مقبرہ شہزادہ پرویز
مغل شہزادے سے منسوب مقبرے میں دراصل کون مدفون ہے؟
NEW YORK:
لاہور کے علاقے کوٹ خواجہ سعید میں ایک خوبصورت مقبرہ موجود ہے جسے حکومت نے چاروں جانب سے جنگلے اور گیٹ پر تالا ڈال کر محفوظ کر رکھا ہے یا یوں کہیں کہ عوام کے عتاب سے بچا کر رکھا ہے۔
اس مقبرے کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ شہنشاہ جہانگیر کے بیٹے شہزادہ پرویز کی آخری آرام گاہ ہے۔ تُزکِ جہانگیری کے مطابق جہانگیر کے پانچ بیٹے تھے، خُسرو ، پرویز، خُرم ، جہاں دار اور شہریار جن میں سے تین کا انتقال شہنشاہ کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا۔ شہزادہ پرویز کا ایک بیٹا اور ایک ہی بیٹی تھی جس کی شادی شاہ جہاں کے بیٹے شہزادہ دارا شکوہ سے ہوئی تھی۔
ہر مغل بادشاہ کی طرح شہزادہ پرویز نے بھی ایک خوب صورت باغ اور محل تعمیر کروایا جو لاہور کے علاقے کوٹ خواجہ سعید میں واقع تھا۔ اُس دور میں شہزادے کی وجہ سے لاہور کے اس علاقے کو پرویز آباد کا نام دیا گیا تھا۔
لیکن اس مقبرے (جسے عوام الناس میں پرویز کا مقبرہ کہا جاتا ہے) کے بارے میں بہت سی آراء اور تضادات موجود ہیں جن کا ہم باری باری جائزہ لیں گے۔
''کنہیا لال'' کے مطابق شہزادہ پرویز کو جب آصف خان کے حکم پر مار دیا گیا تو اسے اِس جگہ دفن کیا گیا لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیوںکہ شہزادے کا انتقال 1625 میں بُرہان پور (دکن ) میں ہوا تھا جہاں سے انہیں آگرہ پہنچایا گیا اور وہیں انہیں دفن کردیا گیا۔
مولوی نور احمد چشتی اپنی کتاب ''تحقیقاتِ چشتی'' میں لکھتے ہیں کہ؛
''یہ مقبرہ شہزادے پرویز کا ہے جو شہنشاہ شاہ جہاں کا بھائی تھا۔ اس کا گنبد علی مردان کے مقبرے سے بھی زیادہ اونچا ہے۔ یہ آٹھ دروازوں سے گھرا ہوا ہے جو مٹتے جا رہے ہیں۔ بعد میں شاہ جہاں نے یہاں ایک منڈی بنوائی جسے پرویز آباد کا نام دیا گیا۔ شہزادے کا انتقال 1081 ہجری میں ہوا تھا۔''
یہاں چشتی صاحب کی کچھ باتیں بالکل غلط ہیں جیسے پرویز کی وفات کا سال، کیوںکہ وہ بادشاہ جہانگیر کی زندگی میں ہی وفات پا چکا تھا، جب کہ بادشاہ خود 1037 ہجری میں مرا تھا۔
اس کے علاوہ ''تاریخِ ہندوستان'' کی چھٹی جلد میں ''مولوی ذکا اللہ دہلوی'' لکھتے ہیں کہ؛
''جب بادشاہ نے غزنی سے براستہ کابل ہندوستان کی طرف سفر شروع کیا تو کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے شہزادے پرویز کو جگر کا عارضہ لاحق ہو گیا اور وہ اسی درد سے مر گیا۔ شہزادے کی تاریخِ وفات صفر 6، 1035 ہجری تھی اور اسے آگرہ کے باغ میں دفن کیا گیا۔''
اگر ہم مولوی ذکا اللہ کی بات پر یقین کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقبرہ شہزادے پرویز کا نہیں ہے۔
کچھ لوگوں کے مطابق یہ ''دارا شکوہ'' کا مقبرہ ہے اور ان کی طرف سے یہاں مقبرہ دارا شکوہ کی تختی بھی لگا دی گئی تھی لیکن دارا شکوہ بھی دہلی میں قتل ہوا اور اسے ہمایوں کے مقبرے کے پاس دفن کیا گیا۔
عبداللہ چغتائی کے مطابق اس جگہ ایک باغ موجود تھا جو شہزادے پرویز کی ملکیت تھا اور اس کے آس پاس کا علاقہ منڈی پرویز آباد کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی وفات کے بعد یہ اس کی بیٹی ''نادرہ بیگم'' کو منتقل ہوا جو داراشکوہ کی بیوی تھی۔
چغتائی صاحب کے بقول اس مقبرے میں داراشکوہ کا بیٹا ''میر شکوہ'' مدفون ہے، لیکن ان کا یہ کہنا تاریخی حوالہ جات سے کہیں بھی ثابت شدہ نہیں ہے۔
تو یہ مقبرہ کس کا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
ان سب میں زیادہ مُستند رائے سید لطیف شاہ کی لگتی ہے جو ایک تاریخ داں ہیں اور انہوں نے لاہور کی تاریخی جگہوں پر بھی کافی تحقیق کر رکھی ہے۔ ان کے مطابق؛
''یہ مقبرہ شہزادہ پرویز کے بیٹے کا ہو سکتا ہے کیوںکہ اس کو لاہور ہی میں شاہ جہاں کے حکم پر قتل کیا گیا تھا اور لاہور ہی کے باغ میں اسے دفن بھی کیا گیا تھا۔''
1892 میں محمد لطیف کے لکھے الفاظ کے مطابق یہ مقبرہ زرخیز میدان میں ایک چبوترے پر شان سے ایستادہ ہے جو خود قدِانسانی جتنے ایک چبوترے پر بنا ہے۔ اس کے شان دار گنبد کو آٹھ خوب صورت محرابوں نے سنبھال رکھا ہے۔
یہ مقبرہ جس کا بھی ہو لیکن ایک بات تو ثابت ہے کہ وہ شخص شاہی خاندان کا فرد تھا کیوںکہ یہ مقبرہ مغلیہ شان و شوکت کا عکاس ہے۔
یہ لاہور کی ان خوب صورت اور منفرد عمارتوں میں سے ایک ہے جو مغل دورِحکومت میں بنائی گئیں۔ یہ محل اور باغ شہزادہ پرویز نے خود اپنی نگرانی میں تعمیر کروائے تھے۔ کنہیا لال کے مطابق یہ مقبرہ سیمنٹ کے بڑے چبوترے پر ایک کمرے جتنا اونچا بنایا گیا تھا۔ اس کے باہر اور اندر، دونوں حصوں کے فرش پر سنگِ مرمر لگایا گیا تھا جو بعد میں رنجیت سنگھ کے حکم پر اتار لیا گیا۔ چشتی صاحب کے بقول یہ سنگِ مرمر امرتسر میں واقع دربار صاحب میں لگایا گیا تھا۔
کہتے ہیں کہ مقبرے کے اندر خوب صورت فریسکو آرٹ کا کام کیا گیا تھا اور یہاں سیڑھیاں بھی موجود تھیں جو اب ناپید ہیں۔
موجودہ صورت حال کی بات کریں تو یہ عظیم الشان مقبرہ چھوٹے چھوٹے گھروں اور دکانوں میں چُھپ کہ رہ گیا ہے۔ اس کے چہار جانب ایک جنگلہ لگا ہوا ہے اور دروازے پر تالا۔ یعنی یہ چاروں جانب سے قید کر دیا گیا ہے۔ اس کے ایک طرف پہلوانوں کا چھوٹا سا اکھاڑہ ہے جہاں سے اس مقبرے تک جایا جا سکتا ہے۔
مقبرے کی حالت دگردوں ہے۔ عمارت خستہ حال اور اندر موجود قبر بھی شکست و ریخت سے دوچار ہے۔ محرابیں شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ مقبرے پر کہیں کوئی کُتبہ یا پلیٹ نہیں لگی۔ محکمۂ آثارِ قدیمہ کو چاہیے کہ اس کی ضروری مرمت کر کے اسے عوام الناس کے لیے کھول دے، تاکہ ہمارے عوام کو پتا چلے کہ لاہور صرف ''والڈ سٹی'' کا ہی نام نہیں ہے، یہاں جا بجا ایسے شان دار عجوبے پھیلے ہوئے ہیں جن پر تحقیق کر کے انہیں سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے۔
لاہور کے علاقے کوٹ خواجہ سعید میں ایک خوبصورت مقبرہ موجود ہے جسے حکومت نے چاروں جانب سے جنگلے اور گیٹ پر تالا ڈال کر محفوظ کر رکھا ہے یا یوں کہیں کہ عوام کے عتاب سے بچا کر رکھا ہے۔
اس مقبرے کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ شہنشاہ جہانگیر کے بیٹے شہزادہ پرویز کی آخری آرام گاہ ہے۔ تُزکِ جہانگیری کے مطابق جہانگیر کے پانچ بیٹے تھے، خُسرو ، پرویز، خُرم ، جہاں دار اور شہریار جن میں سے تین کا انتقال شہنشاہ کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا۔ شہزادہ پرویز کا ایک بیٹا اور ایک ہی بیٹی تھی جس کی شادی شاہ جہاں کے بیٹے شہزادہ دارا شکوہ سے ہوئی تھی۔
ہر مغل بادشاہ کی طرح شہزادہ پرویز نے بھی ایک خوب صورت باغ اور محل تعمیر کروایا جو لاہور کے علاقے کوٹ خواجہ سعید میں واقع تھا۔ اُس دور میں شہزادے کی وجہ سے لاہور کے اس علاقے کو پرویز آباد کا نام دیا گیا تھا۔
لیکن اس مقبرے (جسے عوام الناس میں پرویز کا مقبرہ کہا جاتا ہے) کے بارے میں بہت سی آراء اور تضادات موجود ہیں جن کا ہم باری باری جائزہ لیں گے۔
''کنہیا لال'' کے مطابق شہزادہ پرویز کو جب آصف خان کے حکم پر مار دیا گیا تو اسے اِس جگہ دفن کیا گیا لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیوںکہ شہزادے کا انتقال 1625 میں بُرہان پور (دکن ) میں ہوا تھا جہاں سے انہیں آگرہ پہنچایا گیا اور وہیں انہیں دفن کردیا گیا۔
مولوی نور احمد چشتی اپنی کتاب ''تحقیقاتِ چشتی'' میں لکھتے ہیں کہ؛
''یہ مقبرہ شہزادے پرویز کا ہے جو شہنشاہ شاہ جہاں کا بھائی تھا۔ اس کا گنبد علی مردان کے مقبرے سے بھی زیادہ اونچا ہے۔ یہ آٹھ دروازوں سے گھرا ہوا ہے جو مٹتے جا رہے ہیں۔ بعد میں شاہ جہاں نے یہاں ایک منڈی بنوائی جسے پرویز آباد کا نام دیا گیا۔ شہزادے کا انتقال 1081 ہجری میں ہوا تھا۔''
یہاں چشتی صاحب کی کچھ باتیں بالکل غلط ہیں جیسے پرویز کی وفات کا سال، کیوںکہ وہ بادشاہ جہانگیر کی زندگی میں ہی وفات پا چکا تھا، جب کہ بادشاہ خود 1037 ہجری میں مرا تھا۔
اس کے علاوہ ''تاریخِ ہندوستان'' کی چھٹی جلد میں ''مولوی ذکا اللہ دہلوی'' لکھتے ہیں کہ؛
''جب بادشاہ نے غزنی سے براستہ کابل ہندوستان کی طرف سفر شروع کیا تو کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے شہزادے پرویز کو جگر کا عارضہ لاحق ہو گیا اور وہ اسی درد سے مر گیا۔ شہزادے کی تاریخِ وفات صفر 6، 1035 ہجری تھی اور اسے آگرہ کے باغ میں دفن کیا گیا۔''
اگر ہم مولوی ذکا اللہ کی بات پر یقین کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقبرہ شہزادے پرویز کا نہیں ہے۔
کچھ لوگوں کے مطابق یہ ''دارا شکوہ'' کا مقبرہ ہے اور ان کی طرف سے یہاں مقبرہ دارا شکوہ کی تختی بھی لگا دی گئی تھی لیکن دارا شکوہ بھی دہلی میں قتل ہوا اور اسے ہمایوں کے مقبرے کے پاس دفن کیا گیا۔
عبداللہ چغتائی کے مطابق اس جگہ ایک باغ موجود تھا جو شہزادے پرویز کی ملکیت تھا اور اس کے آس پاس کا علاقہ منڈی پرویز آباد کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی وفات کے بعد یہ اس کی بیٹی ''نادرہ بیگم'' کو منتقل ہوا جو داراشکوہ کی بیوی تھی۔
چغتائی صاحب کے بقول اس مقبرے میں داراشکوہ کا بیٹا ''میر شکوہ'' مدفون ہے، لیکن ان کا یہ کہنا تاریخی حوالہ جات سے کہیں بھی ثابت شدہ نہیں ہے۔
تو یہ مقبرہ کس کا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
ان سب میں زیادہ مُستند رائے سید لطیف شاہ کی لگتی ہے جو ایک تاریخ داں ہیں اور انہوں نے لاہور کی تاریخی جگہوں پر بھی کافی تحقیق کر رکھی ہے۔ ان کے مطابق؛
''یہ مقبرہ شہزادہ پرویز کے بیٹے کا ہو سکتا ہے کیوںکہ اس کو لاہور ہی میں شاہ جہاں کے حکم پر قتل کیا گیا تھا اور لاہور ہی کے باغ میں اسے دفن بھی کیا گیا تھا۔''
1892 میں محمد لطیف کے لکھے الفاظ کے مطابق یہ مقبرہ زرخیز میدان میں ایک چبوترے پر شان سے ایستادہ ہے جو خود قدِانسانی جتنے ایک چبوترے پر بنا ہے۔ اس کے شان دار گنبد کو آٹھ خوب صورت محرابوں نے سنبھال رکھا ہے۔
یہ مقبرہ جس کا بھی ہو لیکن ایک بات تو ثابت ہے کہ وہ شخص شاہی خاندان کا فرد تھا کیوںکہ یہ مقبرہ مغلیہ شان و شوکت کا عکاس ہے۔
یہ لاہور کی ان خوب صورت اور منفرد عمارتوں میں سے ایک ہے جو مغل دورِحکومت میں بنائی گئیں۔ یہ محل اور باغ شہزادہ پرویز نے خود اپنی نگرانی میں تعمیر کروائے تھے۔ کنہیا لال کے مطابق یہ مقبرہ سیمنٹ کے بڑے چبوترے پر ایک کمرے جتنا اونچا بنایا گیا تھا۔ اس کے باہر اور اندر، دونوں حصوں کے فرش پر سنگِ مرمر لگایا گیا تھا جو بعد میں رنجیت سنگھ کے حکم پر اتار لیا گیا۔ چشتی صاحب کے بقول یہ سنگِ مرمر امرتسر میں واقع دربار صاحب میں لگایا گیا تھا۔
کہتے ہیں کہ مقبرے کے اندر خوب صورت فریسکو آرٹ کا کام کیا گیا تھا اور یہاں سیڑھیاں بھی موجود تھیں جو اب ناپید ہیں۔
موجودہ صورت حال کی بات کریں تو یہ عظیم الشان مقبرہ چھوٹے چھوٹے گھروں اور دکانوں میں چُھپ کہ رہ گیا ہے۔ اس کے چہار جانب ایک جنگلہ لگا ہوا ہے اور دروازے پر تالا۔ یعنی یہ چاروں جانب سے قید کر دیا گیا ہے۔ اس کے ایک طرف پہلوانوں کا چھوٹا سا اکھاڑہ ہے جہاں سے اس مقبرے تک جایا جا سکتا ہے۔
مقبرے کی حالت دگردوں ہے۔ عمارت خستہ حال اور اندر موجود قبر بھی شکست و ریخت سے دوچار ہے۔ محرابیں شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ مقبرے پر کہیں کوئی کُتبہ یا پلیٹ نہیں لگی۔ محکمۂ آثارِ قدیمہ کو چاہیے کہ اس کی ضروری مرمت کر کے اسے عوام الناس کے لیے کھول دے، تاکہ ہمارے عوام کو پتا چلے کہ لاہور صرف ''والڈ سٹی'' کا ہی نام نہیں ہے، یہاں جا بجا ایسے شان دار عجوبے پھیلے ہوئے ہیں جن پر تحقیق کر کے انہیں سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے۔