رضائے الہٰی کا حصول اعمال کا دار و مدار نیّت پر ہے
اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ظاہر کے ساتھ انسان کے باطن کی یک سوئی اور توجہ الی اﷲ بھی ضروری ہے۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ابن آدم کی اصل کام یابی کے لیے ایمان اور عمل دونوں کو ضروری اور لازمی قرار دیا ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت اور اس سے ہر مسلمان کو اچھی طرح سے واقف ہونا چاہیے۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، ایسے لوگوں کے لیے مختلف انعامات کے وعدے کیے گئے ہیں، جن میں سے بہت سے انعامات تو اس دنیا میں بھی مل جاتے ہیں جب کہ دوسرے بہت سے انعامات اﷲ تعالیٰ اپنے ان محبوب بندوں کو آخرت میں دیں گے۔
سب سے بڑی کام یابی یہ ہے کہ وہ آخرت میں جو اصل اور ہمیشہ کی زندگی ہے، اﷲ کی نعمتوں اور خصوصی فضل و عنایت کے حق دار قرار دیے جائیں گے اور انہیں اپنے کیے کا بھرپور بدلہ ملے گا۔ لیکن ایک اہم بات جس پر اسلام نے بہت زور دیا ہے اسے بھی یاد رکھنا چاہیے، بل کہ اس کے بغیر ہمارے اعمال پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں ہوگا اور وہ یہ ہے کہ ہمارے نیک ا عمال میں اخلاص ہو، اور اخلاص کا مطلب یہی ہے کہ جو بھی نیک کام ہم کریں اسے فقط اﷲ کی خوش نودی اور اس کی رضا کے لیے کریں۔
کوئی بھی نیک عمل ریاکاری اور لوگوں کی نگاہ میں محترم بننے کے لیے کیا جا رہا ہو تو وقتی طور پر ہمیں اپنے مقاصد تو حاصل ہوجائیں گے مگر جو اس کا اصل مقصد یعنی اجر و ثواب اور عنداﷲ مقبولیت ہمیں ہرگز حاصل نہیں ہوگی۔
احادیث کا مفہوم: ''انسان کے تمام اعمال کا دار و مدار اس کی نیّت پر ہے اور آدمی کو اس کی نیّت کے مطابق ہی اجر ملے گا، پس جس شخص نے اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت درحقیقت اﷲ اور رسولؐ کی طرف ہی ہوئی اورجس شخص نے کسی دنیا وی غرض یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہجرت کی تو عنداﷲ اس کی ہجرت اسی کی طرف مانی جائے گی۔''
اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ظاہر کے ساتھ انسان کے باطن کی یک سوئی اور توجہ الی اﷲ بھی ضروری ہے اور اس کے بعد ہی انسان کا عمل اس لائق ہوگا کہ اس پر اجر و ثواب مرتب ہو۔ اس موقع پر ممکن ہے کسی شخص کے ذہن میں یہ غلط فہمی پیدا ہوجائے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کے نزدیک کسی بھی عمل کے قبولیت کا دار و مدار نیّت پر ہے، تو اگر کوئی انسان کسی غلط عمل کو اگر اچھی نیّت سے کریں تو وہ درست ہونا چاہیے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص چوری کرتا ہے یا ڈاکا ڈالتا ہے اور ا س کی سوچ اور نیت یہ ہے کہ وہ چوری کیے ہوئے مال کو غریبوں، مساکین اور یتیموں میں تقسیم کروں گا، تو اس کا یہ عمل درست ہونا چاہیے؟ اس سلسلے میں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جو عمل قبیح اور بُرا ہے۔
اس کے بُرا ہونے اور اﷲ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب ہونے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں، بل کہ اگر کوئی شخص کسی بھی قبیح عمل کو اچھی نیّت سے کرے تو عین ممکن ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی مزید سخت پکڑ کا شکار ہوجائے، کیوں کہ یہ تو اﷲ تعالیٰ کے دین اور اس کے حکم کے ساتھ مذاق کرنے جیسا ہے۔
حدیث کی رو سے اگر کوئی مسلمان پابندی کے ساتھ پنج وقتہ نمازیں پڑھتا ہے، نوافل و مستحبات کا بھی اہتمام کرتا ہے اور ایسا کرنے سے اس کی غرض یہ ہے کہ پاس پڑوس کے لوگ اسے اچھی نظروں سے دیکھیں اور اسے معاشرے میں وقار حاصل ہو تو یقینا ً اس کی یہ نمازیں ضایع جائیں گی اور ان پر کوئی بھی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ ال غرض بڑے سے بڑے عمل کے مقبول ہونے کے لیے بھی ہماری نیّت کا درست اور خالص ہونا لازمی ہے، اس کے بغیر عمل کرنا یا نہ کرنا دونوں برابر ہیں۔
ایک طویل حدیث رسول ﷺ میں عملِ صالح کے اس اہم پہلو پر مزید تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ حدیث پاک مسلم شریف میں نقل کی گئی ہے اور اس میں ایسے تین لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جواس جہاں میں اپنی نیک اعمال کی وجہ سے بڑے مشہور معروف ہوں گے لیکن بہ روز قیامت میں اﷲ تعالیٰ انہیں جہنم میں ڈالنے کا حکم فرمائیں گے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں ایک وہ شخص ہوگا جو راہِ خدا میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا ہوگا، حساب کتاب کے دوران اسے پہلے دنیا میں اسے دی جانے والی نعمتیں یاد دلائی جائیں گی پھر پوچھا جائے گا کہ تم نے اﷲ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ تو وہ کہے گا کہ یااﷲ میں نے تیری راہ میں جہاد کرکے اور اپنی جان قربان کرکے تیری نعمتوں کا حق ادا کیا۔
تو اﷲ کی طرف سے ارشاد ہوگا کہ تم جھوٹے ہو تم نے جہاد تو محض اس لیے کیا کہ دنیا کے لوگ تمہیں بڑا بہادر آدمی سمجھیں، پس دنیا میں تو تیری بہادری کا چرچا ہوتا رہا اور پھر اس شخص کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
دوسرا شخص وہ عالم دین اور عالم قرآن ہوگا اس سے بھی اسی طرح کا سوال کیا جائے گا اور جواب میں کہے گا کہ خدایا! میں نے تیرے دین اور تیری کتاب کا علم حاصل کیا اور اسے لوگوں میں پھیلایا اور بے شمار لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دی، تو اسے کہا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم نے یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تمہیں عالم، قاری اور مولانا کہیں پس تمہیں دنیا میں تو یہ سب کہا گیا۔
اور پھر اسے بھی جہنم میں ڈالنے کا حکم صادر ہوگا۔ اس کے بعد ایک تیسرا شخص پیش ہوگا، جس نے دنیا میں غریبوں، مسکینوں اور یتیموں پر اپنے مال و دولت خرچ کرتا ہوگا، ان کی ضرورتوں میں کام آیا ہوگا، اﷲ تعالیٰ جب اس سے دریافت کرے گا کہ میری نعمتوں کا حق کس طرح ادا کیا تو وہ اپنی سخاوت کے حوالے دے گا۔ جس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو، تم نے تو یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تمھیں سخی کہیں اور تمہاری سخاوت کا چرچا کیا جائے پس دنیا میں تو تمہاری خوب شہرت ہوچکی اور پھر اس شخص کو بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
مسلمان کوئی بھی نیک اعمال کریں تو صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھیں۔ ان تمام ارشادات اور تعلیمات کی روشنی میں ہم مسلمانوں کو اپنے اعمال کا بہ غور جائزہ لینا ہوگا اور جو بھی نیک اعمال ہم کرتے
ہیں ان کی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ آج کل بدقسمتی سے مسلمانوں کا رشتہ اپنے دین سے اور اعمالِ خیر سے مسلسل ختم ہوتا جارہا ہے اور جو بھی نیک اعمال کرتے ہیں، ان میں بھی ریاکاری، دوسروں
کے سامنے اپنی اہمیت جتانے اور دوسروں کے سامنے اچھا بننے جیسی بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے کی جانے والی ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں اور ہماری ذلت و
پستی کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جب تک کہ ہم اپنے حقیقی دین اسلام کی طرف مخلصانہ رجوع نہیں کریں گے اور اپنے اعمال کو درست کرنے کے ساتھ ان میں اخلاص پیدا نہیں کریں گے، اس وقت تک اﷲ کی رحمت اور اس کی خاص توجہ کا حصول مشکل ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں نیک اعمال کی توفیق نصیب فرمائے۔ (آمین)
قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، ایسے لوگوں کے لیے مختلف انعامات کے وعدے کیے گئے ہیں، جن میں سے بہت سے انعامات تو اس دنیا میں بھی مل جاتے ہیں جب کہ دوسرے بہت سے انعامات اﷲ تعالیٰ اپنے ان محبوب بندوں کو آخرت میں دیں گے۔
سب سے بڑی کام یابی یہ ہے کہ وہ آخرت میں جو اصل اور ہمیشہ کی زندگی ہے، اﷲ کی نعمتوں اور خصوصی فضل و عنایت کے حق دار قرار دیے جائیں گے اور انہیں اپنے کیے کا بھرپور بدلہ ملے گا۔ لیکن ایک اہم بات جس پر اسلام نے بہت زور دیا ہے اسے بھی یاد رکھنا چاہیے، بل کہ اس کے بغیر ہمارے اعمال پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں ہوگا اور وہ یہ ہے کہ ہمارے نیک ا عمال میں اخلاص ہو، اور اخلاص کا مطلب یہی ہے کہ جو بھی نیک کام ہم کریں اسے فقط اﷲ کی خوش نودی اور اس کی رضا کے لیے کریں۔
کوئی بھی نیک عمل ریاکاری اور لوگوں کی نگاہ میں محترم بننے کے لیے کیا جا رہا ہو تو وقتی طور پر ہمیں اپنے مقاصد تو حاصل ہوجائیں گے مگر جو اس کا اصل مقصد یعنی اجر و ثواب اور عنداﷲ مقبولیت ہمیں ہرگز حاصل نہیں ہوگی۔
احادیث کا مفہوم: ''انسان کے تمام اعمال کا دار و مدار اس کی نیّت پر ہے اور آدمی کو اس کی نیّت کے مطابق ہی اجر ملے گا، پس جس شخص نے اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت درحقیقت اﷲ اور رسولؐ کی طرف ہی ہوئی اورجس شخص نے کسی دنیا وی غرض یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہجرت کی تو عنداﷲ اس کی ہجرت اسی کی طرف مانی جائے گی۔''
اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ظاہر کے ساتھ انسان کے باطن کی یک سوئی اور توجہ الی اﷲ بھی ضروری ہے اور اس کے بعد ہی انسان کا عمل اس لائق ہوگا کہ اس پر اجر و ثواب مرتب ہو۔ اس موقع پر ممکن ہے کسی شخص کے ذہن میں یہ غلط فہمی پیدا ہوجائے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کے نزدیک کسی بھی عمل کے قبولیت کا دار و مدار نیّت پر ہے، تو اگر کوئی انسان کسی غلط عمل کو اگر اچھی نیّت سے کریں تو وہ درست ہونا چاہیے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص چوری کرتا ہے یا ڈاکا ڈالتا ہے اور ا س کی سوچ اور نیت یہ ہے کہ وہ چوری کیے ہوئے مال کو غریبوں، مساکین اور یتیموں میں تقسیم کروں گا، تو اس کا یہ عمل درست ہونا چاہیے؟ اس سلسلے میں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جو عمل قبیح اور بُرا ہے۔
اس کے بُرا ہونے اور اﷲ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب ہونے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں، بل کہ اگر کوئی شخص کسی بھی قبیح عمل کو اچھی نیّت سے کرے تو عین ممکن ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی مزید سخت پکڑ کا شکار ہوجائے، کیوں کہ یہ تو اﷲ تعالیٰ کے دین اور اس کے حکم کے ساتھ مذاق کرنے جیسا ہے۔
حدیث کی رو سے اگر کوئی مسلمان پابندی کے ساتھ پنج وقتہ نمازیں پڑھتا ہے، نوافل و مستحبات کا بھی اہتمام کرتا ہے اور ایسا کرنے سے اس کی غرض یہ ہے کہ پاس پڑوس کے لوگ اسے اچھی نظروں سے دیکھیں اور اسے معاشرے میں وقار حاصل ہو تو یقینا ً اس کی یہ نمازیں ضایع جائیں گی اور ان پر کوئی بھی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ ال غرض بڑے سے بڑے عمل کے مقبول ہونے کے لیے بھی ہماری نیّت کا درست اور خالص ہونا لازمی ہے، اس کے بغیر عمل کرنا یا نہ کرنا دونوں برابر ہیں۔
ایک طویل حدیث رسول ﷺ میں عملِ صالح کے اس اہم پہلو پر مزید تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ حدیث پاک مسلم شریف میں نقل کی گئی ہے اور اس میں ایسے تین لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جواس جہاں میں اپنی نیک اعمال کی وجہ سے بڑے مشہور معروف ہوں گے لیکن بہ روز قیامت میں اﷲ تعالیٰ انہیں جہنم میں ڈالنے کا حکم فرمائیں گے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں ایک وہ شخص ہوگا جو راہِ خدا میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا ہوگا، حساب کتاب کے دوران اسے پہلے دنیا میں اسے دی جانے والی نعمتیں یاد دلائی جائیں گی پھر پوچھا جائے گا کہ تم نے اﷲ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ تو وہ کہے گا کہ یااﷲ میں نے تیری راہ میں جہاد کرکے اور اپنی جان قربان کرکے تیری نعمتوں کا حق ادا کیا۔
تو اﷲ کی طرف سے ارشاد ہوگا کہ تم جھوٹے ہو تم نے جہاد تو محض اس لیے کیا کہ دنیا کے لوگ تمہیں بڑا بہادر آدمی سمجھیں، پس دنیا میں تو تیری بہادری کا چرچا ہوتا رہا اور پھر اس شخص کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
دوسرا شخص وہ عالم دین اور عالم قرآن ہوگا اس سے بھی اسی طرح کا سوال کیا جائے گا اور جواب میں کہے گا کہ خدایا! میں نے تیرے دین اور تیری کتاب کا علم حاصل کیا اور اسے لوگوں میں پھیلایا اور بے شمار لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دی، تو اسے کہا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم نے یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تمہیں عالم، قاری اور مولانا کہیں پس تمہیں دنیا میں تو یہ سب کہا گیا۔
اور پھر اسے بھی جہنم میں ڈالنے کا حکم صادر ہوگا۔ اس کے بعد ایک تیسرا شخص پیش ہوگا، جس نے دنیا میں غریبوں، مسکینوں اور یتیموں پر اپنے مال و دولت خرچ کرتا ہوگا، ان کی ضرورتوں میں کام آیا ہوگا، اﷲ تعالیٰ جب اس سے دریافت کرے گا کہ میری نعمتوں کا حق کس طرح ادا کیا تو وہ اپنی سخاوت کے حوالے دے گا۔ جس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو، تم نے تو یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تمھیں سخی کہیں اور تمہاری سخاوت کا چرچا کیا جائے پس دنیا میں تو تمہاری خوب شہرت ہوچکی اور پھر اس شخص کو بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
مسلمان کوئی بھی نیک اعمال کریں تو صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھیں۔ ان تمام ارشادات اور تعلیمات کی روشنی میں ہم مسلمانوں کو اپنے اعمال کا بہ غور جائزہ لینا ہوگا اور جو بھی نیک اعمال ہم کرتے
ہیں ان کی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ آج کل بدقسمتی سے مسلمانوں کا رشتہ اپنے دین سے اور اعمالِ خیر سے مسلسل ختم ہوتا جارہا ہے اور جو بھی نیک اعمال کرتے ہیں، ان میں بھی ریاکاری، دوسروں
کے سامنے اپنی اہمیت جتانے اور دوسروں کے سامنے اچھا بننے جیسی بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے کی جانے والی ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں اور ہماری ذلت و
پستی کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جب تک کہ ہم اپنے حقیقی دین اسلام کی طرف مخلصانہ رجوع نہیں کریں گے اور اپنے اعمال کو درست کرنے کے ساتھ ان میں اخلاص پیدا نہیں کریں گے، اس وقت تک اﷲ کی رحمت اور اس کی خاص توجہ کا حصول مشکل ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں نیک اعمال کی توفیق نصیب فرمائے۔ (آمین)