غیر قانونی تجارت کا ناسور
یہ حقیقت ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی اور عوام کو جمہوری ثمرات کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ غیر قانونی تجارت بھی ہے۔
وزیر اعظم کے مشیر اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا ہے کہ غیر قانونی تجارت کا چیلنج حقیقت ہے جس سے جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجٹلائزیشن سے نمٹا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی اور عوام کو جمہوری ثمرات کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ غیر قانونی تجارت بھی ہے جو برس ہا برس سے معیشت کے سامنے ایک عفریت کی صورت کھڑی ہے، سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملکی سلامتی کے لیے سرحدیں محفوظ رہیں تو کسی کو اس میں در آنے کی جرأت نہیں ہو گی، خطے کی صورتحال خطرات سے لبریز ہے، مگر بھارت کنٹرول میں ہے، باڑھ لگی ہوئی ہے، سرحدیں محفوظ ہیں لیکن پاک ایران اور پاک افغان سرحد کو مزید مضبوط نبانے کی اشد ضرورت ہے، سمندر اور خشکی کے راستے، دہشت گردوں، جرائم پیشہ گروہوں، اسمگلروں، کھیپیوں کی آمد و رفت آسان ہے، ان کے نقل و حمل کے میتھڈ اور میکنزم موثر ہیں، ایران سے پٹرول کیسے آتا ہے؟ دیگر اشیاء بغیر کسٹمز ،ٹیرف یا کوئی اور نافذ ٹیکس دیے، چیک پوسٹوں کے باوجود ملکی مارکیٹس تک کیسے رسائی حاصل کر لیتی ہیں، سمندری راستوں سے غیرقانونی سرگرمیوں اور غیرقانونی تجارت کو روکنا ضروری ہے۔
اسی طرح شمال مغربی سرحد سے اسمگلنگ کا باآسانی سامان سپلائی ہو جاتا ہے جو پورے ملک کے شہروں تک پہنچ جاتا ہے، اس غیر مرئی تجارتی میکنزم کے اثرات ہولناکی کی ایک تاریخ رکھتے ہیں، یہ اسمگلنگ chain کا دوسرا طریقہ ہے جس کے کارندے منڈیوں، مصروف ترین مارکیٹوں اور بازاروں میں ہزارہا اقسام اور برانڈ کی اشیاء اس تیزی، چالاکی اور فریب کاری سے لاکر پھیلا دیتے ہیں کہ اکثر قانون کی گرفت سے بھی بچتے ہیں، اس تجارت کے کئی نام اور کئی مقام ہیں، اس کا نیٹ ورک ملکی مارکیٹوں میں بہتے دریا کی طرح کا ہے، نہ دکھائی دینے والے عوامل ''دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا'' کے مصداق رات دن اپنا کام چلاتے ہیں، کروڑوں اربوں کا کاروبار اسی غیر قانونی تجارت کے نام پر ہوتا ہے، جس کے بہروپ دھارے کارندے لیگل بزنس اور قانونی کاروباری کارٹیل کے متوازی تجارت کرتے ہوئے ملک کے طول وعرض میں قانونی معاشی اور تجارتی سرگرمیوں پر مبنی معیشت کو مفلوج کرنے کا ہر وہ طریقہ استعمال کرتے ہیں جن سے ملکی معیشت اور کاروبار کے مفادات پر زد پڑتی ہے اور ان پارٹیوں کا سرمایہ بیرون ملک بھی منتقل ہوتا ہے۔
دی اکانومسٹ ایونٹس کے تحت غیرقانونی تجارت کے موضوع پر آن لائن مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجٹلائزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت موبائل فونز کی اسمگلنگ پر قابو پا چکی ہے، اس سے قبل 74 فیصد موبائل فونز اسمگل کرکے پاکستان لائے جا رہے تھے۔ یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چپھی نہیں ہے کہ خیبر پختونخوا کی ٹرائبل بیلٹ، سوات،بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی بھرمار ہے۔ بعض علاقوں میں لوگ اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلز پر نمبر پیلٹ تک لگاتے، اس سے وفاقی خزانے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور صوبائی حکومتوں کا ایکسائز ریونیو متاثر ہورہا ہے۔
معیشت کو استحکام دینے کے لیے ان علاقوں پر قانون کا نافذ نہایت ضروری ہے۔صوبائی حکومتوں کی ریونیو وصولی کی شرح پر بھی قومی اسمبلی پر بحث ہونی چاہیے۔ غیر قانونی تجارت سے پاکستان کی معیشت کو ہر سال اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے جو نہ صرف پاکستان کی قانونی صنعت بلکہ معیشت کے لیے بھی ایک خطرہ ہے۔ ا بلاشبہ پاکستان میں کاروباری مواقع تجارت کو درپیش چیلنجز سے زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کاروباری نمو عالمی شرح سے دوگنا زیادہ ہے۔
ادھر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ٹیکسوں کی بلند شرح اور ٹیکس نظام کی پیچیدگیاں کاروبار کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سبب ہیں۔ ای کامرس اور ڈیجیٹائزیشن کے ذریعے غیرقانونی تجارت کی روک تھام ممکن ہے۔ اس وقت پاکستانی مارکیٹ میں بے تحاشا اسمگل شدہ مصنوعات آ رہی ہیں جن پر حکومت ٹیکس وصول نہیں کر رہی، اسمگل شدہ مصنوعات کی بھرمار قانونی تجارت اور ٹیکس ادا کرنے والے کاروبار کی نمو پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
غیر قانونی تجارت پر قدغن ناگزیر ہے، اس لیے کہ اس تجارت کی ریگولیشن نہیں ہوئی ہے، افغانستان سے پاکستانی سرحد عبور کرنے کا سلسلہ قیام پاکستان سے جاری ہے، طورخم اور چمن بارڈر پر کاروبار کو قانونی شکل دینے کے اقدامات موثر نہیں رہے، حکومت پاکستان کے احکامات کے تحت پاک افغان ٹریڈ کے ذریعے ہی کوئی چیز افغانستان سے پاکستان آ سکتی ہے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ اسمگلنگ کا وسیع میدان اب بھی کھلا ہوا ہے۔
نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پاکستان میں کون لاتا ہے، یہ راز نہیں، کون سے اسٹیک ہولڈرز ہیں جن کے ہاتھ قانون سے بھی قدرے لمبے ہیں، جو ہر قسم کے انسدادی اور امتناعی قانون اور ضابطوں کی دھجیاںاڑاتے ہیں، جہاں سے چینی، گندم، مسالحہ جات، الائچی، خشک میوہ جات سمیت الیکٹرانک، ڈیجیٹل ڈیوائسز، موبائل فونز، قیمتی پرفیوم، شیمپو، ملبوسات، جوتوں سمیت دیگر سامان اسمگل ہوتا ہے، این سی پی(نان کسٹم پیڈ) لگژری گاڑیاں دھڑلے سے فروخت ہورہی ہیں، پاک افغان تعلقات کی معاندانہ نوعیت سے سب واقف ہیں، افغانستان کے پاکستان سے تعلقات کبھی دوستانہ نہیں،افغانستان آج بھی پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرنے سے باز نہیں آرہا مگر اسمگلنگ کے ناتے سب ناجائز کام سرانجام پاتے ہیں۔ملک کے پالیسی سازوں کو اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہیے۔
اسمگلنگ سے ایسے گروہ دیکھتے دیکھتے اربوں پتی ہورہے ہیں، جن کا کلچر تجارتی نہیں بلکہ بدعنوانی ہے، یہ لوگ معاشرے میں جرائم، رشوت اور بدعنوانی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ ایسے افراد اور سرحدوں پر ریاست کی رٹ کا قائم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ملک کے بڑے شہروں میں اسمگلنگ اور غیرقانونی تجارت کے ذریعے ناقص اور غیرمیعاری پلاسٹک گڈز، الیکٹرانک سامان کے انبار لگائے گئے ہیں، کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں چھوٹی بڑی مارکیٹوں اور شاپنگ مالز تک میں غیر معیاری بلیڈ، تھرماس،گھڑیاں، سامان تعیش سے لے کر بچوں کے ملبوسات، الیکٹرانک کھلونے، خواتین کے شیمپو، ہیئر آئل، کلر آئل، شہد، جام جیلیز، خشک دودھ، جوتے، چاکلیٹس دستیاب ہیں۔
ملک بھر کے بازار اور مارکیٹیں چینی پروڈ کٹس سے بھری ہوئی ہیں، دستی گھڑی سے جوگر تک مل جاتے ہیں لیکن کہیں بھی کوالٹی کنٹرول نہیں ہے، لوگ عموماً مثال دیتے ہیں کہ اتنی دریا دلی جو پاکستانی عوام میں دیکھی گئی اس کا کوئی مظہر کہیں بھی نہیں ملتا، یہاں راکھ کو بھی آنکھوں کے لیے سرمہ بناکر بیچنے والے تاجروں اور ان غیر معیاری اشیاء کو ملک میں پہنچانے والے سرکاری عمال کی کمی نہیں، میڈیا ملاوٹی اور دو نمبری چیزوں کو تحویل میں لینے کی اطلاع دیتا ہے مگر لوگ آگہی حاصل نہیں کرتے، کون سی چیز معیاری اور پائیدار ہے، اس کی کوئی ضمانت نہیں، یوں بھی پاکسستانی قوم میڈ ان پاکستان کی محبت میں کبھی بیتاب نہیں رہی بلکہ غیرملکی چیزوں پر ہمیشہ سے جان چھڑکتی رہی ہے اور نقصان بھی اٹھاتی رہی ہے۔
منشیات اور اسلحہ کی غیر قانونی تجارت بھی اسی روٹ سے ہوتی ہے، چونکہ خطے میں سیاسی صورتحال غیر یقینی ہے، امن وامان کی بے یقینی نے اسمگلنگ کو غیر قانونی تجارت کے لیے ''فری فار آل'' بنا لیا ہے، منشیات کی تجارت کے نت نئے تخلیقی اور حیران کن طریقے آٓزمائے جاتے ہیں، پاک ایران بارڈر بھی توجہ کا طالب ہے، موجودہ حکومت دو طرفہ سطح پر سرحدی علاقے میں کاروباری زونز اور دکانوں کی تعمیر کے ایک اقتصادی منصوبہ پر عملدرآمد کا ارادہ رکھتی ہے۔
دونوں ملکوں کے کسٹم حکام اس منصوبے کے مختلف مراحل کا جائزہ لے چکے ہیں، اگر اس پر علاقائی صورتحال کے سیاق و سباق میں دو برادر ملکوں کے عوام کو ان کی علاقائی رہائش گاہوں کے قریب مارکیٹیں بنائی جائیں تو معاشی سرگرمیاں مثبت نتائج دے سکتی ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے زون اور حساس سرحدی علاقے میں سیکیورٹی کے معاملات کو گہری نظر سے مانیٹر کرنے کی ضرورت ہو گی تاکہ دہشت گردی اوراسمگلنگ کے نیٹ ورک سے وابستہ عناصر اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں شفاف تجارت کو یقینی بنانے کے لیے شعور کو صارفین کی سطح پر بیدار کیا جائے اور غیر قانونی تجارت کا جلد قلع قمع کرنا آسان ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو قانونی ذرائع سے فنشڈ گڈز پاکستان میں آتی ہیں، ان کی کوالٹی کا معیار چیک ہونا چاہیے۔ ملک کے اندر جو لوگ دو نمبری کر کے مختلف اشیاء بنا رہے ہیں، ان کے خلاف بھی کریک ڈاؤن ہونا چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی اور عوام کو جمہوری ثمرات کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ غیر قانونی تجارت بھی ہے جو برس ہا برس سے معیشت کے سامنے ایک عفریت کی صورت کھڑی ہے، سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملکی سلامتی کے لیے سرحدیں محفوظ رہیں تو کسی کو اس میں در آنے کی جرأت نہیں ہو گی، خطے کی صورتحال خطرات سے لبریز ہے، مگر بھارت کنٹرول میں ہے، باڑھ لگی ہوئی ہے، سرحدیں محفوظ ہیں لیکن پاک ایران اور پاک افغان سرحد کو مزید مضبوط نبانے کی اشد ضرورت ہے، سمندر اور خشکی کے راستے، دہشت گردوں، جرائم پیشہ گروہوں، اسمگلروں، کھیپیوں کی آمد و رفت آسان ہے، ان کے نقل و حمل کے میتھڈ اور میکنزم موثر ہیں، ایران سے پٹرول کیسے آتا ہے؟ دیگر اشیاء بغیر کسٹمز ،ٹیرف یا کوئی اور نافذ ٹیکس دیے، چیک پوسٹوں کے باوجود ملکی مارکیٹس تک کیسے رسائی حاصل کر لیتی ہیں، سمندری راستوں سے غیرقانونی سرگرمیوں اور غیرقانونی تجارت کو روکنا ضروری ہے۔
اسی طرح شمال مغربی سرحد سے اسمگلنگ کا باآسانی سامان سپلائی ہو جاتا ہے جو پورے ملک کے شہروں تک پہنچ جاتا ہے، اس غیر مرئی تجارتی میکنزم کے اثرات ہولناکی کی ایک تاریخ رکھتے ہیں، یہ اسمگلنگ chain کا دوسرا طریقہ ہے جس کے کارندے منڈیوں، مصروف ترین مارکیٹوں اور بازاروں میں ہزارہا اقسام اور برانڈ کی اشیاء اس تیزی، چالاکی اور فریب کاری سے لاکر پھیلا دیتے ہیں کہ اکثر قانون کی گرفت سے بھی بچتے ہیں، اس تجارت کے کئی نام اور کئی مقام ہیں، اس کا نیٹ ورک ملکی مارکیٹوں میں بہتے دریا کی طرح کا ہے، نہ دکھائی دینے والے عوامل ''دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا'' کے مصداق رات دن اپنا کام چلاتے ہیں، کروڑوں اربوں کا کاروبار اسی غیر قانونی تجارت کے نام پر ہوتا ہے، جس کے بہروپ دھارے کارندے لیگل بزنس اور قانونی کاروباری کارٹیل کے متوازی تجارت کرتے ہوئے ملک کے طول وعرض میں قانونی معاشی اور تجارتی سرگرمیوں پر مبنی معیشت کو مفلوج کرنے کا ہر وہ طریقہ استعمال کرتے ہیں جن سے ملکی معیشت اور کاروبار کے مفادات پر زد پڑتی ہے اور ان پارٹیوں کا سرمایہ بیرون ملک بھی منتقل ہوتا ہے۔
دی اکانومسٹ ایونٹس کے تحت غیرقانونی تجارت کے موضوع پر آن لائن مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجٹلائزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت موبائل فونز کی اسمگلنگ پر قابو پا چکی ہے، اس سے قبل 74 فیصد موبائل فونز اسمگل کرکے پاکستان لائے جا رہے تھے۔ یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چپھی نہیں ہے کہ خیبر پختونخوا کی ٹرائبل بیلٹ، سوات،بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی بھرمار ہے۔ بعض علاقوں میں لوگ اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلز پر نمبر پیلٹ تک لگاتے، اس سے وفاقی خزانے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور صوبائی حکومتوں کا ایکسائز ریونیو متاثر ہورہا ہے۔
معیشت کو استحکام دینے کے لیے ان علاقوں پر قانون کا نافذ نہایت ضروری ہے۔صوبائی حکومتوں کی ریونیو وصولی کی شرح پر بھی قومی اسمبلی پر بحث ہونی چاہیے۔ غیر قانونی تجارت سے پاکستان کی معیشت کو ہر سال اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے جو نہ صرف پاکستان کی قانونی صنعت بلکہ معیشت کے لیے بھی ایک خطرہ ہے۔ ا بلاشبہ پاکستان میں کاروباری مواقع تجارت کو درپیش چیلنجز سے زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کاروباری نمو عالمی شرح سے دوگنا زیادہ ہے۔
ادھر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ٹیکسوں کی بلند شرح اور ٹیکس نظام کی پیچیدگیاں کاروبار کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سبب ہیں۔ ای کامرس اور ڈیجیٹائزیشن کے ذریعے غیرقانونی تجارت کی روک تھام ممکن ہے۔ اس وقت پاکستانی مارکیٹ میں بے تحاشا اسمگل شدہ مصنوعات آ رہی ہیں جن پر حکومت ٹیکس وصول نہیں کر رہی، اسمگل شدہ مصنوعات کی بھرمار قانونی تجارت اور ٹیکس ادا کرنے والے کاروبار کی نمو پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
غیر قانونی تجارت پر قدغن ناگزیر ہے، اس لیے کہ اس تجارت کی ریگولیشن نہیں ہوئی ہے، افغانستان سے پاکستانی سرحد عبور کرنے کا سلسلہ قیام پاکستان سے جاری ہے، طورخم اور چمن بارڈر پر کاروبار کو قانونی شکل دینے کے اقدامات موثر نہیں رہے، حکومت پاکستان کے احکامات کے تحت پاک افغان ٹریڈ کے ذریعے ہی کوئی چیز افغانستان سے پاکستان آ سکتی ہے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ اسمگلنگ کا وسیع میدان اب بھی کھلا ہوا ہے۔
نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پاکستان میں کون لاتا ہے، یہ راز نہیں، کون سے اسٹیک ہولڈرز ہیں جن کے ہاتھ قانون سے بھی قدرے لمبے ہیں، جو ہر قسم کے انسدادی اور امتناعی قانون اور ضابطوں کی دھجیاںاڑاتے ہیں، جہاں سے چینی، گندم، مسالحہ جات، الائچی، خشک میوہ جات سمیت الیکٹرانک، ڈیجیٹل ڈیوائسز، موبائل فونز، قیمتی پرفیوم، شیمپو، ملبوسات، جوتوں سمیت دیگر سامان اسمگل ہوتا ہے، این سی پی(نان کسٹم پیڈ) لگژری گاڑیاں دھڑلے سے فروخت ہورہی ہیں، پاک افغان تعلقات کی معاندانہ نوعیت سے سب واقف ہیں، افغانستان کے پاکستان سے تعلقات کبھی دوستانہ نہیں،افغانستان آج بھی پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرنے سے باز نہیں آرہا مگر اسمگلنگ کے ناتے سب ناجائز کام سرانجام پاتے ہیں۔ملک کے پالیسی سازوں کو اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہیے۔
اسمگلنگ سے ایسے گروہ دیکھتے دیکھتے اربوں پتی ہورہے ہیں، جن کا کلچر تجارتی نہیں بلکہ بدعنوانی ہے، یہ لوگ معاشرے میں جرائم، رشوت اور بدعنوانی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ ایسے افراد اور سرحدوں پر ریاست کی رٹ کا قائم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ملک کے بڑے شہروں میں اسمگلنگ اور غیرقانونی تجارت کے ذریعے ناقص اور غیرمیعاری پلاسٹک گڈز، الیکٹرانک سامان کے انبار لگائے گئے ہیں، کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں چھوٹی بڑی مارکیٹوں اور شاپنگ مالز تک میں غیر معیاری بلیڈ، تھرماس،گھڑیاں، سامان تعیش سے لے کر بچوں کے ملبوسات، الیکٹرانک کھلونے، خواتین کے شیمپو، ہیئر آئل، کلر آئل، شہد، جام جیلیز، خشک دودھ، جوتے، چاکلیٹس دستیاب ہیں۔
ملک بھر کے بازار اور مارکیٹیں چینی پروڈ کٹس سے بھری ہوئی ہیں، دستی گھڑی سے جوگر تک مل جاتے ہیں لیکن کہیں بھی کوالٹی کنٹرول نہیں ہے، لوگ عموماً مثال دیتے ہیں کہ اتنی دریا دلی جو پاکستانی عوام میں دیکھی گئی اس کا کوئی مظہر کہیں بھی نہیں ملتا، یہاں راکھ کو بھی آنکھوں کے لیے سرمہ بناکر بیچنے والے تاجروں اور ان غیر معیاری اشیاء کو ملک میں پہنچانے والے سرکاری عمال کی کمی نہیں، میڈیا ملاوٹی اور دو نمبری چیزوں کو تحویل میں لینے کی اطلاع دیتا ہے مگر لوگ آگہی حاصل نہیں کرتے، کون سی چیز معیاری اور پائیدار ہے، اس کی کوئی ضمانت نہیں، یوں بھی پاکسستانی قوم میڈ ان پاکستان کی محبت میں کبھی بیتاب نہیں رہی بلکہ غیرملکی چیزوں پر ہمیشہ سے جان چھڑکتی رہی ہے اور نقصان بھی اٹھاتی رہی ہے۔
منشیات اور اسلحہ کی غیر قانونی تجارت بھی اسی روٹ سے ہوتی ہے، چونکہ خطے میں سیاسی صورتحال غیر یقینی ہے، امن وامان کی بے یقینی نے اسمگلنگ کو غیر قانونی تجارت کے لیے ''فری فار آل'' بنا لیا ہے، منشیات کی تجارت کے نت نئے تخلیقی اور حیران کن طریقے آٓزمائے جاتے ہیں، پاک ایران بارڈر بھی توجہ کا طالب ہے، موجودہ حکومت دو طرفہ سطح پر سرحدی علاقے میں کاروباری زونز اور دکانوں کی تعمیر کے ایک اقتصادی منصوبہ پر عملدرآمد کا ارادہ رکھتی ہے۔
دونوں ملکوں کے کسٹم حکام اس منصوبے کے مختلف مراحل کا جائزہ لے چکے ہیں، اگر اس پر علاقائی صورتحال کے سیاق و سباق میں دو برادر ملکوں کے عوام کو ان کی علاقائی رہائش گاہوں کے قریب مارکیٹیں بنائی جائیں تو معاشی سرگرمیاں مثبت نتائج دے سکتی ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے زون اور حساس سرحدی علاقے میں سیکیورٹی کے معاملات کو گہری نظر سے مانیٹر کرنے کی ضرورت ہو گی تاکہ دہشت گردی اوراسمگلنگ کے نیٹ ورک سے وابستہ عناصر اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں شفاف تجارت کو یقینی بنانے کے لیے شعور کو صارفین کی سطح پر بیدار کیا جائے اور غیر قانونی تجارت کا جلد قلع قمع کرنا آسان ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو قانونی ذرائع سے فنشڈ گڈز پاکستان میں آتی ہیں، ان کی کوالٹی کا معیار چیک ہونا چاہیے۔ ملک کے اندر جو لوگ دو نمبری کر کے مختلف اشیاء بنا رہے ہیں، ان کے خلاف بھی کریک ڈاؤن ہونا چاہیے۔