برطانیہ کی ’خونی فٹ پاتھ‘ جو 100 افراد کی جان لے چکی ہے
گزشتہ کئی صدیوں سے چھ میل لمبی بروم وے نامی کچا راستہ سردیوں کی دھند میں خطرناک ہوجاتا ہے
برطانیہ میں ایک سمندری کنارے سے قریبی چھوٹے جزیرے تک جانے والا ایک پیدل راستہ 600 سال پرانا ہے لیکن یہی راستہ ایک خوفناک راہ گزر بھی ہے جہاں اب تک 100 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
600 سال قدیم بروم وے ایک طرح کی فٹ پاتھ ہے جو ایسیکس کے ساحل سے فول نیس نامی جزیرے تک جاتا ہے اور صرف پیدل چلنے کے قابل ہے۔ لیکن سردیوں کی دھند میں لوگ راہ بھٹک جاتے ہیں اور لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اسی بنا پر اسے برطانیہ کا خوفناک ترین راستہ بھی کہا جاسکتا ہے۔
اس راستے کا ریکارڈ 1419 میں بھی ملتا ہے اور یہ چھ میل (لگ بھگ) 10 کلومیٹر لمبا ہے۔ بروم وے کو کچی مٹی اور ریت سے بنایا گیا ہے۔ کئی جگہوں پر کھمبوں سے درختوں کی شاخوں کو جھاڑو کی صورت دے کر زمین میں گاڑا گیا ہے تاکہ راستے کی حدود کا تعین کیا جاسکے۔ بصورتِ دیگر مٹی اور گارے کے راستوں پر پانی بھی آجاتا ہے جس سے راہ کھوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے 'بروم وے' یعنی جھاڑو والا راستہ بھی کہا گیا ہے۔
سردیوں میں دھند، یا پانی کی ابھرتی لہر میں راستہ گم ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں یہاں چلنے والے راہ بھٹک کر ڈوب جاتے ہیں۔ دوسری جانب سخت ناہموار راہ پر گڑھے، دلدل اور ڈھلانیں ہیں جو انسانوں کو نگلنے کے لیے کافی ہیں۔ یہی وجہ ہے شدید بارشوں میں بھی یہ راستہ بند ہوجاتا ہے۔
عام دنوں میں بھی وقت کے مختلف پہر میں سمندری لہروں میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں اور وہاں لوگ پھنس کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔اسی راہ پر فلپ بینٹن جیسے مشہور مؤرخ بھی بھٹک کر مرے تھے۔ 1600 سے اب تک 66 افراد کی لاشیں مل چکی ہیں لیکن کئی درجن ایسے بھی ہیں جن کی لاشیں بھی نہیں مل سکیں اورسمندر برد ہوگئیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=mM7C_Pw7OL8&feature=emb_logo
اسے دھوکے باز راستہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ بہترین موسم میں بھی تھوڑٰا سا سمندر بپھرنے سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے یا آنکھ سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اب تک پیدل چل کر فولنیس جزیرے تک جانے والا یہ واحد راستہ بھی ہے اور آمدورفت کی کمی کی وجہ سے کوئی جدید راستہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔
600 سال قدیم بروم وے ایک طرح کی فٹ پاتھ ہے جو ایسیکس کے ساحل سے فول نیس نامی جزیرے تک جاتا ہے اور صرف پیدل چلنے کے قابل ہے۔ لیکن سردیوں کی دھند میں لوگ راہ بھٹک جاتے ہیں اور لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اسی بنا پر اسے برطانیہ کا خوفناک ترین راستہ بھی کہا جاسکتا ہے۔
اس راستے کا ریکارڈ 1419 میں بھی ملتا ہے اور یہ چھ میل (لگ بھگ) 10 کلومیٹر لمبا ہے۔ بروم وے کو کچی مٹی اور ریت سے بنایا گیا ہے۔ کئی جگہوں پر کھمبوں سے درختوں کی شاخوں کو جھاڑو کی صورت دے کر زمین میں گاڑا گیا ہے تاکہ راستے کی حدود کا تعین کیا جاسکے۔ بصورتِ دیگر مٹی اور گارے کے راستوں پر پانی بھی آجاتا ہے جس سے راہ کھوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے 'بروم وے' یعنی جھاڑو والا راستہ بھی کہا گیا ہے۔
سردیوں میں دھند، یا پانی کی ابھرتی لہر میں راستہ گم ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں یہاں چلنے والے راہ بھٹک کر ڈوب جاتے ہیں۔ دوسری جانب سخت ناہموار راہ پر گڑھے، دلدل اور ڈھلانیں ہیں جو انسانوں کو نگلنے کے لیے کافی ہیں۔ یہی وجہ ہے شدید بارشوں میں بھی یہ راستہ بند ہوجاتا ہے۔
عام دنوں میں بھی وقت کے مختلف پہر میں سمندری لہروں میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں اور وہاں لوگ پھنس کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔اسی راہ پر فلپ بینٹن جیسے مشہور مؤرخ بھی بھٹک کر مرے تھے۔ 1600 سے اب تک 66 افراد کی لاشیں مل چکی ہیں لیکن کئی درجن ایسے بھی ہیں جن کی لاشیں بھی نہیں مل سکیں اورسمندر برد ہوگئیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=mM7C_Pw7OL8&feature=emb_logo
اسے دھوکے باز راستہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ بہترین موسم میں بھی تھوڑٰا سا سمندر بپھرنے سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے یا آنکھ سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اب تک پیدل چل کر فولنیس جزیرے تک جانے والا یہ واحد راستہ بھی ہے اور آمدورفت کی کمی کی وجہ سے کوئی جدید راستہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔