مریم کی محنت کا پھل آصفہ کی جھولی میں

کچھ بعید نہیں کہ مریم نواز نے جس درخت کو اتنی محنت سے بڑا کیا ہے، وقت آنے پر سارا پھل آصفہ بھٹو کی جھولی میں جاگرے

آصفہ بھٹو کی موجودگی میں مریم نواز کو اپنی سیاسی پہچان برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

میاں محمد نواز شریف کے گلے پاناما کا پھندا کیا لگا کہ وہ جی ٹی روڈ پر مجھے کیوں نکالا کی گردان کرتے دیکھے گئے۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی انہیں لے ڈوبی۔ واقفانِ حال کہتے تھے کہ اب ن لیگ کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اور لوگ مثالیں چوہدری نثار علی خان کی دیتے تھے کہ کاش میاں صاحب ان کی بات مان لیتے۔

میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر جو کھڑاگ شہباز شریف نے کیا، تو یہ بات مزید واضح ہوگئی کہ اب پارٹی کی کمان کون سنبھالنے کو تیار بیٹھا ہے اور ایئرپورٹ تک چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بجائے سڑکوں پر دھکم پیل کو احتجاج کا نام دیتے ہوئے پارٹی کارکنان کو یہ تاثر دیا گیا کہ ہم نے اپنی سی کوشش کی ہے لیکن حکومت نے ہمیں موقع نہیں دیا۔ لیکن آج بھی اندرون خانہ یہ سرگوشیاں ہوتی ہیں کہ اگر پانچ ہزار لوگ بھی ایئرپورٹ پہنچ جاتے تو ن لیگ کےلیے حالات مختلف ہوسکتے تھے۔ لیکن جب پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی تو پہنچا کیسے جا سکتا تھا۔ سڑکوں پر گاڑیاں بھگا بھگا کر ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کے مصداق واویلا کیا جاتا رہا۔

جب ن لیگ کے حوالے سے تمام اندازے ایک ہی سمت واضح دکھانے لگے تو خاموشی کا روزہ مریم نواز نے نہ صرف توڑ دیا بلکہ محمد زبیر کی ملاقاتیں، بیانیے کا احیا، حکومت اور اداروں پر کھلی تنقید شروع ہوگئی۔ لوگ حیران تھے کہ آخر ن لیگ کو یا پھر بڑے میاں صاحب کو ہو کیا گیا ہے کہ اچانک چپ کا روزہ توڑ دیا۔ لیکن ٹوہ لینے والوں نے ٹوہ لے لی کہ مفاہمت کی کوششیں کی گئیں جو ناکام ثابت ہوگئیں۔ اسلام آباد ملاقات بھی بے اثر رہی۔ گلے شکوے کرنے کا وقت بھی گزر چکا ہے۔ لہٰذا احتجاجی سیاست کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر تمام سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم کی پیسنجر سیٹ پر براجمان ہوئیں اور ڈرائیونگ سیٹ پاکستان مسلم لیگ ن نے سنبھال لی۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو نے ہر اول دستے کا فریضہ سنبھال لیا لیکن مریم نواز ہر گزرتے دن کے ساتھ پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک میں تمام رہنماؤں پر حاوی ہونا شروع ہو گئیں۔ کسی بھی جلسے میں نگاہوں کا مرکز وہی ہوتیں۔ بلاول بھٹو زرداری ہوں یا مولانا، باقی تمام رہنماؤں کی موجودگی بے ضرر محسوس ہونے لگی اور احتجاجی تحریک مکمل طور پر مریم نواز شریف کے گرد گھومنے لگی۔


یہاں پاکستان مسلم لیگ نواز کو دو فائدے ہوئے۔ پہلا یہ کہ میاں محمد نواز شریف کا موقف مکمل طور پر بیان ہونے لگا۔ ن لیگ ایک سیاسی پارٹی سے زیادہ میاں صاحب کی دفاعی لائن بن گئی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مریم نواز بطور قائد ابھر کر سامنے آئیں۔ اور وقت گواہ ہے کہ جو بھی رہنما اپوزیشن کی کسی بھی تحریک سے ابھر کر سامنے آتا ہے وہ منجھا ہوا سیاستدان ثابت ہوتا ہے۔ پی ڈی ایم کی سربراہی بے شک مولانا فضل الرحمٰن کے پاس ہے لیکن پی ڈی ایم کی اصل سربراہ مریم نواز شریف ثابت ہونا شروع ہوگئیں۔ کیوں کہ تمام نظریں ان پر مرکوز ہیں۔ ان کے الفاظ اخبارات کی شہ سرخیاں بنتے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ الیکٹرانک میڈیا پر بریکنگ نیوز بن رہا ہے۔ مریم نواز شریف کامیابی سے ایک منجھی ہوئی سیاستدان بننے کے سفر پر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے گامزن ہیں۔ بلاول ان کے انداز سیاست سے یکسر مختلف ہونے کی وجہ سے ان کا مقابلہ کرنے میں کوسوں دور ہیں۔

لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہونے والا ملتان جلسہ مریم نواز کی سیاست کےلیے ایک ایسا دھچکا ثابت ہوا ہے جس نے انہیں بہت کچھ نہ صرف سوچنے پر مجبور کردیا بلکہ اپنے اندازِ سیاست پر دوبارہ نئے سرے سے انہیں غور کرنا ہوگا۔ آصفہ بھٹو زرداری کو بطور سیاستدان پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ملتان میں لانچ کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی بات کریں تو ان کےلیے بلاول کا کچھ دن کےلیے منظر سے ہٹنا فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ بلاول بی بی کے بیٹے کا نعرہ لگا کر کچھ کارگر تو تھے لیکن دلوں کو جھنجھوڑا آصفہ نے ہے۔ آصفہ کی جلسے میں شرکت نے پاکستان پیپلز پارٹی میں نہ صرف ایک نئی جان ڈال دی ہے بلکہ بلاول اور مریم نواز کےلیے حکومتی محاذ سے جو انہیں طنز کے لیے تختہ مشق بنایا جاتا تھا، وہ اچانک آصفہ کےلیے رک گیا ہے۔ علی ترین کا بیان ہو یا دیگر حکومتی شخصیات، آصفہ کےلیے جذبہ خیر سگالی، احترام کا رویہ نمایاں ہے۔ ان کا لباس، بولنے کا انداز، تقریر کا لب و لہجہ، گاڑی پر کھڑے ہونے کا انداز، سب میں بی بی بینظیر بھٹو کی جھلک سب کو دکھائی دینے لگی ہے۔ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کےلیے جہاں فائدہ مند ثابت ہوا ہے وہاں مریم نواز کی سیاست کےلیے ایک بہت بڑے دھچکے سے کم نہیں ہے۔ مستقبل قریب میں پی ڈی ایم کی سیاست کےلیے پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندگی کے حوالے سے مستقلاً آصفہ بھٹو کو باگ ڈور دینے کا خیال سنجیدگی سے پنپنا شروع ہوچکا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو مریم نواز نے جتنی محنت اب تک کی ہے، اس کا ثمر آصفہ بھٹو لے جائیں گی۔ مریم نواز نے جتنی محنت سے پی ڈی ایم کو بطور اتحاد متعارف کروایا ہے اس کے مقابل آصفہ بھٹو نے ایک جلسے میں شرکت سے ہی اپنا سکہ نہ صرف منوا لیا ہے بلکہ پیپلز پارٹی کے فیصلہ سازوں کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں ہمیں بلاول کی جگہ آصفہ بھٹو ہر اول دستے میں نظر آسکتی ہیں۔

مریم نواز شریف کےلیے موجودہ صورتحال نہ صرف پریشان کن ہے بلکہ انہیں لاہور جلسے میں نئے سرے سے اپنا آپ منوانا ہوگا۔ اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کو جیسے تیسے لے کر چل رہے تھے۔ اور چار و ناچار پرانے کارکن ان کی حمایت پر مجبور تھے۔ تو آصفہ بھٹو کے آنے سے وہ کارکن بھی بیدار ہونا شروع ہوجائیں گے جن کی وابستگی بی بی شہید سے ہے۔ یا جو اب تک بلاول کے اندازِ سیاست سے مایوس ہوکر گھر بیٹھ چکے تھے۔ اگر لاہور جلسے میں بھی آصفہ بھٹو شرکت کرتی ہیں، جس کے قوی امکانات موجود ہیں، تو مریم نواز کو اپنی سیاست کی پہچان برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت مریم نواز کے پاس، سوائے اپنے والد کی بے گناہی ثابت کرنے کے، کوئی واضح ایجنڈا نہیں ہے۔ جب کہ آصفہ بھٹو کے پاس شہیدوں کا لہو، والدہ کا لہجہ، آمریت سے طویل جنگ، متانت اور سنجیدگی موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مریم نواز کے سیاسی مستقبل کےلیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ مریم نواز شریف نے جس درخت (پی ڈی ایم) کو اتنی محنت سے بڑا کیا ہے، پھل کا وقت آنے پر سارا پھل (کامیابی) آصفہ بھٹو کی جھولی میں جا گرے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story