پنجاب میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے برطانوی طرز کا ایکٹ لانے کا فیصلہ
صوبائی محکمہ انسانی حقوق براہ راست کارروائی کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، صوبائی وزیر
NEW DELHI:
پنجاب کے محکمہ انسانی حقوق نے صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات پرملزمان کو سزائیں دینے کے لئے برطانوی طرزپرانسانی حقوق ایکٹ لانے کا فیصلہ کیاہے۔
عوامی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے بہت کم شکایات انسانی حقوق کے صوبائی محکمے یاپھر قومی کمیشن انسانی حقوق کے زونل دفترتک پہنچ پاتی ہیں۔
بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے پنجاب میں انسانی حقوق کا محکمہ موجود ہے تاہم اس محکمے کی حیثیت محض واچ ڈاگ کی ہے۔ محکمے کے پاس آنے والی شکایات متعلقہ محکموں کو ٹرانسفرکردی جاتی ہیں جبکہ محکمے کے پاس خود ایسااختیارنہیں ہے کہ وہ کسی ملزم کے خلاف کارروائی کرسکے۔
محکمہ انسانی حقوق کے حکام نے ایکسپریس کوبتایا کہ ان کے پاس وزیراعظم کے شکایات پورٹل کے ذریعے سب سے زیادہ شکایات آتی ہیں، اس کے علاوہ کئی شہری براہ راست شکایات جمع کرواتے ہیں جبکہ محکمہ خودبھی میڈیاپرانسانی حقوق سے متعلق شائع ہونے والی خبروں پرنوٹس لیتا ہے۔
رواں سال محکمے کو 60 ہزارکے قریب درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 50 ہزار300 درخواستیں متعلقہ محکموں کو بھیج دی گئیں۔ محکمے کے پاس آنیوالی درخواست پر20 دن کے اندرکارروائی کرنالازمی ہے۔ اس وقت محکمے کے پاس بہت کم درخواستیں زیر التوا ہیں۔
صوبائی وزیرانسانی حقوق اعجازعالم آگسٹن نے بتایا کہ ان کے پاس جو درخواستیں آتی ہیں وہ ان پرخود کسی ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتے، وہ درخواست متعلقہ محکمے کوبھیج دی جاتی ہے۔ اگرکسی کوپولیس سے شکایات ہے تواس کے حکام کو درخواست بھیجتے ہیں اگرکسی کوعلاج معالجے کی شکایت ہوتومحکمہ صحت کو کیس بھیج دیاجاتا ہے۔
اعجازعالم کا کہنا تھا اب ہم نے برطانوی طرزپرانسانی حقوق ایکٹ لانے کا فیصلہ کیا ہے ،جس پرقانونی مشاورت کی جارہی ہے، اس ایکٹ کے بعد محکمے پاس اختیارہوگا کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ملزمان کوسزا اورجرمانہ کرسکے گا۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے 2021 میں انسانی حقوق ایکٹ کا بل اسمبلی میں پیش کرکے اسے منظورکروائیں گے۔
پنجاب کے محکمہ انسانی حقوق نے صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات پرملزمان کو سزائیں دینے کے لئے برطانوی طرزپرانسانی حقوق ایکٹ لانے کا فیصلہ کیاہے۔
عوامی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے بہت کم شکایات انسانی حقوق کے صوبائی محکمے یاپھر قومی کمیشن انسانی حقوق کے زونل دفترتک پہنچ پاتی ہیں۔
بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے پنجاب میں انسانی حقوق کا محکمہ موجود ہے تاہم اس محکمے کی حیثیت محض واچ ڈاگ کی ہے۔ محکمے کے پاس آنے والی شکایات متعلقہ محکموں کو ٹرانسفرکردی جاتی ہیں جبکہ محکمے کے پاس خود ایسااختیارنہیں ہے کہ وہ کسی ملزم کے خلاف کارروائی کرسکے۔
محکمہ انسانی حقوق کے حکام نے ایکسپریس کوبتایا کہ ان کے پاس وزیراعظم کے شکایات پورٹل کے ذریعے سب سے زیادہ شکایات آتی ہیں، اس کے علاوہ کئی شہری براہ راست شکایات جمع کرواتے ہیں جبکہ محکمہ خودبھی میڈیاپرانسانی حقوق سے متعلق شائع ہونے والی خبروں پرنوٹس لیتا ہے۔
رواں سال محکمے کو 60 ہزارکے قریب درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 50 ہزار300 درخواستیں متعلقہ محکموں کو بھیج دی گئیں۔ محکمے کے پاس آنیوالی درخواست پر20 دن کے اندرکارروائی کرنالازمی ہے۔ اس وقت محکمے کے پاس بہت کم درخواستیں زیر التوا ہیں۔
صوبائی وزیرانسانی حقوق اعجازعالم آگسٹن نے بتایا کہ ان کے پاس جو درخواستیں آتی ہیں وہ ان پرخود کسی ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتے، وہ درخواست متعلقہ محکمے کوبھیج دی جاتی ہے۔ اگرکسی کوپولیس سے شکایات ہے تواس کے حکام کو درخواست بھیجتے ہیں اگرکسی کوعلاج معالجے کی شکایت ہوتومحکمہ صحت کو کیس بھیج دیاجاتا ہے۔
اعجازعالم کا کہنا تھا اب ہم نے برطانوی طرزپرانسانی حقوق ایکٹ لانے کا فیصلہ کیا ہے ،جس پرقانونی مشاورت کی جارہی ہے، اس ایکٹ کے بعد محکمے پاس اختیارہوگا کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ملزمان کوسزا اورجرمانہ کرسکے گا۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے 2021 میں انسانی حقوق ایکٹ کا بل اسمبلی میں پیش کرکے اسے منظورکروائیں گے۔