالیہ امپورٹ میں خامیاں، گندم امپورٹ میں تاخیر اور کم قیمت ٹینڈرز کو منسوخ کر کے مہنگے ٹینڈرز کو قبول کرنے جیسے چند فیصلے یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ اسلام آباد کی معاشی ٹیم کی ''ذہانت'' کا معیار کیا ہے۔
پنجاب ملکی سیاست میں '' بادشاہ گر'' کی حیثیت رکھتا ہے، ہر سیاسی جماعت اس صوبے کے عوام کو اپنی طرفدار بنانے کی جدوجہد کرتی رہتی ہے۔ پنجاب کی سیاست میں ''گندم آٹا '' کا نہایت اہم کردار ہے۔ معاشی ٹیم کو زراعت کی بنیادی حقیقت کا ادراک نہیں اور نہ ہی ''برگر فیملی'' نما ٹیم اسے سمجھنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی اعلان کردہ 2 ہزار روپے قیمت پر پوائنٹ سکورنگ کرے گی جس کا نقصان تحریک انصاف کو ہوگا حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سندھ میں کسان کو 1600 سے زائد قیمت نہیں ملے گی، وہاں تو خریداری نظام بھی عجب ہے۔
محکمہ خوراک سندھ گندم خریداری کیلئے ہر علاقے کے دو یا تین بڑے وڈیروں یا تاجروں کو سرکاری باردانہ فراہم کرتا ہے، یہ لوگ اپنے آڑھتیوں کو باردانہ دیتے ہیں جو کسان سے گندم پہلے ہی خرید چکے ہوتے ہیں اور سرکاری ریکارڈ میں کسان کا نام درج کر دیا جاتا ہے۔
اس مرتبہ بھی یہی متوقع ہے کہ کسان کو 1600 روپے ملیں گے اور باقی کے400 روپے وڈیروں اور سرکاری حکام کے مابین تقسیم ہوں گے۔پنجاب حکومت کیلئے مشکل یہ ہے کہ قیمت 1650 رہتی ہے تو کسانوں بالخصوص جنوبی پنجاب میں حکومت کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان ہوگا،وزیر اعلی سردار عثمان بزدار بھی جنوبی پنجاب سے ہیں اور انہیں وہاں کے کسانوں کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے گا۔گندم کی کاشت تو مکمل ہو چکی ہے لیکن قیمت میں اضافہ نہیں کیا جاتا توکسان اپنی لاگت کم رکھنے کی خاطر ڈی اے پی کھاد کا کم استعمال کرے گا جس سے پیداوار متاثر ہو گی۔ابھی تک حکومت پنجاب نے محکمہ خوراک کیلئے گندم خریداری اہداف کا تعین نہیں کیا ہے اور صوبائی حکومت قیمت کے معاملے پر وفاق کو کی گئی درخواست پر حتمی فیصلے کی منتظر ہے۔
بعض حکومتی حلقے سمجھتے ہیں کہ محکمہ خوراک 30 لاکھ ٹن گندم خریدے اور باقی گندم نجی شعبے کو خریدنے دے لیکن گزشتہ دو برس کے دوران جس نوعیت اور شدت کا بحران رہا ہے اس تناظر میں حکومت پنجاب کیلئے کم گندم خریداری کرنا بہت بڑا ''رسک'' ہوگا۔ پنجاب کی سینئر بیوروکریسی متفق ہے کہ قیمت خرید 1800 روپے کرنا ناگزیر ہے اگر ایسا نہیںہوتا تو لاکھوں ٹن گندم کی سندھ سمگلنگ اور اس سے زیاد ہ بڑی مقدار میں پنجاب میں ذخیرہ اندوزی کو روکنا ناممکن ہوگا۔ ماضی کی مانند اس بار بھی غلہ منڈیوں اور فلورملز کو''نو گو ایریا'' بنایا گیا تو وہی نتائج برآمد ہوں گے جو ماضی میں نکلے ہیں۔
پنجاب کے سینئر وزیر اور وزیر خوراک عبدالعلیم خان بڑے پیمانے پر گندم خریداری کے حق میں نہیں ہیں اور ان کا موقف ہے کہ حکومت مستحق افراد کو ٹارگٹ سبسڈی کے ذریعے آٹا فراہم کرے اور گندم کی خریدو فروخت کو اوپن مارکیٹ کی رسد وطلب کے مطابق آزاد کیا جائے۔
ان کے موقف میں مضبوطی ہے لیکن بدقسمتی سے گندم اور آٹا پاکستانی سیاست کا مضبوط اور اہم ترین جزو بن چکے ہیں اور کوئی بھی حکومت اس معاملے میں نیا تجربہ کرنے سے خوفزدہ ہو جاتی ہے لہذا فی الوقت تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ محکمہ خوراک 40 سے45 لاکھ ٹن خریداری کرے گا۔ وزیر اعلی سردار عثمان بزدار خود بھی کاشتکار ہیں اور وزیر اعلی بننے سے قبل ان کا اپنے علاقے کے چھوٹے بڑے کسانوں کے ساتھ میل جول بھی تھا انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ آنے والی گندم خریداری کتنی اہم ہے اگر قیمت 1800 روپے نہیں کی جاتی تو پھر بطور چیف ایگزیکٹو انہیں اپنے صوبہ میں سب سے بڑے انتظامی و غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس مرتبہ پکڑ دھکڑ کے ساتھ خریداری اہداف پورے کرنے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو گی اور رواں برس کی مانند اربوں روپے خرچ کر کے گندم امپورٹ کرنا بھی حکومت کی سبکی ہو گی۔ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک ، سیکرٹری فوڈ شہریار سلطان اور سیکرٹری زراعت اسدگیلانی بھی امدادی قیمت خرید کے معاملے پر سخت پریشان ہیں اور انہیں آنے والے دنوں کے مسائل کا اندازہ ہو رہا ہے لیکن سب کے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ ''بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے'' کیونکہ وفاقی حکومت قیمت بڑھانے کے معاملے پر وزیر اعلی پنجاب کی ''پکار'' سننے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
روم کے بادشاہ نیرو کا ملک جل کر خاک ہو گیا لیکن وہ بڑے اطمینان سے بانسری بجاتا رہا،آج کے نئے پاکستان میں بھی بہت سے ''نیرو'' موجود ہیں جن کی نگاہوں کے سامنے ملک وقوم مختلف مصائب و آلام کی آگ میں جل رہے ہیں لیکن یہ اپنی بانسری بجانے میں مگن ہیں کیونکہ انہیں گھبرانا بالکل نہیں آتا۔
نیا پاکستان کا طرز حکمرانی منفرد اور دلچسپ ہے،2018 ء کے الیکشن تک ''فرد واحد'' کی حکمرانی کے خلاف ''جدوجہد'' کرنے والی تحریک انصاف نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ نئے پاکستان میں ہر فیصلہ میرٹ پر اور بامعنی مشاورت کے ساتھ کیا جائے گا لیکن گزشتہ سوا دو برس کے دوران جس انداز میں فیصلے ہو رہے ہیں اور ان فیصلوں کے جو نتائج برآمد ہو رہے ہیں اسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ فیصلہ ساز اور فیصلہ سازی دونوں ناپید ہو گئے ہیں۔
ویسے تو موجودہ حکومت ہر معاشی میدان میں ڈگمگا رہی ہے لیکن جو کچھ گندم آٹا چینی کے معاملے میں اس حکومت کے ساتھ ہوا ہے وہ تو ماضی کی کسی حکومت کے ساتھ نہیں ہوا لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود تبدیلی سرکار کی منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی میں مثبت ''تبدیلی'' نہیں آ رہی ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری حکومت کو اپنے گلے میں غذائی بحران کا ڈھول ڈال کر اسے مجنونانہ مستی میں بجانے کا شوق ہے بصورت دیگر اتنی خطاوں سے تو بندہ کچھ سبق تو سیکھ ہی لیتا ہے۔
کبھی گندم خریداری میں غلطی،کبھی گندم کی فروخت میں کوتاہی اور کبھی امپورٹ میں تاخیر اور کبھی چینی کی امپورٹ میں غلطیاں در غلطیاں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ زراعت اور خوراک کے معاملات میں کی جانے والی غلط فیصلہ سازی کے ذمہ دار وفاقی کابینہ میں شامل وہ مشیر اور وزیر ہیں جن کا آجکل وزیر اعظم پر''غلبہ'' ہے، زراعت وخوراک سے نابلد یہ لوگ وزیر اعظم کو گمراہ کر نے کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کے مطالبات کی منظوری میں بھی رکاوٹ ڈالے ہوئے ہیں۔
اس وقت پنجاب حکومت کے ساتھ ساتھ پنجاب کے کروڑوں کسان اور ملک بھر کی فلورملنگ انڈسٹری وفاق کی جانب دیکھ رہی ہے کہ کب وہ گندم کی امدادی قیمت خرید کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرتا ہے۔ وفاقی حکومت چند ہفتے قبل 1650 روپے قیمت کا اعلان کر چکی ہے لیکن پنجاب نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پنجاب حکومت دو مرتبہ وفاق کو تحریری طور پر مطالبہ کر چکی ہے کہ قیمت 1800 روپے فی من مقرر کی جائے، سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی دو ہزار روپے قیمت کا مطالبہ کر چکے ہیں جبکہ پنجاب اسمبلی کی زراعت کمیٹی بھی قیمت بڑھانے کا مطالبہ کر چکی ہے، وفاقی وزیر خوراک سید فخر امام سمیت متعدد اہم وزراء وفاقی کابینہ کے اجلاس میں قیمت بڑھانے کا مطالبہ کر چکے ہیں لیکن ابھی تک وفاقی حکومت کی معاشی ٹیم کا پھونکا ہوا''طلسم'' ٹوٹ نہیں سکا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ، مشیر برائے تجارت رزاق داود، وفاقی وزیر صنعت حماد اظہر اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر گندم کی امدادی قیمت کو مزید بڑھانے کے سخت مخالف ہیں اور ان کا موقف ہے کہ امدادی قیمت خرید کو مزید بڑھانے سے افراط زر میں اضافہ کے ساتھ ساتھ آٹا کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ معاشی ٹیم کی ''مہارت'' اور ''فیصلہ سازی'' کو ماضی کی کسوٹی پر پرکھنا ہے تو پھر آئی ایم ایف کے پاس تاخیر سے جانا، تجارتی پالیسیوں پر عدم اطمینان، چینی کی حالیہ امپورٹ میں خامیاں، گندم امپورٹ میں تاخیر اور کم قیمت ٹینڈرز کو منسوخ کر کے مہنگے ٹینڈرز کو قبول کرنے جیسے چند فیصلے یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ اسلام آباد کی معاشی ٹیم کی ''ذہانت'' کا معیار کیا ہے۔
پنجاب ملکی سیاست میں '' بادشاہ گر'' کی حیثیت رکھتا ہے، ہر سیاسی جماعت اس صوبے کے عوام کو اپنی طرفدار بنانے کی جدوجہد کرتی رہتی ہے۔ پنجاب کی سیاست میں ''گندم آٹا '' کا نہایت اہم کردار ہے۔ معاشی ٹیم کو زراعت کی بنیادی حقیقت کا ادراک نہیں اور نہ ہی ''برگر فیملی'' نما ٹیم اسے سمجھنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی اعلان کردہ 2 ہزار روپے قیمت پر پوائنٹ سکورنگ کرے گی جس کا نقصان تحریک انصاف کو ہوگا حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سندھ میں کسان کو 1600 سے زائد قیمت نہیں ملے گی، وہاں تو خریداری نظام بھی عجب ہے۔
محکمہ خوراک سندھ گندم خریداری کیلئے ہر علاقے کے دو یا تین بڑے وڈیروں یا تاجروں کو سرکاری باردانہ فراہم کرتا ہے، یہ لوگ اپنے آڑھتیوں کو باردانہ دیتے ہیں جو کسان سے گندم پہلے ہی خرید چکے ہوتے ہیں اور سرکاری ریکارڈ میں کسان کا نام درج کر دیا جاتا ہے۔
اس مرتبہ بھی یہی متوقع ہے کہ کسان کو 1600 روپے ملیں گے اور باقی کے400 روپے وڈیروں اور سرکاری حکام کے مابین تقسیم ہوں گے۔پنجاب حکومت کیلئے مشکل یہ ہے کہ قیمت 1650 رہتی ہے تو کسانوں بالخصوص جنوبی پنجاب میں حکومت کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان ہوگا،وزیر اعلی سردار عثمان بزدار بھی جنوبی پنجاب سے ہیں اور انہیں وہاں کے کسانوں کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے گا۔گندم کی کاشت تو مکمل ہو چکی ہے لیکن قیمت میں اضافہ نہیں کیا جاتا توکسان اپنی لاگت کم رکھنے کی خاطر ڈی اے پی کھاد کا کم استعمال کرے گا جس سے پیداوار متاثر ہو گی۔ابھی تک حکومت پنجاب نے محکمہ خوراک کیلئے گندم خریداری اہداف کا تعین نہیں کیا ہے اور صوبائی حکومت قیمت کے معاملے پر وفاق کو کی گئی درخواست پر حتمی فیصلے کی منتظر ہے۔
بعض حکومتی حلقے سمجھتے ہیں کہ محکمہ خوراک 30 لاکھ ٹن گندم خریدے اور باقی گندم نجی شعبے کو خریدنے دے لیکن گزشتہ دو برس کے دوران جس نوعیت اور شدت کا بحران رہا ہے اس تناظر میں حکومت پنجاب کیلئے کم گندم خریداری کرنا بہت بڑا ''رسک'' ہوگا۔ پنجاب کی سینئر بیوروکریسی متفق ہے کہ قیمت خرید 1800 روپے کرنا ناگزیر ہے اگر ایسا نہیںہوتا تو لاکھوں ٹن گندم کی سندھ سمگلنگ اور اس سے زیاد ہ بڑی مقدار میں پنجاب میں ذخیرہ اندوزی کو روکنا ناممکن ہوگا۔ ماضی کی مانند اس بار بھی غلہ منڈیوں اور فلورملز کو''نو گو ایریا'' بنایا گیا تو وہی نتائج برآمد ہوں گے جو ماضی میں نکلے ہیں۔
پنجاب کے سینئر وزیر اور وزیر خوراک عبدالعلیم خان بڑے پیمانے پر گندم خریداری کے حق میں نہیں ہیں اور ان کا موقف ہے کہ حکومت مستحق افراد کو ٹارگٹ سبسڈی کے ذریعے آٹا فراہم کرے اور گندم کی خریدو فروخت کو اوپن مارکیٹ کی رسد وطلب کے مطابق آزاد کیا جائے۔
ان کے موقف میں مضبوطی ہے لیکن بدقسمتی سے گندم اور آٹا پاکستانی سیاست کا مضبوط اور اہم ترین جزو بن چکے ہیں اور کوئی بھی حکومت اس معاملے میں نیا تجربہ کرنے سے خوفزدہ ہو جاتی ہے لہذا فی الوقت تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ محکمہ خوراک 40 سے45 لاکھ ٹن خریداری کرے گا۔ وزیر اعلی سردار عثمان بزدار خود بھی کاشتکار ہیں اور وزیر اعلی بننے سے قبل ان کا اپنے علاقے کے چھوٹے بڑے کسانوں کے ساتھ میل جول بھی تھا انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ آنے والی گندم خریداری کتنی اہم ہے اگر قیمت 1800 روپے نہیں کی جاتی تو پھر بطور چیف ایگزیکٹو انہیں اپنے صوبہ میں سب سے بڑے انتظامی و غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس مرتبہ پکڑ دھکڑ کے ساتھ خریداری اہداف پورے کرنے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو گی اور رواں برس کی مانند اربوں روپے خرچ کر کے گندم امپورٹ کرنا بھی حکومت کی سبکی ہو گی۔ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک ، سیکرٹری فوڈ شہریار سلطان اور سیکرٹری زراعت اسدگیلانی بھی امدادی قیمت خرید کے معاملے پر سخت پریشان ہیں اور انہیں آنے والے دنوں کے مسائل کا اندازہ ہو رہا ہے لیکن سب کے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ ''بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے'' کیونکہ وفاقی حکومت قیمت بڑھانے کے معاملے پر وزیر اعلی پنجاب کی ''پکار'' سننے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔