اپوزیشن کی احتجاجی تحریک اور سینٹ الیکشن کی خاموش تیاری
سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال اپنی جماعت کے اندر گروپنگ اور اختلافات کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔
ملکی سیاست کی گرما گرمی سے بلوچستان کی سیاست کا درجہ حرارت بھی بڑھنے لگا ہے۔ صوبے کی سیاسی جماعتیں حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلائو کی نشاندہی کے باوجودعوامی اجتماعات کا انعقاد کرتی نظرآرہی ہیں۔
پی ڈی ایم کی مرکزی کال پر کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا جبکہ پشتونخواملی عوامی پارٹی نے خان عبدالصمد خان شہید کی برسی کے موقع پر چمن میں ''شوآف پاور''کیا جس سے پارٹی کے مرکزی چیئرمین محمود خان اچکزئی سمیت دیگر رہنمائوں نے خطاب کیا۔
سردموسم میں بلوچستان کی سیاسی جماعتیں سیاست میں گرمی پیدا کر رہی ہیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کورونا کے بڑھنے کے حوالے سے باربار آگاہ کیا جا رہا ہے اور عوام کو اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں ومظاہروں سے دور رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے ایسے سیاسی ماحول میں سینٹ الیکشن کی تیاریاں بھی انڈر گرائونڈ جاری وساری ہیں۔
سینٹ کیلئے امیدوار متحرک نظرآرہے ہیں جبکہ صوبے کی بعض اہم سیاسی وقبائلی شخصیات کے حوالے سے سیاسی محفلوں میں ان کے آئندہ سیاسی لائحہ عمل کے حوالے سے گرما گرم بحث کے ساتھ ساتھ ان کے قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطوں کی باتیں بھی زیر گردش ہیں۔
مسلم لیگ ن سے الگ ہونے کے بعد سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری اور سابق وفاقی وزیر جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ ابھی تک اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے فیصلہ نہیں کر پائے۔ ان کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے ان سے رابطے کئے ہیں جس کا اظہاروہ خود بھی کر چکے ہیں جبکہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی اور سابق گورنر و وزیر اعلیٰ نواب ذوالفقارمگسی کے بارے میں بھی یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ ان سے ن لیگ کی قیادت رابطے میں ہے۔
تاہم نواب اسلم رئیسانی جو اس وقت بلوچستان اسمبلی میں آزاد حیثیت سے بیٹھے ہیں نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ سولوسیاست ایک مشکل کام ہے لیکن جہاں میں کھڑا ہوں وہاں میں بہت آرام سے ہوں یعنی انہوں نے چند الفاظ میں اپنے کسی اور جماعت میں شامل ہونے کی تردید کردی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں دیگر سیاسی جماعتوںکے مقابلے میں ن لیگ زیادہ متاثر نظر آتی ہے، بلوچستان میں ن لیگ ابھی تک صوبائی صدارت کا فیصلہ نہیں کر پائی، جنرل(ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ کے ن لیگ کو چھوڑ دینے کے بعد یہ عہدہ کافی عرصے سے خالی پڑا ہے جس کیلئے مختلف نام گردش توکر رہے ہیں لیکن اس عہدے کو پارٹی کی مرکزی قیادت ابھی تک پر نہیں کر پائی بلکہ یوں کہا جائے کہ کسی ایک سیاسی شخصیت کے نام پر متفق نہیں ہو پائی، اس وقت ن لیگ بلوچستان کی صدارت کیلئے جو نام سامنے آرہے ہیں۔
ان میں سابق وفاقی وزیر سردار یعقوب ناصر شیخ جعفر مندوخیل، موجودہ جنرل سیکرٹری جمال شاہ کاکڑ قابل ذکر ہیں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صوبائی صدارت کیلئے جو تین نام چل رہے ہیں وہ پشتون ہیں لہٰذا اگر ان میں سے کسی ایک کو یہ عہدہ تفویض کیاجاتا ہے تو جنرل سیکرٹری شپ کسی بلوچ یا سیٹلر کو تفویض ہوگی۔
دوسری جانب سیاسی ماحول کی گرماگرمی کو محسوس کرتے ہوئے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی بھی متحرک ہوگئے ہیں اور انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سینٹ کے الیکشن میں وہ اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے سینیٹرکو منتخب کرانے میں مکمل تعاون کریں گے جبکہ دوسری اتحادی جماعت اے این پی کے ساتھ بھی سینٹ کے حوالے سے ہمارا جو معاہدہ ہوا ہے اس کی پاسداری کی جائے گی۔
یعنی جنرل نشست پر تحریک انصاف جن کے پاس 7ووٹ ہیں اور اسے اپنے ایک سینیٹر کو کامیاب بنانے کیلئے مزید ایک یا 2 ووٹ کی ضرورت ہوگی وہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی دے گی اسی طرح اے این پی جس کے ارکان کی تعداد بلوچستان اسمبلی میں 4 ہے اس کے سینیٹر کو بھی کامیاب کرانے کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی معاہدے کے تحت ووٹ دے گی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال نے سینٹ الیکشن سے قبل دو اتحادی جماعتوں کا ذکر کر کے ایک سیاسی پتہ کھیلا ہے کیونکہ ان کی اتحادی جماعت تحریک انصاف سینٹ میں ایک نہیں بلکہ دونشستیں مانگ رہی ہے؟ اسی طرح دوسری اتحادی جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی بھی اپنی ایک ایک نشست کے حصول کیلئے حکمران جماعت کے ساتھ رابطوں میں ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں سینیٹ کے ضمنی انتخابات میں انہوں نے ایک اتحادی ہونے کے ناطے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدواروںکو ووٹ دے کر کامیاب بنایا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال نے قبل از وقت اس صورتحال پر ترپ کا جو پتہ پھینکاہے وزیراعلیٰ جام کمال نے ایک طرح سے اپنی اتحادی جماعتوں کو رام کرنے کی کوشش کی ہے، اور اتحادی جماعتوں کو واضح پیغام دیاہے کیونکہ انہیں اپنی جماعت کے اندر ہی اس حوالے سے کافی دبائو کا سامنا ہے اوران کی جماعت کے سینیٹ کیلئے امیدواروں کی تعداد زیادہ ہے اور وہ اس حق میں نہیں کہ وزیراعلیٰ جام کمال سینٹ میں اتحادیوں کو زیادہ سے زیادہ ایڈجسٹ کریں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال اپنی جماعت کے اندر گروپنگ اور اختلافات کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے انہوں نے رابطوں کا آغاز کر دیا ہے اور ناراض ساتھیوں کو منا رہے ہیں گزشتہ دنوں ان کی پارٹی کے بانی سابق سینیٹر سعید احمد ہاشمی سے ون ٹو ون ملاقات کو بھی سیاسی و پارٹی کے حلقوں میں بہت اہمیت دی جا رہی ہے جبکہ ان کی جماعت کے سیکرٹری جنرل و سینیٹر منظورکاکڑ نے بھی سابق وزیر داخلہ پارٹی کے صوبائی ترجمان شعیب نوشیروانی سے ملاقات کی جوکہ کافی عرصے سے پارٹی امور سے کنارہ کش تھے، اس کے علاوہ دیگر ناراض پارٹی کے اہم رہنمائوں سے بھی رابطے کئے جا رہے ہیں اور یہ مشن جنوری سے قبل مکمل کر لیا جائے گا ۔
پی ڈی ایم کی مرکزی کال پر کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا جبکہ پشتونخواملی عوامی پارٹی نے خان عبدالصمد خان شہید کی برسی کے موقع پر چمن میں ''شوآف پاور''کیا جس سے پارٹی کے مرکزی چیئرمین محمود خان اچکزئی سمیت دیگر رہنمائوں نے خطاب کیا۔
سردموسم میں بلوچستان کی سیاسی جماعتیں سیاست میں گرمی پیدا کر رہی ہیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کورونا کے بڑھنے کے حوالے سے باربار آگاہ کیا جا رہا ہے اور عوام کو اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں ومظاہروں سے دور رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے ایسے سیاسی ماحول میں سینٹ الیکشن کی تیاریاں بھی انڈر گرائونڈ جاری وساری ہیں۔
سینٹ کیلئے امیدوار متحرک نظرآرہے ہیں جبکہ صوبے کی بعض اہم سیاسی وقبائلی شخصیات کے حوالے سے سیاسی محفلوں میں ان کے آئندہ سیاسی لائحہ عمل کے حوالے سے گرما گرم بحث کے ساتھ ساتھ ان کے قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطوں کی باتیں بھی زیر گردش ہیں۔
مسلم لیگ ن سے الگ ہونے کے بعد سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری اور سابق وفاقی وزیر جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ ابھی تک اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے فیصلہ نہیں کر پائے۔ ان کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے ان سے رابطے کئے ہیں جس کا اظہاروہ خود بھی کر چکے ہیں جبکہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی اور سابق گورنر و وزیر اعلیٰ نواب ذوالفقارمگسی کے بارے میں بھی یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ ان سے ن لیگ کی قیادت رابطے میں ہے۔
تاہم نواب اسلم رئیسانی جو اس وقت بلوچستان اسمبلی میں آزاد حیثیت سے بیٹھے ہیں نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ سولوسیاست ایک مشکل کام ہے لیکن جہاں میں کھڑا ہوں وہاں میں بہت آرام سے ہوں یعنی انہوں نے چند الفاظ میں اپنے کسی اور جماعت میں شامل ہونے کی تردید کردی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں دیگر سیاسی جماعتوںکے مقابلے میں ن لیگ زیادہ متاثر نظر آتی ہے، بلوچستان میں ن لیگ ابھی تک صوبائی صدارت کا فیصلہ نہیں کر پائی، جنرل(ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ کے ن لیگ کو چھوڑ دینے کے بعد یہ عہدہ کافی عرصے سے خالی پڑا ہے جس کیلئے مختلف نام گردش توکر رہے ہیں لیکن اس عہدے کو پارٹی کی مرکزی قیادت ابھی تک پر نہیں کر پائی بلکہ یوں کہا جائے کہ کسی ایک سیاسی شخصیت کے نام پر متفق نہیں ہو پائی، اس وقت ن لیگ بلوچستان کی صدارت کیلئے جو نام سامنے آرہے ہیں۔
ان میں سابق وفاقی وزیر سردار یعقوب ناصر شیخ جعفر مندوخیل، موجودہ جنرل سیکرٹری جمال شاہ کاکڑ قابل ذکر ہیں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صوبائی صدارت کیلئے جو تین نام چل رہے ہیں وہ پشتون ہیں لہٰذا اگر ان میں سے کسی ایک کو یہ عہدہ تفویض کیاجاتا ہے تو جنرل سیکرٹری شپ کسی بلوچ یا سیٹلر کو تفویض ہوگی۔
دوسری جانب سیاسی ماحول کی گرماگرمی کو محسوس کرتے ہوئے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی بھی متحرک ہوگئے ہیں اور انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سینٹ کے الیکشن میں وہ اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے سینیٹرکو منتخب کرانے میں مکمل تعاون کریں گے جبکہ دوسری اتحادی جماعت اے این پی کے ساتھ بھی سینٹ کے حوالے سے ہمارا جو معاہدہ ہوا ہے اس کی پاسداری کی جائے گی۔
یعنی جنرل نشست پر تحریک انصاف جن کے پاس 7ووٹ ہیں اور اسے اپنے ایک سینیٹر کو کامیاب بنانے کیلئے مزید ایک یا 2 ووٹ کی ضرورت ہوگی وہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی دے گی اسی طرح اے این پی جس کے ارکان کی تعداد بلوچستان اسمبلی میں 4 ہے اس کے سینیٹر کو بھی کامیاب کرانے کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی معاہدے کے تحت ووٹ دے گی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال نے سینٹ الیکشن سے قبل دو اتحادی جماعتوں کا ذکر کر کے ایک سیاسی پتہ کھیلا ہے کیونکہ ان کی اتحادی جماعت تحریک انصاف سینٹ میں ایک نہیں بلکہ دونشستیں مانگ رہی ہے؟ اسی طرح دوسری اتحادی جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی بھی اپنی ایک ایک نشست کے حصول کیلئے حکمران جماعت کے ساتھ رابطوں میں ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں سینیٹ کے ضمنی انتخابات میں انہوں نے ایک اتحادی ہونے کے ناطے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدواروںکو ووٹ دے کر کامیاب بنایا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال نے قبل از وقت اس صورتحال پر ترپ کا جو پتہ پھینکاہے وزیراعلیٰ جام کمال نے ایک طرح سے اپنی اتحادی جماعتوں کو رام کرنے کی کوشش کی ہے، اور اتحادی جماعتوں کو واضح پیغام دیاہے کیونکہ انہیں اپنی جماعت کے اندر ہی اس حوالے سے کافی دبائو کا سامنا ہے اوران کی جماعت کے سینیٹ کیلئے امیدواروں کی تعداد زیادہ ہے اور وہ اس حق میں نہیں کہ وزیراعلیٰ جام کمال سینٹ میں اتحادیوں کو زیادہ سے زیادہ ایڈجسٹ کریں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال اپنی جماعت کے اندر گروپنگ اور اختلافات کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے انہوں نے رابطوں کا آغاز کر دیا ہے اور ناراض ساتھیوں کو منا رہے ہیں گزشتہ دنوں ان کی پارٹی کے بانی سابق سینیٹر سعید احمد ہاشمی سے ون ٹو ون ملاقات کو بھی سیاسی و پارٹی کے حلقوں میں بہت اہمیت دی جا رہی ہے جبکہ ان کی جماعت کے سیکرٹری جنرل و سینیٹر منظورکاکڑ نے بھی سابق وزیر داخلہ پارٹی کے صوبائی ترجمان شعیب نوشیروانی سے ملاقات کی جوکہ کافی عرصے سے پارٹی امور سے کنارہ کش تھے، اس کے علاوہ دیگر ناراض پارٹی کے اہم رہنمائوں سے بھی رابطے کئے جا رہے ہیں اور یہ مشن جنوری سے قبل مکمل کر لیا جائے گا ۔