کوچۂ سخن
غزل
وہ تن کا تماشائی رہا من نہیں دیکھا
دہلیز تک آیا بھی تو آنگن نہیں دیکھا
چہرے پہ کھلی دھوپ میں اس درجہ مگن تھا
آنکھوں سے برستا ہوا ساون ،نہیں دیکھا
اس سمت سمیٹوں تو بکھرتا ہے ادھر سے
دکھ دیتے ہوئے یار نے دامن نہیں دیکھا
کیوں میری تمنا کی طرف دیکھ رہے ہو
کیا تم نے کبھی آگ پہ خرمن نہیں دیکھا
دروازے پہ آ کر جو کسی نے بھی صدا دی
دل کھول دیا دوست کہ دشمن نہیں دیکھا
اس نے بھی تبسم کا ہنر دیکھ کے نیّرؔ
آلام چھپانے کا مرا فن نہیں دیکھا
(شہزاد نیر۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
حسن کی شاخ جھڑ گئی ہو گی
محفلِ شوق اجڑ گئی ہو گی
آئنہ دل کا تھا بہت شفاف
وقت کی گرد پڑ گئی ہو گی
حرص کی آندھیاں چلی ہوں گی
سانس اس کی اکھڑ گئی ہو گی
جس میں موتی پروئے خوابوں کے
ڈور وہ بھی ادھڑ گئی ہو گی
پُر ہجوم اتنے راستے ہیں سب
آرزو تک بچھڑ گئی ہو گی
وہ کہاں بھولتا مجھے جاذبؔ
زندگی ضد پہ اڑ گئی ہو گی
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدّین)
۔۔۔
غزل
اس خاک داں میں پیکر ِ وہم و قیاس شخص
خود آشنا ہوا ہی نہیں ، حق شناس شخص
ہم بھی بہت اداس تھے، اور ہم سے آ ملا
اس راستے میں ہم سے زیادہ اداس شخص
سورج کی تیز دھوپ میں بے برگ و بار پیڑ
اک بے نقاب آئینہ اور بے لباس شخص
پتھّر کی اس چٹان سے بھی بات کر کے دیکھ
اس دشت میں نہیں ہے کوئی آس پاس شخص
ایسے الجھ گئے ہیں ستاروں کی چال میں
آیا نہ اس کو کھو کے کوئی دل کو راس شخص
(اشرف یوسفی۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
سینۂ شوق پہ کم بخت نے زلفیں رکھ دیں
سامنے کھول کے میرے کئی راہیں رکھ دیں
بانہیں پھیلائی گئیں شعر ِ ا سد کی صورت
داد میں اس نے مرے سامنے آنکھیں رکھ دیں
حیرتِ دید غضب ناک ہوئی ہے، توبہ
گرنے والا تھا کہ اس شوخ نے بانہیں رکھ دیں
چاند اُترا ہے زمیں پر تری صورت لے کر
رات رکھی ہے کہیں پر، کہیں نیندیں رکھ دیں
مَیں جنوںزاد، انا زاد مقابل اترا
کاٹ کے عشق نے آ گے مرے مونچھیں رکھ دیں
مانگنے خیر کی، خیرات چلا آیا ہے
کاسۂ وقت میں دو، چار کتابیں رکھ دیں
کھینچ تلوار، اُٹھا تیر، رکابیں کس لے
ہم نے اسرار اُٹھا طاق پہ آہیں رکھ دیں
(اسرار احمد۔ مظفر آباد، کشمیر)
۔۔۔
غزل
تمہارے بعد مجھے بھی لگا کہ اب کچھ ہے
ہمارے بیچ وہی کچھ نہیں تو سب کچھ ہے
سفر بخیر مسافر میں تیری منزل تھا
مگر میں جان گیا ہوں ثبات کب کچھ ہے
اُسے بھلا کے بہت خوش دکھائی دیتا دل
گر اُس کے نام پہ ٹھہرا ہے تو سبب کچھ ہے
میں اُس سے کیسے چھپاؤں کہ وہ بھی جانتا ہے
میں اُس سے کیسے کہوں کچھ نہیں کہ جب کچھ ہے
پھرولتا چلا جا،دل کو کھولتا چلا جا
کہ اس کی تہ میں ترے واسطے عجب کچھ ہے
(ذیشان حیدر۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
وہ میرے ساتھ ہے اور ساتھ بھی کہاں تک ہے
یہ رنگ بنتی ہوئی روشنی کہاں تک ہے
کھڑی ہوئی ہوں صداؤں کے درمیان کہیں
یہ شور کتنا ہے اور خامشی کہاں تک ہے
حیات اپنی ڈگر پر رواں دواں نہ سہی
اگر ہے تیری کمی تو کمی کہاں تک ہے
تمہارے لہجے کی یہ تلخیاں نہ ختم ہوئیں
بدلتے موسموں کی برہمی کہاں تک ہے
مرا وجود کہاں تک ہے ہم سفر میرا
مرا شعور، مری آگہی کہاں تک ہے
کہاں تلک ہے یہاں مرگ ِ آرزو جاناں
بکھرتے خواب، غم ِ زندگی کہاں تک ہے
(جاناں ملک۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
میں خوابوں خیالوں میں کھویانہیں
دلاسوں کے جھولے میں سویا نہیں
نہ بادل بنے نہ ہی بارش ہوئی
تبھی تو میں راتوں کو رویا نہیں
گیا پھول چننے تو کانٹے ملے
جو کاٹا ہے میں نے وہ بویا نہیں
جسے میں سمجھتا تھا اپنا مرا
میرا بن کے دل میں سمویا نہیں
گیا مجھ سے لیکن وہ دل میں رہا
اسے میں نے پایا ہے کھویا نہیں
دبے پائوں آتا ہے خوابوں میں وہ
مگر بزمیؔ مجھ سے وہ گویا نہیں
(شبیر بزمی۔لاہور)
۔۔۔
''وہ''
اپنے بارے میں جانتی ہے وہ
ایک شاعر کی ڈائری ہے وہ
رسمی دنیا اسے پسند نہیں
صبح مرضی سے جاگتی ہے وہ
آئینے انتظار کرتے ہیں
اس محبت سے دیکھتی ہے وہ
کتنا مشکل ہے یہ بتا پانا
کتنا آسان سوچتی ہے وہ
اب نجانے کہاں پہ ہوتی ہے
کن چراغوں کی روشنی ہے وہ
(بہنام احمد۔اٹلی)
۔۔۔
غزل
محبت مجھ پہ اتری ہے سہانی شام کی مانند
کہ من جس میں لگا رہتا ہے ویسے کام کی مانند
بہت مصروف ہے عمرِ رواں پھر بھی مجھے ہر دم
ترا احساس رہتا ہے کسی الہام کی مانند
تمنّا ہے لکھاری کے قلم سے تم بیاں ہو کر
کہانی میں ملو مجھ کو حسیں انجام کی مانند
مری سانسوں میں بکھری ہے ترے احساس کی خوشبو
مرے اطراف میں ہے تُو گلِ گمنام کی مانند
اگر ہے جرم میرا عشق تو ایسا کرے دنیا
تمہیں وہ سونپ دے مجھ کو کسی الزام کی مانند
(شمائلہ فاروق مائلہ۔ حافظ آباد)
۔۔۔
غزل
میں نے سپنے حسین دیکھے تھے
دل میں اپنے مکین دیکھے تھے
خواب پورا ہوا ہے اک میرا
اپنے بچے ذہین دیکھے تھے
حوصلہ جیت کا نہیں تھا کچھ
لوگ کچھ پُر یقین دیکھے تھے
جن کو طاقت پہ ناز تھا اپنی
وہ بھی زیرِ زمین دیکھے تھے
حسن میں بے مثال ہو تم ہی
جانے کتنے حسین دیکھے تھے
(احمد مسعود قریشی۔ ملتان)
۔۔۔
''چائے خانہ''
وبا کے اس زمانے میں
لہوری چائے خانے میں
یا محفل اک سجانی ہے
یا رونق پھر لگانی ہے
جہاں احباب سارے ہوں
سبھی ادبی ستارے ہوں
محبت کی روانی ہو
ادب کی سو کہانی ہو
ذرا بھی نہ بناوٹ ہو
سخن ور کی سخاوت ہو
سراہیں پھر سبھی کو ہم
بھلا دیں گے سبھی پھر غم
یہی مشروبِ اعظم ہے
جو چائے ہو تو کیا غم ہے؟
یہی سب کو پلائیں گے
سفر کر کے جو آئیں گے
چلو آغاز کرتے ہیں
اٹھاؤ کپ کو بھرتے ہیں
وہی سوغات کرتے ہیں
چلو پھر بات کرتے ہیں
(محمد عظیم شاہ بخاری)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی