پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں کبھی اعتماد کا رشتہ نہ رہا
پیپلز پارٹی ایک طرف کھڑی ہوئی اور ’’فیس سیونگ‘‘ کے لیے ایک فارمولا دیتے ہوئے کہا کہ انھیں اسمبلیوں میں جانا چاہیے۔
ابھی تک کی صورت حال کے مطابق پی ڈی ایم کی تمام پارٹیوں کے آپسی اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں، اور دل سے تمام جماعتیں ایک دوسرے پر اعتبار کرتی دکھائی نہیں دے رہیں، شاید اعتبار نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ پیپلز پارٹی ہے، کیوں کہ پیپلز پارٹی اس وقت اقتدار میں ہے، اور باقی پارٹیوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، وہ صرف مقدمات کا شکار ہیں، مولانا فضل الرحمٰن بھی مشکل میں ہے، وہ ہر صورت تبدیلی چاہتے ہیں، لیکن پیپلزپارٹی گزشتہ 12 سال سے سندھ میں برسر اقتدار ہے۔
اس لیے وہ ان جماعتوں کے لیے اپنے آپ کو مشکل میں کیوں ڈالیں گے، اور پھر اہم بات یہ ہے کہ زرداری صاحب کو صرف نیب کے کیسز پر غصہ ہے ، اس سے بھی زیادہ غصہ انھیں گلگت بلتستان کے الیکشن کے نتائج پر ہے کہ وہاں اُن سے کیا گیا مبینہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا، اور اب اگر انھیں ٹھوس یقین دہانی ہو جائے کہ نیب کیسز کے حوالے سے انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا تو وہ کبھی پی ڈی ایم کے ساتھ چلنے کا نہیں سوچیں گے۔
اس بات کا اندازہ آپ 8 دسمبر کو ہونے والے اجلاس کی اندرونی کہانی سے ہو جانا چاہیے کہ آصف علی زرداری کے لب و لہجے سے لگ رہا تھا کہ وہ کسی صورت استعفے نہیں دیں گے، حتیٰ کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف تو پیپلزپارٹی کو استعفے دینے کے بدلے اگلے دور کی حکومت بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔
پھر نواز شریف نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کو ہم اگلے دس سال چلائیں گے، اور اگلا الیکشن بھی ہم مل کر لڑیں گے، جب کہ زرداری نے کہا ہے کہ استعفوں سے پہلے پنجاب اور فیڈرل میں عدم اعتماد کی تحریک چلانی چاہیے، اور پھر انھوں نے کہا کہ استعفیٰ دینے کے بعد کیا ہو گا؟ اس پر یہ فیصلہ ہوا کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی اس پر الگ گفتگو کریں گے۔
الغرض پاکستان کی سیاست میں پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے ساتھ اور نہ ہی ن لیگ نے پیپلزپارٹی کے ساتھ وفا کی ہے، دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد ہی نہیں ہے یا دونوں کا دامن ایک دوسرے کے حوالے سے داغدار ہے، مثلاً بینظیر بھٹو 2008میں این آر او کے بعد آئیں، تو انھوں نے اپنے ساتھ نوازشریف کی واپسی کی شرط رکھی، نواز شریف نے اُن کا بھرم توڑا، جب زرداری صدربنے تونواز شریف کالا کوٹ پہن کر زرداری کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے، پھر وہ ایک دوسرے پر اعتماد کیسے کریں؟ کیوں رسک لیں کہ ان کے لیے اپنا 12 سالہ اقتدار چھوڑ دیں۔
خیر بات ہو رہی تھی، پی ڈی ایم کے حکومت کے خلاف لائحہ عمل کی تو جیسے میں نے پچھلے کالم میں بھی کہا تھا کہ یہ بات بھول جائیں کہ یہ سب جماعتیں استعفوں کے معاملے پر ایک ہو سکیں گی، بالکل اسی طرح اس بات پر بھی مہر ثبت کر لیں کہ پیپلز پارٹی استعفوں کا اعلان کرے گی۔
کیوں کہ پیپلز پارٹی کا ماضی اس حوالے سے خاصا متنازعہ نظر آتا ہے۔ مثلاً مشرف دور میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے 3 مرتبہ فیصلہ کیا کہ وہ اسمبلیوں سے استعفے دے رہے ہیں مگر اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جب 2018میں عمران خان الیکشن جیتے تو ن لیگ اور مولانا فضل الرحمٰن نے کہا، اسمبلیوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے اور استعفے دیے جائیں، لیکن پیپلز پارٹی ایک طرف کھڑی ہوئی اور ''فیس سیونگ'' کے لیے ایک فارمولا دیتے ہوئے کہا کہ انھیں اسمبلیوں میں جانا چاہیے۔
اس فارمولے کے تحت وزیر اعظم کے لیے ن لیگ نے امیدوار دینا تھا لیکن وزارت عظمیٰ کی باری آئی تو پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ پھر یاد کریں اسمبلی میں عمران کو 'سیلیکٹڈ' وزیر اعظم کہا مگر چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں یوٹرن لیا اور سلیکٹڈ وزیر اعظم کے پورچ میں گاڑی کھڑی کر دی۔
پیپلز پارٹی کی ''سیاست'' کو سمجھنے کے لیے اگر یہ دلائل کافی نہیں تو مزید بتاتا چلوں کہ نواز شریف کا دور اقتدار ختم ہونے کے قریب پہنچا تو اپوزیشن کا تاثر دینے کے لیے بلاول نے چار شرائط پیش کرتے ہوئے کہا یہ پوری نہ ہوئیں تو لانگ مارچ ہو گا، اس حوالے سے بھی آج تک لانگ مارچ کا علم نہیں کہاں گیا۔ پھر بینظیر بھٹو شہید ہوئیں تو تیسرے ہی روز جناب آصف زرداری نے کہہ دیا کہ الیکشن میں فتح کی صورت میں مخدوم امین فہیم وزیر اعظم ہوں گے۔ لیکن پھر خود ہی ایسا کرنے سے انکار کردیا۔
اس کے بعد آصف زرداری نے نواز شریف کو مخلوط حکومت میں شامل کرنا چاہا تو نواز شریف نے عدلیہ کی بحالی کی شرط رکھی۔ آصف زرداری نے اسے تسلیم کر لیا اور ایک مشترکہ پریس کانفرنس کر کے اس بات کا اعلان کیا گیا۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ آصف زرداری نے ن لیگ کا ہاتھ جھٹک دیا۔ بقول احمد فراز کے
تم کہاں، وصل کہاں، وصل کی امید کہاں
دل کے بہکانے کو اک بات بنا رکھی ہے
یہاں پی ڈی ایم جماعتوں کے استعفوں کے حوالے سے بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ استعفیٰ کارڈ کھیل کر اپوزیشن اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے گی، ایسی صورت میں اول تو ضمنی انتخابات کی آپشن موجود ہے لیکن بالفرض اگر نئے انتخابات کی نوبت آئی تو یہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی نگرانی میں ہوں گے، کسی نگران حکومت کی گنجائش آئین میں نہیں۔ کیا اپوزیشن عمران خان کی زیر نگرانی نئے انتخابات کرانے کے لیے سارے جتن کر رہی ہے۔ مایوس اور جذباتی مسلم لیگی قیاد ت شائد سوچنے کے لیے تیار نہ ہو مگر عملیت پسند پیپلز پارٹی کو صورت حال کا ادراک ہے۔
قارئین ! قصہ مختصر یہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ماضی کی طرح اس بار بھی ایک دوسرے کو دھوکا دے رہی ہیں۔ میرے خیال میں پی ڈی ایم جلسے، جلوسوں، لانگ مارچ اور دھرنے تک تو شائد متحد رہے، استعفوں کے معاملے پر جوتیوں میں دال بٹے گی کہ پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت سے پیار ہے۔ اس لیے عوام اور ان سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ نہ تو پی ڈی ایم کا کوئی عوامی ایجنڈا ہے اور نہ ہی یہ ملک میں جمہوریت کے بچاؤ کی تحریک چلا رہے ہیں، بلکہ یہ ضد، انا اور ہٹ دھرمی کی جنگ ہے، اقتدار کی جنگ ہے،ورنہ کورونا کی خطرناک لہر میں یہ کبھی جلسے جلوس نہ کرتے!
اس لیے وہ ان جماعتوں کے لیے اپنے آپ کو مشکل میں کیوں ڈالیں گے، اور پھر اہم بات یہ ہے کہ زرداری صاحب کو صرف نیب کے کیسز پر غصہ ہے ، اس سے بھی زیادہ غصہ انھیں گلگت بلتستان کے الیکشن کے نتائج پر ہے کہ وہاں اُن سے کیا گیا مبینہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا، اور اب اگر انھیں ٹھوس یقین دہانی ہو جائے کہ نیب کیسز کے حوالے سے انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا تو وہ کبھی پی ڈی ایم کے ساتھ چلنے کا نہیں سوچیں گے۔
اس بات کا اندازہ آپ 8 دسمبر کو ہونے والے اجلاس کی اندرونی کہانی سے ہو جانا چاہیے کہ آصف علی زرداری کے لب و لہجے سے لگ رہا تھا کہ وہ کسی صورت استعفے نہیں دیں گے، حتیٰ کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف تو پیپلزپارٹی کو استعفے دینے کے بدلے اگلے دور کی حکومت بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔
پھر نواز شریف نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کو ہم اگلے دس سال چلائیں گے، اور اگلا الیکشن بھی ہم مل کر لڑیں گے، جب کہ زرداری نے کہا ہے کہ استعفوں سے پہلے پنجاب اور فیڈرل میں عدم اعتماد کی تحریک چلانی چاہیے، اور پھر انھوں نے کہا کہ استعفیٰ دینے کے بعد کیا ہو گا؟ اس پر یہ فیصلہ ہوا کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی اس پر الگ گفتگو کریں گے۔
الغرض پاکستان کی سیاست میں پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے ساتھ اور نہ ہی ن لیگ نے پیپلزپارٹی کے ساتھ وفا کی ہے، دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد ہی نہیں ہے یا دونوں کا دامن ایک دوسرے کے حوالے سے داغدار ہے، مثلاً بینظیر بھٹو 2008میں این آر او کے بعد آئیں، تو انھوں نے اپنے ساتھ نوازشریف کی واپسی کی شرط رکھی، نواز شریف نے اُن کا بھرم توڑا، جب زرداری صدربنے تونواز شریف کالا کوٹ پہن کر زرداری کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے، پھر وہ ایک دوسرے پر اعتماد کیسے کریں؟ کیوں رسک لیں کہ ان کے لیے اپنا 12 سالہ اقتدار چھوڑ دیں۔
خیر بات ہو رہی تھی، پی ڈی ایم کے حکومت کے خلاف لائحہ عمل کی تو جیسے میں نے پچھلے کالم میں بھی کہا تھا کہ یہ بات بھول جائیں کہ یہ سب جماعتیں استعفوں کے معاملے پر ایک ہو سکیں گی، بالکل اسی طرح اس بات پر بھی مہر ثبت کر لیں کہ پیپلز پارٹی استعفوں کا اعلان کرے گی۔
کیوں کہ پیپلز پارٹی کا ماضی اس حوالے سے خاصا متنازعہ نظر آتا ہے۔ مثلاً مشرف دور میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے 3 مرتبہ فیصلہ کیا کہ وہ اسمبلیوں سے استعفے دے رہے ہیں مگر اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جب 2018میں عمران خان الیکشن جیتے تو ن لیگ اور مولانا فضل الرحمٰن نے کہا، اسمبلیوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے اور استعفے دیے جائیں، لیکن پیپلز پارٹی ایک طرف کھڑی ہوئی اور ''فیس سیونگ'' کے لیے ایک فارمولا دیتے ہوئے کہا کہ انھیں اسمبلیوں میں جانا چاہیے۔
اس فارمولے کے تحت وزیر اعظم کے لیے ن لیگ نے امیدوار دینا تھا لیکن وزارت عظمیٰ کی باری آئی تو پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ پھر یاد کریں اسمبلی میں عمران کو 'سیلیکٹڈ' وزیر اعظم کہا مگر چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں یوٹرن لیا اور سلیکٹڈ وزیر اعظم کے پورچ میں گاڑی کھڑی کر دی۔
پیپلز پارٹی کی ''سیاست'' کو سمجھنے کے لیے اگر یہ دلائل کافی نہیں تو مزید بتاتا چلوں کہ نواز شریف کا دور اقتدار ختم ہونے کے قریب پہنچا تو اپوزیشن کا تاثر دینے کے لیے بلاول نے چار شرائط پیش کرتے ہوئے کہا یہ پوری نہ ہوئیں تو لانگ مارچ ہو گا، اس حوالے سے بھی آج تک لانگ مارچ کا علم نہیں کہاں گیا۔ پھر بینظیر بھٹو شہید ہوئیں تو تیسرے ہی روز جناب آصف زرداری نے کہہ دیا کہ الیکشن میں فتح کی صورت میں مخدوم امین فہیم وزیر اعظم ہوں گے۔ لیکن پھر خود ہی ایسا کرنے سے انکار کردیا۔
اس کے بعد آصف زرداری نے نواز شریف کو مخلوط حکومت میں شامل کرنا چاہا تو نواز شریف نے عدلیہ کی بحالی کی شرط رکھی۔ آصف زرداری نے اسے تسلیم کر لیا اور ایک مشترکہ پریس کانفرنس کر کے اس بات کا اعلان کیا گیا۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ آصف زرداری نے ن لیگ کا ہاتھ جھٹک دیا۔ بقول احمد فراز کے
تم کہاں، وصل کہاں، وصل کی امید کہاں
دل کے بہکانے کو اک بات بنا رکھی ہے
یہاں پی ڈی ایم جماعتوں کے استعفوں کے حوالے سے بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ استعفیٰ کارڈ کھیل کر اپوزیشن اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے گی، ایسی صورت میں اول تو ضمنی انتخابات کی آپشن موجود ہے لیکن بالفرض اگر نئے انتخابات کی نوبت آئی تو یہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی نگرانی میں ہوں گے، کسی نگران حکومت کی گنجائش آئین میں نہیں۔ کیا اپوزیشن عمران خان کی زیر نگرانی نئے انتخابات کرانے کے لیے سارے جتن کر رہی ہے۔ مایوس اور جذباتی مسلم لیگی قیاد ت شائد سوچنے کے لیے تیار نہ ہو مگر عملیت پسند پیپلز پارٹی کو صورت حال کا ادراک ہے۔
قارئین ! قصہ مختصر یہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ماضی کی طرح اس بار بھی ایک دوسرے کو دھوکا دے رہی ہیں۔ میرے خیال میں پی ڈی ایم جلسے، جلوسوں، لانگ مارچ اور دھرنے تک تو شائد متحد رہے، استعفوں کے معاملے پر جوتیوں میں دال بٹے گی کہ پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت سے پیار ہے۔ اس لیے عوام اور ان سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ نہ تو پی ڈی ایم کا کوئی عوامی ایجنڈا ہے اور نہ ہی یہ ملک میں جمہوریت کے بچاؤ کی تحریک چلا رہے ہیں، بلکہ یہ ضد، انا اور ہٹ دھرمی کی جنگ ہے، اقتدار کی جنگ ہے،ورنہ کورونا کی خطرناک لہر میں یہ کبھی جلسے جلوس نہ کرتے!