کراچی کے مسائل حل کرنے کے لئے وفاق اور سندھ حکومت کے سنجیدہ اقدامات
کراچی کی ترقی کیلیے تشکیل دی گئی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں مختلف اقدامات کی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔
کراچی میں گزشتہ مون سون کے دوران ہونے والی بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد وفاقی اور سندھ حکومت کی جانب سے شہر قائد کے لیے اعلان کردہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر عملدرآمد کے لیے دونوں حکومتیں اس وقت انتہائی سنجیدہ دکھائی دے رہی ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ جو کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے باعث آئسولیشن میں تھے صحت یاب ہونے کے بعد انتہائی متحرک نظرآرہے ہیں۔ خصوصاً کراچی کی بہتری کے حوالے سے وہ اپنی تمام توانیاں بروئے کار لاتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔
وفاق اور سندھ حکومتوں کی جانب سے کراچی کی ترقی کیلیے تشکیل دی گئی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں مختلف اقدامات کی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا جس میں نالوں کی صفائی، کچرے کو ٹھکانے لگانا، پانی کی فراہمی اور کچھ اہم سڑکوں کی تعمیر شامل ہیں۔ اجلاس میں وفاقی وصوبائی حکومتوں اور عسکری حکام سمیت دیگر نے شرکت کی۔
اجلاس میں وفاقی وزیر اسد عمر نے بتایا کہ نالوں کے صفائی ستھرائی کے کاموں اور ان سے متعلقہ اسائنمنٹز کیلیے وفاقی حکومت نے 7 ارب روپے استعمال کرنے کیلیے این ڈی ایم اے کو اختیار دیا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے کے فوری منصوبے کی تکمیل کا کام اپنے ذمے لیا ہے۔
لہذا تمام متعلقہ دستاویزات مرکزی حکومت کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ اسد عمر نے کہا کہ وفاقی حکومت نے واپڈا کو اسکی تکمیل کا کام تفویض کیا ہے اور اس منصوبے کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کا عزم کیا ہے۔اس کے علاوہ ایک اور اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعلی سندھ نے کراچی شہر کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے بلدیاتی اداروں کو نئی مہم کا آغاز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں تمام سڑکوں، گلیوں اور چوراہوں کو صاف ستھرا اور خوبصورت دیکھنا چاہتا ہوں۔ وزیراعلی سندھ کا کہنا تھا کہ وہ صفائی ستھرائی کے کاموں، سڑکوں اور برساتی پانی کی نالوں کی تعمیر نو کے کام کو جاری رکھنے کا جائزہ لینے کیلیے رات کے کسی بھی اوقات میں شہر کا رخ کریں گے اور اس کیلیے کسی بھی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔شہری حلقوں کی جانب سے کراچی میں ترقیاتی اسکیموں پر تیز رفتاری سے کام اور ٹرانسفارمیشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کیے جانے کو خوش آئند قرار دیا جارہا ہے۔
ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں شہر کی بہتری کے لیے محض اعلانات ہی ہوئے ہیں لیکن اس مرتبہ صورت حال کچھ مختلف نظرآرہی ہے خصوصاً مراد علی شاہ کی جانب سے جس سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنا فوکس کراچی پر کر لیا ہے اور وہ اس تاثر کو ختم کرنا چاہتی ہے کہ اندرون سندھ سے کامیابی حاصل کرنے کی وجہ سے وہ کراچی پر توجہ نہیں دیتی۔ پیپلزپارٹی اگر اسی سنجیدگی کے ساتھ کراچی کی بہتری کے لیے کام کرے گی تو یقیناً اس کا سیاسی فائدہ بھی حاصل کرے گی۔
شہر کی بہتری کے لیے وفاقی اور سندھ حکومت کا کوآرڈی نیشن انتہائی ضروری ہے۔اگر سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے دونوں حکومتیں اسی طرح کام کرتی رہیں تو امید ہے کہ آئندہ چند ماہ کراچی ایک مختلف حالت میں نظرآئے گا۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے بڑے مسائل حل کے لیے وفاقی صوبائی اور فوج کی باہمی مشاورت اقدام کرنا اچھا عمل ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے کارکنوں پر ملتان میں ہونے والے تشدد کے خلاف مولانا فضل الرحمن کی اپیل پر ملک بھر کی طرح سندھ کے مختلف شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جس میں وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پی ڈی ایم اس وقت وفاقی حکومت کے خلاف تحریک چلارہی ہے اور اس کی جانب سے جلد اہم اعلانات متوقع ہیں۔
اس ضمن میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کے اثرات سندھ پر بھی مرتب ہوں گے۔خصوصاً اگر اپوزیشن اتحاد کی جانب سے استعفے دینے کا آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو دیکھنا یہ ہوگا کہ سندھ میں برسراقتدار پیپلزپارٹی اس فیصلے کا ساتھ دیتی ہے یا نہیں کیونکہ معاملہ صرف قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفوں تک محدود نہیں رہے گا۔اپوزیشن کی اس تحریک کے لیے کیا پیپلزپارٹی اپنی سندھ حکومت کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگی یا نہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
پاکستان میں کورونا کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں اس وقت کراچی کورونا سے اہم متاثرہ شہر بن گیا ہے۔شہر کے مختلف اضلاع میں اس وقت اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ ہے لیکن دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ شہری انتظامیہ ایس او پیز پر عملدرآمد کرنے پر کسی طور پر بھی تیار نہیں ہیں۔
نہ ہی ماسک لگانے کی پابندی پر عمل کیا جا رہا ہے اور نہ ہی سماجی فاصلہ برقرار رکھا جا رہا ہے، جس کے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہدیدار اس صوررت حال کو کافی تشویشناک قرار دے رہے ہیں۔ایک پریس کانفرنس میں پیما کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کا رویہ مایوس کن ہے صرف اعلانات کیے جا رہے ہیں کوئی عملی اقدام نہیں ہو رہا ہے۔ عوام میں اس حوالے سے آگاہی پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے اسپتالوں میں جگہ نہیں ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر ایس او پیز پر عملدرآمد کے لئے اقدامات کیے جائیں۔ ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے والوں پر مقدمات کا اندراج اور جرمانے کیے جائیں۔کورونا کی دوسری لہر پر قابو پانے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔عوام کو چاہیے کہ وہ ماسک پہنیں اور ایس او پیز پر عمل کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ کراچی سمیت صوبہ بھر میں کورونا کی وبا کو قابو میں رکھنے کے لیے حکومت مکمل لاک ڈاؤن لگا دے۔احتیاط علاج سے بہتر ہے اور اس سے زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے ۔
سندھ میں گیس بحران کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی صوبے میں گیس ناپید ہوگئی ہے۔ سندھ کے وزیر توانائی امتیاز شیخ نے اس حوالے سے وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ا ن کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی نااہلی سے سندھ میں گیس کا بحران پیدا ہوا ہے۔صنعتی پہیہ جام ہونے کے ساتھ گھریلو صارفین بھی پریشان ہیں۔ توانائی کے معاملے پر وفاق کی نااہلی کا نیب نوٹس لے اور اس کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔ وفاق کے غلط فیصلوں سے توانائی کے معاملے پر 122ارب کانقصان کیا گیا۔
جب گیس منگوانی تھی فرنس آئل منگوایا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی سردی کے موسم میں گیس کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ وفاقی حکومت کو اس حوالے سے پہلے ہی منصوبہ بند ی کرنے کی ضرورت تھی۔ سندھ اس حوالے سے بدقسمت صوبہ ہے۔ گیس کا ایک بڑا حصہ یہاں نکلتا ہے لیکن اس کے ثمرات یہاں کی عوام تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی اور سندھ حکومت دونوں کو ایک مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
سندھ بھر میں سندھی ثقافت کا دن روایتی جوش و خروش سے منایا گیا، سندھ کے مختلف شہروں میں خصوصی تقاریب کا انعقاد کیا گیا جس میں سماجی و ثقافتی تنظیموں کی جانب سے ریلیاں نکالی گئیں اور سندھی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا۔ سندھ کی ثقافت کا دن ہر سال دسمبر کے پہلے اتوار کو منایا جاتا ہے سندھ کی ثقافت سے محبت کرنیوالے شہری یوم ثقافت کو عید کے تہوار کی طرح مناتے ہیں ۔کراچی کے علاوہ سکھر، حیدرآباد، جیکب آباد، دادو، نواب شاہ، پڈعیدن اور خیرپور میں بھی سندھ کی ثقافت کا دن بھرپور طریقے سے منایا گیا جگہ جگہ ریلیاں نکالی گئیں اور جن میں نوجوان، بچے سندھی اجرک ٹوپی پہنے بھرپور انداز میں شریک ہوئے اور علاقائی گیتوں پر رقص کرتے نظر آئے۔
اس دن کی مناسبت سے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری ، شریک چیئرمین آصف علی زرداری ،گورنر سندھ عمران اسماعیل ، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت مختلف سیاسی شخصیات نے اپنے پیغامات میں دنیا بھر میں یومِ ثقافتِ سندھ منانے والے پاکستانیوں کو دلی مبارکباد پیش کی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ جو کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے باعث آئسولیشن میں تھے صحت یاب ہونے کے بعد انتہائی متحرک نظرآرہے ہیں۔ خصوصاً کراچی کی بہتری کے حوالے سے وہ اپنی تمام توانیاں بروئے کار لاتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔
وفاق اور سندھ حکومتوں کی جانب سے کراچی کی ترقی کیلیے تشکیل دی گئی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں مختلف اقدامات کی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا جس میں نالوں کی صفائی، کچرے کو ٹھکانے لگانا، پانی کی فراہمی اور کچھ اہم سڑکوں کی تعمیر شامل ہیں۔ اجلاس میں وفاقی وصوبائی حکومتوں اور عسکری حکام سمیت دیگر نے شرکت کی۔
اجلاس میں وفاقی وزیر اسد عمر نے بتایا کہ نالوں کے صفائی ستھرائی کے کاموں اور ان سے متعلقہ اسائنمنٹز کیلیے وفاقی حکومت نے 7 ارب روپے استعمال کرنے کیلیے این ڈی ایم اے کو اختیار دیا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے کے فوری منصوبے کی تکمیل کا کام اپنے ذمے لیا ہے۔
لہذا تمام متعلقہ دستاویزات مرکزی حکومت کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ اسد عمر نے کہا کہ وفاقی حکومت نے واپڈا کو اسکی تکمیل کا کام تفویض کیا ہے اور اس منصوبے کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کا عزم کیا ہے۔اس کے علاوہ ایک اور اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعلی سندھ نے کراچی شہر کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے بلدیاتی اداروں کو نئی مہم کا آغاز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں تمام سڑکوں، گلیوں اور چوراہوں کو صاف ستھرا اور خوبصورت دیکھنا چاہتا ہوں۔ وزیراعلی سندھ کا کہنا تھا کہ وہ صفائی ستھرائی کے کاموں، سڑکوں اور برساتی پانی کی نالوں کی تعمیر نو کے کام کو جاری رکھنے کا جائزہ لینے کیلیے رات کے کسی بھی اوقات میں شہر کا رخ کریں گے اور اس کیلیے کسی بھی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔شہری حلقوں کی جانب سے کراچی میں ترقیاتی اسکیموں پر تیز رفتاری سے کام اور ٹرانسفارمیشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کیے جانے کو خوش آئند قرار دیا جارہا ہے۔
ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں شہر کی بہتری کے لیے محض اعلانات ہی ہوئے ہیں لیکن اس مرتبہ صورت حال کچھ مختلف نظرآرہی ہے خصوصاً مراد علی شاہ کی جانب سے جس سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنا فوکس کراچی پر کر لیا ہے اور وہ اس تاثر کو ختم کرنا چاہتی ہے کہ اندرون سندھ سے کامیابی حاصل کرنے کی وجہ سے وہ کراچی پر توجہ نہیں دیتی۔ پیپلزپارٹی اگر اسی سنجیدگی کے ساتھ کراچی کی بہتری کے لیے کام کرے گی تو یقیناً اس کا سیاسی فائدہ بھی حاصل کرے گی۔
شہر کی بہتری کے لیے وفاقی اور سندھ حکومت کا کوآرڈی نیشن انتہائی ضروری ہے۔اگر سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے دونوں حکومتیں اسی طرح کام کرتی رہیں تو امید ہے کہ آئندہ چند ماہ کراچی ایک مختلف حالت میں نظرآئے گا۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے بڑے مسائل حل کے لیے وفاقی صوبائی اور فوج کی باہمی مشاورت اقدام کرنا اچھا عمل ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے کارکنوں پر ملتان میں ہونے والے تشدد کے خلاف مولانا فضل الرحمن کی اپیل پر ملک بھر کی طرح سندھ کے مختلف شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جس میں وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پی ڈی ایم اس وقت وفاقی حکومت کے خلاف تحریک چلارہی ہے اور اس کی جانب سے جلد اہم اعلانات متوقع ہیں۔
اس ضمن میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کے اثرات سندھ پر بھی مرتب ہوں گے۔خصوصاً اگر اپوزیشن اتحاد کی جانب سے استعفے دینے کا آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو دیکھنا یہ ہوگا کہ سندھ میں برسراقتدار پیپلزپارٹی اس فیصلے کا ساتھ دیتی ہے یا نہیں کیونکہ معاملہ صرف قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفوں تک محدود نہیں رہے گا۔اپوزیشن کی اس تحریک کے لیے کیا پیپلزپارٹی اپنی سندھ حکومت کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگی یا نہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
پاکستان میں کورونا کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں اس وقت کراچی کورونا سے اہم متاثرہ شہر بن گیا ہے۔شہر کے مختلف اضلاع میں اس وقت اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ ہے لیکن دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ شہری انتظامیہ ایس او پیز پر عملدرآمد کرنے پر کسی طور پر بھی تیار نہیں ہیں۔
نہ ہی ماسک لگانے کی پابندی پر عمل کیا جا رہا ہے اور نہ ہی سماجی فاصلہ برقرار رکھا جا رہا ہے، جس کے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہدیدار اس صوررت حال کو کافی تشویشناک قرار دے رہے ہیں۔ایک پریس کانفرنس میں پیما کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کا رویہ مایوس کن ہے صرف اعلانات کیے جا رہے ہیں کوئی عملی اقدام نہیں ہو رہا ہے۔ عوام میں اس حوالے سے آگاہی پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے اسپتالوں میں جگہ نہیں ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر ایس او پیز پر عملدرآمد کے لئے اقدامات کیے جائیں۔ ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے والوں پر مقدمات کا اندراج اور جرمانے کیے جائیں۔کورونا کی دوسری لہر پر قابو پانے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔عوام کو چاہیے کہ وہ ماسک پہنیں اور ایس او پیز پر عمل کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ کراچی سمیت صوبہ بھر میں کورونا کی وبا کو قابو میں رکھنے کے لیے حکومت مکمل لاک ڈاؤن لگا دے۔احتیاط علاج سے بہتر ہے اور اس سے زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے ۔
سندھ میں گیس بحران کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی صوبے میں گیس ناپید ہوگئی ہے۔ سندھ کے وزیر توانائی امتیاز شیخ نے اس حوالے سے وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ا ن کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی نااہلی سے سندھ میں گیس کا بحران پیدا ہوا ہے۔صنعتی پہیہ جام ہونے کے ساتھ گھریلو صارفین بھی پریشان ہیں۔ توانائی کے معاملے پر وفاق کی نااہلی کا نیب نوٹس لے اور اس کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔ وفاق کے غلط فیصلوں سے توانائی کے معاملے پر 122ارب کانقصان کیا گیا۔
جب گیس منگوانی تھی فرنس آئل منگوایا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی سردی کے موسم میں گیس کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ وفاقی حکومت کو اس حوالے سے پہلے ہی منصوبہ بند ی کرنے کی ضرورت تھی۔ سندھ اس حوالے سے بدقسمت صوبہ ہے۔ گیس کا ایک بڑا حصہ یہاں نکلتا ہے لیکن اس کے ثمرات یہاں کی عوام تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی اور سندھ حکومت دونوں کو ایک مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
سندھ بھر میں سندھی ثقافت کا دن روایتی جوش و خروش سے منایا گیا، سندھ کے مختلف شہروں میں خصوصی تقاریب کا انعقاد کیا گیا جس میں سماجی و ثقافتی تنظیموں کی جانب سے ریلیاں نکالی گئیں اور سندھی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا۔ سندھ کی ثقافت کا دن ہر سال دسمبر کے پہلے اتوار کو منایا جاتا ہے سندھ کی ثقافت سے محبت کرنیوالے شہری یوم ثقافت کو عید کے تہوار کی طرح مناتے ہیں ۔کراچی کے علاوہ سکھر، حیدرآباد، جیکب آباد، دادو، نواب شاہ، پڈعیدن اور خیرپور میں بھی سندھ کی ثقافت کا دن بھرپور طریقے سے منایا گیا جگہ جگہ ریلیاں نکالی گئیں اور جن میں نوجوان، بچے سندھی اجرک ٹوپی پہنے بھرپور انداز میں شریک ہوئے اور علاقائی گیتوں پر رقص کرتے نظر آئے۔
اس دن کی مناسبت سے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری ، شریک چیئرمین آصف علی زرداری ،گورنر سندھ عمران اسماعیل ، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت مختلف سیاسی شخصیات نے اپنے پیغامات میں دنیا بھر میں یومِ ثقافتِ سندھ منانے والے پاکستانیوں کو دلی مبارکباد پیش کی ہے۔