پاسکو میں غیر قانونی بھرتیاں مبینہ کرپشن نیب اور ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کر دیں
تحقیقاتی اداروں کوٹھوس شواہدکیساتھ ملنے والی شکایت اورمعلومات کے مطابق مشتہر195 آسامیوں کی جگہ 294 افرادبھرتی کیے گئے
نیب اور ایف آئی اے نے پاسکو میں ہونے والی بھرتیوں میں سنگین بے قاعدگیوں اور مبینہ کرپشن کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔
نیب اور ایف آئی اے نے وفاقی محکمہ پاسکو میں بڑی تعداد میں ہونے والی بھرتیوں میں سنگین بے قاعدگیوں اور مبینہ کرپشن کی تحقیقات کا آغاز کردیا جبکہ بھرتی کے عمل میں شامل پاسکو میں اہم عہدوں پر براجمان حکام نے تحقیقاتی اداروں کو مبہم اور غیر واضح تفصیلات کی فراہمی کر کے معاملہ دبانے کی کوششیں شروع کر دیں۔
تحقیقاتی اداروں کو ٹھوس شواہد کے ساتھ ملنے والی شکایت اور معلومات کے مطابق مشتہر کی گئی 195 آسامیوں کی جگہ 294 افراد کو بھرتی کیا گیا ، پاکستان ٹیسٹنگ سروس کے امتحان میں فیل ہونے والوں سمیت امتحان میں شرکت نہ کرنے والے اور زائد العمر افراد کو بھی بھرتی کیا گیا جبکہ پاسکو کیڈر میں خواتین کیلیے آسامی نہ ہونے کے باوجود '' اسسٹنٹ پر چیز انسپکٹر '' کے عہدے پر خواتین کو بھرتی کیا گیا۔
تحریری امتحان میں زیادہ نمبر لینے والوں کو نظر انداز کر کے کم نمبر والے افراد بھرتی ہوئے، ڈرائیور کی آسامی پر ایسے افراد بھرتی ہوئے جن میں سے کچھ کے پاس اس وقت ڈرائیونگ لائسنس ہی موجود نہیں تھا یا لرنر لائسنس موجود تھا ، درخواستوں کے مطابق غیر قانونی بھرتیوں میں ایک ریٹائرڈ سابق ایم ڈی پاسکو اور ان کے چہیتے بعض افسروں کا مرکزی کردار ہے۔
پنجاب کی نیب اور ایف آئی اے کو پاسکو میں غیر قانونی بھرتیوں کے حوالے سے شواہد سمیت درخواستیں موصول ہوئیں جن پر دونوں محکموں نے کارروائی کا آغاز کردیا تاہم کورونا کی وجہ سے تحقیقات کی رفتار سست ہونے سے مبینہ طور پر ملوث پاسکو حکام نے بھی تحقیقات پر اثر انداز ہونے اور انہیں ختم کروانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
نیب لاہور میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر انعم شکیل اور ایف آئی اے میں ناصرا عوان کو تحقیقاتی افسر مقرر کیا گیا ہے جبکہ دونوں ادارے پاسکو سے ریکارڈ بھی طلب کر چکے۔
تحقیقاتی اداروں کو دی جانے والی درخواست کے مطابق پاسکو کی جانب سے اخبار میں دیئے گئے بھرتی اشتہار میں منیجر (پے سکیل 18 ) سے لیکر چوکیدار عہدے تک 195 آسامیوں کیلئے درخواستیں طلب کی گئیں لیکن 294 افراد بھرتی کئے گئے، گریڈ 16 کے پرچیز انسپکٹر کی 30 آسامیوں کے مقابل 37 انسپکٹر بھرتی ہوئے، گریڈ 11 کے سب انجینئر کی مشتہر کردہ 1 آسامی کے مقابل 3 بھرتیاں ہوئیں، گریڈ 14 کے اکائونٹنٹ کی مشتہر کردہ 2 آسامیوں کی بجائے 6 افراد بھرتی ہوئے ، گریڈ 9 کے جونیئر کلر ک کی 5 آسامیوں کا اشتہار دیا گیا لیکن 20 افراد بھرتی ہوئے۔
گریڈ 7 کے اسسٹنٹ پرچیز انسپکٹر کی 69 آسامیوں کے اشتہار کے برعکس 104 افراد کو بھرتی کیا گیا ، ڈرائیور کی 15 آسامیوں کا اشتہار دیکر 35 افراد کو بھرتی کیا گیا ، اکائونٹ افسر کے عہدے پر ایسے فرد کو بھرتی کیا گیا جو پی ٹی ایس میں فیل ہوا تھا ، پرچیز انسپکٹر کی آسامی پر ایک ایسے فرد کو بھرتی کیا گیا جس نے تحریری امتحان میں حصہ بھی نہیں لیا لیکن ایک سابق ایم ڈی پاسکو کے پی ایس او کا بھانجا ہونے کی وجہ سے اسے بھرتی کر لیا گیا ، اس وقت کے وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی کی سفارش پر تحریری امتحان میں فیل شدہ دو افراد بھرتی ہوئے۔
اکائونٹنٹ کے عہدے پر ایک فیل شدہ امیدوار کے ساتھ ساتھ بنا امتحان 4 افراد بھرتی ہوئے، پرچیز انسپکٹر کی آسامی کیلئے تحریری امتحان میں فیل ہونے والے 8 افراد کے علاوہ امتحان نہ دینے والے 4 افراد کو بھرتی کیا گیا، ان میں سے ایک امیدوار سابق ایم ڈی پاسکو محمد خان کچھی کے منشی کا بیٹا ہے، بنا پی ٹی ایس امتحان والے ایک امیدوار کو مبینہ طور پر موجودہ ایم ڈی پاسکو کی سفارش پر بھرتی کیا گیا۔
اسی طرح ایک کم نمبر لینے والے امیدوار کو منتخب کیا گیا، پی ٹی ایس امتحان لئے بغیر 15 افراد کو جونیئر کلرک بھرتی کیا گیا، جن میں سے کئی زائد العمر ہیں جبکہ چند ایسے بھی ہیں جنہوں نے امتحان کسی دوسری آسامی کیلئے دیا تھا، اسسٹنٹ پرچیز انسپکٹر کی آسامیوں پر 21 افراد کو بنا تحریری امتحان کے بھرتی کیا گیا جبکہ 53 افراد امتحان میں فیل ہونے کے باوجود بھرتی ہوگئے۔ پاسکو میں خواتین کیلئے اسسٹنٹ پرچیز انسپکٹر کا عہدہ نہیں لیکن دو خواتین کو بھی بھرتی کیا گیا۔
نیب اور ایف آئی کو دی جانے والی درخواستوں میں کہا گیا کہ گزشتہ سال ہونے والی ان بھرتیوں میں سنگین بے قاعدگیوں اور کرپشن کی مبینہ ذمہ داری اس وقت کے ایم ڈی پاسکو محمد خان کچھی ، جنرل منیجر ہیومن ریسورس نصرت کمال اور محمد کچھی کے دست راست پاسکو زونل ہیڈ ملک الطاف حسین پر عائد ہوتی ہے جبکہ موجودہ ایم ڈی پاسکو عمران ناصر جو کہ محمد خان کچھی کے دور میں جنرل منیجر ہیومن ریسورس کے عہدے پر تعینات رہے ہیں انہوں نے بھی سفارش پر خلاف ضابطہ بعض افراد بھرتی کرائے۔
''ایکسپریس'' نے موجودہ ایم ڈی پاسکو عمران ناصر اور جنرل منیجر پاسکو نصرت کمال کا موقف معلوم کرنے کیلئے انہیں متعدد مرتبہ فون اور میسج کیا لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔
نیب اور ایف آئی اے نے وفاقی محکمہ پاسکو میں بڑی تعداد میں ہونے والی بھرتیوں میں سنگین بے قاعدگیوں اور مبینہ کرپشن کی تحقیقات کا آغاز کردیا جبکہ بھرتی کے عمل میں شامل پاسکو میں اہم عہدوں پر براجمان حکام نے تحقیقاتی اداروں کو مبہم اور غیر واضح تفصیلات کی فراہمی کر کے معاملہ دبانے کی کوششیں شروع کر دیں۔
تحقیقاتی اداروں کو ٹھوس شواہد کے ساتھ ملنے والی شکایت اور معلومات کے مطابق مشتہر کی گئی 195 آسامیوں کی جگہ 294 افراد کو بھرتی کیا گیا ، پاکستان ٹیسٹنگ سروس کے امتحان میں فیل ہونے والوں سمیت امتحان میں شرکت نہ کرنے والے اور زائد العمر افراد کو بھی بھرتی کیا گیا جبکہ پاسکو کیڈر میں خواتین کیلیے آسامی نہ ہونے کے باوجود '' اسسٹنٹ پر چیز انسپکٹر '' کے عہدے پر خواتین کو بھرتی کیا گیا۔
تحریری امتحان میں زیادہ نمبر لینے والوں کو نظر انداز کر کے کم نمبر والے افراد بھرتی ہوئے، ڈرائیور کی آسامی پر ایسے افراد بھرتی ہوئے جن میں سے کچھ کے پاس اس وقت ڈرائیونگ لائسنس ہی موجود نہیں تھا یا لرنر لائسنس موجود تھا ، درخواستوں کے مطابق غیر قانونی بھرتیوں میں ایک ریٹائرڈ سابق ایم ڈی پاسکو اور ان کے چہیتے بعض افسروں کا مرکزی کردار ہے۔
پنجاب کی نیب اور ایف آئی اے کو پاسکو میں غیر قانونی بھرتیوں کے حوالے سے شواہد سمیت درخواستیں موصول ہوئیں جن پر دونوں محکموں نے کارروائی کا آغاز کردیا تاہم کورونا کی وجہ سے تحقیقات کی رفتار سست ہونے سے مبینہ طور پر ملوث پاسکو حکام نے بھی تحقیقات پر اثر انداز ہونے اور انہیں ختم کروانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
نیب لاہور میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر انعم شکیل اور ایف آئی اے میں ناصرا عوان کو تحقیقاتی افسر مقرر کیا گیا ہے جبکہ دونوں ادارے پاسکو سے ریکارڈ بھی طلب کر چکے۔
تحقیقاتی اداروں کو دی جانے والی درخواست کے مطابق پاسکو کی جانب سے اخبار میں دیئے گئے بھرتی اشتہار میں منیجر (پے سکیل 18 ) سے لیکر چوکیدار عہدے تک 195 آسامیوں کیلئے درخواستیں طلب کی گئیں لیکن 294 افراد بھرتی کئے گئے، گریڈ 16 کے پرچیز انسپکٹر کی 30 آسامیوں کے مقابل 37 انسپکٹر بھرتی ہوئے، گریڈ 11 کے سب انجینئر کی مشتہر کردہ 1 آسامی کے مقابل 3 بھرتیاں ہوئیں، گریڈ 14 کے اکائونٹنٹ کی مشتہر کردہ 2 آسامیوں کی بجائے 6 افراد بھرتی ہوئے ، گریڈ 9 کے جونیئر کلر ک کی 5 آسامیوں کا اشتہار دیا گیا لیکن 20 افراد بھرتی ہوئے۔
گریڈ 7 کے اسسٹنٹ پرچیز انسپکٹر کی 69 آسامیوں کے اشتہار کے برعکس 104 افراد کو بھرتی کیا گیا ، ڈرائیور کی 15 آسامیوں کا اشتہار دیکر 35 افراد کو بھرتی کیا گیا ، اکائونٹ افسر کے عہدے پر ایسے فرد کو بھرتی کیا گیا جو پی ٹی ایس میں فیل ہوا تھا ، پرچیز انسپکٹر کی آسامی پر ایک ایسے فرد کو بھرتی کیا گیا جس نے تحریری امتحان میں حصہ بھی نہیں لیا لیکن ایک سابق ایم ڈی پاسکو کے پی ایس او کا بھانجا ہونے کی وجہ سے اسے بھرتی کر لیا گیا ، اس وقت کے وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی کی سفارش پر تحریری امتحان میں فیل شدہ دو افراد بھرتی ہوئے۔
اکائونٹنٹ کے عہدے پر ایک فیل شدہ امیدوار کے ساتھ ساتھ بنا امتحان 4 افراد بھرتی ہوئے، پرچیز انسپکٹر کی آسامی کیلئے تحریری امتحان میں فیل ہونے والے 8 افراد کے علاوہ امتحان نہ دینے والے 4 افراد کو بھرتی کیا گیا، ان میں سے ایک امیدوار سابق ایم ڈی پاسکو محمد خان کچھی کے منشی کا بیٹا ہے، بنا پی ٹی ایس امتحان والے ایک امیدوار کو مبینہ طور پر موجودہ ایم ڈی پاسکو کی سفارش پر بھرتی کیا گیا۔
اسی طرح ایک کم نمبر لینے والے امیدوار کو منتخب کیا گیا، پی ٹی ایس امتحان لئے بغیر 15 افراد کو جونیئر کلرک بھرتی کیا گیا، جن میں سے کئی زائد العمر ہیں جبکہ چند ایسے بھی ہیں جنہوں نے امتحان کسی دوسری آسامی کیلئے دیا تھا، اسسٹنٹ پرچیز انسپکٹر کی آسامیوں پر 21 افراد کو بنا تحریری امتحان کے بھرتی کیا گیا جبکہ 53 افراد امتحان میں فیل ہونے کے باوجود بھرتی ہوگئے۔ پاسکو میں خواتین کیلئے اسسٹنٹ پرچیز انسپکٹر کا عہدہ نہیں لیکن دو خواتین کو بھی بھرتی کیا گیا۔
نیب اور ایف آئی کو دی جانے والی درخواستوں میں کہا گیا کہ گزشتہ سال ہونے والی ان بھرتیوں میں سنگین بے قاعدگیوں اور کرپشن کی مبینہ ذمہ داری اس وقت کے ایم ڈی پاسکو محمد خان کچھی ، جنرل منیجر ہیومن ریسورس نصرت کمال اور محمد کچھی کے دست راست پاسکو زونل ہیڈ ملک الطاف حسین پر عائد ہوتی ہے جبکہ موجودہ ایم ڈی پاسکو عمران ناصر جو کہ محمد خان کچھی کے دور میں جنرل منیجر ہیومن ریسورس کے عہدے پر تعینات رہے ہیں انہوں نے بھی سفارش پر خلاف ضابطہ بعض افراد بھرتی کرائے۔
''ایکسپریس'' نے موجودہ ایم ڈی پاسکو عمران ناصر اور جنرل منیجر پاسکو نصرت کمال کا موقف معلوم کرنے کیلئے انہیں متعدد مرتبہ فون اور میسج کیا لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔