سارے رنگ
کراچی کے ماسٹر پلان کے بارے میں تو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ یہ کاغذ پر بہت اچھا لگتا ہے۔
جی بالکل، ہم
'نفسیاتی' ہیں۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م
عام طور پر یہ کتنا عجیب ہے کہ گلی کے کنارے بیٹھا ہوا ایک کم سَن بچہ ہمیں پکارتا ہے اور اس معصوم بچے کو دیکھ کر ایک لمحے میں ہمارا سارا اطمینان جاتا رہتا ہے۔۔۔!
ہم اپنے دل پر جبر کرتے ہوئے اسے نظرانداز کرنا چاہیں، تو ہمارے قدم من من بھر کے ہو جاتے ہیں۔۔۔ اِسے کسی طرح خیال سے جھٹکنے کی کوشش کریں، تو بار بار اس کی آس لی ہوئی صدا، اور امید بھری نگاہیں کسی آرے کی طرح ہمارا کلیجے کو ہدف کرنے لگتی ہیں۔۔۔ پھر گھر کی طرف تیز تیز اٹھتے ہوئے قدم، دھیمے ہوتے ہیں اور بالآخر اس کی طرف پلٹ آتے ہیں۔۔۔
اس بار ہماری نگاہ پہلے سے اس پر تھی۔۔۔ ہم نے دیکھا کہ وہ کسی گہرے خیال میں کھویا ہوا تھا اور اسی بے خیالی میں گلی میں ہی پڑی ہوئی کسی 'چیز' سے یوں ہی مٹی میں کوئی 'نقش' بنانے لگا تھا۔۔۔ ہم نے غور سے دیکھا، تو یہ شاید کسی کھلونے کا ٹوٹا ہوا کوئی پرزہ تھا۔۔۔ جو اس کے کھیلنے کی ناآسودہ خواہش کی طرح خود بھی نامکمل تھا، لیکن اس کی سوچ کی گہرائی خبر دیتی تھی کہ اس وقت اسے کھلونے کے اس ٹوٹے ہوئے ٹکڑے سے کوئی شکوہ نہیں۔
اس چھوٹی سی عمر میں ایک بچے کے دل میں کیا کیا خواہشیں ہوتی ہیں، کتنی چھوٹی چھوٹی سی خوشیاں ایسی ہوتی ہیں، جو بہت دیر تک شاد رکھتی ہیں، لیکن اس بچے کی معصوم آشائوں کو بھوک اور غربت کے عفریت نے بری طرح پائمال کیا تھا۔۔۔!
اس وقت کو غنیمت جان کر ہم نے اس کے بارے میں جاننا چاہا، تو پتا چلا کہ وہ ہماری ہم سائے بستی میں ہی رہتا ہے۔۔۔ اسکول بھی پڑھتا ہے۔۔۔ پھر روزانہ شام کو چھے بجے اُبلے ہوئے کالے چنے ابال کر لاتا ہے۔۔۔ اور 10بجے تک یہاں رہتا ہے۔ اس نے جب اپنے چنے کے تھال پر ڈھکا ہوا دستر خوان سِرکایا، تو ہم نے بڑھتی ہوئی رات کے مقابل اس کا آدھا تھال بھرا ہوا پایا۔۔۔!
متفکر ہو کر ہم نے پوچھ لیا کہ یہ بچ جاتے ہیں، تو کیا کرتے ہو۔۔۔؟ ہمیں لگا تھا کہ وہ کہے گا کہ رات کو اپنے کھانے کے کام میں لے آتا ہوں، لیکن وہ بولا کہ فریج میں رکھ دیتا ہوں، پھر اگلے دن گرم کر کے لے آتا ہوں۔۔۔ شاید اس کی استطاعت میں یہ اُبلے ہوئے چھولوں کو رات کا کھانا کر لینا 'عیاشی' کے زمرے میں آتا ہو۔۔۔ اب ہم میں مزید کچھ سننے کی تاب نہ تھی، اس لیے نوٹ اسے دیا اور چنے کی پڑیا مٹھی میں دابے چلے آئے۔۔۔
اس کا طریقہ بھی تو عجیب ہے ناں، کہ وہ گھومتے پھرتے ہوئے، ایک جگہ کونے پر آکر بیٹھ جاتا ہے اور پھر گزرنے والوں کو 'بھائیِ انکل، باجی وغیرہ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔۔۔ لامحالہ 'مخاطب' چونک کر متوجہ ہوتا ہے، کہ دیکھیں کون ہے؟ کیا کہہ رہا ہے۔۔۔؟ اور جب اس کا مدعا دیکھتا ہے، تو یہ احساس جھٹک کر آگے ہو لیتا ہے، تو کسی کا دل ہماری طرح پسیج بھی جاتا ہے۔۔۔
اگر وہ عام پھیری والوں کی طرح آواز لگا رہا ہو تو ہم اسے آسانی سے نظرانداز کر بھی دیں، لیکن ایسی مخصوص پکار پر سرسری گزر بھی جائیں تو یہ 'احساسِ جرم' بہت دیر تک اذیت دیتا رہتا ہے۔۔۔ اب آپ اسے ہمارا 'نفسیاتی پن' سمجھ رہے ہیں، تو ہمیں بالکل اعتراف ہے کہ اس حوالے سے تو ہم 'نفسیاتی' ہیں۔
۔۔۔
اب کب آؤ گے۔۔۔؟
محمد علم اللہ، نئی دلی
لمبی چھٹی کے بعد گھر سے مدرسے گیا اور خیریت بتانے کے لیے گھر فون کیا، تو ماں جی نے پوچھا:
''اب کب آؤ گے؟'' میں نے کہا اب تو نہیں آؤں گا بس۔
فوراً بولیں ''جب تک میں زندہ ہوں، تب تک آتے رہو اور جب میں چلی جاؤں گی پھر کون بلائے گا۔۔۔!''
کتنی درد ناک کہانی ہے۔
''کیا یہ صرف تمھاری کہانی ہے؟'' اس نے اپنے دوست سے کہا اور خاموش ہو گیا۔
اس کی آنکھیں خود بھی بھیگ گئی تھیں، کتنی دیر تک وہ یونہی کھلے آسمان کو دیدے پھاڑے دیکھتا رہا تھا۔ عثمان نے اسے ٹہوکا دیا ، ''ابے تو کہاں کھو گیا۔۔۔؟''
''کچھ نہیں یار، بس یونہی امی کی یاد آ رہی تھی۔''
''تو تم رو کیوں رہے ہو ؟''
دلاسہ دیتے سمے اس کی آواز بھی رندھ گئی۔ میں سوچنے لگا کہ ادیبوں اور شاعروں سے لے کر گیت نگاروں نے لڑکی کے بابل کے آنگن سے جانے پر کتنا کچھ لکھا ہے۔۔۔ لیکن ہاسٹل کے لیے گھر سے بچپن میں ہی دور کر دیے جانے والوں کے دلوں کا حال کیوں نہیں لکھا۔۔۔؟ وہ جن کے بچپن کو لڑکپن اور نوجوانی میں بدلتے ہوئے ان کی مائیں نہیں دیکھ پاتیں۔۔۔ اور وہ بچے جو اپنے گھروں سے اپنی ماؤں سے ملنے کو سال بھر میں فقط چند دن پاتے ہیں۔۔۔ وقت نکلا جاتا ہے، ہم پڑھ لکھ کر کچھ بن جاتے ہیں، لیکن ماؤں کے ساتھ نہ گزارے جانے والے وقت کا ازالہ کبھی نہیں ہو پاتا۔۔۔
۔۔۔
''نئے چڑیا گھر کی تعمیر کے بعد جامعہ کراچی کو 'گاندھی گارڈن' میں منتقل کردیجیے!''
عابد علی بیگ
اے ساکنانِ شہرکراچی ہوشیار باش۔۔۔ چوں کہ بلدیہ، آپ کے یعنی انسانوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، چناں چہ اب اس نے جانوروں کی فلاح و بہبود کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ خبر آپ نے گزشتہ دنوں اخبارات میں پڑھ ہی لی ہوگی کہ کراچی میں دنیا کا بہترین چڑیا گھر قائم کیا جا رہا ہے۔ بلدیہ کے اعلیٰ حکام کے کہنے کے مطابق چڑیا گھر بار بار قائم کیے جاتے ہیں اس لیے ضرورت اس کی ہے کہ چڑیا گھر ایسا قائم کیا جائے، جو دنیا کے بہترین چڑیا گھروں میں شمار کیا جا سکے۔'' اس خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دنوں 'بلدیہ' کے ماہرین مختلف اداروں کی جانب سے پیش کی گئی اسکیموں میں سے بہترین ماسٹر پلان کا انتخاب کر رہے ہیں۔
کراچی کے ماسٹر پلان کے بارے میں تو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ یہ کاغذ پر بہت اچھا لگتا ہے، مگر ہم نے آج تک اس پر عمل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، اب دیکھیں کہ کہیں جانوروں کو بھی ''گولی'' تو نہیں دی جا رہی ہے، اعلیٰ حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ چڑیا گھر میں زیادہ سے زیادہ تفریحی سامان مہیا کیا جائے گا اور آمدورفت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے سرکلر ریلوے کا اسٹیشن بھی قائم کیا جائے گا۔
کیوں صاحبو! کیا اہلیان کراچی کو تفریحی سامان اور آمدورفت فراہم کردی گئی ہیں، جو جانوروں پر نظر کرم ہو رہی ہے کہ ان کے لیے الگ ریلوے اسٹیشن بھی قائم ہو رہا ہے۔ خبر میں جن مزید سہولتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سڑکوں، انتظامی بلاک، ہل سائڈ ، ریسٹورینٹ، جھیل، میوزیم، مچھلی گھر، لائبریری، آڈیٹوریم، اوپن تھیٹر اور ٹرالی بسوں کے اسٹیشن کی تعمیر پر تقریباً 70 لاکھ روپے خرچ کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ میٹرنٹی ہوم، اسپتال، آبزرویشن سینٹر اور لیبارٹریوں کی تعمیر پر 3لاکھ 20 ہزار روپے صرف ہوں گے۔ خبر میں یہ کہیں نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ تمام سہولتیں کس کے لیے ہوں گی؟ آیا صرف جانور ہی ان سے مستفید ہو سکیں گے یا پھر کبھی کبھی انسانوں کو بھی ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے گا۔
ہمارا خیال ہے کہ اس چڑیا گھر میں انتہائی موڈرن کلچرڈ اور مہذب قسم کے جانور ہی رکھے جائیں گے، جبھی تو صرف سوئمنگ پول کے پاس لباس تبدیل کرنے کے کمروں کی تعمیر پر ہزاروں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ اب ذرا چشم تصور سے یہ منظر دیکھیے۔ ایک لحیم شحیم ہاتھی صاحب گرمی سے تنگ آکر اپنے بچوں کے ساتھ سوئمنگ پول پر آئے۔ لباس تبدیل کرنے کے کمرے میں جا کر سوٹ اتارا اور سوئمنگ کاسٹیوم پہن کر سوئمنگ پول میں چھلانگ لگا دی جب غسل سے جی سیر ہوگیا، تو تالاب سے باہر آئے۔ ریلنگ پر پڑا ہوا تولیا اٹھایا اس سے سر پوچھتے ہوئے پھر اسی کمرے میں گئے اور ذرا سی دیر بعد پھر ''ویل ڈریسڈ (WELL DRESSED) ہوکر برآمد ہوئے اور قریبی ریستوران سے ''کون'' لے کر کھاتے ہوئے میوزیم کی سمت روانہ ہوگئے۔
'بلدیہ' نے ایک امر کا بہت خیال رکھا ہے اور وہ ہے اس جدید چڑیا گھر کا محل وقوع جامعہ کراچی اور 'اردو کالج' تو نزدیک ہی ہیں، زیر تعمیر انجینئرنگ کالج اور آغا خان میڈیکل کالج بھی اس سے زیادہ دور نہیں۔ جب بھی چڑیا گھر کے مکین اپنے ماحول سے ذرا اکتائیں گے، فوراً ٹہلتے ہوئے جامعہ کراچی چلے آئیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہاں انہیں ایسی ایسی مخلوق نظر آئے گی، جو انھوں نے افریقا کے گھنے جنگلات میں بھی نہ دیکھی، نہ سنی ہو گی۔ ریچھ جیسے بال، تیندوے اور گلدار کی کھال جیسی شرٹیں، ہاتھی کے کان جتنے بڑے کالر اور اسی کی ٹانگوں جیسی ''ایلیفینٹ بیل باٹم'' پتلونیں اور پاجامے انھوں نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھے ہوں گے۔
یہ بھی عین ممکن ہے کہ جامعہ کراچی کے طلبا و طالبات کا شوروغل ان امن پسند جانوروں کے سکون میں خلل انداز ہو۔ یہ بے چارے روزانہ کے جلسے، جلوسوں اور ''جلسیوں'' کے عادی تو ہرگز نہ ہوں گے اس لیے ہماری رائے یہ ہے کہ نئے چڑیا گھر کی تعمیر مکمل ہونے پر جیسے ہی پرانے گھر سے جانور یہاں منتقل کیے جائیں جامعہ کراچی کو موجودہ کیمپس سے پرانے چڑیا گھر یعنی 'گاندھی گارڈن' میں منتقل کردیا جائے اور موجودہ کیمپس چڑیا گھر کے حوالے کر دیا جائے، تاکہ اس کے مکین آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔ یہ مشورہ ہم حسب سابق بغیر کسی معاوضے کے دے رہے ہیں:
گر قبول افتد زہے عزو شرف
۔۔۔
والد کے گورنر ہوتے ہوئے بھی پورا گورنر ہائوس نہیں دیکھا
سعدیہ راشد
ہمیں پورا آئیڈیل کسی شخصیت میں مل جائے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے ٹکڑے ضرور لوگوں کی شخصیت میں بکھرے مل جاتے ہیں۔ کبھی ایسی کوئی شخصیت بھی مل جاتی ہے جس کے وجود میں ہمارے آئیڈیل کے بیش تر رنگ، بیش تر ستارے زیادہ سے زیادہ نقوش چمک رہے ہوتے ہیں اور ہم غیرشعوری طور پر اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک شخصیت ایسی مل گئی جس میں میرے آئیڈیل کے سارے رنگ نقوش موجود تھے۔ یہ اباجان تھے۔ میرے آئیڈیل وہ مکمل ایک شخصیت تھے۔
بیٹیاں یوں بھی باپ سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ میں اپنی امی کے مقابلے میں ابا جان سے زیادہ قریب تھی، حالاں کہ میں شروع سے ان سے بہت ڈرتی تھی، لیکن سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھی۔ میں وہی ہونا چاہتی تھی، جو وہ مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔
مجھ سے یہ کسی نے نہیں کہا۔ میری امی نے بھی نہیں، لیکن مجھے یہ احساس شدت سے رہتا تھا کہ میں کوئی بات ایسی نہ کروں، جو ابا جان کے معیار عمل سے گری ہوئی ہو۔ میرے قول و عمل میں کوئی پہلو ایسا نہ ہو کہ کوئی کہے یہ حکیم محمد سعید کی بیٹی ہیں۔ مجھے ہر وقت یہ احساس رہتا تھا کہ ابا جان نے بڑی محنت، بڑی قربانیوں سے اپنا ایک مقام بنایا ہے، ایک نام پیدا کیا ہے۔ ان کی نیک نامی پر کوئی حرف نہ آئے۔ یہ احساس بچپن کے بالکل ابتدائی زمانے سے میری لاشعور میں جاگزین تھا اور جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی یہ احساس شعوری طور پر بڑھتا گیا۔
ابا جان نے میری تربیت اس طرح کی کہ کبھی مجھے بٹھاکر یہ نہیں کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے۔ تربیت کا ان کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میں عمل کرکے دکھایا کرتا ہوں مجھے کہنے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے خاموشی سے میری تربیت کی اور تمام قدریں جو انہیں عزیز تھیں اپنے عمل سے بتا دیں۔
سچائی، دیانت داری، تواضع، شائستگی، رواداری، اخلاق، دین داری۔ انہوں نے مجھے سب سکھا دیا۔ ان کا انداز یہ تھا کہ بس اب ساتھ ہیں تو انسان سیکھتا جائے۔ ہم ساتھ رہتے تھے۔ میرا خیال ہے سونے کے لیے بس چند گھنٹے ہی تھے، جس میں ہم الگ ہوتے تھے، ورنہ مستقل ساتھ ساتھ رہتے، حتیٰ کہ جب کسی پروگرام میں جاتے، تو ساتھ ہوتے کوئی استقبالیہ ہوتا، دفتر جا رہے ہیں، دفتری معاملات ہیں، ہمیشہ ساتھ ہوتے۔ وقت تو وہ اپنا بالکل بھی ضایع نہیں کرتے تھے۔ راستے میں بھی ضروری کاغذات دیکھتے جاتے۔ ہم ان کاغذات کے حوالے سے بھی بات کرلیتے۔ گورنری کے زمانے میں بھی وہ ہماری تربیت کرتے رہتے تھے۔
وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمیں کوئی غلط احساس ہو۔ ہم کسی 'کمپلیکس' میں مبتلا ہوں۔ ہم نے گورنرہائوس تو پوری طرح دیکھا بھی نہیں۔ گورنر ہائوس کی گاڑی تو وہ خود بہت کم استعمال کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب وہ سندھ کے گورنر تھے، ہم ہوائی جہاز میں سفر کر رہے تھے۔ جہاز کے عملے نے ہمیں اکونومی کلاس میں آگے کی دو سیٹیں جو فرسٹ کلاس کیبن کے فوراً بعد تھیں، ہمیں دی تھیں۔ ایئرہوسٹس نے جو فرسٹ کلاس میں میزبانی کر رہی تھی، دیکھا کہ گورنر صاحب بیٹھے ہیں، تو اورنج جوس لے کر ہماری طرف آئی اور ابا جان کو پیش کیا، انھوں نے نہیں لیا۔
جب انھوں نے ہاتھ نہیں بڑھایا، تو میں نے بھی ہاتھ نہیں بڑھایا۔ مجھے معلوم تھا کہ ابا جان نے جوس کیوں نہیں لیا ہے اور یہ وہ سمجھ رہے تھے، لیکن اس کے باوجود جب ایئرہوسٹس چلی گئی، تو انھوں نے مجھ سے کہا، تمہیں پتا ہے، میں نے جوس کیوں نہیں لیا؟ میں نے کہا جی ہاں۔ یہ فرسٹ کلاس کے مسافروں کے لیے تھا، کہنے لگے ہاں، ہم اس کے مسافر نہیں ہیں، اس لیے اس پر تو ہمارا حق نہیں تھا۔ اس وقت بھی وہ چاہتے تھے کہ ہماری تربیت ہو اور ہمیں یہ معلوم ہو کہ یہ ہمارا حق نہیں ہے۔ ورنہ کیا تھا جوس وہ بھی پی لیتے اور میں بھی پی لیتی۔
'نفسیاتی' ہیں۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م
عام طور پر یہ کتنا عجیب ہے کہ گلی کے کنارے بیٹھا ہوا ایک کم سَن بچہ ہمیں پکارتا ہے اور اس معصوم بچے کو دیکھ کر ایک لمحے میں ہمارا سارا اطمینان جاتا رہتا ہے۔۔۔!
ہم اپنے دل پر جبر کرتے ہوئے اسے نظرانداز کرنا چاہیں، تو ہمارے قدم من من بھر کے ہو جاتے ہیں۔۔۔ اِسے کسی طرح خیال سے جھٹکنے کی کوشش کریں، تو بار بار اس کی آس لی ہوئی صدا، اور امید بھری نگاہیں کسی آرے کی طرح ہمارا کلیجے کو ہدف کرنے لگتی ہیں۔۔۔ پھر گھر کی طرف تیز تیز اٹھتے ہوئے قدم، دھیمے ہوتے ہیں اور بالآخر اس کی طرف پلٹ آتے ہیں۔۔۔
اس بار ہماری نگاہ پہلے سے اس پر تھی۔۔۔ ہم نے دیکھا کہ وہ کسی گہرے خیال میں کھویا ہوا تھا اور اسی بے خیالی میں گلی میں ہی پڑی ہوئی کسی 'چیز' سے یوں ہی مٹی میں کوئی 'نقش' بنانے لگا تھا۔۔۔ ہم نے غور سے دیکھا، تو یہ شاید کسی کھلونے کا ٹوٹا ہوا کوئی پرزہ تھا۔۔۔ جو اس کے کھیلنے کی ناآسودہ خواہش کی طرح خود بھی نامکمل تھا، لیکن اس کی سوچ کی گہرائی خبر دیتی تھی کہ اس وقت اسے کھلونے کے اس ٹوٹے ہوئے ٹکڑے سے کوئی شکوہ نہیں۔
اس چھوٹی سی عمر میں ایک بچے کے دل میں کیا کیا خواہشیں ہوتی ہیں، کتنی چھوٹی چھوٹی سی خوشیاں ایسی ہوتی ہیں، جو بہت دیر تک شاد رکھتی ہیں، لیکن اس بچے کی معصوم آشائوں کو بھوک اور غربت کے عفریت نے بری طرح پائمال کیا تھا۔۔۔!
اس وقت کو غنیمت جان کر ہم نے اس کے بارے میں جاننا چاہا، تو پتا چلا کہ وہ ہماری ہم سائے بستی میں ہی رہتا ہے۔۔۔ اسکول بھی پڑھتا ہے۔۔۔ پھر روزانہ شام کو چھے بجے اُبلے ہوئے کالے چنے ابال کر لاتا ہے۔۔۔ اور 10بجے تک یہاں رہتا ہے۔ اس نے جب اپنے چنے کے تھال پر ڈھکا ہوا دستر خوان سِرکایا، تو ہم نے بڑھتی ہوئی رات کے مقابل اس کا آدھا تھال بھرا ہوا پایا۔۔۔!
متفکر ہو کر ہم نے پوچھ لیا کہ یہ بچ جاتے ہیں، تو کیا کرتے ہو۔۔۔؟ ہمیں لگا تھا کہ وہ کہے گا کہ رات کو اپنے کھانے کے کام میں لے آتا ہوں، لیکن وہ بولا کہ فریج میں رکھ دیتا ہوں، پھر اگلے دن گرم کر کے لے آتا ہوں۔۔۔ شاید اس کی استطاعت میں یہ اُبلے ہوئے چھولوں کو رات کا کھانا کر لینا 'عیاشی' کے زمرے میں آتا ہو۔۔۔ اب ہم میں مزید کچھ سننے کی تاب نہ تھی، اس لیے نوٹ اسے دیا اور چنے کی پڑیا مٹھی میں دابے چلے آئے۔۔۔
اس کا طریقہ بھی تو عجیب ہے ناں، کہ وہ گھومتے پھرتے ہوئے، ایک جگہ کونے پر آکر بیٹھ جاتا ہے اور پھر گزرنے والوں کو 'بھائیِ انکل، باجی وغیرہ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔۔۔ لامحالہ 'مخاطب' چونک کر متوجہ ہوتا ہے، کہ دیکھیں کون ہے؟ کیا کہہ رہا ہے۔۔۔؟ اور جب اس کا مدعا دیکھتا ہے، تو یہ احساس جھٹک کر آگے ہو لیتا ہے، تو کسی کا دل ہماری طرح پسیج بھی جاتا ہے۔۔۔
اگر وہ عام پھیری والوں کی طرح آواز لگا رہا ہو تو ہم اسے آسانی سے نظرانداز کر بھی دیں، لیکن ایسی مخصوص پکار پر سرسری گزر بھی جائیں تو یہ 'احساسِ جرم' بہت دیر تک اذیت دیتا رہتا ہے۔۔۔ اب آپ اسے ہمارا 'نفسیاتی پن' سمجھ رہے ہیں، تو ہمیں بالکل اعتراف ہے کہ اس حوالے سے تو ہم 'نفسیاتی' ہیں۔
۔۔۔
اب کب آؤ گے۔۔۔؟
محمد علم اللہ، نئی دلی
لمبی چھٹی کے بعد گھر سے مدرسے گیا اور خیریت بتانے کے لیے گھر فون کیا، تو ماں جی نے پوچھا:
''اب کب آؤ گے؟'' میں نے کہا اب تو نہیں آؤں گا بس۔
فوراً بولیں ''جب تک میں زندہ ہوں، تب تک آتے رہو اور جب میں چلی جاؤں گی پھر کون بلائے گا۔۔۔!''
کتنی درد ناک کہانی ہے۔
''کیا یہ صرف تمھاری کہانی ہے؟'' اس نے اپنے دوست سے کہا اور خاموش ہو گیا۔
اس کی آنکھیں خود بھی بھیگ گئی تھیں، کتنی دیر تک وہ یونہی کھلے آسمان کو دیدے پھاڑے دیکھتا رہا تھا۔ عثمان نے اسے ٹہوکا دیا ، ''ابے تو کہاں کھو گیا۔۔۔؟''
''کچھ نہیں یار، بس یونہی امی کی یاد آ رہی تھی۔''
''تو تم رو کیوں رہے ہو ؟''
دلاسہ دیتے سمے اس کی آواز بھی رندھ گئی۔ میں سوچنے لگا کہ ادیبوں اور شاعروں سے لے کر گیت نگاروں نے لڑکی کے بابل کے آنگن سے جانے پر کتنا کچھ لکھا ہے۔۔۔ لیکن ہاسٹل کے لیے گھر سے بچپن میں ہی دور کر دیے جانے والوں کے دلوں کا حال کیوں نہیں لکھا۔۔۔؟ وہ جن کے بچپن کو لڑکپن اور نوجوانی میں بدلتے ہوئے ان کی مائیں نہیں دیکھ پاتیں۔۔۔ اور وہ بچے جو اپنے گھروں سے اپنی ماؤں سے ملنے کو سال بھر میں فقط چند دن پاتے ہیں۔۔۔ وقت نکلا جاتا ہے، ہم پڑھ لکھ کر کچھ بن جاتے ہیں، لیکن ماؤں کے ساتھ نہ گزارے جانے والے وقت کا ازالہ کبھی نہیں ہو پاتا۔۔۔
۔۔۔
''نئے چڑیا گھر کی تعمیر کے بعد جامعہ کراچی کو 'گاندھی گارڈن' میں منتقل کردیجیے!''
عابد علی بیگ
اے ساکنانِ شہرکراچی ہوشیار باش۔۔۔ چوں کہ بلدیہ، آپ کے یعنی انسانوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، چناں چہ اب اس نے جانوروں کی فلاح و بہبود کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ خبر آپ نے گزشتہ دنوں اخبارات میں پڑھ ہی لی ہوگی کہ کراچی میں دنیا کا بہترین چڑیا گھر قائم کیا جا رہا ہے۔ بلدیہ کے اعلیٰ حکام کے کہنے کے مطابق چڑیا گھر بار بار قائم کیے جاتے ہیں اس لیے ضرورت اس کی ہے کہ چڑیا گھر ایسا قائم کیا جائے، جو دنیا کے بہترین چڑیا گھروں میں شمار کیا جا سکے۔'' اس خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دنوں 'بلدیہ' کے ماہرین مختلف اداروں کی جانب سے پیش کی گئی اسکیموں میں سے بہترین ماسٹر پلان کا انتخاب کر رہے ہیں۔
کراچی کے ماسٹر پلان کے بارے میں تو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ یہ کاغذ پر بہت اچھا لگتا ہے، مگر ہم نے آج تک اس پر عمل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، اب دیکھیں کہ کہیں جانوروں کو بھی ''گولی'' تو نہیں دی جا رہی ہے، اعلیٰ حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ چڑیا گھر میں زیادہ سے زیادہ تفریحی سامان مہیا کیا جائے گا اور آمدورفت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے سرکلر ریلوے کا اسٹیشن بھی قائم کیا جائے گا۔
کیوں صاحبو! کیا اہلیان کراچی کو تفریحی سامان اور آمدورفت فراہم کردی گئی ہیں، جو جانوروں پر نظر کرم ہو رہی ہے کہ ان کے لیے الگ ریلوے اسٹیشن بھی قائم ہو رہا ہے۔ خبر میں جن مزید سہولتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سڑکوں، انتظامی بلاک، ہل سائڈ ، ریسٹورینٹ، جھیل، میوزیم، مچھلی گھر، لائبریری، آڈیٹوریم، اوپن تھیٹر اور ٹرالی بسوں کے اسٹیشن کی تعمیر پر تقریباً 70 لاکھ روپے خرچ کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ میٹرنٹی ہوم، اسپتال، آبزرویشن سینٹر اور لیبارٹریوں کی تعمیر پر 3لاکھ 20 ہزار روپے صرف ہوں گے۔ خبر میں یہ کہیں نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ تمام سہولتیں کس کے لیے ہوں گی؟ آیا صرف جانور ہی ان سے مستفید ہو سکیں گے یا پھر کبھی کبھی انسانوں کو بھی ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے گا۔
ہمارا خیال ہے کہ اس چڑیا گھر میں انتہائی موڈرن کلچرڈ اور مہذب قسم کے جانور ہی رکھے جائیں گے، جبھی تو صرف سوئمنگ پول کے پاس لباس تبدیل کرنے کے کمروں کی تعمیر پر ہزاروں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ اب ذرا چشم تصور سے یہ منظر دیکھیے۔ ایک لحیم شحیم ہاتھی صاحب گرمی سے تنگ آکر اپنے بچوں کے ساتھ سوئمنگ پول پر آئے۔ لباس تبدیل کرنے کے کمرے میں جا کر سوٹ اتارا اور سوئمنگ کاسٹیوم پہن کر سوئمنگ پول میں چھلانگ لگا دی جب غسل سے جی سیر ہوگیا، تو تالاب سے باہر آئے۔ ریلنگ پر پڑا ہوا تولیا اٹھایا اس سے سر پوچھتے ہوئے پھر اسی کمرے میں گئے اور ذرا سی دیر بعد پھر ''ویل ڈریسڈ (WELL DRESSED) ہوکر برآمد ہوئے اور قریبی ریستوران سے ''کون'' لے کر کھاتے ہوئے میوزیم کی سمت روانہ ہوگئے۔
'بلدیہ' نے ایک امر کا بہت خیال رکھا ہے اور وہ ہے اس جدید چڑیا گھر کا محل وقوع جامعہ کراچی اور 'اردو کالج' تو نزدیک ہی ہیں، زیر تعمیر انجینئرنگ کالج اور آغا خان میڈیکل کالج بھی اس سے زیادہ دور نہیں۔ جب بھی چڑیا گھر کے مکین اپنے ماحول سے ذرا اکتائیں گے، فوراً ٹہلتے ہوئے جامعہ کراچی چلے آئیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہاں انہیں ایسی ایسی مخلوق نظر آئے گی، جو انھوں نے افریقا کے گھنے جنگلات میں بھی نہ دیکھی، نہ سنی ہو گی۔ ریچھ جیسے بال، تیندوے اور گلدار کی کھال جیسی شرٹیں، ہاتھی کے کان جتنے بڑے کالر اور اسی کی ٹانگوں جیسی ''ایلیفینٹ بیل باٹم'' پتلونیں اور پاجامے انھوں نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھے ہوں گے۔
یہ بھی عین ممکن ہے کہ جامعہ کراچی کے طلبا و طالبات کا شوروغل ان امن پسند جانوروں کے سکون میں خلل انداز ہو۔ یہ بے چارے روزانہ کے جلسے، جلوسوں اور ''جلسیوں'' کے عادی تو ہرگز نہ ہوں گے اس لیے ہماری رائے یہ ہے کہ نئے چڑیا گھر کی تعمیر مکمل ہونے پر جیسے ہی پرانے گھر سے جانور یہاں منتقل کیے جائیں جامعہ کراچی کو موجودہ کیمپس سے پرانے چڑیا گھر یعنی 'گاندھی گارڈن' میں منتقل کردیا جائے اور موجودہ کیمپس چڑیا گھر کے حوالے کر دیا جائے، تاکہ اس کے مکین آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔ یہ مشورہ ہم حسب سابق بغیر کسی معاوضے کے دے رہے ہیں:
گر قبول افتد زہے عزو شرف
۔۔۔
والد کے گورنر ہوتے ہوئے بھی پورا گورنر ہائوس نہیں دیکھا
سعدیہ راشد
ہمیں پورا آئیڈیل کسی شخصیت میں مل جائے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے ٹکڑے ضرور لوگوں کی شخصیت میں بکھرے مل جاتے ہیں۔ کبھی ایسی کوئی شخصیت بھی مل جاتی ہے جس کے وجود میں ہمارے آئیڈیل کے بیش تر رنگ، بیش تر ستارے زیادہ سے زیادہ نقوش چمک رہے ہوتے ہیں اور ہم غیرشعوری طور پر اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک شخصیت ایسی مل گئی جس میں میرے آئیڈیل کے سارے رنگ نقوش موجود تھے۔ یہ اباجان تھے۔ میرے آئیڈیل وہ مکمل ایک شخصیت تھے۔
بیٹیاں یوں بھی باپ سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ میں اپنی امی کے مقابلے میں ابا جان سے زیادہ قریب تھی، حالاں کہ میں شروع سے ان سے بہت ڈرتی تھی، لیکن سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھی۔ میں وہی ہونا چاہتی تھی، جو وہ مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔
مجھ سے یہ کسی نے نہیں کہا۔ میری امی نے بھی نہیں، لیکن مجھے یہ احساس شدت سے رہتا تھا کہ میں کوئی بات ایسی نہ کروں، جو ابا جان کے معیار عمل سے گری ہوئی ہو۔ میرے قول و عمل میں کوئی پہلو ایسا نہ ہو کہ کوئی کہے یہ حکیم محمد سعید کی بیٹی ہیں۔ مجھے ہر وقت یہ احساس رہتا تھا کہ ابا جان نے بڑی محنت، بڑی قربانیوں سے اپنا ایک مقام بنایا ہے، ایک نام پیدا کیا ہے۔ ان کی نیک نامی پر کوئی حرف نہ آئے۔ یہ احساس بچپن کے بالکل ابتدائی زمانے سے میری لاشعور میں جاگزین تھا اور جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی یہ احساس شعوری طور پر بڑھتا گیا۔
ابا جان نے میری تربیت اس طرح کی کہ کبھی مجھے بٹھاکر یہ نہیں کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے۔ تربیت کا ان کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میں عمل کرکے دکھایا کرتا ہوں مجھے کہنے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے خاموشی سے میری تربیت کی اور تمام قدریں جو انہیں عزیز تھیں اپنے عمل سے بتا دیں۔
سچائی، دیانت داری، تواضع، شائستگی، رواداری، اخلاق، دین داری۔ انہوں نے مجھے سب سکھا دیا۔ ان کا انداز یہ تھا کہ بس اب ساتھ ہیں تو انسان سیکھتا جائے۔ ہم ساتھ رہتے تھے۔ میرا خیال ہے سونے کے لیے بس چند گھنٹے ہی تھے، جس میں ہم الگ ہوتے تھے، ورنہ مستقل ساتھ ساتھ رہتے، حتیٰ کہ جب کسی پروگرام میں جاتے، تو ساتھ ہوتے کوئی استقبالیہ ہوتا، دفتر جا رہے ہیں، دفتری معاملات ہیں، ہمیشہ ساتھ ہوتے۔ وقت تو وہ اپنا بالکل بھی ضایع نہیں کرتے تھے۔ راستے میں بھی ضروری کاغذات دیکھتے جاتے۔ ہم ان کاغذات کے حوالے سے بھی بات کرلیتے۔ گورنری کے زمانے میں بھی وہ ہماری تربیت کرتے رہتے تھے۔
وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمیں کوئی غلط احساس ہو۔ ہم کسی 'کمپلیکس' میں مبتلا ہوں۔ ہم نے گورنرہائوس تو پوری طرح دیکھا بھی نہیں۔ گورنر ہائوس کی گاڑی تو وہ خود بہت کم استعمال کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب وہ سندھ کے گورنر تھے، ہم ہوائی جہاز میں سفر کر رہے تھے۔ جہاز کے عملے نے ہمیں اکونومی کلاس میں آگے کی دو سیٹیں جو فرسٹ کلاس کیبن کے فوراً بعد تھیں، ہمیں دی تھیں۔ ایئرہوسٹس نے جو فرسٹ کلاس میں میزبانی کر رہی تھی، دیکھا کہ گورنر صاحب بیٹھے ہیں، تو اورنج جوس لے کر ہماری طرف آئی اور ابا جان کو پیش کیا، انھوں نے نہیں لیا۔
جب انھوں نے ہاتھ نہیں بڑھایا، تو میں نے بھی ہاتھ نہیں بڑھایا۔ مجھے معلوم تھا کہ ابا جان نے جوس کیوں نہیں لیا ہے اور یہ وہ سمجھ رہے تھے، لیکن اس کے باوجود جب ایئرہوسٹس چلی گئی، تو انھوں نے مجھ سے کہا، تمہیں پتا ہے، میں نے جوس کیوں نہیں لیا؟ میں نے کہا جی ہاں۔ یہ فرسٹ کلاس کے مسافروں کے لیے تھا، کہنے لگے ہاں، ہم اس کے مسافر نہیں ہیں، اس لیے اس پر تو ہمارا حق نہیں تھا۔ اس وقت بھی وہ چاہتے تھے کہ ہماری تربیت ہو اور ہمیں یہ معلوم ہو کہ یہ ہمارا حق نہیں ہے۔ ورنہ کیا تھا جوس وہ بھی پی لیتے اور میں بھی پی لیتی۔