ہیش ٹیگ کی بھی اخلاقیات ہونی چاہئیں

یہ ہیش ٹیگز دیکھ کر یوں لگا جیسے صارف ذہنیت نے ٹیکنالوجی کے خنجر سے اخلاقیات کا خون کردیا ہو


علیم احمد December 15, 2020
بے لگام آزادی نے ہیش ٹیگز کی غیر ذمہ دارانہ تخلیق اور استعمال کا ایک نیا غضب ڈھا دیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ISLAMABAD: 9 دسمبر 2020 کے روز پاکستانی سوشل میڈیا کی تاریخ میں اب تک کے تین بیہودہ ترین ہیش ٹیگز ٹرینڈ کررہے تھے۔ اردو میں تخلیق کیے گئے یہ تینوں ہیش ٹیگز جس اخلاقی گراوٹ کے مظہر تھے، اس سے زیادہ اخلاقی پستی کا ثبوت وہ ہزاروں لوگ دے رہے تھے جو اِن ہیش ٹیگز پر تنقید کرنے، یا پھر اپنی غیر متعلقہ پوسٹس کو سوشل میڈیا پر مقبول بنانے کےلیے یہی ہیش ٹیگز جگہ بے جگہ استعمال کررہے تھے۔ سچ کہوں تو اُس روز مجھے یوں لگا جیسے صارف ذہنیت نے ٹیکنالوجی کے خنجر سے اخلاقیات کا خون کردیا ہو اور انسانی شکل والے حیوانوں کا ریوڑ، اخلاقیات کا جنازہ اٹھائے کسی نامعلوم قبرستان کی سمت رواں دواں ہو۔

ایسے میں یہ مطالبہ مکمل جواز رکھتا ہے کہ نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ ''ہیش ٹیگز'' کو بھی اخلاقیات کا پابند بنانا ضروری ہے ورنہ پانی سر سے اونچا ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اب اس کےلیے قانون سازی کی جائے یا نئے ادارے بنائے جائیں، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اگر سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی بداخلاقی کو نہ روکا گیا تو شاید ''قعرِ مذلّت'' کا استعارہ بھی ہماری اخلاقی پستی کی ترجمانی نہیں کرسکے گا۔

بہت سی دوسری تبدیلیوں کی طرح آج ہم نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ایک معصوم سا ہیش ٹیگ کس طرح ایک خطرناک ہتھیار میں تبدیل ہوگیا... یا یہ کہ تبدیل کردیا گیا۔ یہ غیر دلچسپ تحریر بھی اسی بارے میں ہے۔

برسوں سے عدد (نمبر) کی علامت کا درجہ رکھنے والے ''پاؤنڈ سائن'' (#) المعروف ''ہیش'' کو جب 24 اگست 2007 کے روز کرس میسینا نے پہلی بار ٹوئٹر پر ''ہیش ٹیگ'' کے عنوان سے متعارف کروایا تو اس کا بنیادی مقصد کسی خاص موضوع یا کسی خاص نکتے سے متعلق ٹویٹس کی تلاش آسان بنانا تھا: قابلِ توجہ لفظ کے شروع میں ایک ہیش ٹیگ لگا دیا جاتا تھا اور یوں وہ آن لائن سرچنگ میں بھی نمایاں ہو جاتا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ سوشل میڈیا اپنی ترقی و مقبولیت کی منزلیں طے کرتا چلا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ''ہیش ٹیگ'' نے صرف ترقی ہی نہیں کی بلکہ سوشل میڈیا پر کسی موضوع کی مقبولیت کا استعارہ بھی بن گیا۔ آج سوشل میڈیا پر کیا ''ٹرینڈ'' کر رہا ہے؟ کیا چیز زیادہ مقبول ہے؟ یہ جاننے کا اہم ترین پیمانہ، متعلقہ ہیش ٹیگز قرار پائے۔

لیکن سوشل میڈیا اور ہیش ٹیگ کا معاملہ ''جیسی روح، ویسے فرشتے'' سے کچھ مختلف نہ ہوسکا۔ نام نہاد ''سوشل میڈیا ایکسپرٹس'' کے ٹولے نے ہیش ٹیگز سے خوب فائدہ اٹھایا، جسے صرف اس بات سے غرض تھی کہ آج کون کون سے ہیش ٹیگز ''ٹرینڈنگ'' میں ہیں۔ بس وہ انہی ہیش ٹیگز کو اپنی پوسٹس، بالخصوص ٹویٹس میں شامل کرنے لگے تاکہ (اُن ہیش ٹیگز سے غیر متعلق ہونے کے باوجود) انہیں توجہ مل سکے۔ اخلاق، تہذیب، تمدن، تمیز اور شائستگی، ایسی کسی چیز سے ان سوشل میڈیا ماہرین کو دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہ تو صرف ''بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا'' کے مصرعے پر عمل کر رہے تھے (اور آج تک کررہے ہیں)۔

ایسا بالکل بھی نہیں کہ ہیش ٹیگز کا استعمال ہمیشہ ہی غلط رہا۔ سیاسی و سماجی مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف بنائے گئے ہیش ٹیگز کی بدولت سوشل میڈیا پر احتجاج کو ایک نیا انداز ملا جبکہ برائیوں کے خاتمے میں مدد بھی ملی۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ وقت بھی آن پہنچا کہ ہیش ٹیگز کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا، یہ سلسلہ بھی آج تک جاری ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز میں بھی ایسے ہی لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں جو کسی پوسٹ کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ''بوسٹ'' دے سکیں۔ ان کےلیے یہ بات غیر اہم ہے کہ وہ اخلاقیات کا شعور رکھتے ہوں یا اپنی سیاسی جماعت کے وفادار ہوں۔ انہیں تو صرف ''اس قابل'' ہونا چاہئے کہ وہ نت نئے ہیش ٹیگز تخلیق کرسکیں اور ''پھڑک دار'' قسم کی سوشل میڈیا پوسٹس بنا سکیں۔ ان کےلیے صرف یہ ''قابلیت'' ہی کافی ہے۔

سوشل میڈیا کے طفیل ''آزادیٔ اظہار'' کے نام پر ملنے والی بے لگام آزادی نے ہیش ٹیگز کی غیر ذمہ دارانہ تخلیق اور استعمال کے ساتھ مل کر ایک نیا غضب ڈھا دیا: جس کا جو دل چاہتا، اور جیسے دل چاہتا، سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے لگا... صحیح غلط، مہذب غیر مہذب کی کوئی قید نہیں رہی۔

جس طرح پانی اپنی پنسال میں آجاتا ہے، ٹھیک اسی طرح انسان بھی اخلاقیات کے معاملے میں فطرتاً پستی در پستی کا عمومی رجحان رکھتا ہے۔ بے تکلف دوستوں کی محفل ہو اور اس میں بیہودہ مذاق یا گالم گلوچ نہ ہوں، ایسا ہونا بہت مشکل ہے۔ محلے میں اونچی آواز سے گونجنے والی گالی پر سب متوجہ ہوجاتے ہیں اور اسے تادیر یاد بھی رکھتے ہیں۔

یہ اخلاقی پستی کا وہی رجحان ہے جسے سوشل میڈیا نے ایڑ لگا دی ہے۔ سوشل میڈیا پر دی جانے والی گالی ساری دنیا میں سنی جاتی ہے؛ اور اگر وہ گالی ''ہیش ٹیگ'' کی شکل میں ہو تو اس کی گونج اور بھی زیادہ شدید ہوجاتی ہے۔

دنیا کی اکثر سیاسی جماعتیں اپنے سوشل میڈیا ونگز کو استعمال کرتے ہوئے نت نئے ہیش ٹیگز تخلیق کرواتی ہیں، پھر تھوڑی ہی دیر میں ان ہیش ٹیگز کو استعمال کرنے والی پوسٹس/ ٹویٹس کی بھرمار کردی جاتی ہے... ٹویٹ ری ٹویٹ، شیئر اور ری شیئر کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے جس میں ہر بار وہ مخصوص ہیش ٹیگز شامل ہوتے ہیں جنہیں مقبول بنانا، یعنی ''ٹرینڈ کرانا'' مقصود ہوتا ہے۔

اس درمیان میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جنہیں صرف اس بات سے سروکار ہوتا ہے کہ ان کی پوسٹس زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں اور وہ ''مقبول'' ہوجائیں۔ اپنی اسی خواہش کی تکمیل کےلیے وہ ''ٹرینڈنگ ہیش ٹیگز'' کی بیساکھی استعمال کرتے ہیں۔

ٹوئٹر کی جانب سے خودکار طور پر یہ انتظام ہے کہ وہ نہ صرف دنیا بھر میں بلکہ کسی خاص ملک میں بھی، کسی خاص وقت پر ''ٹرینڈ'' کرنے والے ہیش ٹیگز کی تازہ ترین فہرست بھی دکھاتا رہتا ہے۔ اس سے ٹوئٹر صارفین کو بروقت یہ معلوم ہوتا رہتا ہے کہ دنیا میں (یا کسی ملک میں) کس موضوع پر زیادہ بات کی جارہی ہے: وہ صرف ایک کلک سے کسی ''ٹرینڈنگ ہیش ٹیگ'' کے ساتھ کی جانے والی ٹویٹس علیحدہ کرکے دیکھ سکتے ہیں؛ اور اگر چاہیں تو ان ہی میں سے کسی ایک یا زیادہ ہیش ٹیگز کے ساتھ اپنی کوئی ٹویٹ کروا سکیں۔

غرض کہ ہیش ٹیگ کا مقصد صارفین کو سہولت بہم پہنچانا تھا، نہ کہ گالم گلوچ اور بد تمیزی کا طوفان بپا کرنا۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ٹیکنالوجی نہ تو مضر ہوتی ہے اور نہ ہی مفید، بلکہ اسے کسی خاص مقصد کے تحت استعمال کرکے مضر یا مفید بنانے والے ہم خود ہوتے ہیں۔

مجھے پوری امید ہے کہ ٹوئٹر اور دوسری سوشل میڈیا کمپنیاں جلد یا بدیر اردو میں بھی ''اخلاق باختہ ہیش ٹیگز'' کی نشاندہی کرنے اور انہیں روکنے کےلیے کوئی نہ کوئی باقاعدہ نظام، کوئی خودکار فلٹر ضرور بنا لیں گی۔

لیکن یہ سوال اپنی جگہ بہرحال موجود ہے کہ ہم اپنے ''اخلاقی فلٹر'' سے دوبارہ استفادہ کرنا کب شروع کریں گے۔ وہی اخلاقی فلٹر جو ہمیں اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملا تھا، جسے استعمال کرکے ہم خود یہ طے کیا کرتے تھے کہ کوئی بات سب کے سامنے کہنے والی ہے یا نہیں۔ جب تک یہ فلٹر ''آن'' نہیں ہوگا، تب تک مصنوعی ذہانت والے اخلاقی فلٹرز ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں