اوگیمی … سب سے زیادہ  طویل العمر صحت مند اور خوش رہنے والے لوگوں کا گاؤں

جنگ، قحط سالی اور ہر طرح کے دباؤ کی بھٹیوں میں سے گزرنے والے گائوں میں 15 لوگ 100 سال 171 لوگ 90 سال کے ہیں

جنگ، قحط سالی اور ہر طرح کے دباؤ کی بھٹیوں میں سے گزرنے والے گائوں میں 15 لوگ 100 سال 171 لوگ 90 سال کے ہیں

زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سب سے قیمتی نعمت ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اس نعمت سے نہ صرف بھرپور انداز میں لطف اندوز ہونے کا متمنی ہوتا ہے بلکہ خوش حال، صحت مند اور لمبی عمر بھی ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے۔

یوں تو اللہ رب العزت نے پیدائش اور موت دونوں کا وقت متعین کر رکھا ہے، جس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے، لیکن کچھ عادات و خصائل ایسے ہیں جنہیں اپنا کر ہم نہ صرف ایک صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتے ہیں بلکہ طبعی عمر میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں چونکہ اللہ رب العزت انسان کو بہ قدرِ کوشش ضرور نوازتے ہیں تو جو انسان صحت مند طرزِ زندگی اختیار کر کے تادیر جینے کے لئے تدبیر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی زندگی میں برکت عطا فرما دیتے ہیں اور اسے زیادہ وقت کے لیے زندگی کی نعمت سے لطف اٹھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔

ہماری موجودہ دنیا میں بھی کچھ علاقے ایسے ہیں کہ جن کی وجہ شہرت ہی ان کے باشندوں کی طویل العمری ہے ۔ ایسا ہی ایک گاؤں جاپان کے شمال میں واقع مرکزی جزیرے اوکیناوا پر اوگیمی کے نام سے آباد ہے ۔ اس گاؤں کی حدود کے آغاز پر ایک چھوٹے سے پتھر پر یہ عبارت درج ہے:

'' اسی سال کی عمر میں آپ جوان ہیں، نوے سال کی عمر میں اگر آپ کے آباء واجداد آپ کو اپنے پاس جنت میں بلانے کے خواہاں ہیں تو انہیں انتظار کرنے کا کہیں، یہاں تک کہ آپ سو سال کی عمر کو پہنچ جائیں۔''

یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے۔ آخری مردم شماری کے مطابق اوگیمی کے تین ہزار باشندوں میں سے پندرہ سے زیادہ لوگ سو سال سے زیادہ عمر کے ہیں۔ ایک سو اکہتر لوگ نوے سال سے زائد عمر رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ پورے جاپان کے اعدادوشمار کے مطابق ستر ہزار سے زائد افراد سو سال یا اس سے بھی زیادہ عمر کے ہیں۔

کووڈ 19کے آغاز ہی سے سیاحوں نے اس گاؤں کا رْخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ گاؤں کی اکلوتی قیام گاہ میں متعین ایک ملازم کے مطابق اس دور افتادہ اور غیر معروف گاؤں میں ایک دم سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جو ایک معروف ٹی وی چینل پر اس گاؤں کے حوالے سے چلنے والی ڈاکومنٹری فلم دیکھ کر یہاں کے لوگوں کی صحت مندی اور طویل العمری کا راز جاننے کے خواہش مند تھے۔

اوگیمی کے رہائشی ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ ہر طویل العمر معاشرہ مشکلات اور رکاوٹوں کے سمندر عبور کر کے یہاں تک پہنچتا ہے. وہ بھی جنگ، قحط سالی اور ہر طرح کے دباؤ کی بھٹیوں میں سے گزر کر کندن بنے ہوتے ہیں، ایسے ناگہانی دباؤ جن کا جدید دنیا اس وقت سامنا کر رہی ہے اور یقیناً اس میں سیکھنے والوں کے لیے سیکھنے کا بہت سامان ہے۔ اوکیناوا پر واقع اس گاؤں میں طویل العمری کا راز تین چیزوں میں مخفی ہے اور تین چیزیں خوراک، معاشرتی رسوم و رواج اور موروثیت ہے۔

ان تینوں چیزوں کی وضاحت کرتے ہوئے '' کریگول کاکس'' جو کہ اوکیناوا کی بین الاقوامی یونیورسٹی میں صحت عامہ کے پروفیسر ہیں اور اوکیناوا کے باسیوں کی طویل العمری کے حوالے سے انیس صد پچھتر سے جاری تحقیق کے شریک سربراہ ہیں، کہتے ہیں :

'' طویل العمری کی دو تہائی وجہ خوراک اور طرزِ زندگی سے متعلق ہے، باقی موروثی ہے۔ اگر آپ کا موروثی سلسلہ لمبی عمر کا ہے تو امکان ہے کہ آپ بھی سو کے ہندسے تک پہنچ سکتے ہیں، یہ محض اچھی خوراک کا معاملہ نہیں ہے۔ ہم نے ابھی تک یہ جائزہ نہیں لیا کہ اوکیناوا میں موروثی صفات، جاپان کے دیگر علاقوں سے زیادہ طویل عمر کی ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں کے خاندانوں میں طویل العمری عام ہے۔''

پروفیسر ول کاکس کے مطابق اوکیناوا کے لوگوں کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ کھانے کو دوائی کی طرح لو، یعنی وقت پر اور کم مقدار میں۔ شکرقندی، تلخ ذائقہ تربوز، سبز پتوں والی سبزیاں اور پھل ان کی روزانہ کی خوراک کا حصہ ہیں اور یہ سب اشیاء معدے میں آتش زنی اور تکسیدی تناؤ کو کم کر کے بڑھاپے کے ظہور کے عمل کو سست کرتی ہیں۔

اوکیناوا کے روایتی کھانے غذائیت سے بھرپور اور کم حراروں والے ہیں، جو مثالی اور کامل خوراک کے اجزاء کے حامل ہیں۔ پروفیسر کاکس اپنی تحقیق کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اگر آپ دودھ دینے والے جانوروں کو تجرباتی طور پر محدود حراروں والی خوراک کے ساتھ رکھیں تو وہ کھلے عام پھرنے اور ہر چیز کھانے والے جانوروں کی نسبت زیادہ عمر پائیں گے۔ ایک مستقل توانائی خود حفاظتی نظام کو حرکت میں لے آتی ہے، آپ کا جسم خوراک کا ایک بڑا حصہ قابلِ استعمال توانائی اور خامروں (ایسی پروٹینیں جو ایک مخصوص بائیو کیمیکل تعامل میں عمل انگیزی کرتی ہیں) میں بدلنے کا عادی ہو جاتا ہے اور یہ طریقہ طبعی عمر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔


جزائر کا طرزِ زندگی باقی جاپان سے قطعاً مختلف ہے۔ آب و ہوا معمولی سی خْنکی کے ساتھ منطقہ حارہ سے ملی جلی ہے۔ اوکیناوا کے لوگ جزیرے کی قدرتی خوبصورتی کے شاہکار درمیانی حصے میں رہتے ہیں اور نرم مزاج مشہور ہیں۔ پابندی وقت کے اس قدر عادی ہیں کہ گھڑی کی سوئی کا ساتھ دیتے ہیں۔ معاشرے کی بناوٹ ایسی ہے کہ بزرگ رہائشی بھی بامقصد زندگی گزارتے ہیں اور خود کو کارآمد سمجھتے ہیں۔ اوگیمی میں بزرگوں کو بامقصد طرزِ زندگی فراہم کرنے کے لیے بافندگی یعنی کپڑا بْننے کی صنعت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

جہاں بہت وقت طلب کام جیسے ریشوں کی صفائی اور دھاگے کو چرخی پر چڑھانے کا کام بزرگ خواتین پر مشتمل گروپ سر انجام دیتے ہیں۔ یہ نہ صرف معاشرتی طور پر متحرک رہنے کا ذریعہ ہے بلکہ یہ بافندگی کے کام سے منسلک بزرگ افراد کے لیے آمدنی کا وسیلہ اور گاؤں کی معیشت میں ان کا حصہ ہے۔ کپڑا بْننے کا یہ ادارہ ایک اٹھانوے سالہ بزرگ چلاتے ہیں جن کے خاندان میں بہت سے لوگ سو سال سے زائد عمر کے ہیں۔

اوکیناوا کا معاشرہ امداد باہمی پر بہت زور دیتا ہے۔ اوکیناوا میں موائی کے نام سے مختلف لوگوں کے گروپ قائم ہیں۔ موائی افراد کے ایسے گروہ ہیں جہاں باہمی دلچسپی، ایک جیسے حالات اور عمر کے لوگ تاحیات دوستی کے رشتے استوار کر سکتے ہیں۔ ان گروہوں کا مقصد لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے تا کہ وہ اپنے ہم مزاج اور ہم عمر لوگوں کے ساتھ باہمی جذباتی تعلقات کو پروان چڑھا سکیں۔

ایک مقامی شخص کا کہنا ہے کہ طویل عمر پانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ تنہائی کا شکار نہ ہوں کیونکہ تنہائی آپ کی صحت کے لیے ویسی ہی نقصان دہ ہے جیسے تمباکو نوشی۔ تکاشی نے، جو کہ اوگیمی کے ایک ضلع کے سربراہ ہیں، دو موائی اداروں کی رکنیت اختیار کی ہوئی ہے، جہاں ان کے بچپن کے دوست اور پرانے دفتری ساتھی بھی بطور ارکان موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان گروہوں میں ہم مختلف معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں، باہمی دوستانہ تعلقات استوار کرانے والے ان اداروں کی رکنیت عام مشغلہ ہے، جو نہ صرف ذہنی دباؤ میں کمی کا باعث ہے، بلکہ عمر میں بھی اضافہ کرتا ہے۔

پروفیسر کاکس کے مطابق مختلف موائی گروہوں کی رکنیت اختیار کرنا اوکیناوا میں عام روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اوگیمی کے ایک ایسے شخص کو بھی جانتے ہیں جو ایسے سات گروپس کی رکنیت رکھتا ہے۔ پروفیسر کو ان گروپس کی دلچسپ بات یہ لگی کہ یہاں کے لوگ ان گروہوں میں بننے والے تعلقات کے ساتھ بہت وفادار بھی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ میں اسی سالہ خواتین ایک ایسے گروپ سے ملا جو مڈل سکول کے زمانے سے ایک موائی گروپ میں ساتھ تھیں۔ کووڈ 19 کے تناظر میں بہت سے موائی گروہوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے خود کو آن لائن کیا اور یوں ان گروہوں کی شہرت ساری دنیا میں پھیل رہی ہے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں لوگ باہم رابطے کے لیے ایسے گروپس کا آغاز کر رہے ہیں۔

اس علاقے کے لوگوں کے طرزِ زندگی کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ طویل عمر پانے کے لئے اگرچہ نسبی سلسلے میں طبعی عمر کی طوالت کا عنصر بھی شامل ہے، لیکن دو تہائی حصہ خوراک، طرزِ زندگی اور معاشرتی تعلقات کا مرہونِ منت ہے۔ جو لوگ خوراک کے انتخاب، اوقات اور مقدار کے تعین میں محتاط لائحہ عمل اختیار نہیں کرتے، یہ لاپرواہی ان کی صحت کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہے اور خراب صحت کے ساتھ لمبی زندگی ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ بیماریوں کی آماج گاہ بنا بھلا جسم کب تک اور کتنی دیر تک مزاحمت کر سکتا ہے؟ علاج معالجے کے باوجود ایسے اجسام کا انجام بے وقت موت ہی ہوتا ہے۔

اگر آپ کا زندگی گزارنے کا نظام بے ترتیب ہے، سونے، جاگنے، کھانے پینے، کام کرنے، ورزش کرنے کے اوقات مقرر نہیں ہیں تو یہ اندازِ زندگی بھی آپ کو زیادہ وقت تک جینے کی مہلت نہیں دے گا۔ رات رات بھر جاگ کر مختلف سرگرمیوں میں مگن رہنا، دن چڑھے تک سوتے رہنا، وقت بے وقت اور طلب سے زیادہ کھانا، تلی ہوئی غذا، مرغن اور بازاری کھانوں کا استعمال، کئی کئی گھنٹے مسلسل ایک ہی زاویے میں بیٹھے کام کرتے رہنا، چہل قدمی، سیر کو زندگی کا لازمی حصہ نہ بنانا آپ کی عمر کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ایک صحت مند، بھرپور اور طویل عمر پانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے اہلِ خانہ، رشتے داروں، اہل محلہ اور دوستوں کے ساتھ باقاعدگی سے رابطے میں رہیں، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں، باہمی بھلائی اور خیر خواہی کے امور میں پیش پیش رہیں،خود کو دوسروں کے لیے نفع بخش بنائیں۔

اللہ رب العزت کا اصول ہے کہ جو چیز مخلوق کے لیے منفعت کا باعث ہو، وہ اسے زمین میں ٹھہرا دیتے ہیں، یعنی تادیر سلامت رکھتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد 13:17)

ترجمہ : جو چیز لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے ۔
Load Next Story