ملکی معیشت اورآئی ایم ایف
پاکستان کے تمام مسیحا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ نئی حکومت کو ابتدا سے ہی آئی ایم ایف سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ بدعنوانی معاشروں کے غریب اورکمزورطبقات کو سب سے زیادہ متاثرکررہی ہے، دستیاب فنڈزکا بدعنوانی کے نتیجہ میں ضیاع ایک المیہ ہے۔
ممالک کو بہترانتظام وانصرام، شفافیت، احتساب ،سرکاری خریداریوں کی آن لائن تفصیلات اورمنی لانڈرنگ کے تدارک جیسے اقدامات کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہ بات بین الاقوامی مالیاتی فنڈکی مینیجنگ ڈائریکٹرکرسٹالینا جارجیوا نے اینٹی کرپشن کے حوالہ سے ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انھوں نے درحقیقت کرپشن، بدعنوانی، دولت کے ناجائز حصول، گٹھ جوڑ اور پھیلی ہوئی بیوروکریسی، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اجارہ دارانہ مفادات کے تناظر میں کی ہے مگر وہ اس حقیقت کو سامنے نہیں لاسکیں کہ غربت، بدعنوانی، بے لگام انتظامی اختیارات اور حکومتی منصوبوں کی تکمیل میں گھپلوں، منتخب نمائندوں اور سرکاری اہلکاروں کی غیر مرئی کرپشن و ناجائز کمائی نے جمہوریتوں کے زوال اور ان کی عملی دشواریوں کو بے نقاب ہی نہیں کیا ہے بلکہ ایک منتخب عوامی نظام کو اس کے تاریخی پس منظر سے دورکردیا ہے، حقیقت میں دنیا اس وقت دو نظام ہائے حیات سے مشروط چل رہی ہے، ایک سرمایہ دارانہ نظام ہے اوراس کے ساتھ ساتھ جمہوری سسٹم کی گاڑی چل رہی ہے.
دونوں نظام دنیا کے کروڑوں اربوں انسانوں کے زر، رزق، معیشت، تجارت، حکومت ،ریاست اور اداروں کی پیشہ ورانہ وانتظامی ضروریات کا بوجھ اٹھاتے ہیں،آئی ایم ایف کی کرسٹالینا جارجیوا نے ان ہی اہم سوالات پر روشنی ڈالی ہے اور منی لانڈرنگ، بدعنوانی پر انگلی رکھ دی ہے، ان کا کہنا ہے کہ صحت، معیشت اورسماج پرکورونا وائرس کے اثرات سے دنیا کا کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہا، یہ ایک ایسا بحران ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے کہاکہ کورونا وائرس کی وبا سے متاثرہ معیشتوں کی معاونت کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے فوری ردعمل کا مظاہرہ کیا.
آئی ایم ایف کو 100 ممالک کی جانب سے ہنگامی معاونت کی درخواستیں موصول ہوئی۔ جہاں آئی ایم ایف نے فوری معاونت کے لیے اقدامات کیے اس کے ساتھ ساتھ ممالک کو اسلوب حکمرانی بہتر اور احتساب کو یقینی بنانے پر زوردیا گیا، تمام ممالک کے لیے ہمارا پیغام بڑا واضح ہے کہ بحران کے اس دور میں صرف وہ اخراجات کیے جائیں جو ضروری ہوں ، فنڈز سمجھداری سے استعمال کیے جائیں اوراس کی رسیدوں کو محفوظ رکھاجائے۔ احتساب اورشفافیت بالخصوص بحران کے دنوں میں ازحدضروری ہے۔
مالیاتی ادارہ کی سربراہ سے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں، وہ حکومتوں کے داخلی تضادات کی رازداں ہیں، جمہوری عمل کی شفافیت اور عملیت پسندی سمیت اچھی حکمرانی کے سارے بیرومیٹرز پر ان کی نگاہ ہوتی ہے لیکن آئی ایم ایف اور اس کے ساتھ معاہدوں میں شامل حکومتوں کو بھی ایک مثالی جمہوریت کی منزل تک پہنچنے کے معاہدات کی تکمیل میں گورننس کی شفافیت پر کڑی نظر رکھنی پڑتی ہے، ادارہ نے جہاں انتظامی بدعنوانی ، عمومی کرپشن ، نوکرشاہی وسرکاری حکام، محکموں اور وزارتوں کی بے عیب کارکردگی کا جہاں بھی جائزہ لیا ہے تو دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک کی معیشت، انتظامی شفافیت پر گرفت بھی کی ہے.
پاکستان کو بدقسمتی سے جن طاقتوں نے فیٹف کے شکنجہ میں کسا ہے وہ وہی قوتیں ہیں جو خطے میں مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں، لیکن شکر ہے کہ معاشی و مالیاتی مسائل اور دباؤ سے نکلنے اورگڈگورننس کا موثر تاثر قائم کرنے میں اسے جزوی کامیابی ملی ہے، حال ہی میں فیٹف کے تقاضہ کے مطابق حکومت نے 25000کے پرائز بونڈ بھی بند کردیئے، یہ پیش رفت پاکستان کو فیٹف سے نکلنے میں معاونت کرے گی لیکن معاشی معاملات میں شفافیت کا سفر ماہرین کے مطابق ابھی دور ہے، مالیاتی ادارہ کی رپورٹس میں صحت، تعلیم، ڈیمز ،سیلاب، غربت، بجٹ اور شہری ودیہی عدم مساوات سمیت اقتصادی ہمہ جہت ترقی کی رفتار زیر بحث رہتی ہے.
پاکستان کے تمام مسیحا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ نئی حکومت کو ابتدا سے ہی آئی ایم ایف سے رابطہ کرنا چاہیے تھا، لیکن اقتصادی مجبوریوں کے باعث حکام بر وقت فیصلے میں سرعت نہیں دکھا سکے، ایک مخمصہ نے کافی تاخیر سے IMF سے معاملات کرنے کی دھند دورکردی، مگر معاشی ترقی اور اقتصادی اہداف تک رسائی ابھی بھی ایجنڈہ کا صرف حصہ ہے ، عوام ایک آسودہ زندگی کا جو خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں وہ ابھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے۔
حکومت نے احساس پروگرام سے عوام اور خصوصاً نچلے طبقات کی دستگیری کا احسن مشن سنبھالا ہے، عوام کی مدد کے منصوبے جاری ہیں لیکن ایک ہمہ گیر صنعتی پالیسی نظر نہیں آتی جو ملکی معیشت کو آگے لے کر جائے، ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنے معاشی پروگرام کو عوام دوست منصوبوں سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔
ممالک کو بہترانتظام وانصرام، شفافیت، احتساب ،سرکاری خریداریوں کی آن لائن تفصیلات اورمنی لانڈرنگ کے تدارک جیسے اقدامات کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہ بات بین الاقوامی مالیاتی فنڈکی مینیجنگ ڈائریکٹرکرسٹالینا جارجیوا نے اینٹی کرپشن کے حوالہ سے ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انھوں نے درحقیقت کرپشن، بدعنوانی، دولت کے ناجائز حصول، گٹھ جوڑ اور پھیلی ہوئی بیوروکریسی، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اجارہ دارانہ مفادات کے تناظر میں کی ہے مگر وہ اس حقیقت کو سامنے نہیں لاسکیں کہ غربت، بدعنوانی، بے لگام انتظامی اختیارات اور حکومتی منصوبوں کی تکمیل میں گھپلوں، منتخب نمائندوں اور سرکاری اہلکاروں کی غیر مرئی کرپشن و ناجائز کمائی نے جمہوریتوں کے زوال اور ان کی عملی دشواریوں کو بے نقاب ہی نہیں کیا ہے بلکہ ایک منتخب عوامی نظام کو اس کے تاریخی پس منظر سے دورکردیا ہے، حقیقت میں دنیا اس وقت دو نظام ہائے حیات سے مشروط چل رہی ہے، ایک سرمایہ دارانہ نظام ہے اوراس کے ساتھ ساتھ جمہوری سسٹم کی گاڑی چل رہی ہے.
دونوں نظام دنیا کے کروڑوں اربوں انسانوں کے زر، رزق، معیشت، تجارت، حکومت ،ریاست اور اداروں کی پیشہ ورانہ وانتظامی ضروریات کا بوجھ اٹھاتے ہیں،آئی ایم ایف کی کرسٹالینا جارجیوا نے ان ہی اہم سوالات پر روشنی ڈالی ہے اور منی لانڈرنگ، بدعنوانی پر انگلی رکھ دی ہے، ان کا کہنا ہے کہ صحت، معیشت اورسماج پرکورونا وائرس کے اثرات سے دنیا کا کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہا، یہ ایک ایسا بحران ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے کہاکہ کورونا وائرس کی وبا سے متاثرہ معیشتوں کی معاونت کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے فوری ردعمل کا مظاہرہ کیا.
آئی ایم ایف کو 100 ممالک کی جانب سے ہنگامی معاونت کی درخواستیں موصول ہوئی۔ جہاں آئی ایم ایف نے فوری معاونت کے لیے اقدامات کیے اس کے ساتھ ساتھ ممالک کو اسلوب حکمرانی بہتر اور احتساب کو یقینی بنانے پر زوردیا گیا، تمام ممالک کے لیے ہمارا پیغام بڑا واضح ہے کہ بحران کے اس دور میں صرف وہ اخراجات کیے جائیں جو ضروری ہوں ، فنڈز سمجھداری سے استعمال کیے جائیں اوراس کی رسیدوں کو محفوظ رکھاجائے۔ احتساب اورشفافیت بالخصوص بحران کے دنوں میں ازحدضروری ہے۔
مالیاتی ادارہ کی سربراہ سے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں، وہ حکومتوں کے داخلی تضادات کی رازداں ہیں، جمہوری عمل کی شفافیت اور عملیت پسندی سمیت اچھی حکمرانی کے سارے بیرومیٹرز پر ان کی نگاہ ہوتی ہے لیکن آئی ایم ایف اور اس کے ساتھ معاہدوں میں شامل حکومتوں کو بھی ایک مثالی جمہوریت کی منزل تک پہنچنے کے معاہدات کی تکمیل میں گورننس کی شفافیت پر کڑی نظر رکھنی پڑتی ہے، ادارہ نے جہاں انتظامی بدعنوانی ، عمومی کرپشن ، نوکرشاہی وسرکاری حکام، محکموں اور وزارتوں کی بے عیب کارکردگی کا جہاں بھی جائزہ لیا ہے تو دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک کی معیشت، انتظامی شفافیت پر گرفت بھی کی ہے.
پاکستان کو بدقسمتی سے جن طاقتوں نے فیٹف کے شکنجہ میں کسا ہے وہ وہی قوتیں ہیں جو خطے میں مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں، لیکن شکر ہے کہ معاشی و مالیاتی مسائل اور دباؤ سے نکلنے اورگڈگورننس کا موثر تاثر قائم کرنے میں اسے جزوی کامیابی ملی ہے، حال ہی میں فیٹف کے تقاضہ کے مطابق حکومت نے 25000کے پرائز بونڈ بھی بند کردیئے، یہ پیش رفت پاکستان کو فیٹف سے نکلنے میں معاونت کرے گی لیکن معاشی معاملات میں شفافیت کا سفر ماہرین کے مطابق ابھی دور ہے، مالیاتی ادارہ کی رپورٹس میں صحت، تعلیم، ڈیمز ،سیلاب، غربت، بجٹ اور شہری ودیہی عدم مساوات سمیت اقتصادی ہمہ جہت ترقی کی رفتار زیر بحث رہتی ہے.
پاکستان کے تمام مسیحا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ نئی حکومت کو ابتدا سے ہی آئی ایم ایف سے رابطہ کرنا چاہیے تھا، لیکن اقتصادی مجبوریوں کے باعث حکام بر وقت فیصلے میں سرعت نہیں دکھا سکے، ایک مخمصہ نے کافی تاخیر سے IMF سے معاملات کرنے کی دھند دورکردی، مگر معاشی ترقی اور اقتصادی اہداف تک رسائی ابھی بھی ایجنڈہ کا صرف حصہ ہے ، عوام ایک آسودہ زندگی کا جو خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں وہ ابھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے۔
حکومت نے احساس پروگرام سے عوام اور خصوصاً نچلے طبقات کی دستگیری کا احسن مشن سنبھالا ہے، عوام کی مدد کے منصوبے جاری ہیں لیکن ایک ہمہ گیر صنعتی پالیسی نظر نہیں آتی جو ملکی معیشت کو آگے لے کر جائے، ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنے معاشی پروگرام کو عوام دوست منصوبوں سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔