کوویڈ19 پاک بھارت مذہبی سیاحت کو بڑا دھچکا

2020 بھارت کی طرف سے کسی بھی پاکستانی زائر کو ویزا نہیں دیا گیا


آصف محمود December 12, 2020
بھارت نے کبھی 1974 کے مذہبی سیاحت کے معاہدہ کی کبھی پاسداری نہیں کی فوٹو: فائل

 

پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ تعلقات اوراب حالیہ کوویڈ 19 کی وجہ سے دونوں ملکوں میں مذہبی سیاحت کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ رواں سال پاکستان نے بھارتی سکھ اور ہندو یاتریوں کو مذہبی رسومات ادا کرنے اور اہم تقریبات میں شرکت کے لئے محدود تعداد میں پاکستان آنے کی اجازت دی ہے تاہم بھارت کی طرف سے کسی بھی پاکستانی زائر کو مختلف اولیا کرام کے عرس تقریبات میں شرکت کے لئے ویزا جاری نہیں ہوا ہے۔

سال 2019 میں بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد پاکستان اوربھارت کے مابین کشیدگی بڑھ گئی تھی، دونوں ملکوں کے مابین، تجارت، بس اور ٹرین سروس معطل کردی گئی تھی اوریہ سلسلے ابھی تک بحال نہیں ہوسکے ہیں۔ رواں سال جہاں دونوں ملکوں یہ روایتی کشیدگی برقرار رہی وہیں مارچ میں کوریڈ 19 کی وجہ سے جب دونوں ملکوں نے لاک ڈاؤن لگایا تو باہمی سرحد بھی بند کردی گئی تھی جس کی وجہ سے عام مسافروں کی واہگہ بارڈر کے راستے آمدورفت بند ہوگئی۔

پاکستان اوربھارت کے مابین ستمبر 1974 کواسلام آباد میں مذہبی سیاحت کا معاہدہ طے پایاتھا جس کے تحت پاکستان نے یہاں موجود سکھوں اور ہندوؤں کے 15 مقدس مقامات کے لئے ویزا جاری کرنا تھا جبکہ بھارت پانچ اولیا کرام کے سالانہ عرس پر پاکستانی زائرین کو ویزافراہم کرنے کاپابند ہے۔ بھارت پاکستانی زائرین کو حضرت محی الدین چشتی اجمیرشریف ، حضرت نظام الدین اولیا،نئی دہلی،حضرت امیرخسرو،نئی دہلی ، حضرت مجددالف ثانی ،سرہند اورحضرت علاوالدین صابر پیا، کلیئرشریف کے سالانہ عرس کے موقع پر ویزا دینے کا پابند ہے لیکن اس سال بھارت کی طرف سے کسی بھی پاکستانی زائر کو ویزا نہیں دیا گیا ہے۔

دوسری طرف پاکستان ،بھارتی سکھ اورہندوشہریوں کو شادانی دربار حیات پتافی گھوٹکی، شری کٹاس راج، گورودارہ جنم استھان ننکانہ صاحب، گوردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال، سمادھی مہاراجہ رنجیت سنگھ لاہور، گوردوارہ ڈیرہ صاحب لاہور، گورودارہ دیوان خانہ لاہور، گوردوارہ شہید گنج لاہور،گورودوارہ بھائی تاراسنگھ لاہور، گوردوارہ جنم استھان گورورام داس لاہور،گوردوارہ چھیویں پادشاہی مزنگ لاہور اور میرپور ماتھیلو سندھ کے لئے ویزا جاری کرتا ہے جبکہ بھارت سے مسلمان زائرین حضرت داتا علی ہجویری کے سالانہ عرس میں شرکت کے لئے بھی آسکتے ہیں۔ پاکستان نے کوویڈ 19 اور کشیدہ حالات کے باوجود بھارتی شہریوں کے مذہبی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے پاکستان نے 27 نومبر کو 602 بھارتی سکھ یاتریوں کو محدود مدت کے لئے ویزا جاری کیا تاکہ وہ ننکانہ صاحب میں باباگورونانک دیوجی کا 551 واں جنم مناسکیں، بھارتی شہری یہاں پانچ دن قیام کے بعد یکم دسمبرکو واپس لوٹ گئے جبکہ 15 دسمبر کو بھارتی ہندو یاتریوں کا ایک وفد شادانی دربار حیات پتافی میں مذہبی رسومات ادا کرنے پاکستان آئے گا۔

پاکستان اوربھارت نے کوریڈ19 کی وجہ سے ویزافری کرتارپور کوریڈور بھی بند کردیا تھا جسے امن کی راہداری کہا جاتا ہے تاہم پاکستان نے 29 جون کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی پرکرتارپور راہداری کھولنے کا اعلان کیالیکن بھارت نے اس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا اسی طرح باباگورونانک کی برسی اوراب دسمبرمیں ان کے 551 ویں جنم دن پر بھی پاکستان نے دعوت دی تھی کہ بھارتی یاتری کوریڈور کے راستے کرتارپور صاحب آسکتے ہیں لیکن بھارتی حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔

اس حوالے سے پاکستان کی وزارت مذہبی اموروبین المذاہب ہم آہنگی کے ترجمان عمران صدیقی نے ایکسپریس کوبتایا کہ بھارت نے ہمیشہ دونوں ملکوں کے مابین 1974 کے مذہبی سیاحت کے معاہدہ کی کبھی پاسداری نہیں کی ہے جبکہ پاکستان نے کوریڈ 19 کے باوجود سکھوں کو باباگورونانک کے 551 ویں جنم دن پرخوش آمدید کہا ہے جبکہ بھارت نے پاکستانی زائرین کو مختلف اولیا کرام کے سالانہ عرس کی تقریبات میں شرکت کے لئے ویزانہیں دیا ہے،اپنی ویب سائٹ بھی بندکرکھی ہے، اسی طرح پاکستان کی خواہش تھی کہ بھارتی سکھ یاتری کرتارپور راہداری کے راستے کرتار پور صاحب آسکیں جہاں ان کے گورونے زندگی کے آخری سال گزارے لیکن بھارت کوریڈ 19 کو بہانہ بناکر سکھوں کو راہداری کے راستے بھی پاکستان آنے سے روک رہا ہے۔ بھارت اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کررہا ہے اس حوالے سے پوری دنیا کے سامنے اس کا کردار واضح ہوگیا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان ہے جس نے ہمیشہ امن اور دوستی کی بات کی ہے۔

دوسری طرف یونیورسٹی آف دہلی، انڈیا کی اسسٹنٹ پروفیسراورانسانی حقوق کی سرگرم کارکن دیویکا متل سجھتی ہیں سال 2020 میں دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے سے متعلق کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے لیکن گزشتہ سال جو کرتارپور کوریڈور اوپن ہوا تھا وہ آج بھی دونوں ملکوں کے مابین امن کی ایک امید ہے۔ دیویکا کا کہنا تھا اس وقت انڈیا اور پاکستان میں کوریڈ 19 کی تشویش ناک صورت حال ہے وہ سمجھتی ہے کہ ابھی یہ پابندی برقرار رہنی چاہیے جب تک صورتحال خطرناک سطح سے کم نہیں آجاتی، بین الاقوامی سفر اور امیگریشن کا مطلب ہے مزید رسک اور خطرہ مول لینا تاہم دونوں ممالک کو جو انتہائی اہم مذہبی ایونٹس ہیں ان کے لیے محدود پیمانے پر اجازت دینی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں