عمران خان اور عوام
معلوم نہیں وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے عوام میں جانا، عوام سے رابطہ کرنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔
KARACHI:
اپوزیشن نے احتجاج جاری رکھنے کی ایسی تڑی لگائی ہے کہ عوام پریشان ہو گئے ہیں لیکن چونکہ یہ سب بظاہر بیانات تھے لہٰذا بات آئی گئی ہو گئی۔ اب 13 دسمبرکے بڑے جلسہ عام کا اعلان کیا گیا ہے اور اس کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس جلسے کا انجام کیا ہوا، کچھ نہیں کہا جاسکتا لبتہ میرا خیال ہے کہ یہ جلسہ بھی ماضی قریب کے جلسوں جیساہی ہوگا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ احتجاجی جلسے، جلوس عوامی مسائل پر نہیں کیے جا رہے ہیں بلکہ ساری دنیا جانتی ہے، یہ احتجاج اقتدار کی روایتی لڑائی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اس سے قبل بھی احتجاج، ریلی اور دھرنے کی اکیلے ہی پریکٹس کر چکے ہیں لیکن عوام ان سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں۔
اسی عدم دلچسپی کی وجہ سے احتجاج نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ اب تیرہ دسمبرکو لاہور میں ہونے والے جلسے سے اپوزیشن بہت سی توقعات لگائے بیٹھی ہے،ملتان جلسے کا اس قدر پروپیگنڈہ کیا گیا کہ سارے ملک میں خوف کی ایک فضا پیدا ہو گئی لیکن اس شو میں بھی سوائے پرچم برداروں کے اور کارکنوں کے کوئی نہ تھا۔
اب مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے اورکہا جا رہا ہے کہ مینار پاکستان کے جلسے میں بلاول بھٹو زرداری تشریف لائیں گے۔ جس کا مقصد ان کے چاہنے والوں کو مینار پاکستان تک لانا ہے اور جو دلچسپ بات کہی گئی وہ یہ ہے کہ بلاول پی پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز بہت پہلے سے وزارت عظمیٰ کی امیدوار ہیں اور ان کی بھرپور پروپیگنڈہ مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ اب ایک پیج پر رہنے والے بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کیا ایک پیج پر رہ سکیں گے؟ کیا ایک میان میں دو تلواریں رہ سکتی ہیں؟
پی ڈی ایم کے نام پر سیاسی کارکنان اور مدرسوں کے طالب علم سڑکوں پر جس طرح پھر رہے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے عوام سے رابطہ ختم کر دیا ہے۔ الیکشن سے پہلے عمران خان کے جلسوں میں عوام کا سمندر امنڈ آتا تھا، جس طرف نظر اٹھاؤ جذباتی کارکنوں کا ہجوم ہوتا تھا۔
معلوم نہیں وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے عوام میں جانا، عوام سے رابطہ کرنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ جب تک قیادت عوام کے درمیان رہتی ہے عوام میں ایک فطری جوش و جذبہ رہتا ہے اور جب قیادت عوام سے دور ہو جاتی ہے تو ایک ذمے داری تھی کہ وہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد عوام سے اور زیادہ قریبی رابطہ رکھتے۔
اس کے برعکس ہوا یہ کہ عمران خان کا عوام سے براہ راست رابطہ ختم ہو گیا جو ماضی میں بڑی بڑی ریلیوں جلسوں کی شکل میں رہتا تھا، اس خلا کی وجہ سے قیادت اور عوام میں ایک دوری اور اجنبیت پیدا ہو گئی جس کا تھوڑا بہت فائدہ اپوزیشن نے اٹھایا۔ یوں وہ خلا پیدا ہوا جس کی وجہ سے عوام عمران خان سے دور ہوتے چلے گئے۔
اس حوالے سے دوسری بڑی کمزوری نظریاتی ہے، عوام عمران خان کو روایتی لیڈروں کے مقابلے میں ایک انقلابی رہنما کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے ۔ عمران خان نے نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ اس نظریاتی طور پر پسماندہ ملک کو بدل کر ایک انقلابی پاکستان کی داغ بیل ڈالنے چاہتے ہیں لیکن ان کے ذاتی نظریات ''نئے پاکستان'' سے قطعی مطابقت نہیں رکھتے ۔ اس صورتحال سے وہ لوگ سخت مایوسی کا شکار ہوئے جو ان کو جدید دورکے ایک انقلابی رہنما کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم کا رابطہ عوام سے کٹا ہوا ہے جو جلوسوں کی وجہ سے بحال رہتا تھا، اب اگر عمران خان عوامی سیاست کرنا چاہتے ہیں تو انھیں نظریاتی الجھنوں سے نکل کر عوام کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، اگروہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ ایک مقبول رہنما کی حیثیت سے اپنا وہ مقام حاصل کرسکتے ہیں جو انھیں انتخابات سے پہلے حاصل تھا۔
اپوزیشن نے احتجاج جاری رکھنے کی ایسی تڑی لگائی ہے کہ عوام پریشان ہو گئے ہیں لیکن چونکہ یہ سب بظاہر بیانات تھے لہٰذا بات آئی گئی ہو گئی۔ اب 13 دسمبرکے بڑے جلسہ عام کا اعلان کیا گیا ہے اور اس کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس جلسے کا انجام کیا ہوا، کچھ نہیں کہا جاسکتا لبتہ میرا خیال ہے کہ یہ جلسہ بھی ماضی قریب کے جلسوں جیساہی ہوگا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ احتجاجی جلسے، جلوس عوامی مسائل پر نہیں کیے جا رہے ہیں بلکہ ساری دنیا جانتی ہے، یہ احتجاج اقتدار کی روایتی لڑائی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اس سے قبل بھی احتجاج، ریلی اور دھرنے کی اکیلے ہی پریکٹس کر چکے ہیں لیکن عوام ان سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں۔
اسی عدم دلچسپی کی وجہ سے احتجاج نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ اب تیرہ دسمبرکو لاہور میں ہونے والے جلسے سے اپوزیشن بہت سی توقعات لگائے بیٹھی ہے،ملتان جلسے کا اس قدر پروپیگنڈہ کیا گیا کہ سارے ملک میں خوف کی ایک فضا پیدا ہو گئی لیکن اس شو میں بھی سوائے پرچم برداروں کے اور کارکنوں کے کوئی نہ تھا۔
اب مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے اورکہا جا رہا ہے کہ مینار پاکستان کے جلسے میں بلاول بھٹو زرداری تشریف لائیں گے۔ جس کا مقصد ان کے چاہنے والوں کو مینار پاکستان تک لانا ہے اور جو دلچسپ بات کہی گئی وہ یہ ہے کہ بلاول پی پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز بہت پہلے سے وزارت عظمیٰ کی امیدوار ہیں اور ان کی بھرپور پروپیگنڈہ مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ اب ایک پیج پر رہنے والے بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کیا ایک پیج پر رہ سکیں گے؟ کیا ایک میان میں دو تلواریں رہ سکتی ہیں؟
پی ڈی ایم کے نام پر سیاسی کارکنان اور مدرسوں کے طالب علم سڑکوں پر جس طرح پھر رہے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے عوام سے رابطہ ختم کر دیا ہے۔ الیکشن سے پہلے عمران خان کے جلسوں میں عوام کا سمندر امنڈ آتا تھا، جس طرف نظر اٹھاؤ جذباتی کارکنوں کا ہجوم ہوتا تھا۔
معلوم نہیں وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے عوام میں جانا، عوام سے رابطہ کرنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ جب تک قیادت عوام کے درمیان رہتی ہے عوام میں ایک فطری جوش و جذبہ رہتا ہے اور جب قیادت عوام سے دور ہو جاتی ہے تو ایک ذمے داری تھی کہ وہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد عوام سے اور زیادہ قریبی رابطہ رکھتے۔
اس کے برعکس ہوا یہ کہ عمران خان کا عوام سے براہ راست رابطہ ختم ہو گیا جو ماضی میں بڑی بڑی ریلیوں جلسوں کی شکل میں رہتا تھا، اس خلا کی وجہ سے قیادت اور عوام میں ایک دوری اور اجنبیت پیدا ہو گئی جس کا تھوڑا بہت فائدہ اپوزیشن نے اٹھایا۔ یوں وہ خلا پیدا ہوا جس کی وجہ سے عوام عمران خان سے دور ہوتے چلے گئے۔
اس حوالے سے دوسری بڑی کمزوری نظریاتی ہے، عوام عمران خان کو روایتی لیڈروں کے مقابلے میں ایک انقلابی رہنما کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے ۔ عمران خان نے نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ اس نظریاتی طور پر پسماندہ ملک کو بدل کر ایک انقلابی پاکستان کی داغ بیل ڈالنے چاہتے ہیں لیکن ان کے ذاتی نظریات ''نئے پاکستان'' سے قطعی مطابقت نہیں رکھتے ۔ اس صورتحال سے وہ لوگ سخت مایوسی کا شکار ہوئے جو ان کو جدید دورکے ایک انقلابی رہنما کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم کا رابطہ عوام سے کٹا ہوا ہے جو جلوسوں کی وجہ سے بحال رہتا تھا، اب اگر عمران خان عوامی سیاست کرنا چاہتے ہیں تو انھیں نظریاتی الجھنوں سے نکل کر عوام کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، اگروہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ ایک مقبول رہنما کی حیثیت سے اپنا وہ مقام حاصل کرسکتے ہیں جو انھیں انتخابات سے پہلے حاصل تھا۔