قرنطینہ کی سختیاں دورہ نیوزی لینڈ کو نگلتے نگلتے رہ گئیں

دستبرداری پرسنجیدگی سے غورکیا،کھلاڑیوں نے کرکٹ کے مفاد میں ٹور جاری رکھنے پر اتفاق کرلیا

بدقسمتی سے کرائسٹ چرچ میں ٹیسٹ مثبت آگئے، پابندیوں کا وقت گزرگیا،اب آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں،پاکستانی کوچ۔ فوٹو : فائل

قرنطینہ کی سختیاں دورہ نیوزی لینڈکو نگلتے نگلتے رہ گئیں۔

کوئنز ٹاؤن سے ویڈیو کال پر میڈیا کے ساتھ بات چیت میں پاکستانی ہیڈ کوچ مصباح الحق نے کہا کہ ہم نے قرنطینہ کے دوران مشکل صورتحال میں دورئہ نیوزی لینڈ سے دستبرداری پرسنجیدگی سے غور کیا تھا۔

پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی اور چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے ہم سے بات کی تھی مگرپلیئرز نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اب آئے ہیں تو ڈٹے رہنے کی پوری کوشش کریں گے اور اچھی کرکٹ کھیل کر وطن واپس جائیں گے،کورونا وائرس کی وجہ سے حالات کہیں بھی نارمل نہیں ہیں،ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ کھیل کو جاری رکھنے میں ذمہ دارانہ کردار ادا کریں۔


انھوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ میں کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزیاں غیر ارادی طور پر ہوئیں، کھلاڑیوں نے دوران سفر بھی ہر ممکن احتیاط برتی، کرائسٹ چرچ میں سامان وغیرہ وصول کرتے ہوئے جو غلطیاں ہوئیں وہ دانستہ نہیں کی گئی تھیں، بعد ازاں کھلاڑی پروٹوکولز کے معاملات کو سمجھ گئے اور مکمل احتیاط برتی، ذمہ دارانہ رویے کو بعدازاں نیوزی لینڈ کے متعلقہ حکام نے بھی سراہا۔

مصباح الحق نے کہا کہ بدقسمتی سے کرائسٹ چرچ میں کورونا ٹیسٹ مثبت آئے،اس وجہ سے 3روز بعد ٹریننگ کا سلسلہ شروع نہیں ہوسکا اور طویل انتظار کرنا پڑا، اب سخت ایس اوپیز کی پابندیوں کا وقت گزر گیا، ہم آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں، ہم مقامی حکومت کے کورونا پروٹوکولز کا احترام کرتے ہیں۔ مشکل وقت میں لوگوں کو تفریح فراہم کرنا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پاکستان مقابلوں میں شرکت کرکے انٹرنیشنل کرکٹ کو سپورٹ کر رہا ہے، دیگر ملکوں کو بھی اسی مثبت سوچ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس سیریز کی تیاریوں کے لیے وقت بہت کم ہے، 3 ہفتے کا کام ایک ہفتے میں کرنا آسان نہیں مگر ایک پروفیشنل کے طور پر آئسولیشن کی سختیوں کو اپنی کارکردگی کا جواز نہیں بنائیں گے۔ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، میسر وقت میں بہترین تیاری کرنے کی کوشش کریں گے۔

ایک سوال پر ہیڈ کوچ نے کہا کہ اس طرح کی صورتحال میں وقت گزارنا نہ صرف کہ کرکٹرز بلکہ کسی بھی شخص کے لیے مشکل ہے مگر اس کھیل کو زندہ رکھنا ہے تو قربانیاں دینا ضروری ہیں، پرستاروں کے لیے کھیلنا ہے تو کرکٹرز اور کرکٹ کوچنگ اسٹاف کو کوشش کرنا پڑے گی، کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ یہ سلسلہ مزید کتنی دیر تک چلتا رہے گا اور ایک پروفیشنل کے طور پر کب تک پلیئرز ان حالات کو برداشت کر سکتے ہیں۔
Load Next Story