سوچ کو پکڑو
جس طرح گہرے پانیوں میں خونخوارجبڑوں والا مگر مچھ بغیر کسی آواز کے تیرتا ہے، سوچ ہماری زندگیوں کے پانیوں میں تیرتی ہے۔
سوچ کو پکڑو اس سے پہلے کہ وہ تمہیں پکڑ لے۔ جس طرح گہرے پانیوں میں خونخوار جبڑوں والا مگر مچھ بغیر کسی آواز کے تیرتا ہے، سوچ ہماری زندگیوں کے پانیوں میں تیرتی ہے۔ لیکن وہ صرف مگر مچھ کی طرح نہیں بے تاب سْنہری مچھلی کی طرح بھی تیرتی ہے۔ روپہلی کرن کی طرح غوطہ لگاتی اور ابھرتی ہے۔ اس کے ہزاروں رنگ ہیں اور اتنی ہی بھول بھلیاں ہیں، اتنی ہی گھاٹیاں ہیں۔ اتنے ہی پھندے ہیں۔
تمہاری زندگی کی کتاب کا عنوان''شاہنامہ'' بھی ہو سکتا ہے، ''شکوہ'' اور ''جواب شکوہ'' یا ''صادقہ کی مصیبت'' بھی۔ سوال یہ ہے تم اپنی زندگی کی کتاب کا نام کیا رکھنا چاہتے ہو؟ یہ تمہاری سوچ ہی بتائے گی۔ سوچ کو پکڑنا چاہتے ہو؟ پکڑ لو تو کمال ہو جائے۔ گیانی، دھیانی بن جاؤ گے۔ مگر سوچ کو شکنجہ ڈالنا بہت اوکھا کام ہے۔
سوچ کی رفتار عمل کی رفتار سے بہت تیز ہے۔ جب تک کالا مُشکی گھوڑا اس کے تعاقب میں دوڑتا ہے تب تک وہ اگلی گھاٹی عبور کر چکی ہوتی ہے۔ بدھ مت میں،جین مت میں، ہمارے ہاں صوفیوں کے سلسلوں میں بہت بھاری مشقیں ہیں اور مشقت ہے، پھر کوئی کوئی جا کر اسے اس کے ماتھے سے، اس کے سینگوں سے پکڑ پاتا ہے۔
بہت مشکل ہے وہ پھندے لگانا جو سوچ کو پکڑ سکیں۔ ہاں مگر بہت آسان ہے اگر تم ''جوڑے کا قانون'' سیکھ لو اور اس میں مہارت حاصل کر لو۔ اب میں جو بات بتانے جا رہا ہوں وہ عام ترین بات ہے۔ تاہم وہ خاص ترین بھی ہے کہ ہم اس پر غور نہیں کرتے۔ ہو سکتا ہے یہ تمہاری زندگی کی سب سے خاص بات بن جائے۔ جوڑے کا قانون کہتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں، وہ دو دفعہ ہوتا ہے، ایک دفعہ ہمارے ذہن میں، دوسری مرتبہ حقیقت میں!
جی بالکل دو دفعہ۔ جیسے یہ سطریں پہلے میرے ذہن پر اتریں اور پھر کاغذ پر۔ جیسے تم کسی کو فون کرنے کے لیے ، پیغام بھیجنے کے لیے فون جیب سے نکالو تو معلوم ہوتا ہے کہ کس کو کال ملانی ہے، اور کیا کہنا ہے۔ اگر یہ تحریر کسی اسکرین پر پڑھی جا رہی ہے تو فون بذات خود پہلے کسی کے ذہن میں بنا اور پھر کاغذ پر اترا اور پھر فیکٹری میں جا کر اسمبل ہوا۔ جس گھر میں مقیم ہو اس کا پہلے نقشہ بنا، پھر وہ تعمیر ہوا۔ جو گاڑی چلائی جا رہی ہے، وہ کسی کے ذہن رسا کی تخلیق ہے۔ تمہارے اکثر افعال پہلے دماغ کی ورکشاپ میں جنم لیتے اور پھر حقیقت ہوتے ہیں۔ نماز بھی پڑھنی ہے تو پہلے خیال ذہن میں جنم لے گا اور پھر حقیقت بنے گا!
سوچو، اور سوچو! کیسا ہے یہ جوڑے کا قانون؟ کوئی اس سے باہر چیز سوچو تو؟ ہاں صرف حادثہ ہو سکتا ہے جو سوچے بغیر ہو جائے، زندگی کا کوئی بھی فعل اس کے سوا سر انجام نہیں پا سکتا۔ یہی گھاٹی ہے جہاں سوچ کو پکڑا جا سکتا ہے۔ جب وہ پہلی دفعہ نیلے پانیوں میں ڈبکی لگانے کے لیے اچھلتی ہے تو یہیں اسے جال میں ڈالا جا سکتا ہے۔ ورنہ اگر وہ سوچنے سے کرنے میں آ گئی تو مچھلی جال سے نکل چکی ہے۔
اب سوچو تو کیا ہو گا؟ اب تم اس گھوڑے کی پشت پر چھلانگ مار سکتے ہو جس کی زین کے ساتھ گھسٹ رہے تھے۔ اب آٹو بٹن آن نہیں ہے۔ اب زندگی خود بخود نہیں گزر رہی ہے، بلکہ اس کا اسٹیرنگ کچھ کچھ ہاتھ میں آ رہا ہے۔
اگرچہ ہر چیز دو مرتبہ ہوتی ہے تو وہ سوچ پہلی مرتبہ کہاں سے وارد ہوتی ہے؟ کون سی کھڑکی، کون سے روزن، کون سی درز سے اندر گھستی ہے؟
دو مچھیرے مچھلیوں کے شکار پر گئے۔ چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی اور کشتیاں لہروں پر تیر رہی تھیں۔ پہلے مچھیرے کی کنڈی تھوڑی دیر بعد ہلی، دیکھا تو ایک جاندار ٹراؤٹ کیڑا نگل چکی تھی۔ پہلے مچھیرے نے ترنت اسے قابو کیا اور بوری میں بھر لیا۔ پھر اس نے درجن بھر اور مچھلیاں بھی قابو کر لیں۔ اب اس کی بوری بھرنے لگی تھی۔ اسی دوران اس نے ایک انوکھا منظر دیکھا۔
دوسرا مچھیرا کافی دیر سے مچھلی کے انتظار میں تھا۔ اس کی کنڈی ہلی اور اس نے مچھلی کو قابو کرنا شروع کیا، تھوڑی سی ڈھیل دی اور اوپر کھینچا تو ایک وزنی سامن مچھلی ترپھولیاں کھا رہی تھی۔ مچھیرے نے تڑپتی مچھلی کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور پھر چھپاک سے پانی میں پھینک دیا۔ یہی نہیں کچھ دیر بعد اس نے دو اور وزنی مچھلیوں کے ساتھ بھی یہی کیا۔
پہلا مچھیرا کافی حیران ہوا۔ اتنا حیران کہ اس نے چیخ کر پوچھا ''کیا کرتے جا رہے ہو؟ مچھلی واپس کیوں پھینکتے ہو؟''
دوسرے نے ایک بے اعتنائی سے جواب دیا ''اس لیے کہ میرا برتن چھوٹے پیندے کا ہے، بڑی مچھلی کیسے ڈالوں گا؟''
کچھ سوچیں چھوٹے پیندے کی مری مرائی ہوتی ہیں۔ کچھ خوف کی ماری سہمی ہوئی ہوتی ہیں۔ کچھ پر ڈر کے مارے دھپڑ نکلے ہوتے ہیں۔ کچھ کا دم نکلا ہوا ہے اور سانس چڑھا ہوتا ہے۔ کیا ہی کمال ہو کہ ہم ان کو بھاگنے سے پہلے ہی دبوچ لیں۔ ہم ان سب کو باری باری پکڑنا سیکھیں گے۔
بول میری مچھلی، کتنا پانی؟