ماحولیات کے عالمی انتباہی اشاریے

گزشتہ دودہائیوں میں اس حوالے سے رونماہونے والی مختلف آفات کے نتیجے میں ملک کوشدید معاشی نقصانات کا سامناکرنا پڑرہاہے۔

عالمی ادارے جرمن واچ کی جاری کردہ رپورٹ ''گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2020'' میں کہا گیا ہے کہ1999سے 2018 کے دوران جو ممالک موسمیاتی وماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہوئے، ان میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔

ان تبدیلیوں کے نتیجے میں شدید گرمی ، شدید سردی ، بے وقت کی شدید بارشیں، سیلاب، گلیشیرکا پگھلاؤ، لینڈ سلائیڈنگ کے ساتھ ملک کی ساحلی پٹی پر سمندری سطح میں ہونے والے اضافے کے بڑھتے ہوئے خطرات، غرض کہ کون سا ایسا مظہر ہے جس کا سامنا پاکستان نہیں کر رہا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کو ئی ایسا ملک ہے جو موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی مختلف آفات کا ایک ساتھ سامنا کررہا ہو۔

گزشتہ دو دہائیوں میں اس حوالے سے رونما ہونے والی مختلف آفات کے نتیجے میں ملک کو شدید معاشی نقصانات کا سامناکرنا پڑرہا ہے۔ عالمی سائنس دانوں اور ماہرین ماحولیات کا اس امر پر مکمل اتفاق ہے کہ موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں اور تیزی سے بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے بھیانک اثرات کوکم سے کم کرنے کے لیے زیادہ سے زیاد ہ درخت لگانے جنگلات کے تحفظ اور نئی شجرکاری سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

اندازے کیمطابق ایک درخت ایک سال میں تقریبا 12 کلوگرام کار بن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے، 4 افراد پر مشتمل کنبے کے لیے پورے سال کی آکسیجن کا بندوبست بھی اس کی ذمے داری ہے جب کہ ایک ہیکڑ رقبے پر موجود درخت سالانہ 6 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو جذب کرتا ہے۔ عالمی معیارکیمطابق کسی بھی ملک کے کل رقبے کے 25 فیصد حصے پر جنگلات یا درختوں کا ہونا ضروری ہے۔ ہماری بدقسمتی مگر یہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان 8 ملکوں میں کیا جاتا ہے جہاں جنگلات کے رقبے میں سالانہ سب سے زیادہ کمی واقع ہورہی ہے۔

عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے پاکستان میں جنگلات کا رقبہ مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک وزراعت (FAO)کی جاری کردہ ''گلوبل فاریسٹ اسسمنٹ رپورٹ 2015'' بتاتی ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں 1990 سے 2015 کے درمیانی عرصے میں جنگلات کے رقبے میں کمی واقع ہوئی ہے۔

اس رپورٹ میں اعدادوشمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 1990 میں پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 25 لاکھ 27 ہزارہیکڑ پر مشتمل تھا جو گھٹ کر 14 لاکھ 72 ہزار ہیکڑ رہ گیا ہے جب کہ گزشتہ 25برسوں میں پاکستانی جنگلات کے مجموعی رقبے میں 41.74 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق پاکستان جنگلات کے حوالے سے علاقے میں سب سے کم شرح رکھنے والاملک ہے ، دیگرکئی رپورٹوں میں جنگلات کی تباہی کے حولے سے پاکستان کو ایشیائی ممالک میں پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے۔


عالمی بینک کی جانب سے جاری کیے جائے والے اعداد وشمار کے مطابق 2011 سے 2015 کے درمیاں پاکستان کے کل رقبے کے 1.9 فیصد حصے پر جنگلات موجود تھے، لیکن دوسری جانب جنگلات پر تحقیق کرنیوالے پاکستان کے سرکاری ادارے پاکستان فاریسٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق مجموعی طور پر ملک کے 5.1 فیصد رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔

پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ اور نئی شجرکاری کے حوالے سے بلین ٹری سونامی منصوبے کو تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے دور میں صوبہ خیبر پختونخوا میں شروع کیا گیا، اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے 2013 میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی،اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز تاہم، 2015 میں ہوا۔ ڈبلیوڈبلیوایف پاکستان نے منصوبے کی مہم کے آڈٹ میں حکومت کو مدد فراہم کی جب کہ آئی یو سی این نے بھی اس منصوبے کی تعریف کی۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ ابتداء سے ہی بلین ٹری سونامی منصوبے کی مہم جتنی شدت سے چلائی گئی اس شدت سے اس کی شفافیت پر سوال بھی اٹھتے رہے۔ چند ماہرین ماحولیات کو چھوڑکر ان کی غالب اکثریت، اپوریشن کی جماعتیں یا متعدد قابل ذکر صحافیوں کی تحقیقاتی رپورٹیں سب اس منصوبے کی شفافیت اور کرپشن کو زیر بحث لاتے رہے۔

دوسری جانب قومی احتساب بیورو (نیب) نے بھی اس منصوبے کے حوالے سے 4 انویسٹی گیشن اور 6 مختلف انکوائریزکی منظوری دی۔ بلین ٹری منصوبہ ایک مرتبہ پھر ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا۔ سوالات ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اٹھائے، کیس تھا دریاؤں اور نہروں کے کنارے شجرکاری سے متعلق۔اعلیٰ عدالت نے بلین ٹری منصوبے کا نوٹس لیتے ہوئے منصوبے کے حوالے سے تمام متعلقہ ریکارڈ اگلی سماعت پر عدالت میں طلب کرلیا۔ معزز عدالت نے منصوبے پر اب تک خرچ کیے جانے والے اخراجات اور ان کا جواز، کتنے درخت اب تک لگے،کہاں لگے، سیٹلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر سمیت سب کچھ وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی سے طلب کرلیا۔وفاقی سیکریٹری برائے موسمیاتی تبدیلی نے عدالت کو بتایا کہ ملک بھر میں 10 لاکھ ہیکڑ رقبے پر 430 ملین درخت لگائے جاچکے ہیں۔

جس پر عدالت نے کہا کہ 430 ملین درخت اگر لگائے جاچکے ہوتے تو پورے ملک کی تقدیر بدل چکی ہوتی دوسری جانب اتنی بڑی تعداد میں درخت لگنے کے باعث ملک کا موسم تبدیل ہوجاتا۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ پورے ملک میں مجسٹریٹ کے ذریعے 430ملین درخت لگوانے کی تحقیقا ت کروائیں گے۔ اس موقعہ پر معزز بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کاغذوں میں آدھا ملک جنگل ہے اصل میں جنگل نہیں ہے۔ سماعت کے دوران معزز عدالت نے نہ صرف بلین ٹری سونامی بلکہ چاروں صوبوں میں شجرکاری کے حوالے سے انتہائی اہم سوالات اٹھائے اور احکامات بھی صادرکیے۔ ایک ماہ بعد ہونے والی سماعت پر عدالت نے سیکریٹری پلاننگ اور چاروں صوبائی سیکریٹریوں کو بھی طلب کرلیاہے۔

جنگلات کے حوالے سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور حکومت میں پہلی قومی جنگلات پالیسی کا اعلان جولائی 2015کیا گیا تھا، جس پر صوبوں نے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حوالے سے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا لیکن اس امر پر سب متفق تھے کہ یہ پالیسی ملک بھر میں موجود جنگلات کی حفاظت کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ایک پلیٹ فارم ضرورمہیا کرتی ہے۔ واضح رہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد جنگلات کا محکمہ صوبوں کے پاس ہے۔

پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے زمینی درجہ حرارت اور موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پورے ملک میں شجر کاری اور جنگلات میں اضافے کی ضرورت آج سے پہلے کبھی اتنی نہیں تھی لیکن افسوسناک حقیقت یہی ہے کہ کروڑوں اوراربوں درختوں کی شجرکاری اور وہ بھی انسانوں کے درمیان صرف اعلانات اور تصاویر تک ہی محدود ہے۔ اگر ہم صرف ملک کے سب سے بڑے گنجان آبادی والے ساحلی شہر کراچی کی بات کریں تو 2015 میں آنیوالی گرمی کی شدید لہر جس میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے میں دو کروڑ سے زائد درخت لگ چکے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں درختوں کی بے دریغ کٹائی کی طرح شجرکاری بھی ایک کاروبارکی شکل اختیا ر کرچکی ہے۔ اعلانات اور دعوے لاکھوں کروڑوں کے ہوتے ہیں زمین پر مگرکچھ نہیں ہوتا۔ آنیوالے وقتوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے جنم لینے والی آفات تیزی سے ہماری جانب بڑھ رہی ہیں۔تبصروں اور تجزیوں کا وقت کب کا گزرگیا اب عمل کرنے اورکروانے کا وقت گیا ہے۔
Load Next Story