حضرت ابراہیم ؑ کی نسل مصر کیسے پہنچی

سورۂ یوسف کا نزول یہودیوں کے اس سوال پر ہوا جو انہوں نے مشرکین مکہ کے ذریعے نبی اکرم ﷺ سے کیا تھا۔


Abdul Qadir Sheikh December 13, 2020
سورۂ یوسف کا نزول یہودیوں کے اس سوال پر ہوا جو انہوں نے مشرکین مکہ کے ذریعے نبی اکرم ﷺ سے کیا تھا۔ فوٹو: فائل

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ ''اور اس طرح ہم نے سر زمین مصر میں یوسف ؑ کے قدم جمادیے (قبضہ دے دیا) جس جگہ چا ہیں حسب منشاء رہیں۔ ہم جسے چاہتے ہیں (اسی طرح) اپنی رحمت سے فیض یاب کرتے ہیں اور نیک اعمال کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتے اور جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور بدعملیوں سے بچتے رہے ان کے لیے تو آخرت کا اجر اس سے کہیں بہتر ہے۔'' (سورۂ یوسف آیت56)

سورۂ یوسف کا نزول یہودیوں کے اس سوال پر ہوا جو انہوں نے مشرکین مکہ کے ذریعے نبی اکرم ﷺ سے کیا تھا۔ جو سوال کیا گیا وہ یہ تھا ''ابراہیم ؑ کی نسل مصر میں کیسے آئی؟'' شاہ عبدالقادر محدث ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ جواب ان کے سوال کا کہ اولاد ابراہیم ؑ شام سے مصر میں اس طرح آئی آگے بیان ہوا کہ بھائیوں نے حضرت یوسف ؑ کو دور پھینکا تاکہ بے عزت ہو اور اللہ نے زیادہ عزت دی اور ملک (مصر) پر اختیار دیا۔

قرآن حکیم کے بیان کے مطابق یوسف ؑ مصر پر حاکم مقرر ہو چکے تھے اور اب وہ دور شروع ہوچکا تھا جس کے بارے میں پیش گوئی تھی کہ سات برس قحط میں گزریں گے اب یہ قحط سالی پورے مصر اور اس کے قرب و جوار میں پھیل چکی تھی یہاں تک کہ کنعان تک پہنچ گئی کہ جہاں حضرت یعقوب اور ان کی آل سکونت پذیر تھی۔ اس قحط سالی کا ذکر توریت میں بھی موجود ہے ''جب یعقوب ؑ نے دیکھا کہ مصر میں غلہ موجود ہے تب یعقوب ؑ نے اپنے بیٹوں سے کہا تم کیوں ایک دوسرے کو تاکتے ہو دیکھو میں نے سنا ہے کہ مصر میں غلہ ہے تم وہاں جاؤ اور ہمارے لئے وہاں سے مول لو تاکہ ہم جییں، مریں نہیں۔ '' (توریت باب 41پیدائش)

حضرت یوسف ؑ نے اپنے حُسن تدبر سے اس قحط سالی سے نمٹنے کے لیے جو انتظامات کیے تھے وہ کام آئے اور ہر طرف سے لوگ مصر میں غلہ لینے کی خاطر آتے رہے۔ آپؑ کے اعلان کا شہر ہ کنعان تک بھی جا پہنچا کہ مصر کا بادشاہ غلہ فروخت کررہا ہے، چناںچہ حضرت یعقوب ؑ کے حکم پر یہ برادران یوسف ؑ گھر کی تمام پونجی لے کر غلے کے حصول کی خاطر دربارشاہی پہنچ گئے۔

یہاں یہ برادر اپنے بھائی یوسف ؑ کو نہ پہچان سکے لیکن یوسف ؑ نے انہیں پہچان لیا تھا۔ اس موقع پر آپؑ ان جان بن گئے اور اپنے بھائیوں سے تمام باتیں پوچھ لیں تو انہوں نے جہاں اور باتیں بتائیں یہ بھی بتادیا کہ ہم دس بھائی یہاں موجود ہیں لیکن ہمارے دو علاتی بھائی (دوسری ماں سے ) اور بھی ہیں۔

ان میں سے ایک تو جنگل میں ہلاک ہوگیا اور اس کے دوسرے بھائی کو والد نے تسلی کی خاطر اپنے پاس رکھا ہوا ہے، اسے ہمارے ساتھ نہیں بھیجا۔ جس پر یوسف ؑ نے فرمایا آئندہ اسے بھی ساتھ لے کر آنا دیکھتے نہیں کہ میں ناپ تول بھی پورا دیتا ہوں اور مہمان نوازی اور خاطر مدارت بھی خوب کرتا ہوں۔ اس ترغیب کے ساتھ یہ دھمکی بھی دی ترجمہ ''پس اگر تم اسے (بن یامین ) لے کر پاس نہ آئے تو میری طرف سے تمہیں کوئی ناپ نہیں ملے گا بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ انہوں نے کہا اچھا ہم ان کے باپ کو اس کی بابت پھسلائیں گے اور پوری کوشش کریں گے۔ (پھر) اپنے خدمت گاروں سے کہا ان کی پونجی انہی کی بوریوں میں رکھ دو کہ جب لوٹ کر اپنے اہل و عیال کے درمیان جائیں اور پونجیوں کو پہچان لیں تو بہت ممکن ہے کہ یہ پھر لوٹ آئیں۔'' (سورۂ یوسف آیت 62)

پھر جب یہ غلہ لے کر اپنے والد حضرت یعقوب ؑ کے پاس پہنچے تو تمام روداد سنائی اور یہ بھی کہا اب بادشاہ وقت ہمیں غلہ نہیں دے گا جب تک کہ ہم بن یامین کو ساتھ نہ لے جائیں گے۔ آپؑ نے فرمایا کہ مجھے تم سب پر اعتبار نہیں رہا کیوںکہ اس سے قبل بھی تم لوگ یوسف ؑ کی حفاظت کرنے میں نا کام رہے ہو مجھے صرف اللہ کی ذات پر بھروسا ہے وہ ہی حفاظت کرنیوالا اور نگہبان ہے۔

برادران یوسف ؑ نے جب اپنا اسباب کھولا تو اپنی پونجی (رقم) کو اس میں موجود پا کر کہنے لگے، ابا جان ہمیں کیا چاہیے، دیکھیے شاہ مصر نے ہمیں غلہ بھی فراہم کیا اور رقم بھی چپکے سے ہمارے اسباب میں لوٹا دی اور آئندہ بن یامین کو بھی لانے کے لیے کہا ہے اور اس کا راشن کا کوٹا بھی مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے، جو ایک لدا ہوا اونٹ ہوگا۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ اس کی بھرپور نگرانی کریں گے۔ حضرت یعقوبؑ گویا ہوئے جب تک تم اللہ کو درمیان رکھ کر مجھ سے اس کی حفاظت کا پورا وعدہ نہ کرلوگے اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا، سوائے اس کے کہ ناگہانی طور پر تم سب گرفتار ہوجاؤ۔

ان سب بھائیوں نے پکا قول قرار بن یامین کی واپسی کا کیا، تب آپؑ راضی ہوئے اور ان سے نصیحت فرمائی کہ اے میرے بیٹو! جاؤ اور یاد رکھو کہ سب ایک دروازے سے داخل ہونے کے بجائے علیحدہ علیحدہ دروازوں سے داخل ہونا۔ میں اللہ کی طرف سے ہونے والی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا۔ حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے جس پر میرا کامل بھروسا ہے اور ہر ایک بھروسا کرنے والے کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے جب برادران یوسف ؑدربار میں پہنچ گئے تو اس موقع پر بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ دو دو بھائیوں کو ایک ایک کمرہ دیا گیا۔

یوں بن یامین اکیلے رہ گئے تو انہیں تنہا ایک کمرہ دیا گیا اور پھر حضرت یوسف ؑ نے خلوت میں ان سے تمام باتیں اور چھپے رازافشا کیے کہ ان بھائیوں نے میرے ساتھ کیا کچھ کیا تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت یوسف نے بن یامین کو روکنے کے لیے جو حیلہ اختیار کرنا تھا اس سے بھی انہیں آگاہ کردیا تھا تاکہ وہ پریشان نہ ہوں۔ (ابن کثیر)

پھر جب انہیں ان کا سامان اسباب ٹھیک کرکے دیا تو اپنے بھائی (بن یامین) کے اسباب میں پانی پینے کا پیالہ رکھدیا علماء کرام لکھتے ہیں کہ یہ سقایا (پانی پینے کا برتن) سونے یا چاندی کا تھا جس سے پانی پینے کے علاوہ غلہ ناپنے کا کام بھی لیا جاتا تھا، چپکے سے رکھ دیا تھا۔ پھر ایک منادی نے جو حضرت یوسف ؑ کے اس منصوبے سے واقف نہ تھا منادی کی کہ اے قافلے والو! تم لوگ تو چور ہو۔

ان بھائیوں نے بیک وقت پلٹ کر پوچھا کہ تمہاری کیا چیز کھوئی ہے۔ اس نے کہا غلہ ناپنے کا شاہی پیمانہ جو اسے ڈھونڈ دے اسے ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ ملے گا، جس کی ضمانت میں دیتا ہوں۔ وہ سب بولے اللہ کی قسم تمہیں خوب علم ہے ہم ملک میں فساد پھیلانے نہیں آئے ہیں اور نہ ہی ہم چور ہیں۔ پھر ان سے سوال ہوا اگر تمہارے سامان سے وہ پیالہ برآمد ہوگیا تو پھر اس کی کیا سزا ہوگی؟ حضرت ابراہیم ؑ ویعقوب ؑ کی شریعت میں چوری کی سزا یہ تھی کہ جس کے پاس سے مسروقہ مال بر آمد ہوتا اسے مال کے مالک کی تحویل میں دے دیا جاتا تھا جس کی ایک خاص مدت مقرر ہوتی تھی۔

چناںچہ شاہی احکام کے تحت پہلے بھائیوں کی تلاشی لی گئی اور آخر میں بن یامین کی تلاشی ہوئی جہاں سے پیمانہ بر آمد ہوا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف ؑ پر وحی کی گئی تھی کہ ایسی تدبیر اختیار کی جائے۔ (فتح القدیر) قرآن حکیم میں آیا ہے ترجمہ ''ہم نے یوسف ؑ کے لیے یہ تدبیر اختیار کی کہ اس بادشاہ کے قانون کی رو سے یہ اپنے بھائی کو نہ لے سکتا تھا مگر یہ اللہ کو منظور ہو ہم جس کے چاہیں درجات بلند کردیں ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے۔'' پھر وہ بھائی بولے اگر اس نے چوری کی ہے تو (تعجب نہیں) اس کا بھائی بھی چوری کرچکا ہے۔ حضرت یوسف ؑ نے اس بات کو اپنے دل میں رکھ لیا اور ان کے سامنے بالکل ظاہر نہیں کیا کہ تم بالکل بدتر جگہ میں ہو اور جو تم کہتے ہو اللہ خوب بہتر جانتا ہے۔

ان برادران نے حضرت یوسف ؑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اے عزیزمصر! اس کے والد بہت بوڑھے ہیں۔ آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو رکھ لیں، کیوںکہ وہ اس کا صدمہ برداشت نہیں کرپائیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ آپؑ بڑے نیک نفس ہیں۔ آپؑ نے فرمایا جو چور ہے اسی کو رکھا جائے گا میں ناانصافی نہیں کرسکتا۔ جب وہ مایوس ہوگئے تو تنہائی میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے۔ سب سے بڑے نے کہا کہ ہم اپنے والد سے وعدہ کرچکے تھے کہ ہم بن یامین کو صحیح سلامت پہنچائیں گے، لہٰذا میں یہاں سے نہیں ہلوں گا جب تک کہ والد مجھے نہ بلوائیں۔ اسی سے میری بے گناہی ثابت ہوگی۔ اب تم سب ان کے پاس جاؤ اور ان سے کہو آپؑ کے بیٹے نے چوری کی ہے جس کی ہم نے گواہی بھی دی ہے۔

جب یہ بھائی حضرت یعقوبؑ کی خدمت میں پیش ہوئے تو تمام واقعہ سنایا۔ آپؑ نے سن کر فرمایا یہ بات تم نے اپنے دل سے گھڑی ہے، پس اب صبر ہی بہتر ہے۔ پھر آپؑ نے ان سے منہ پھیرتے ہوئے فرمایا ہائے یوسف! یعنی بن یامین کے ساتھ یوسف ؑ کا غم بھی تازہ ہوگیا۔ بیٹے کہنے لگے آپ ہمیشہ یوسف ؑ کی یاد میں ہی لگے رہیں گے یہاں تک کہ گھل گھل کر اپنا خاتمہ کرلیں گے۔ آپؑ نے فرمایا میرے بیٹو! جاؤ یوسف اور بن یامین کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا، ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں۔ اب یہ بھائی تیسری مرتبہ اپنی جمع پونجی لے کر مصر جاتے ہیں اور عزیز مصر کو کہتے ہیں ہماری حقیر پونجی کو نہ دیکھیں ہمیں پورا ناپ دیں اور ہم پر احسان کریں۔ مفسرین یہاں احسان سے مراد بن یامین کی آزادی لیتے ہیں۔

یعنی انہیں آزاد کرکے ہم پر احسان کریں۔ جب وہ نہایت عاجزی دکھا چکے بھائی کی رہائی کی اپیل کر چکے باپ کے ضعیف اور بیٹے کی جدائی کے صدمہ کا ذکر کیا تو حضرت یوسف ؑ کا دل بھر آیا آنکھیں نم ناک ہوگئیں اور انکشاف حال پر مجبور ہوگئے۔ یوسف ؑ نے کہا جانتے ہو تم نے یوسف ؑ اور اس کے بھائی کے ساتھ نادانی میں کیا کیا؟ انہوں نے پوچھا کیا تم ہی یوسف ؑ ہو؟ جواب دیا ہاں میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر اپنا فضل و کرم کیا۔ بات یہ ہے کہ جو بھی صبر کرے اور پرہیزگاری کرے تو اللہ کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ وہ بولے اللہ کی قسم اللہ نے تجھے ہم پر برتری دی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم خطاکار تھے۔ آپؑ نے فرمایا آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہے اللہ تمہیں بخشے وہ سب مہربانوں کا مہربان ہے۔ میرا یہ کرتا لے جاؤ اور اسے میرے والد کے منہ پر ڈال دو کہ وہ دیکھنے لگیں اور آجائیں اور اپنے تمام خاندان کو میرے پاس لے آنا۔

ادھر یہ قافلہ مصر سے چلا ادھر یعقوب کو یوسف ؑ کی خوشبو آنے لگی۔ جب بیٹوں نے وہ قمیص آپؑ کے رخ انور پر ڈالی تو اس سے معجزانہ طور پر آپؑ کی بینائی لوٹ آئی۔ پھر وہ بھائی گویا ہوئے ابا جان ہمارے لیے گناہوں کی بخشش طلب کیجیے بے شک ہم قصور وار ہیں۔

حضرت یوسف ؑ کی دعوت پر آل یعقوب1888ق م دوسری روایت کے مطابق 1706ق م کنعان سے مصر کی جانب روانہ ہوئی جو ستر (۷۰) افراد پر مبنی ایک قافلہ تھا۔ تاریخ کے مطابق اس قافلے کا استقبال حضرت یوسف ؑ نے شہر سے باہر نکل کر کیا۔ حضرت یعقوب ؑ چالیس سال بعد اپنے چہیتے بیٹے سے ملے جو لڑکپن میں 17سال کی عمر میں بھائیوں کی بے وفائی کی وجہ سے جدا ہوگئے تھے۔

جب یہ پورا گھرانا شاہی محل میں داخل ہوگیا تو آپ ؑ نے اپنے والدین (سورج چاند) کو اپنے اونچے تخت پر اپنے ساتھ بٹھایا گیارہ بھائیوں (ستارے) کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ تخت کے نیچے کھڑے ہوگئے اور پھر یہ تمام لوگ حضرت یوسف ؑ کے سامنے سجدہ میں گر گئے۔ پھر آپؑ نے فرمایا ''ابا جان یہ ہے میرے خواب کی تعبیر جسے میرے رب نے سچا کر دکھایا۔'' (آیت نمبر100) مفسرین اس سجدے کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ یہ سجدہ سجدہ ہی کے معنی میں ہے۔

تاہم یہ سجدہ تعظیمی تھا سجدہِ عبادت نہیں۔ علماء فرماتے ہیں کہ آپ پیغمبر تھے اور موحد تھے۔ لوگوں کو توحید کی تعلیم دے رہے تھے۔ اس لیے عبادت کے طور پر آپؑ پہ سجدہ کیسے کروا سکتے تھے۔ آپؑ نے تو جیل میں رہ کر بھی دعوت توحید و تبلیغ نہ چھوڑی تھی۔ بہرحال یہ سجدہ تعظیمی حضرت یعقوب ؑ کی شریعت میں جائز تھا۔ آنحضور ؐ کی رسالت کے بعد اسلام نے شرک کے سدباب کے لیے سجدہ تعظیمی کو بھی حرام قرار دے دیا۔ اب یہ سجدہ سوائے اللہ کے کسی کو بھی جائز نہیں۔ یہ واقعہ مصر کے دارالحکومت رعمیس کا ہے۔

حضرت یوسف ؑ نے آسناتھ نامی خاتون سے شادی کی تھی جن سے دو بیٹے سنتی اور افراہیم قحط کے سالوں میں1890ق م تا1883ق م پیدا ہوئے۔

فرعون نے بھی آپؑ کے عزیز و اقارب کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے عزت و احترام کیا۔ پھر انہیں مصر کا انتہائی زرخیز علاقہ جوشن، جو دریائے نیل کا ڈیلٹا تھا جاگیر میں دیا، تاکہ یہ کنبہ زراعت کو معاش بنا کر اپنا گزر بسر کرسکے۔

حضرت یوسف ؑ نے 130برس کی عمر پائی تھی،1857ق م میں آپ خالق حقیقی سے جاملے۔ مصری رسم و رواج کے مطابق آپؑ کی لاش کو حنوط کیا گیا اور وصیت کے مطابق مصر میں امانتاً دفن کیا گیا۔ پھر کچھ عرصے بعد خاندان کے کچھ لوگ آپؑ کی لاش کنعان لائے جہاں حبرون میں اپنے دادا اسحقؑ اور پردادا حضرت ابراہیم ؑ کے پہلو میں سپردخاک کیے گئے۔ حموی کہتے ہیں کہ حضرت یوسف ؑ کی قبر بلاطہ میں ہے جو فلسطین کے علاقہ نابلس کا ایک گاؤں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں