صوبائی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں شدید محاذ آرائی
اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کی سیاست کی پیروی کر رہی ہیں، پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت بھی اپنی پارٹی پالیسی پر ہی چلے گی۔
خیبرٹیچنگ ہسپتال میں آکسیجن کے خاتمے سے سات ،آٹھ افراد کی ہلاکت کوئی معمولی واقعہ نہیں، نہ ہی اسے روایتی انداز میں ڈیل کیا جا سکتا ہے اور مذکورہ واقعہ کی وجہ سے یقینی طور پر حکومت کی بدنامی ہوئی ہے وہ بھی ان حالات میں کہ کورونا کی وجہ سے صورت حال انتہائی خراب ہے اور حکومت کا پورا فوکس کورونا پر ہی ہے جس کے لیے فنڈز کی فراہمی بھی جاری ہے۔
تاہم ان حالات میں صوبہ کے دوسرے بڑے ہسپتال میں آکسیجن کا ختم ہونا اور پھر سات،آٹھ افراد کی ہلاکت سے حکومت بیک فٹ پر گئی ہے جس کے حوالے سے درکار تو یہ تھا کہ فوری طور پر اس معاملے کی عدالتی انکوائری کرائی جاتی یا پھر کم ازکم یہ معاملہ صوبائی معائنہ ٹیم کے حوالے کیا جاتا تاکہ وہ تمام امور کا جائزہ لیتے ہوئے ذمہ داروں کا بھی تعین کرتی اور ساتھ ہی ذمہ داروں کی نگرانی کرنے والوں کا بھی لیکن جس ہسپتال میں واقعہ ہوا ہے اسی ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کو انکوائری تھما دینا کسی بھی طور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا کیونکہ یہ آٹھ انسانی جانوں کا معاملہ ہے کوئی معمولی بات نہیں۔ ماضی میں اس وقت کہ جب پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی۔
اس نوعیت کے واقعات پر فوری طور پر حکومت یا کم ازکم متعلقہ انچارج وزیر کے مستعفی ہونے کے مطالبات کیے جاتے تھے لیکن اب جبکہ خود ان کی حکومت میں ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو انکوائری بھی غیر جانبدارانہ انداز میں کرانے کی بجائے اسی ہسپتال کی انتظامیہ کے ذریعے کرائی گئی ہے جس پر یقینی طور پر مختلف حلقوں کی جانب سے شکوک وشبہات کا اظہار کیا جائے گا جس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اب بھی یہ معاملہ صوبائی معائنہ ٹیم کے حوالے کیا جائے اور معاملہ کی حتمی انکوائری تک محکمہ صحت کے اہم ذمہ داروں جن کے ذمے پالیسی دینا اور نگرانی کا کام ہے۔
انھیں ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے تاکہ مناسب انداز میں غیر جانبدارانہ طریقہ سے انکوائری کی جا سکے جس سے تمام شکوک وشبہات ختم ہو جائیں گے اور ان حالات میں تمام نظریں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کی جانب ہی اٹھ رہی ہیں کیونکہ صوبہ کے چیف ایگزیکٹو وہ ہیں اور کابینہ بھی ان کی کابینہ ہے اس لیے انھیں خود ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگا اوریہ فیصلہ ان حالات میں اس لیے بھی نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اسمبلی سے باہر پی ڈی ایم کی جانب سے کی جانے والی سیاست کو اسمبلی کے اندر بھی لے آئی ہیں جو آنی ہی تھی کیونکہ پارلیمانی جماعتیں بنیادی طور پر اپنی پارٹیوں کی تابع ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں جو کچھ حکومت کے خلاف اسمبلیوں سے باہر کر رہی ہیں۔
ان کے اثرات اسمبلیوں کے اندر نہ پہنچیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن صوبائی حکومت کے ہر ، ہر اقدام پر گہری نظررکھے ہوئے ہے اورحکومت کو بھرپور انداز میں ٹف ٹائم دینے کے لیے کوشاں ہے، یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ایسے ارکان جو اندرون خانہ حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ،ان سے بھی اپوزیشن لیڈراکرم درانی نے کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اپوزیشن اپنی کلیئر لائن لے سکے،گوکہ یہ کلی طور پر تو ممکن نہیں کیونکہ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کو بہرکیف حکومت سے تعلقات تو اچھے رکھنے ہی پڑتے ہیں تاکہ اپنے حلقوں کے لیے فنڈز اور سکیمیں لے سکیں تاہم اپوزیشن لیڈر نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے تو بات کہیں نہ کہیں تو جاکررکے گی ہی۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت نے بھی اپوزیشن کو انہی کی زبان میں جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے، وزیر اعلیٰ کی جانب سے صوبائی وزراء پر مشتمل وہ کمیٹی جو اپوزیشن کے ساتھ رابطوں اور مذاکرات کی ذمہ دارہے اسے اس سلسلے میں ہدایات جاری کردی ہیں،گوکہ سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق احمدغنی اس پالیسی پر فوری طور پر عمل درآمد سے متفق نہیں کیونکہ وہ ایوان کے کسٹوڈین ہونے کے ناطے اس پالیسی پرعمل درآمد نہیں کر سکتے اس لیے کہ انھیں اپوزیشن کو بھی ریلیف دینا ہوتا ہے۔
اس لیے سپیکر ، حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے لیے جیسے کو تیسا کی پالیسی اپنانے کے حوالے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں تاہم حکومت اپنا فیصلہ کرچکی ہے۔ اور یہ فیصلہ ان حالات میں حیران کن بھی نہیں کہ جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم، پی ٹی آئی کی حکومت کے درپے ہے اور اسے گھر بھیجنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ جو ماحول پی ڈی ایم گرما رہی ہے اس کی تپش کے اثرات خیبرپختونخوا یا خیبرپختونخوا اسمبلی تک نہ پہنچیں۔
ان حالات میں کہ جبکہ اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کی سیاست کی پیروی کر رہی ہیں، پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت بھی اپنی پارٹی پالیسی پر ہی چلے گی اور اس پالیسی میں اپوزیشن کے لیے کسی قسم کی کوئی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی،جب پی ٹی آئی کے چیئرمین وزیراعظم عمران خان ،اپوزیشن کو ان کے ہی لب ولہجے میں جواب دے رہے ہوں اور وفاقی وزراء اور ترجمان بھی یہی لائن لیے ہوئے ہوں تو کیا یہ ممکن ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور صوبائی وزراء کوئی دوسری راہ اختیار کریں یا پھر روایات کے نام پر اپنی پارٹی پالیسی چھوڑ دیں؟
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پائی جانے والی یہ تلخیاں اسی صورت میں کم ہو سکتی ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں، پی ڈی ایم کی پالیسی کوکلی طور پر اپنانے کی بجائے ہر جگہ وہاں کے مقامی حالات کے مطابق معاملات کو آگے بڑھائیں تاہم اگر پی ڈی ایم کی پالیسی ان پر حاوی رہتی ہے تو یقینی طور دوسری جانب سے بھی انھیں اسی طرح کے سخت جواب کی توقع کرنی چاہیے اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت یہی کچھ کرنے جا رہی ہے ، اب اگر خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتیں ،وزیراعلیٰ محمودخان سے فنڈز اور ترقیاتی منصوبے لینے کی خواہاں ہیں تو اس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو بھی پی ڈی ایم کی سیاست چھوڑ کر صوبہ کی روایات کی طرف آنا ہوگا جس کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے بھی انھیں انہی کے انداز میں جواب ملے گا۔
یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں سیاست تو کریں پی ڈی ایم کی اور بدلے میں توقع رکھیں کہ ان کے ساتھ صوبہ اورصوبائی اسمبلی کی روایات کے تحت نمٹا جائے گا،ایسا ممکن نہیں اور وہ بھی ان حالات میں کہ پی ڈی ایم کی تحریک اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہو ۔اوران حالات میں جماعت اسلامی کی صورت حال یہ ہے کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کورونا وباء کی جاری دوسری لہر کے حوالے سے پارٹی کی تجویز پر حکومت مخالف تحریک کو دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر رکھا ہے تاہم اسی ماہ کے تیسرے ہفتے سے دوبارہ یہ تحریک شروع ہو جائے گی۔
تاہم ان حالات میں صوبہ کے دوسرے بڑے ہسپتال میں آکسیجن کا ختم ہونا اور پھر سات،آٹھ افراد کی ہلاکت سے حکومت بیک فٹ پر گئی ہے جس کے حوالے سے درکار تو یہ تھا کہ فوری طور پر اس معاملے کی عدالتی انکوائری کرائی جاتی یا پھر کم ازکم یہ معاملہ صوبائی معائنہ ٹیم کے حوالے کیا جاتا تاکہ وہ تمام امور کا جائزہ لیتے ہوئے ذمہ داروں کا بھی تعین کرتی اور ساتھ ہی ذمہ داروں کی نگرانی کرنے والوں کا بھی لیکن جس ہسپتال میں واقعہ ہوا ہے اسی ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کو انکوائری تھما دینا کسی بھی طور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا کیونکہ یہ آٹھ انسانی جانوں کا معاملہ ہے کوئی معمولی بات نہیں۔ ماضی میں اس وقت کہ جب پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی۔
اس نوعیت کے واقعات پر فوری طور پر حکومت یا کم ازکم متعلقہ انچارج وزیر کے مستعفی ہونے کے مطالبات کیے جاتے تھے لیکن اب جبکہ خود ان کی حکومت میں ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو انکوائری بھی غیر جانبدارانہ انداز میں کرانے کی بجائے اسی ہسپتال کی انتظامیہ کے ذریعے کرائی گئی ہے جس پر یقینی طور پر مختلف حلقوں کی جانب سے شکوک وشبہات کا اظہار کیا جائے گا جس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اب بھی یہ معاملہ صوبائی معائنہ ٹیم کے حوالے کیا جائے اور معاملہ کی حتمی انکوائری تک محکمہ صحت کے اہم ذمہ داروں جن کے ذمے پالیسی دینا اور نگرانی کا کام ہے۔
انھیں ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے تاکہ مناسب انداز میں غیر جانبدارانہ طریقہ سے انکوائری کی جا سکے جس سے تمام شکوک وشبہات ختم ہو جائیں گے اور ان حالات میں تمام نظریں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کی جانب ہی اٹھ رہی ہیں کیونکہ صوبہ کے چیف ایگزیکٹو وہ ہیں اور کابینہ بھی ان کی کابینہ ہے اس لیے انھیں خود ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگا اوریہ فیصلہ ان حالات میں اس لیے بھی نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اسمبلی سے باہر پی ڈی ایم کی جانب سے کی جانے والی سیاست کو اسمبلی کے اندر بھی لے آئی ہیں جو آنی ہی تھی کیونکہ پارلیمانی جماعتیں بنیادی طور پر اپنی پارٹیوں کی تابع ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں جو کچھ حکومت کے خلاف اسمبلیوں سے باہر کر رہی ہیں۔
ان کے اثرات اسمبلیوں کے اندر نہ پہنچیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن صوبائی حکومت کے ہر ، ہر اقدام پر گہری نظررکھے ہوئے ہے اورحکومت کو بھرپور انداز میں ٹف ٹائم دینے کے لیے کوشاں ہے، یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ایسے ارکان جو اندرون خانہ حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ،ان سے بھی اپوزیشن لیڈراکرم درانی نے کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اپوزیشن اپنی کلیئر لائن لے سکے،گوکہ یہ کلی طور پر تو ممکن نہیں کیونکہ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کو بہرکیف حکومت سے تعلقات تو اچھے رکھنے ہی پڑتے ہیں تاکہ اپنے حلقوں کے لیے فنڈز اور سکیمیں لے سکیں تاہم اپوزیشن لیڈر نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے تو بات کہیں نہ کہیں تو جاکررکے گی ہی۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت نے بھی اپوزیشن کو انہی کی زبان میں جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے، وزیر اعلیٰ کی جانب سے صوبائی وزراء پر مشتمل وہ کمیٹی جو اپوزیشن کے ساتھ رابطوں اور مذاکرات کی ذمہ دارہے اسے اس سلسلے میں ہدایات جاری کردی ہیں،گوکہ سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق احمدغنی اس پالیسی پر فوری طور پر عمل درآمد سے متفق نہیں کیونکہ وہ ایوان کے کسٹوڈین ہونے کے ناطے اس پالیسی پرعمل درآمد نہیں کر سکتے اس لیے کہ انھیں اپوزیشن کو بھی ریلیف دینا ہوتا ہے۔
اس لیے سپیکر ، حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے لیے جیسے کو تیسا کی پالیسی اپنانے کے حوالے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں تاہم حکومت اپنا فیصلہ کرچکی ہے۔ اور یہ فیصلہ ان حالات میں حیران کن بھی نہیں کہ جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم، پی ٹی آئی کی حکومت کے درپے ہے اور اسے گھر بھیجنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ جو ماحول پی ڈی ایم گرما رہی ہے اس کی تپش کے اثرات خیبرپختونخوا یا خیبرپختونخوا اسمبلی تک نہ پہنچیں۔
ان حالات میں کہ جبکہ اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کی سیاست کی پیروی کر رہی ہیں، پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت بھی اپنی پارٹی پالیسی پر ہی چلے گی اور اس پالیسی میں اپوزیشن کے لیے کسی قسم کی کوئی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی،جب پی ٹی آئی کے چیئرمین وزیراعظم عمران خان ،اپوزیشن کو ان کے ہی لب ولہجے میں جواب دے رہے ہوں اور وفاقی وزراء اور ترجمان بھی یہی لائن لیے ہوئے ہوں تو کیا یہ ممکن ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور صوبائی وزراء کوئی دوسری راہ اختیار کریں یا پھر روایات کے نام پر اپنی پارٹی پالیسی چھوڑ دیں؟
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پائی جانے والی یہ تلخیاں اسی صورت میں کم ہو سکتی ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں، پی ڈی ایم کی پالیسی کوکلی طور پر اپنانے کی بجائے ہر جگہ وہاں کے مقامی حالات کے مطابق معاملات کو آگے بڑھائیں تاہم اگر پی ڈی ایم کی پالیسی ان پر حاوی رہتی ہے تو یقینی طور دوسری جانب سے بھی انھیں اسی طرح کے سخت جواب کی توقع کرنی چاہیے اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت یہی کچھ کرنے جا رہی ہے ، اب اگر خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتیں ،وزیراعلیٰ محمودخان سے فنڈز اور ترقیاتی منصوبے لینے کی خواہاں ہیں تو اس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو بھی پی ڈی ایم کی سیاست چھوڑ کر صوبہ کی روایات کی طرف آنا ہوگا جس کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے بھی انھیں انہی کے انداز میں جواب ملے گا۔
یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں سیاست تو کریں پی ڈی ایم کی اور بدلے میں توقع رکھیں کہ ان کے ساتھ صوبہ اورصوبائی اسمبلی کی روایات کے تحت نمٹا جائے گا،ایسا ممکن نہیں اور وہ بھی ان حالات میں کہ پی ڈی ایم کی تحریک اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہو ۔اوران حالات میں جماعت اسلامی کی صورت حال یہ ہے کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کورونا وباء کی جاری دوسری لہر کے حوالے سے پارٹی کی تجویز پر حکومت مخالف تحریک کو دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر رکھا ہے تاہم اسی ماہ کے تیسرے ہفتے سے دوبارہ یہ تحریک شروع ہو جائے گی۔