دنیا میں محنت کشوں کی اُبھرتی ہوئی آوازیں
جہاں انسان کی عزت نفس کو غرور کے پاؤں تلے روندا نہیں جاتا تھا، یہاں ذات پات و مذہب کی کوئی لکیر نہیں تھی۔
دنیا کی موجود تحریری تاریخ میں مصر و سندھ ہی ایسے دو خطے ہیں جہاں زرعی نظام اور زرعی قوانین زمانہ قدیم سے موجود نظر آتے ہیں ۔
موہن جو دڑو کی تحقیق بتاتی ہے کہ اِس مملکت کا نظام خالص جمہوری خطوط پر استوار تھا ، جس میں دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ کسان یعنی محنت کشوں کا نمایندہ بھی مملکتی فیصلوں کی بااختیار شوریٰ کا برابر کا رکن تھا ، جو محنت کشوں کے حقوق و اختیارات کا دفاع کرتا اور اُن کے لیے قانون سازی کرواتا تھا۔ تاریخ میں پہلی شعوری کوشش بلکہ منظم نظریاتی تحریک 1710ع میں سندھ میں نظر آتی ہے۔
اس تحریک کے روح رواں شاہ عنایت شہید تھے ۔ شاہ صاحب مختلف ممالک کا دورہ اور تعلیم مکمل کرکے جب واپس سندھ (جھوک ، ٹھٹہ) واپس لوٹے تو ملک میں طبقاتی لوٹ مار، جاگیرداروں ، پیروں اور میروں کی ناانصافیاں دیکھ کرانھوں نے اپنے آبائی شہر میں ایک ایسے سماج کی داغ بیل ڈالی ، جس میں انسانیت کے حقوق کو تحفظ تھا۔
جہاں انسان کی عزت نفس کو غرور کے پاؤں تلے روندا نہیں جاتا تھا، یہاں ذات پات و مذہب کی کوئی لکیر نہیں تھی۔ یہاں کے لوگ چاہے مرشد ہوں یا مرید ، مالک ہوں یا کسان، سب ملکر زمین میں ہل چلاتے تھے ۔ آمدنی و پیداوار میں سب کا برابر کا حق و حصہ تھا۔ انھوں نے ''جو کھیڑے سو کھائے '' (یعنی جو کاشت کرے وہی فصل کا مکمل طور پر مالک ہے) جیسا عظیم سوشلسٹ نظریہ عملی طور پر رائج کیا۔
آج بھی انسان اپنی محنت کی تعظیم اور اُجرت کے لیے سرگرداں ہے ۔ تیسری دنیا کے تقریباً سبھی ملکوں بالخصوص پاکستان اور بھارت جیسے تمام ملکوں میں آج بھی محنت کش کی وصف و کشف کی تعریف پر زیر تعمیر کا بورڈ لگا ہوا ہے ۔ 1950کے عشرے میں بابائے سندھ کامریڈ حیدربخش جتوئی کی رہبری میں سندھ سے اُٹھنے والی ہاری تحریک کی محنت کی بدولت پاکستان میں کسانوں کو کچھ حقوق ملے ، لیکن وقت ، حالات اور سماج و مارکیٹ کی بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر زراعت کے شعبے میں کئی جدتوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے خاص طور پرکسان محنت کشوں کی اُجرت، طریقہ کار ، اوقات ِ کار ، فصل میں حصہ اور اختیار سے متعلق ترمیم کی تو اشد ضرورت ہے۔
کسانوں کے حقوق کے نام پر ملک کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کی ذیلی ونگ کے ساتھ ساتھ ہاری تحریک ،عوامی تحریک، پاکستان فشر فوک فورم و دیگر کچھ تنظیمیں اب بھی سرگرم ہیں ۔تیسری دنیا کے ممالک میں سے پاکستان و دیگر ترقی پذیر ممالک میں کسانوں کی اکثریت ناخواندہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے آئینی و فطرتی حق اور قوانین سے ناواقف رہتے ہیں ، وہاں مختلف قومی و لسانی تضادات موجود ہونے یا پھر یوں کہیے کہ حکمران قوتوں کی جانب سے ایسے تضادات جان بوجھ کر پیدا کردیے جاتے ہیں کہ جن میں محنت کشوں کی تعریف ہی بدل جاتی ہے یا پھر وہاں کے محنت کش خود ہی ایک دوسرے کے حقوق سلب کرنے میں سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے سانجھی بن جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں کوئی مضبوط آواز سنائی نہیں دیتی لیکن بھارت میں اس وقت کسانوں کی اکثریت خواندہ اور منظم ہونے کے باعث ایک مضبوط قوت بن کر سامنے آئی ہے ۔
بھارت میں حال ہی میں سرمایہ داروں کے زیر اثر حکمرانوں نے زرعی شعبہ میں نجی کردارکے اثر کوبڑھانے کی مزید اجازت دینے والی آئینی ترمیم کی ہے ، جس پر کسانوں کے سخت اعتراضات سامنے آئے ، جنھیں سننے کے لیے حکومت تیار نہیں ہوئی تو بالآخر کسانوں نے ہڑتال اور احتجاج کا آغاز کردیا ہے۔ گذشتہ کئی روز سے کسانوں نے بھارت میں ایک منظم تحریک شروع کر رکھی ہے ، ان کی جانب سے ملک گیر ہڑتال کی گئی اور اب 13 دنوں سے ملک کے دارالحکومت کی مین شاہراہوں اور ریلوے ٹریک پر مسلسل دھرنا دیے بیٹھے ہیں ۔ ان کی پُرامن اور منظم اور توانا آواز اور مضبوط موقف نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو ایک نئی قوت بخشی ہے۔
ان کی مؤثر آواز ، تحریک اور مضبوط موقف کی بناء پر بھارت کی حزب ِ اختلاف کی اکثر جماعتیں اور کچھ حکومتی جماعتیں بھی ان کی حمایت پر مجبور ہیں۔ جن میں سب سے بڑا نام دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال ہیں ، جن کی محنت کشوں کے اس احتجاج میں امکانی شمولیت کے باعث بھارت کی مرکزی حکومت نے اُنہیں نظربند کر کے رکھا ہے ، جو کہ خود اس تحریک کی طاقت کا پتہ دیتا ہے ۔نہ صرف یہ بلکہ دنیا بھر سے بھارتی کسان محنت کشوں کی اس تحریک کی حمایت میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں ۔ کئی ممالک نے سرکاری سطح پر اس تحریک کی حمایت کی ہے، یہاں تک کہ امریکی کانگریس میں بھی اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں ایک طرف کسانوں کی حالت کسمپرسی والی ہے، صنعتی شعبے کو خام مال فراہم کرنیوالے اس زرعی شعبے سے وابستہ اکثر کسانوں اور صنعتی و دیگر کارپوریٹ سیکٹر کے محنت کشوں سمیت دہاڑی پر کام کرنیوالے مزدور و چھوٹے کاروباروں سے متصل محنت کش طبقے کی حالت انتہائی خراب ہے ۔ملک کی موجودہ صورتحال کی بنیادی وجہ آئین سے چھیڑ چھاڑ ، کمٹمنٹ سے عاری سیاست، اخلاق اور قانون سے روگردانی ، دولت کی ہوس اورسرمایہ دارانہ بجٹ ہیں ۔ جن کی بدولت ملکی زراعت ، کسان، مزدور اور لوئر مڈل کلاس کی قوت میں روز بروز کمی ہوتی جارہی ہے اور شاہوکار مزید شاہوکار ہوتے جارہے ہیں ۔
کسانوں کی تو یہ حالت ہے کہ چھ ماہ تک اہل و عیال سمیت محنت کے بعد فصل اُترنے پر جب اُن کی آمدن کا موقع آتا ہے تو حکمرانوں کی سرمایہ دار دوست اور کسان دشمن پالیسیوں کی بدولت اُنہیں کبھی خوشحالی کے قابل منافع نہیں ہوتا۔ گلوبل سلیوری انڈیکس 2018 کی رپورٹ میں ظاہر کیا گیا کہ پاکستان میں اس وقت بھی 3186000 محنت کش غلاموں کی طرح کام کرتے ہیں ۔
جبری مشقت کی روک تھام کے لیے 2015میں پاس کیے گئے سندھ بانڈیڈ لیبر ابالیشن سسٹم ایک اور سندھ ٹیننسی ایکٹ پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جاتا ۔ اور تو اور ملک میں لاکھوں کسانوں کی رجسٹریشن اور ٹیننسی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق صوبہ سندھ کی ہائی کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا لیکن حکومت نے اُس پر عمل کرنے کے بجائے اُس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ۔ ملک میں نہ لیبر قوانین پر عمل ہوتا اور نہ ہی زرعی قوانین میں بہتری لائی جارہی ہے۔کسان ہوں یا صنعتی مزدور دونوں شکاگو والے مزدوروں سے زیادہ کمزور حالت میں ہیں۔ دونوں ملکوں کے حکمرانوں کا سارا زور سرمایہ دار طبقے کی خوشنودی حاصل کرنے پر ہے۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان و بھارت دونوں ملکوں میں غریب و محنت کشوں کے دکھوں کا مداوہ کرنے کے دعوے کرنیوالے ہی اُن کی اس کسمپرسی والی حالت کے ذمے دار ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ بھی پیداواری ذرائع ہیں۔ فیکٹریاں ، کارخانے ، زرعی زمین ان حکمران خاندانوں اور اُن کے شراکت دار سرمایہ داروں کی نجی ملکیت ہیں۔ اسی ملکیت کے زور پر وہ کروڑوں مزدوروں اور کسانوں کی مشترکہ محنت سے اپنی دولت میں ہر وقت اضافہ کرتے ہیں ۔ اُسی دولت سے اپنی فیکٹریاں ، املاک اور زرعی زمینیں بڑھاتے جاتے ہیں۔
اس تمام لوٹے ہوئے سرمایہ کی حفاظت کے لیے سیاسی جماعتیں بناتے ہیں اور عوام پر قابض ہوتے ہیں۔ ان سے نجات کا واحد ذریعہ مزدور و کسان اور ماہی گیر اپنی تنظیمیں ملکی سطح پر منظم کریں اور اجتماعی ملکیت کی تحریک کا آغاز کریں اور پھر کچھ دیگر ممالک کے محنت کش تنظیموں کے ساتھ باہمی اتحاد کے ذریعے عالمی محنت کش تحریک کو مضبوط کریں۔ جس کے لیے گذشتہ ایک برس کے دوران پاکستان اور بھارت میں خاص طور پر نوجوانوں اور کسانوں و مزدوروں کی ہلچل کی صورت میں تیار ماحول کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔
کبھی لاہور میں طلبہ کی ریلی میں ''جب لال لال لہرائے گا، تب ہوش ٹھکانے آئے گا'' کے پُرجوش نعرے گونجتے سنائی دیتے ہیں تو کبھی محنت کشوں کی آوازیں عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہیں اور اب تو کراچی میں بھی ہلچل ہے تو دہلی میں بھی لاکھوں محنت کش لوگوں کی ریلیاں 13دن سے جاری دھرنے کی صورت اختیار کرچکی ہیں ۔ ان سب چیزوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ 80کی دہائی والے نعرے ''دنیا بھر کے محنت کشوں ایک ہوجاؤ'' ، اب حقیقت کا روپ لینے کے قریب ہیں ...!!