قیام پاکستان کے محرکات… ایک جائزہ

قیام پاکستان کے ضمن میں ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کا بنیادی سبب خالصتاً معاشی محرکات تھے۔


جبار قریشی December 11, 2020
[email protected]

تخلیق پاکستان کے اسباب ومحرکات کے بیان کے حوالے سے متعدد دانشور، سیاستدان اور اہل قلم ہمیں فکری انتشارکا شکار نظر آتے ہیں،کسی نے تخلیق پاکستان کے مقاصد کو معاشی نقطہ نظر سے دیکھا ،کسی نے مذہبی تو کسی نے سیاسی غرض، ہر ایک نے اپنے زاویہ نگاہ سے اس پر روشنی ڈالی۔

اس کے حقیقی اسباب کیا تھے اس کا تعین نہیں کیا جاسکا۔ سوال یہ ہے کہ اس کا درست اور صحیح تعین کیوں ضروری ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ ہم اپنی نوجوان نسل اور اپنے طالب علموں کو اپنی درست اور صحیح ''تاریخ'' پڑھا سکیں۔

قیام پاکستان کے ضمن میں ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کا بنیادی سبب خالصتاً معاشی محرکات تھے، اس حوالے سے ہم جائزہ لیتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ معاشی تحریکیں ہمیشہ استحصالی قوتوں اور استحصال زدہ طبقات کے معاشی مفادات کے ٹکراؤ کے نتیجے میں جنم لیتی ہیں۔ استحصالی قوتوں کا اول و آخر واحد مقصد دولت کا زیادہ سے زیادہ حصول ہوتا ہے۔

اس مقصد کو پانے کے لیے وہ مذہب،رنگ، نسل اور فرقہ سے قطعہ نظر نچلے اورکمزور طبقات کا استحصال کرتا ہے ردعمل میں نچلے اورکمزور طبقات کی جانب سے اس کے خلاف بغاوت جنم لیتی ہے۔ قیام پاکستان کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہوتا تو مسلم لیگ کی قیادت نچلے اور کمزور طبقات کے ہاتھوں میں ہوتی اس لیے قیام پاکستان کے قیام کا سبب معاشی محرک کو قرار دینا درست نہیں۔

ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ پاکستان جاگیرداروں نے بنایا ہے گاندھی سوشل ازم کی تحریک سے متاثر تھا وہ برصغیر پاک و ہند میں سوشل ازم کا نفاذ چاہتا تھا اس وقت کے جاگیرداروں کو خوف تھا کہ اس نظام کے نفاذ کی صورت میں ان سے جاگیریں چھین لی جائیں گی اس لیے انھوں نے ہندو مسلم تضاد کو ہوا دے کر اور مذہبی عناصر کو استعمال کرکے تحریک پاکستان کی بنیاد ڈالی۔ یہ نقطہ نظر بھی بے بنیاد ہے اگر ایسا ہوتا تو برصغیر کی تقسیم کے فوراً بعد ہی ہندوستان میں سوشل ازم کا نفاذ ہو چکا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان انگریزوں نے بنایا، اس ضمن میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ سامراجی طاقتیں پوری دنیا میں کمزور ممالک کو اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر فتح کرکے اپنی نوآبادیات (کالونیاں) بنا رہی تھیں۔ اس کے نتیجے میں ان سامراجی قوتوں کے مابین ان کا باہمی تصادم کا پیدا ہونا فطری تھا، جس کے نتیجے میں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم نے جنم لیا۔ اگر برصغیر پاک و ہند کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا تو برصغیر میں پانچ سو (500) سے زائد ممالک وجود میں آجاتے جس کا کنٹرول کرنا انگریزوں کے لیے آسان نہ تھا اس لیے انھوں نے اس خطے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کردیا۔ یہ ہے تصویر کا ایک رخ جو پیش کیا جاتا ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جو یہ ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی کو کچلنے کے بعد اور حریت پسندوں کو شکست دینے کے بعد انگریز برصغیر پاک و ہند پر مکمل کنٹرول حاصل کرچکے تھے جنگ عظیم اول اور دوم میں انگریزوں کی کامیابی نے ان کے اندر مزید اعتماد پیدا کر دیا تھا جس کی بدولت وہ اپنی نوآبادیات سے پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھنے کے قابل ہوگئے تھے۔ وہ اس کی بدولت اپنی بدحال معیشت کو نوآبادیات کے وسائل سے مضبوط بنا سکتے تھے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ہندوستان کی تقسیم انگریزوں نے اپنے مفادات کے لیے کی تھی یہ بات بے بنیاد نظر آتی ہے۔

ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ ہندو مسلم برصغیر پاک و ہند میں ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک ایک ساتھ رہنے کے باوجود ایک قوم کا روپ نہ دھار سکے دونوں کا تشخص جداگانہ تھا۔ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد اکثریت کی بنیاد پر یہ حکومت ہندوؤں کے ہاتھوں میں چلی جاتی مسلمان جوکہ ایک بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اقلیت میں تھے ان میں عدم تحفظ اور اپنے جائز حقوق سے محروم ہونے کا احساس پیدا ہوا۔ لہٰذا مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔ مسلم لیگ قائد اعظم کی قیادت میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور یوں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

یعنی پاکستان کے قیام کا مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ تھا۔ اسلام کے نفاذ کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا اس نقطہ نظر کو بھی رد کیا جاتا ہے۔ اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اسلام اور مسلمان علیحدہ علیحدہ نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں پاکستان کے قیام کا واحد مقصد ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا جہاں مسلمان اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔

اس نقطہ نظر کو بھی رد کیا جاتا ہے اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے تحریک پاکستان کے اولین مخالفین میں جہاں کانگریس مخالف تھی وہاں اسلامی تحریکوں اور ان کے قائدین جن میں اس وقت کے نامور علما بھی شامل تھے قیام پاکستان کے مخالف تھے، اگر قیام پاکستان کا مقصد نفاذ اسلام تھا تو پھر اس وقت کے علما کرام کی جانب سے اس کے قیام کی مخالفت کیوں کی گئی۔ اگر تخلیق پاکستان کا مقصد نفاذ شریعت تھا تو پھر تحریک پاکستان کی قیادت کا پرچم مسلم لیگ کے مغربی تعلیم یافتہ قائدین کے بجائے علما دین کے ہاتھوں میں ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسی بنیاد پر اس نقطہ نظر کو بھی رد کیا جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کون سا نقطہ نظر درست ہے۔ میرا علم محدود ہے اس لیے اس حوالے سے کوئی بات دعوے سے نہیں کہہ سکتا۔ تاہم تحریک پاکستان میں مسلم اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں کا ہراول دستہ کا کردار ادا کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد مسلمانوں کے مفادات اور حقوق کا تحفظ تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کا نظام حکومت کن بنیادوں اور اصولوں پر استوار ہے۔ میری ذاتی رائے میں بھی جمہوریت ہی ایک ایسا نظام ہے جو اپنے اندر پائی جانے والی چند خامیوں کے باوجود اپنی خوبیوں کی بدولت عالمی سطح پر رائج بہترین نظام حکومت تصور کیا جاتا ہے۔ ہمیں پاکستان میں اس کے قیام اور مضبوطی کی کوشش کرنی چاہیے۔

لوگوں کی اکثریت اپنے سماج کی تشکیل میں مذہب کو ایک فیکٹر یعنی عامل کے طور پر قبول کرتی ہے تو جمہوری اقدار کا تقاضا ہے کہ ان کے اس حق کو تسلیم کیا جائے جو عناصر دینی سیاسی جماعتوں کی سیاست میں شمولیت کی مخالفت کرتے ہیں انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ان کا یہ عمل جمہوری اقدار کے خلاف ہے اسی طرح دینی سیاسی جماعتوں کو بھی لبرل اور سیکولر عناصر کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کے عمل سے گریز کرنا چاہیے دینی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس طرح کا رویہ اختیار کرنا جمہوری اصولوں کے منافی عمل ہے۔ اس رویے کو ترک کیا جانا چاہیے۔ ہم اس طرز فکر کو فروغ دے کر ہی جمہوری نظام کو مضبوط بنا سکتے ہیں اسی میں ہماری خوشحالی کا راز پوشیدہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔